Home » سائنس اور سائنٹزم
تہذیبی مطالعات سائنس فلسفہ

سائنس اور سائنٹزم

ڈاکٹر تزر حسین

سائنس نے نہ صرف ہماری دنیا بدل دی ہے بلکہ کائنات سے متعلق ہماری سوچ اور تصورات بھی تبدیل کردیے ہیں۔ اس لحاظ سے سائنس ایک اہم اور طاقتور انسانی سرگرمی ہے۔ عمومی طور پر جب بھی انسان کے سامنے کوئی فینامنن سامنے اتا ہے تو اسکے بارے میں وہ افراط اور تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر اگر وہ ایک طاقتور فینامنن ہو تو اسکے بارے میں افراط کا امکان اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ ایسا سائنس کے ساتھ بھی ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔ نیچرل سائنسز اور اسکے طریقہ کار (methods) پر مبالغہ امیز حد تک اعتماد کرکے ہر شعبے (چاہے وہ سماجیات ہو، فلسفہ یا ادب) پر اسکا اطلاق کرنا اور اسکو حقیقت تک پہنچنے کا واحد یا بہترین ذریعہ قرار دینا سائنٹزم کہلاتا ہے۔

سائنس کے کئی فلاسفرز جیسا کہ Massimo Pigliucci یا Susan Haack اب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ سائنٹزم واقعی ایک مسئلہ ہے اور اس پر کھل کر بات کرنے کا وقت ہے۔ انکی رائے میں یہ نہ صرف سائنس کے لیے مسئلہ ہے بلکہ دوسرے انسانی علوم کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ان فلاسفرز کے مطابق کئی بڑے بڑے سائنسدان جیسا کہ سٹیفن ہاکنگ، سٹیون وائن برگ، نیل دی گراس ٹائسن وغیرہ سائنٹزم کا شکار ہیں۔ اور اسکی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ان سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ فلسفے کی موت واقع ہوچکی اور اب یہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ Sam Harris نے اپنے ایک کتاب میں یہ دعوی کردیا کہ سائنس اور صرف سائنس تمام اخلاقی سوالات کا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سام ہیرس کو اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بھی فلسفیانہ دلائل کا ہی سہارا لینا پڑا۔ اسی طرح سٹیفن ہاکنگ نے ایک طرف فلسفے کی موت کا اعلان کردیا اور دوسری طرف غیر شعوری طور پر کاسمولجی پر ساری فلسفیانہ گفتگو کرلی۔ اسکے علاوہ کئی لوگ جو conscious یا اخلاقی اور سماجی اقدار کو سائنس تک محدود کرتے ہیں یہ سب سائنٹزم ہیں۔ اسکی ایک اور مثال ڈیوڈ ہیوم کی یہ بات ہے جو کہ اس نے اپنی کتاب An enquiry concerning human understanding میں لکھی ہے جس کے مطابق اگر کسی کتاب میں ریاضی اور ایمپیریکل سائنس کی بات موجود نہیں تو ایسی ہر چیز اس قابل ہے کہ اسکو جلایا جائے کیونکہ یہ ایک فضول چیز ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کی یہ کتاب خود جس میں نہ ریاضی ہے اور نہ سائنس لیکن یہ کتاب پھر بھی بہت اہم اور کارامد ہے۔

میسیمو پیگلیچو کے مطابق سائنٹزم پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کو چونکہ مذہبی حلقے سائنس کے مقابلے میں غلط طور پر استعمال کرسکتے ہیں اس لیے ہمیں اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میسیمو اسکے جواب میں کہتا ہے کہ اگر کسی اصطلاح سے غلط فائدہ اٹھانے کا امکان ہو تو اسکی وجہ سے ہمیں وہ اصطلاح چھوڑنی نہیں چاہیے بلکہ اسکے بارے میں لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا چاہیے کیونکہ باقی کئی اصطلاحات بھی ایسی ہیں جس سے غلط فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ میسیمو اور سوزن ہیک کے مطابق سائنٹزم کی چھ بڑی نشانیاں ہیں۔

سائنٹزم کی پہلی نشانی تب سامنے اتی ہے جب کوئی “سائنس” یا “سائنٹیفیک” جیسے اصطلاحات کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ جب Sensodyne والے بطور اشتہار یہ کہتے ہیں کہ 10 میں سے 9 ڈینٹسٹ ہمارے توتھ پیسٹ کوریکمنڈ کرتے ہیں تو یہ سائنس کا غلط استعمال ہے۔ اس سے بھی سنجیدہ مثال یوجینک قوانین (Eugenic Laws) ہیں۔ انیسویں صدی کے خاتمے اور بیسویں صدی کے وسط تک امریکہ میں یوجینک مہم جاری رہا۔ اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ نسل انسان کو جنیاتی سطح پر بہتر کیا جائے۔ اس مہم کی بنیاد پر بعض انسانوں کو فٹ (یعنی موزوں) قرار دیا گیا اور بعض کو انفٹ (یعنی غیرموزوں)۔ اس مہم کی بنیاد پر شادی میں بندھن کے لیے مرد اور خواتین کو باقاعدہ یوجینک سرٹیفیک جاری کیے جاتے تھے۔ اس سرٹیفیکٹ پر یہ لکھا ہوتا کہ اس جوڑے کا معائنہ کرکے ایک دوسرے کے لیے جسمانی اور نفسیاتی طور پر بہترین قرار دیا گیا ہے اور اگے جاکر اس سے نسل انسانی میں بہتری ائیگی۔ اس مہم میں انفٹ قرار دینے والے افراد کا تعلق معاشرے کے کمزور طبقوں سے تھا جو یا تو مالی طور پر غریب تھے، معذور تھے یا جن کا تعلق اقلیت سے تھا جیسا کہ بلیک افریقن۔ اور بدقسمتی سے ان کمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین کی sterilization (نس بندی) کی گئی۔ اج اس مہم کو ایک نسل پرستانہ مہم کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن اسکے پیچھے اس وقت کا “سائنٹیفیک ریسرچ” کھڑا تھا اور یہ سب سائنسی بنیادوں پر ہورہا تھا۔ تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ سائنس کا درست استعمال کریں ورنہ ہر چیز کو غلط انداز میں “سائنٹیفیک” کہہ کر ہم بڑا نقصان کرسکتے ہیں جیسا کہ یوجینک کے کیس میں کیا گیا۔ سائنس ایک طاقتور چیز ہے اور اسی لحاظ سے سائنٹیفیک کمیونٹی کی ذمہ داری بھی بڑی ہے۔

سائنٹزم کی دوسری نشانی یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات کو ایک خاص انداز میں استعمال کیا جارہا ہو قطع نظر اسکے کہ حقیقت میں وہ نفع بخش ہیں بھی کہ نہیں۔ میسیمو کے مطابق اسکی ایک دلچسپ مثال وہ ریسرچ ہے جس میں بتایا گیا کہ کہ انسان کے کامیاب اور خوشگوار زندگی کے لیے منفی اور مثبت احساسات کی ایک متعین مقدار مقرر کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں اس ریسرچ کو مسترد کردیا گیا لیکن اس وقت یہ ریسرچ ایک اچھے سائنسی جریدے میں پبلش ہوچکا تھا۔ اس ریسرچ میں انسان کے خوشگوار زندگی کے متعلق غلط اندازے لگائے گئے حالنکہ ایسا دعوی بہت زیادہ احتیاط کا مختاج تھا۔

