Home » معروضیت اور اس کی تفہیم کا منہج (۱)
فلسفہ

معروضیت اور اس کی تفہیم کا منہج (۱)

عمران شاہد بھنڈر

اکثر اوقات اس قسم کے فقرے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ سماجی تجزیات کی بنیاد معروضی حالات کو ہونا چاہیے۔ معروضی حالات سے مراد یہ کہ جیسے حالات اپنی خود رو حرکت میں تشکیل پائے ہیں تجزیات کی بنیاد بھی ان حالات و واقعات کی روشنی میں پیش کیے جانے چاہییں۔ عام طور پر اس کو سائنسی منہج کہا جاتا ہے کہ جس میں انسان اپنی موضوعیت کو زبردستی معروضی حالات پر مسلط نہ کرے۔ جیسا کہ اگر کوئی سماج مذہب کی بنیاد پر ترجیحی رویہ نہ رکھتا ہو، لیکن اس کے باوجود سماج کا تجزیہ مذہبی بنیاد پر کیا جائے، یا اگر کسی سماج میں غربت کی شرح کم ہے، تو اس سماج کے تجزیے کی بنیاد غربت کو مان لیا جائے، اسی طرح اگر سماج کی اسّی فیصد آبادی آرٹ میں بدرجہ اتم دلچسپی لیتی ہے تو اس کے فنی رجحان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی ایسی وجہ کو بنیاد بنا لیا جائے جو سرے سے ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ ہو۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے، جس کے جواب کا تعین کر لینا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے، کہ معروضیت کسے کہتے ہیں؟ اس سوال سے مزید یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ کیا کوئی ایسی معروضیت ہے جس میں موضوعیت شامل نہ ہو؟ جب ہم ان دونوں سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ درحقیقت یہ دو سوالات نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سوال کے دو پہلو ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی ایسی سماجی معروضیت موجود نہیں ہوتی جس میں موضوعیت شامل نہ ہو، لہذا جب ہم معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معروضیت دراصل انسان کی صلاحیتوں (فکر و عمل) کا ہی معروضی وجود ہے۔ اور موضوعیت اس معروضیت کا موضوعی سطح پر تشکیل پانا ہے جس میں خود انسان کا فکر و عمل پہلے سے شامل ہے۔ لہذا انسان کا مطالعہ دراصل خود انسان ہے جس کی دو جہتیں ہیں: معروضیت اور موضوعیت۔ اپنی عملی فعلیت میں وہ معروضی سطح پر استوار ہے اور معروضی سطح کی تفہیم اس کی موضوعی فکر کا معروض ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی عملی فعلیت ہی انسان کی فکر کا معروض ہے اور اس کا معروض اس کی فکر کا نتیجہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جب ہم کسی سماج کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سماج میں سے اپنی طبع کے مطابق معروضیت کو اخذ نہیں کرتے، بلکہ کُل سماجی عمل کو سمجھتے ہیں۔ مثلاََ سماجی معروضیت میں صرف انسان کی معیشت ہی موجود نہیں ہے بلکہ کُل سماجی فعلیت اس میں شامل ہے۔ سماج کی ہر جہت، کلچر کا ہر پہلو جس میں سماجی ادارے، ادب، شاعری، فلم، ڈرامہ، مصوری، مجسمہ سازی، تعمیرات، کھیل، فلسفہ و فکر، نیز ہر طرح کی تفریحات سماجی معروضیت کا حصہ ہیں۔ کیونکہ یہ سبھی عوامل افراد کے شعور کا تعین کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایک سماج میں انسان کی مکمل فعلیت کو جاننا معروضی تجزیے کے لیے ناگزیر ہے۔ بعض تخفیف پسند(Reductionist) ایسے بھی ہیں جو ساری ہی سماجی فعلیت کو”بھوک“ یا ”غربت“ تک محدود کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا تجزیہ معروضی نہیں رہتا، بلکہ معروضیت سے مکمل انحراف کرتا ہے، کیونکہ معروضیت کے لیے ہر سماجی رجحان کی تفہیم ازحد ضروری ہوتی ہے۔ مارکس اور اینگلز پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے بدترین قسم کی تخفیف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسان کو فقط “پیٹ” اور ”معیشت“ تک محدود کر دیا ہے۔ بعد ازاں اینگلز کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑی، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ وہی اس رویے کے ذمے دار ہیں، وجہ یہ کہ وہ کچھ دیگر اہم کاموں میں مصروف تھے۔ تاہم اینگلز نے یہ واضح کیا کہ ہم نے صرف یہ کہا ہے کہ فیصلہ کُن عوامل”سماجی زندگی کی پروڈکشن اور ری پروڈکشن“ ہیں۔ سماجی زندگی کی ”پروڈکشن اور ری پروڈکشن“ کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب میں اوپر دے چکا ہوں کہ اس سے مراد صرف معیشت نہیں ہے بلکہ کُل سماجی زندگی کی فعلیت ہے جس میں ہر طرح کی عملی، فکری، اور فنی فعلیت شامل ہے۔ جب تک کُل سماجی زندگی کی فعلیت کا تعین نہ کیا جائے اس وقت تک سماجی شعور کا تعین کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ لوگوں کے فکری و فنی رجحانات، ان کی معاشی حالت، ان کا سیاسی شعور، ان کی مذہبی ترجیحات، ان کی تفریحی سرگرمیاں، ان کا زندگی گزارنے کا طریقہ کار، مختصر یہ کہ ان کا مکمل رہن سہن وغیرہ۔ ان تمام عوامل کا نام ہی سماجی معروضیت ہے اور اس سماجی معروضیت کو سمجھے بغیر کسی بھی سماج کا تجزیہ ممکن نہیں ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی ضروری ہے کہ معروضیت کا پیمانہ کوئی بدیہی مقولہ (A Priori Category) نہیں ہوتا کہ جس کو بنیادی مان کر ہر شے کو اس تک لاکر ختم کر دیا جائے۔ یہ بدترین قسم کی تخفیف پسندی ہے جو ”ولگر مارکسیت“ کی خصوصیت ہے۔ شے کو اس کی خود رو حرکت میں دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر ایک سماج میں غربت کی شرح دو فیصد ہے تو اس سماج میں رہنے والوں کے شعور کا تجزیہ اس غربت کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان کا تجزیہ اس سماجی معروضی پیمانے کے تحت ہوگا جس کے تحت ان کی مکمل سماجی زندگی کا احاطہ ہوتا ہو۔ یہ ایک غیر عقلی اور غیر منطقی طریقہ ہے کہ پہلے لوگوں سے ان کا گھر چھینا جائے، پھر گاڑی سے محروم کیا جائے، پھر ان سے خوراک چھینی جائے اور بعد ازاں ہر شے چھیننے کے بعد ان کو غربت کا مفہوم سمجھایا جائے۔ ہر سماج نشونما کے ایک مخصوص عمل سے گزرتا ہوا ایک مخصوص سطح تک پہنچتا ہے۔ اس لیے جو سماج جہاں ہے اس میں موجود لوگوں کے شعور کا تعین ان کی مکمل سماجی و ثقافتی زندگی کی تفہیم سے ہی ممکن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یوکے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور کئی قابلِ قدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں