ڈاکٹر عزیر سرویا
“سائنس اور مذہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ۔۔۔جب جہاں نئی شہادت میسر آئے گی، سائنسدان ایک لحظے کے توقف کے بغیر نظریے میں مناسب ترامیم کر ے گا۔۔۔اس کے مقابل مذہبئ نظریات منجمد ہیں اور ان پر سوال کرنا ممکن نہیں۔۔۔مذہبی فکر کا یہ جمود اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔”
سائنس اور مذہب میں فرق تلاش یا مقابلہ کرنا اپنے آپ میں ایک بھونڈی سی بات ہے۔ دونوں کے دائرہ کار، مقاصد، حقائق تک پہنچنے کے راستے بالکل علیحدہ ہیں۔ سائنس قابل مشاہدہ کائنات سے متعلق حقائق جاننے اور پرکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مقصد مادی اشیاء کو انسان کے لیے مزید سے مزید کارآمد بنا کر اس کی زندگی بہتر بنانا ہے جبکہ مذہب انسان کے شعور میں ودیعت کیے گئے وجودی، اخلاقی اور دیگر داعیوں کے بارے حقائق تک خدائی ہدایت کے ذریعے پہنچنے کا راستہ ہے جس کا مقصد انسان کو دنیا میں خدا سے آشنا کرنا اور موت کے بعد کی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔
اگر کسی نے موازنہ کر ہی دیا ہو تو اسے ایک لحظہ رُک کر کمزوری اور خوبی کا فیصلہ کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ مثلاً مذہب غیبی اخبار کے بعد جن معاملات کو موضوع بناتا ہے وہ زیادہ تر انسان کی انسانیت سے متعلق ہیں۔ ہزاروں سال سے چلتی آ رہی انسانی تہذیبوں میں ہر انسان پیدا ہونے سے مرنے تک ایک ہی طرح کے مسائل و معاملات سے دوچار رہا ہے: اس کے جسمانی (بھوک، پیاس، شہوت)، روحانی (میں کہاں سے آیا، کدھر کو جانا ہے، اردگرد جو سب کچھ ہے اس کا مقصد کیا ہے؟)، شعوری، جذباتی و سماجی (والدین، بھائی بہن، بیوی بچے، دیگر افراد کے ساتھ معاملات/حقوق و فرائض) تقاضے آج بھی وہی ہیں جو دس ہزار سال پہلے پیدا ہونے والے انسان کے تھے۔
ایسے میں اگر مذہبی فکر بھی مسلسل تغیر پذیری کی روش پر اتر آئے اور آج یہ کہے کہ نکاح کے علاوہ جنسی تعلق بری بات ہے، کل یہ کہے کہ نہیں نہیں یہ تعلقات ٹھیک ہیں، پرسوں یہ کہے کہ مرد کا مرد کے ساتھ جنسی تعلق بھی جائز ہے، ترسوں کہے کہ مرد اور عورت کوئی شے نہیں جس کی جو مرضی ہے وہ وہی صنف ہے۔۔۔تو بھائی یہ کام تو ہونے کا نہیں۔ جس ہدایت کے تحت کوئی چیز دس ہزار سال قبل غلط تھی وہ آج بھی ویسی ہی رہے گی۔ کیونکہ جو شے انسانی سماج کے لیے کل خطرہ تھی وہ آج بھی خطرہ ہے، گزرتی صدیوں نے انسان کے انسان سے اور انسان کے خالق کائنات سے تعلق میں کوئی معنی خیز تبدیلیاں برپا نہیں کیں کہ مذہب کو ہر روز سائنس کی طرح اپنی ہدایات پر نظر ثانی کرنا پڑے۔ دراصل مذہب کی یہ “کمزوری” صرف معاملات کو ماڈرن لبرل لینز لگا کر دیکھنے سے نظر آتی ہے، جن کو یہ نفسیاتی عارضہ (لبرل ازم) لاحق نہیں ہے ان کو مذہب کا یہ “جمود” اس کی کمزوری نہیں بلکہ خوبی لگتا ہے۔
“علت اولی کی ہر فلسفیانہ بحث کے انجام میں خدا پرست ایک ہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ خدا علت و معلوم کی اور مادی تعریف سے باہر ہے اس لیے اس کا وجود ایسی انسانی منطق سے جو مادیت، مشاہدے اور تجربے کے گرد قائم ہے، ثابت کرنا ممکن نہیں۔۔۔وہ ایسی طاقت کے قائم کیے اصول وضوابط کی پیروکاری پر اصرار کرتے ہیں جس کا کوئ ثبوت وہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں ماسوائے کچھ سرکلر ریفرنسز کے جن کا منطقی تناقض واضح ہے۔ ”
دلچسپ بات، اوپر دعوے کو پڑھ کر دو باتوں کا پتا چلتا ہے کہ صاحب تحریر:
۱۔ ایمان رکھتے ہیں کہ حقیقت تک پہنچنے کا واحد/بہترین طریقہ سائنس ہے (مادیت، مشاہدہ، تجربہ؛ یعنی سائنٹیفک میتھڈ)
۲۔ سمجھتے ہیں کہ خدا پرست الوہی ہدایت پے سرکولر استدلال کی بنیاد پر عمل پیرا ہیں (مثلاً یہ کہنا کہ خدا موجود ہے کیونکہ قرآن میں لکھا ہے، اور قرآن سچا ہے کیونکہ خدا نے اتارا ہے)
موصوف خدا پرستوں کو سرکولر استدلال کا طعنہ دے رہے ہیں، جبکہ خود ایک دعوی کر رہے ہیں “سائنسی طریقہ (مشاہدہ، تجربہ) ہی حقائق تک پہنچنے کا بہترین/واحد راستہ ہے”۔ یعنی جو چیز سائنس سے (مشاہدے/تجربے) سے باہر ہو وہ حقیقت نہیں ہو سکتی۔ یہ بہت بڑا دعوی ہے۔
اب غور کریں اس دعوے کا ثبوت ان کے پاس کیا ہے؟ کیا یہ دعوی از خود سائنس سے ثابت ہو سکتا ہے؟ یعنی کیا مشاہدے و تجربے (سائنٹیفک میتھڈ) سے یہ دعوی حقیقت کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے؟ یہ دعوی بھی سائنٹفک میتھڈ سے ٹیسٹ ایبل نہیں! اب اس پر ایمان کیسے لایا گیا ہے؟ ایسے: سائنس (قابل مشاہدہ) حقائق بتاتی ہے اس لیے حتمی سچ ہے، قابل مشاہدہ حقائق سے باہر کوئی سچ موجود نہیں ہیں کیونکہ سائنس انہیں جانچ ہی نہیں سکتی۔ اصل گردشی (سرکولر) منطق کی مثال تو یہ ہے! ایک دعوی کیا گیا کہ سائنسی حقیقت کے علاوہ کوئی حقیقت قابلِ اعتنا نہیں ہے، جبکہ یہ دعوی خود بھی سائنس ویری فائی کرنے سے قاصر ہے اور اس کا دیگر کوئی ثبوت بھی نہیں سوائے اس کے کہ “ساڈا دل کہندا اے (ہمارا دل کہتا ہے)”۔۔۔۔
پھر ایک اور مزے دار بات کہ انسانی شعور/احساس (consciousness) جو کہ انسان کو “میں”، “تم” اور کائنات کی ہر شے/ تصور کے قابل بناتی ہے، یعنی جس صلاحیت کو بروئے کار لا کر انسان خود سمیت ہر شے کو پہچانتا ہے، وہ آج تک ناقابل مشاہدہ ہے اور اکادمیہ کی اکثریت کا خیال ہے کہ سائنسی طریقہ کے ذریعے یہ معمہ حل ہونا ممکن نہیں (اسے ہارڈ پرابلم آف کانشیئس نیس بھی کہا جاتا ہے)۔ غور کریں کہ وہ چیز جو انسان کو انسان بناتی ہے، اپنا آپ اور دیگر ہر چیز کی پہچان کرواتی ہے، جو انسان کی سب سے بڑی داخلی “حقیقت” ہے، وہ اس “سائنسی حقیقت” والی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی!!!! اور ہمارے ملحد دانشور کا خیال ہے کہ غیر منطقی، سرکولر استدلال کا شکار مذہبی لوگ ہیں۔۔۔
“جب ایک نہ ثابت کیے جانے والے وجود کے مبینہ فرامین کو حقیقت کہا جاتا ہے تو یہ مضحکہ خیز استدلال معاشرے میں تقسیم، نفرت، قتال اور گروہی تعصب کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ چند الٹی سیدھی رسومات کے انجام دینے کے علاوہ کسی علمی یا عملی ارتقا کا باعث نہیں بنتا۔”
بیسویں صدی میں ہونے والی دوسری جنگ عظیم کے سبب سات کروڑ انسان لقمہ اجل بنے۔ یہ تعداد پوری انسانی تاریخ میں ہونے والی مذہب سے متعلقہ جنگوں میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ اس جنگ کے پیچھے ناٹزیوں کے آریائی نسلی برتری اور سوشل ڈارون ازم کے “سائنسی” نظریات کارفرما تھے۔ ملحد موصوف کے نزدیک سائنس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں نظریات بدلتے رہتے ہیں؛ اٹھارویں صدی سے لے کر جنگ عظیم تک سائنسی کمیونٹی میں طاقتور آوازیں یہ کہتی تھیں کہ سیاہ فام اور دیگر انسان کاکیشیئن نسل سے کم تر ہیں اور اس بارے سائنسی شواہد بھی فراہم کیے جاتے تھے۔ ارتقاء کے نظریے کو اس کے ساتھ جوڑ کے سروائیول آف دی فِٹیسٹ کے فارمولے کو اپلائی کر کے جو خونریزی کی گئی اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن اخے سائنس کی خوبی ہے کہ نظریات بدلتے رہتے ہیں، تو سات کروڑ بندے پیلنے کے بعد لوگوں نے یہ کَھیڑا چھوڑ دیا۔ اس وقت سائنسی کموینٹی میں آوازیں ہیں کہ ہم جنس پرستی اور اپنی مرضی سے جنس کا تعین کا حق انسانوں کی نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ذلالت/ضلالت کا کتنا سفر طے کر کے سائنس اپنی یوٹرن والی خوبی کو دوبارہ بروئے کار لائے گی!
“اس لیے ان مبینہ الہامی فرامین کے علمبردار الحاد کو روزانہ ایک خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ الحاد خدا کے لیے نہیں ، مذہبی خدا کے لیے مسئلہ ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی طاقت یا اپیل ٹو اتھارٹی کے منطقی مغالطے کے نابود ہونے کا امکان پیدا کرتا ہے۔”
الحاد کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرنے کی ایک وجہ جیسے بیان کی وہ یہ ہے کہ الحاد سے جنم لینے والے سماجی، سائنسی اور دیگر نظریات نے پچھلی ایک صدی میں جتنی غارت گری اور تباہی کی ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں ملنا محال ہے۔ جنگ عظیم سے ہٹ کر سوشل اسٹ انقلابات اور ان میں ہونے والا ق-تلِ عام سب کچھ الحادی نظریات کا براہ راست شاخسانہ تھا۔ پھر جیسے ملحد موصوف نے یوٹرن کو بطور سائنس کی خوبی بیان کیا ہے، تو کمال یہ ہے کہ ساری تباہی کے بعد ایک نئی شُرلی چھوڑنا ایک روٹین ہے جس سے ایک نئی لہر تباہی کی پیدا ہوتی رہنے کا مستقل بندوبست ہے۔ پھر مستزاد ایک غیر ثابت شدہ دعوے (کہ سائنسی حقائق کے علاوہ کوئی حقائق نہیں ہوتے) پر ایمان لانے کے بعد ہر روز نئی اخلاقیات، نئی سماجی اختراعات متعارف کروانے سے جو انسان کی نفسیاتی، جذباتی و سماجی صحت ہے وہ بھی تیل لانے جا چکی ہے (لٹریچر میں نفسیاتی عارضوں کی بڑھتی شرح کے ڈھیر ثبوت دیکھے جا سکتے ہیں)۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ مذہبی خدا کا تصور انسانیت کی پیدائش سے موجود ہے آگے بھی موجود رہے گا، اسے الحاد سے چنداں خطرہ نہیں۔ الحاد سے خطرہ تو دراصل انسانیت کے وجود کو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عزیر سرویا
بطور ماہر کینسر (کنسلٹنٹ آنکالوجسٹ) الائیڈ ہسپتال میں تعینات ہیں۔
سائنس، مذہب اور ماڈرن فلسفہ کے مطالعہ کے شائق ہیں ۔
کمنت کیجے