سائنس کو سوڈو سائنس سے علحیدہ کرنے کا جنون (یہ صرف جنون نہیں بلکہ ایک عملی طور مشکل بھی ہے) سائنٹزم کی تیسری نشانی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم بحثیت مجموعی یہ تو جانتے ہیں کہ کیا سائنس ہے اور کیا سوڈو سائنس لیکن بہت سارے فیلڈز ایسے جس کے بارے میں واضح لکیر نہیں کھنچی جاسکتی کہ یہ سائنس ہے یا سوڈو سائنس۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سائنس کو سوڈو سائنس سے علیحدہ کرنے کے لیے متعین اصول بنانا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ مثلا ایک طرف ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کوانٹم فزکس اور مالیکولر بیالوجی تو سائنس ہیں اور دوسری طرف علم نجوم اور انٹیلیجنٹ ڈیزائن سوڈو سائنس ہیں۔ لیکن سٹرنگ فزکس، ایولوشنری سائیکولجی، سائنسی تاریخ وغیرہ پر گفتگو کی جاسکتی ہے کہ یہ کتنے حدتک سائنسی ہیں اور کتنے حد تک غیر سائنسی۔ جب اپ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ سائنس ہر چیز کو پرکھنے کا واحد پیمانہ ہے تو پھر یہ اپکی مجبوری بن جاتی ہے کہ یا تو دوسرے علوم کی افادیت کا انکار کردیں یاپھر سائنس کی تعریف میںوسعت پیدا کریں تاکہ ایسے فیلڈز کو بھی سائنس قرار دیا جائے جو کہ حقیقت میں سائنس نہیں لیکن ہمارے لیے ایم ہیں۔ اسکی ایک مثال لارنس کراووس کی یہ بات ہے کہ اس نے سائنس کی تعریف میں اتنی وسعت پیدا کی کہ اس نے ریاضی اور منطق کو بھی سائنس قرار دےدیا جو کہ انتہائی بچگانہ رویہ ہے۔ اس رویے کی بنیاد دراصل logical positivism کی تحریک ہے، اس تحریک کی بنیاد یہ تھی کہ ہر وہ بات جو کہ سائنسی بنیاد پر ثابت نہ کی جائے وہ بے معنی یا بے کار ہے۔ ہمارے ہاں اج بھی لوگ اسی رائے کے قائل ہیں لیکن انکو علم نہیں کہ یہ تحریک اب تقریبا ختم ہوچکی ہے اور سائنسدان اور فلاسفر اس پوزیشن کو چھوڑ کر اگے نکل چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اگے بڑھنا چاہیے۔

ایک خاص متیعن سائنسی طریقے کار (scientific method) پر اصرار کرنا سائنٹزم کی چوتھی نشانی ہے۔ ہمارے سائنس کے کتابوں میں ابھی تک ایک متعین سائنسی طریقے کار کی بات کی جاتی ہے جس کے مطابق ایک مفروضہ قائم کیا جاتا ہے اسکے بعد مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اگر مشاہدہ مفروضے کی تصدیق کریں تو ہم اسکو سائنسی قرار دے کر اگے بڑھاتے ہیں اور پھر اسکی بنیاد ہر پیشن گوئی کرتے ہیں یا چیزوں کو explain کرتے ہیں۔ لیکن سائنس کے فلسفے میں یہ بات تقریبا مانی گئی ہے کہ سائنس کا ایک متعین طریقے کار نہیں اور سائنس کو ایک خاص طریقے کے تحت بیان کرنا درست نہیں۔ سائنس دراصل اس سے زیادہ تخلیقی نوعیت کی انسانی سرگرمی ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ سائنٹیفیک طریقہ کار کو اگر بیان کرنا ہے تو یہ دراصل ایک tool box ہے جس میں وقت کے ساتھ تبدیلی اتی ہے۔ اس ٹول باکس میں سائنسدان مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں اور جو طریقہ کارامد ہو اسکو اپنایا جاتا ہے اور جو کارامد نہ ہو اسکو پھینک دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ سائنس کو systematic یا منظم ہونا چاہیے لیکن جس ترتیب میں ہم ایک سائنسی مراسلے کو پڑھتے ہیں جس میں سب سے پہلے موضوع کا تعارف کیا جاتا ہے، پھر میتھاڈولوجی اور اخر میں ڈسکشن کا سیکشن ہوتا ہے۔ حقیقت میں کوئی بھی سائنسی ریسرچ اس ترتیب سے نہیں ہوتا بلکہ سائنس کو اس طرح دیکھنا ایک افسانہ ہے۔ سائنس میں ایک خاص متعین طریقے کار پر اصرار کرنا بھی ماضی کی ایک چیز ہے اور فلاسفی اف سائنس اب اسکو پیچھے چھوڑ چکی ہے اور ہمیں بھی اگے بڑھنا چاہیے۔

سائنٹزم کی پانچویں اہم نشانی یہ ہے کہ سائنس کے بارے ایسا طرز عمل اپنایا جائے کہ اسکو اسکے دائرے کار سے باہر کے سوالات پر اپلائی کیا جائے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ بہت سارے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہر چیز سائنس کے دائرے کار میں اتی ہے یا اجائیگی۔ مثال کے طور پر causality سائنس میں ایک اہم چیز ہے لیکن causality کیا ہے یہ ایک سائنسی سوال نہیں بلکہ فلسفیانہ سوال ہے۔ اسکی دوسری مثال منطق کی بنیاد پر کی گئی conditional statements ہیں جوکہ ایک درست قسم کی inference ہے لیکن ایسی کوئی ایمپریکل سائنس نہیں ہے جو اس قسم کے statements کو ویریفائی کرسکے۔ epistemology کی درست تعریف کیا ہے اس سوال کا کوئی ایمپیریکل جواب نہیں کیونکہ علم ایک انسانی سرگرمی ہے اور ہم اس پر گفتگو کرکے اپنی رائے قائم کرسکتے ہیں لیکن یہ سائنسی سوال ہرگز نہیں۔ اخلاقیات کیوں ضروری ہیں اور کوئی بھی ایسا اخلاقی سوال مثلا Abortion جائز ہے یا ناجائز یہ ایک سائنسی سوال نہیں اگرچہ سائنس ہمیں جنین کی بڑھوتری کے مختلف مراحل کے بارے بتا سکتی ہے لیکن اسکو جائز یا ناجائز بتانے کے لیے اپکو دوسرے دلائل پیش کرنے ہونگے جو کہ سائنسی نہیں۔ کوئی بھی سائنسی تھیوری ایک ایسی چیز نہیں جوکہ باہر کی دنیا میں موضوعی طور پرموجود ہے اور ہم اسکو دریافت کرتے ہیں بلکہ ہر سائنسی تھیوری انسانی کاوش کا نیتجہ ہے۔ ریاضی کے فلسفے میں یہ ایک مشہور سوال ہے کہ کیا نمبرز وجود رکھتے ہیں یا نمبرز کو ہم construct کرتے ہیں؟ کیا ریاضی دان چیزوں کو دریافت کرتے ہیں یا ایجاد؟ اسکے بارے میں ریاضی دان تقسیم ہیں اور بہت دلچسپ جوابات پیش کرتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی سائنسی سوال نہیں۔

غیر سائنسی علوم کی افادیت سے انکار سائنٹزم کی چھٹی نشانی ہے۔ اس رائے کے مطابق سماجیات، فلسفہ اور ادب جیسے علوم کی افادیت سے انکار کیا جاتا ہے۔ مثلا سٹیفن ہاکنگ، سٹیون وائن برگ جیسے لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ فلسفہ بے کار ہے اور سائنس میں اسکا کوئی کردار نہیں تو دراصل ان لوگوں کو فلسفے کا علم ہی نہیں کہ فلسفہ کیا ہے۔ میسیمو کے مطابق انہوں نے ذاتی طور پر وائن برگ، نیل اور کراوس وغیرہ سے پوچھا ہے کہ انہوں فلسفے کے کا کونسامراسلہ پڑھا ہے؟ تو ان سب کا جواب نفی میں تھا صرف وائن برگ نے ایک سائنسی پیپر پڑھا تھا جو کہ بہت پرانا تھا۔ اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سائنسی کمیونٹی فلسفے کے بارے کتنا علم رکھتی ہیں۔ مثلا یہ سوال کہ کیا ہمیں بہت زیادہ دولت خرچ کرکے مریخ پر جانا چاہیے یا نہیں۔ اس سوال کے جواب میں اپ جو بھی پوزیشن اپنائیگے اسکے لیے اپ دلائل پیش کرینگے لیکن یہ کوئی ایمپیرکل سوال نہیں۔

سائنس کیا ہے؟ اسکے جواب میں جو کچھ کہا جائیگا یہ بذات خود کوئی ایسا سوال نہیں جسکو ایمپیریکلی حل کیا جائے۔ نیچرل سائنسز کو بطور سائنس تو سب مانتے ہیں۔ اس سے اگے بڑھ کر اپ سوشل سائنس کو بھی سائنس کے طور پر پیش کرسکتے ہیں لیکن یہاں سائنس کی نوعیت نیچرل سائنس سے تھوڑی مختلف ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں پر بہت ساری ایسی چیزیں شامل ہوجاتی ہے جو کہ quantifiable نہیں ہیں۔ تو سوشل سائنسز کو نیچرل سائنسز اور Humanities کے درمیان ایک حد فاصل کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلا اگر اپ کلونیلزم کے اثرات پر تحقیق کرتے ہیں تو اپکو بہت سارا کوانٹیٹیو ڈیٹا جمع کرنے کے علاوہ لوگوں کے تبصرے اور ڈائریاں بھی پڑنی ہوگی جو کہ کوالیٹیٹیو ڈیٹا ہے کیونکہ اس تحقیق کے لیے دونوں قسم کا ڈیٹا اہم ہے۔ اسکے علاوہ بہت سارے شعبے ایسے ہیں جو عمومی استدلال اور منطق پر مبنی ہیں لیکن وہ سائنس نہیں۔ جو لوگ سائنس کو معیار بنا کر دوسرے شعبوں کی افادیت سے انکار کرتے ہیں وہ پھر ہر استدلال کو سائنس کی تعریف میںلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا لارنس کراووس نے ایک دفعہ یہ کہا کہ دراصل فلسفہ بھی سائنس کی ایک شاخ ہے جو کہ مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ تاریخی لحاظ لفظ سائنس کا استعمال ارٹس کے مقابلے میں پہلی بار ایک فلاسفر نے ہی کیا تھا اس سے پہلے سائنس کو نیچرل فلاسفی اور اور سائنسدانوں کو نیچرل فلاسفر کہا جاتا تھا۔ حقیقت میں سائنس، فلسفہ، ریاضی، منطق سوشل سائنسز سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے مفید بھی ہیں۔ اگر اپکو ماڈرن فلاسفی سمجھنی ہے تو اپکو یہ جاننا ضروری ہے کہ مختلف سائنسدان اپنے شعبوں میں کیا کررہے ہیں کیونکہ اسکے بغیر اپ ماڈرن فلاسفی نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح اگر اپ سائنسدان ہے اور سائنسی ریسرچ کررہے ہیں تو مشاہدات اور تجربات کے ساتھ ساتھ اپ شعوری اور غیرشعوری طور پر بہت سارا فلسفیانہ بوجھ ساتھ لے کر چلتے ہیں جیسا کہ ڈینئیل ڈینیٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ ““There is no such thing as philosophy-free science; there is only science whose philosophical baggage is taken on board without examination.”

میسیمو پیگلیچو کے مطابق سائنٹزم ایک حقیقت ہے اور یہ رویہ ہمارے intellectual discourse کے لیے نقصان دہ ہے۔سائنس کے علم کے لیے یہ اہم ہے کہ اس پر اعتماد قائم رہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس اعتماد کو بحال رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سائنس ایک انسانی سرگرمی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت اور تبدیلی اتی ہے یعنی Aristotle جو کچھ کررہا تھا وہ بھی سائنس ہی تھا اور اج کے سائنسدان جو کررہے ہیں وہ بھی سائنس ہی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ Aristotle کئی چیزوں کے بارے میں غلط ثابت ہوا لیکن یہی بات اج کے سائنسدان کے بارے بھی کہی جاسکتی ہے کہ یہ بھی غلط ثابت ہوسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔
ای میل : tazar.hussain@gmail.com

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں