اجمل صدیقی
تعصب سب سے قدرتی چیز ہے اور سب سے خطرناک بھی
آپ دو بلیاں رکھ لیں ان میں ایک بلی کی طرف آپ کا جھکاؤ ہوجائے گا یہ عین فطری ہے ۔تعصبات بھی ایسے ہی پلتے ہیں۔
تعصب گروہی جبلت اور بقائے حیات کا ایک آلہ ہے۔
ابن خلدون کہتے ہیں “عصبیت کے طاقتور ہونے سے کسی گروہ کی زندگی قائم رہتی ہے۔”
ہمارے تعصبات کی دیواریں شیشوں کی طرح ہیں ہم شیشے کو نہیں دیکھ سکتے بلکہ شیشے سے دیکھتے ہیں۔
انسان کے تعصبات کے دائرے micro سے macroہوتے ہیں۔
ذاتی سے قومی اور نسلی امتیاز کے تعصبات
ذاتی تعصب
رنگ ،قد ،سوشل پوزیشن
یہ اتنا خطرناک نہیں ہوتا ہے یہ فرد کے دائرے تک رہتا ہے۔
نظریاتی تعصب
اس میں جینڈر ،برادری، زبان، علاقہ، مسلک، سیاسی جماعت، پیشہ کی بنیاد پہ عزت نفس استوار اور مفادات استوار کئے جاتے ہیں۔
عورت اور مرد کے تعلقات پہ بے شمار تعصبات ہیں۔
عورت کو ناقص عقل ۔کمزور سمجھنا
غیرت
یہ بڑے پیچیدہ رشتوں کے پیچیدہ تعصبات ہیں۔
ہر رشتے role سے نئی تعصبات وابستہ ہیں۔
ماں کے رشتے کو overrated کرنابھی ایک تعصب ہے۔
عورت کے حقوق میں مرد کو پس پشت ڈالنا بھی ایک تعصب ہے جب کہ مرد کما کما کر بے حال ہوجاتا ہے۔
طلاق یافتہ یا بانجھ عورتوں کے کردار کے بارے تعصبات
یہ سب تعصبات ہمارے سماج میں برادری اور caste system سے بھی جڑے ہیں جو اصل میں وسائل کی تقسیم کی گیم ہے۔
تعصب طاقت حاصل کرنے اور طاقت قائم رکھنے کی گیم ہے۔
انسان اپنی پسند کے مطابق ہی اپنا طریقہ کار وضع کرتا ہے جس سے وہ زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرلے مرد کو اگر شیر کا کردار دیا گیا تو عورت کو لومڑی کا دیا گیا ہے ۔مرد جو جسمانی طاقت سے حاصل کرتا ہے عورت اپنی بقا کے لئے عیاری سے وہ حاصل کرتی ہے۔
عورتیں مردوں کو سیکس اور اولاد سے بلیک میل کرتی ہیں مرد ان کو پیسے اور آسائشوں سے بلیک میل کرتے ہیں۔
زبان کے تعصبات
زبان انسانوں کو اکٹھا کرتی ہے اس لئے زبان ایک سیاسی آلہ بھی ہے جو قومیت کاتعین کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے یہ power policy ہے۔
مسلک
یہ مذہبی تعصب سے محدود ہوتا ہے اس میں اپنے ائمہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر ہی مذہب کی تشریح قابل قبول ہوتی ہے ۔۔فرقہ کا تعصب بھی شدید ہوتا ہے۔
مذھب اور سیاست کے تعصبات بہت خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ دلیل نہیں جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ان کے ذریعے جذبات بھڑکا کر قتل وغارت گری آسان ہوتی ہے اس لئے غنڈامزاج مہم جو آخر کار مذہب اور سیاست کا ماسک پہن لیتے ہیں نیک سے نیک انسان بھی شدید تعصبات کا شکار ہوتے ہیں مگر ان کو پتہ نہیں چلتا۔
اسی طرح بڑے بڑے دانشور اور فلاسفر بھی تعصب شکار ہوتے ہیں۔
اگر تعصب کم علمی کی بنیاد پہ ہوتو اس کے ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
جو تعصب عقیدت کی بنیاد پہ جلد ختم نہیں ہوتا۔
انسانیت کا المیہ یہی ہے کہ مذہب اور سیاست کے میکانزم کو صرف چند لوگ سمجھ پاتے ہیں باقی اس کے کل پرزے بن کر کام کرتے ہیں۔
مذھب اور سیاست کا سائنسی اور معروضی مطالعہ ہمارے تعصبات کو سمھجنے میں معاون ہوسکتا ہے۔
سیاحت اور سائنس کا مطالعہ، مناظر فطرت سے محبت اور فنون لطیفہ کا شوق انسان کے سیاسی اور مذہبی تعصبات کم کرتے ہیں۔
انسان کے تعصبات ختم نہیں ہوسکتے مگر اس گلوب کو حسین بنانے اور اس کے حسن سے لطف اندوز ہونے میں ہم جس حد تک contribute کرسکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیئے صرف اس لئے کہ آپ بھی انسان ہیں اور میں بھی اور اس زمین پہ ہماراقیام مختصر اور غیر متعین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
کمنت کیجے