عمران شاہد بھنڈر
ہیگل کو پڑھنے والے احباب اس بات سے تو آگاہ ہوں گے کہ ہیگل نے اپنے ’لاجک‘ کو ’’سسٹم آف پیور ریزن‘‘ کہا تھا، جو ’آئیڈیا‘‘ پر قائم ہے، لیکن آئیڈیا تجریدی نہیں بلکہ مقرونی (کنکریٹ) ہے۔ یعنی آئیڈیا کی نفی وجود، فطرت، معروض (یہ چار مختلف چیزیں نہیں ہیں، ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں) سے بطورِ آئیڈیا ہوتی ہے، جو کہ ہیگلیائی جدلیات کا پہلا مرحلہ ہے، اور دوسرے مرحلے میں ریزن آئیڈیا کی ایبسٹریکٹ حیثیت جو کہ پہلا مرحلہ ہے، اس کی اور دوسرے مرحلے کی نفی کرتی ہے جو کہ آئیڈیا بطور فطرت ہے، اور تیسرے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ یہ سارا عمل تعقلی، منطقی ہے۔ اور اس کی مکمل بنتر کو ہیگلیائی لاجک کہا جاتا ہے اور وہی ہیگل کا ’میتھڈ‘ ہے۔ ذہن نشین یہ رہے کہ ہیگلیائی لاجک میں وجود کسی بھی صورت عقل (ریزن) کی سیلف موومنٹ سے باہر نہیں رہتا، اور یہی وہ مرحلہ ہے جب انٹولاجیکل پہلو ہیگلیائی منطق میں داخل ہوتا ہے۔ اب یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں: پہلی یہ کہ وجود تجریدی خیال کی نفی کرتا ہے، اور اگر یہ نفی نہ ہو تو سمجھیں کہ خیال کچھ نہیں ہے، دوسری بات یہ کہ خود وجود بھی ’آئیڈیا‘ کی سیلف موومنٹ سے پہلے ’کچھ نہیں‘ ہے۔ اور جو شے ان دونوں مراحل کو جانتی ہے اسے ریزن کہا جاتا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہیگل نے لاجک میں کئی مقامات پر آئیڈیا کے لیے ریزن کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، اور ریزن یا آئیڈیا کو ’مطلق‘ مانا ہے۔ مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ریزن وجود کو اپنی طاقت سے دریافت کرتی ہے، اور اپنی سیلف موومنٹ میں اپنے تمام تعینات کو منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔ جب تک ہیگل کے اس پہلو کی تفہیم نہ ہو اس وقت تک اس موضوع پر بحث کرنا فضول اور وقت کا زیاں ہے۔
شیلنگ کا شمار ان فلسفیوں میں ہوتا ہے جس کے فلسفہ فطرت نے برطانیہ کی ’رومانوی‘ تحریک پر فیصلہ کُن اثرات مرتب کیے تھے۔ شیلنگ جو کہ ہیگل کا قریبی دوست تھا، اس نے ہیگل کے فلسفے کے اس پہلو پر کانٹین نقطہ نظر سے تنقید کی تھی۔ شیلنگ کا ہیگل پر اعتراض یہ تھا کہ ’’فکر محض‘ (پیور تھاٹ) سے فطرت (وجود) کی جانب رجوع مناسب نہیں ہے، اور بقول شیلنگ یہ ایک ’منطقی مغالطے‘ کو جنم دیتی ہے۔ شیلنگ کا اعتراض یہ تھا کہ فکرِ محض اور فطرت دو مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں ایک ہی لاجک میں پرو دینا درست نہیں ہے۔ شیلنگ اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دیتا ہے کہ ہیگل جب فکر کو فطرت، وجود کی جانب حرکت کراتا ہے تو وہ ارسطو کے بنیادی منطقی اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن یہ تو کوئی اعتراض بنتا ہی نہیں ہے۔ اصل اعتراض تو کسی منطقی مغالطے کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن شیلنگ بضد تھا کہ عقلی قوانین اور فطرتی قوانین میں کوئی مطابقت نہیں ہے، جبکہ ہیگل اس مطابقت کو جدلیات کی صورت میں نمایاں کر چکا تھا۔ شیلنگ نے اس سلسلے میں دو مضامین لکھے تھے جن میں ایک کا عنوان ہے ’’فلاسفی آف مائیتھالوجی‘‘ جس میں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ عقل محض منفیت کی حامل ہے، یعنی وہ فطرت میں کسی مثبت قدر کو قائم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ شیلنگ یہاں غلطی کر رہا ہے۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ وہ ہیگل کے فلسفے کو سمجھ نہیں پایا، لیکن یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شیلنگ ریزن اور نیچر کے درمیان اسی مبنی بر تضاد دوئی کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو کانٹ کے فلسفے کا بنیادی پہلو تھا، اور جس کی تحلیل کا آغاز خود فختے نے کیا اور ہیگل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ دلچسپ بات، بہرحال، یہ بھی ہے کہ شیلنگ کے اعتراض پر بعد ازاں کسی نے کوئی توجہ نہ دی، جبکہ ہیگل کے اس ’’کلیت‘‘ پر مبنی فلسفے کے اثرات دو رس ہوئے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کئی مکتبہ فکر (وجودیت، فینومینالوجی، مابعد ساختیات، ڈی کنسٹرکشن) وجود میں آئے۔ واضح رہے کہ ابھی گزشتہ صدی کے اختتام پر ژاک دریدا نے اپنی کتاب ’’آف گریماٹالوجی‘‘ میں ہیگل کے اسی پہلو کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے۔
It is also to this epoch, “reaching completion” with Hegel….
اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی مابعد الطبیعات جس کی بنیاد ’لوگوس‘ (لفظ اور ریزن) کی مرکزیت پر تھی اور جہاں سے ہر علمیاتی، اخلاقی، انسانی قدر تشکیل پارہی تھی، وہ ہیگل کے ’’اونٹو، تھیو، لاجیکل‘‘ (یہ دریدا کے الفاظ ہیں) عقلی مابعد الطبیعاتی نظام پر منتج ہوئی۔ وہ کانٹین پروجیکٹ جو ہیگل سے پہلے شروع ہوا تھا، اسی کی بنیاد پر ہیگلیائی فلسفے پر حملے ہوئے، صرف اس لیے کہ ’وجود‘ کو عقل کی حدود سے ماورا دکھایا جا سکے، لیکن ان تمام فلسفوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ اسی دوئی میں دھنس جاتے ہیں، جس پر قابو پانے کا آغاز خود کانٹ کر چکا تھا، یعنی نظری اور عملی کے درمیان وحدت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یوکے میں مقیم فلسفے کے استاد اور اسی موضوع پر کئی اہم کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے