Home » تاریخ اور دانشور
اردو کتب تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

تاریخ اور دانشور

محمد ابراہیم

ڈاکٹر مبارک علی کی یہ کتاب اس لیے بھی دلچسپ ہے کہ اس میں موضوعات کی Diversity بہت ہے۔یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول میں پاکستان کے ضمرے میں رکھ کر دانشوری جو ڈسکس کیا گیا ہے۔حصہ دوم “عروج و زوال اور پسماندگی”پر،جبکہ حصہ سوم مختلف مضامین پر مشتمل ہے۔ریاست اور دانشور کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ عقل پرست دانشوروں کو اس وقت بہت مشکلات اٹھانی پڑی تھیں جب وسیع شہنشاہتیں قائم ہوئیں۔حکمرانوں نے دانشوروں کی سرپرستی شروع کر دی اور دانشور محظ ان کے ملازم بن کے رہ گئے۔آخری عہد مغلیہ میں جب سلطنت کو زوال ہوا تو ساتھ ہی اس کے مالی ذرائع آمدنی بھی کم ہوگئی۔ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس آزادی کی وجہ سے اٹھارویں صدی کے دانشوروں نے ایک زندہ اور جاندار ادب تخلیق کیا۔حکومتی اداروں پر بھرپور تنقید کی۔شاعروں نے ملک و معاشرے کے انتشار کو “شہر آشوب”کی شکل میں پیش کیا۔لیکن ڈاکٹر صاحب اس وقت کے دانشوروں پر تنقید بھی کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی نعم البدل نہیں تھا،مثلاً شاہ ولی اللہ جو اس عہد کے بڑے دانشور کہلاتے ہیں۔ان کے ہاں بھی نظام میں اصلاح کے مشورے ضرور ہیں لیکن تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں۔البتہ اس حوالے سے انہوں نے سرسید احمد خان کو appreciate ضرور کیا ہے۔لیکن وہ اس میں مسلمانوں کی بدقسمتی بھی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سرسید اور ان کے رفقاء کے کام کو کسی منطقی نتیجہ تک نہیں پہنچایا۔اب وہ دانشور اور نظریہ پاکستان کو ڈسکس کرتے ہیں،کیونکہ پاکستان کو نظریاتی طور پر تاریخی حیثیت دینے کی سب سے زیادہ زمہ داری مؤرخوں اور دانشوروں پر آئی۔دانشوروں نے نظریہ کو تقویت دینے کی غرض سے حب الوطنی کے موضوعات پر مضامین،نظمیں و ترانے و نغمے اور کہانیاں لکھیں۔کچھ دانشور ایسے بھی تھے جو الگ زاویہ نگاہ رکھتے تھے۔یہ دانشور حکومتی نقطہ نگاہ کے لیے خطرے کا باعث تھے۔ان کے لیے یہاں بہت ساری مشکلات کھڑی کی گئیں۔اول تو انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا،ان کی کتابوں پر پابندی لگائی گئی اور انہیں ملازمت سے محروم کر دیا گیا۔دوم ایسے قوانین بنائے گئے جس کی وجہ سے ان دانشوروں کے لیے یہ مشکل ہو جائے کہ وہ حکومتی پالیسیوں اور معاشرتی ناانصافیوں پر آواز اٹھا سکیں۔چنانچہ نظریہ پاکستان،فوج اور قائد اعظم کی ذات پر تنقید کرنا قانونی طور پر جرم قرار دیا گیا۔دانشوروں پر مکمل کنٹرول کرنے کے لیے مختلف حکومتوں نے ان کی سرکاری تنظیمیں بنوائیں۔اس سے سرکاری دانشوروں کی نشاندھی تو ہوگئی۔لیکن مخلاف دانشوروں کی مشکلات میں بہت اضافی ہوا۔یہاں پر وہ ایک اور بات دانشوروں کے ضمن میں کرتے ہیں کہ دانشوروں کی اہمیت کے پیش نظر مغرب کی حکومتیں انہیں ملکی و غیر ملکی ماہرین مقرر کرتی ہیں۔دوسری طرف دانشوروں کے زریعہ معاشرہ میں لوگوں کی رائے کو یا تو کسی مسئلہ پر ہموار کیا جاتا ہے یا مخلافت کی جاتی ہے۔الجزائر کی جنگ آزادی کے دوران فرانسیسی دانشوروں نے فرانس کی مخالفت کی اور اس کے مقابلے میں الجزائر کا ساتھ دیا۔لیکن اس کی وجہ سے انہیں نہ تو ملک دشمن کہا گیا اور غیر ملکی ایجنٹ۔پاکستان کا دانشور یہ رول ادا کرنے سے اس لیے مجبور ہے کہ وہ مالی طور پر آزاد نہیں ہے۔لکھنا اس کا جزوقتی پیشہ ہے کیونکہ کل وقتی دانشور بننے کے لیے اس کے کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ڈاکٹر مبارک علی آگے چل کر اس سوال کو بھی discuss کرتے ہیں کہ صلاحیتیں نہ ہونے کے باوجود آخر لوگ کیوں ہمارے ہاں دانشور بننا پسند کرتے ہیں۔ایک وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہر شخص ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے۔مرنے کے بعد بھی اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نام باقی رہے۔چونکہ تحریری الفاظ میں بڑی جان ہوتی ہے۔اس لیے یہ لکھنے والے کو موت کے بعد بھی زندہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ دانشور بننے کا ذریعہ ہمارے یہاں دوسروں کی تخلیقات کو چرانے اور نقل کر کے اپنے نام سے منسوب کرنے کا ہے۔کبھی کبھی مختلف دانشوروں کی تحریروں سے اقتباسات لے کر اور انہیں باہم جوڑ کر ایک علیحدہ سی چیز تیار کی جاتی ہے اور اسے اپنی تحریر کہ کر چھپوا لیا جاتا ہے۔یہ سب کچھ ہمیں فیس بک پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ کسی کی تحریر کاپی کرتے ہیں اور نیچے اس کا نام بھی نہیں لکھتے۔اس حصے کہ آخر میں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہماری کوئی دانشورانہ روایت ہے؟وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دانشوروں کی اکثریت شاعروں افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کی ہے۔یہاں پر مؤرخ ماہر علم بشریات، عمرانیات ،فلسفی آرٹسٹ اور سائنسدان بہت کم ہیں۔اس لئے ہماری دانشورانہ روایت کی تشکیل میں ادبی لوگ زیادہ حصہ لیتی ہیں اور اس میں بھی خصوصیت سے شاعرانہ طرزِ بیان۔اس قسم کے اظہار بیان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے لوگوں کے جذبات تو ابھرتے ہیں مگر ان میں عقل پرستی اور دلیل کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔اس قسم کی بہت سی کوششیں کی گئی ہیں کہ جن میں اردو زبان کے اس شاعرانہ ڈھانچہ کو بدلا جائے اور اسے ایک علمی زبان بنایا جائے۔یہ حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں زبان کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے کیونکہ زبان معاشرے کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے ،جس قدر معاشرہ ذہنی طور پر ترقی کرے گا اسی قدر اس کا اظہار زبان کے ذریعے ہوگا۔اگر کسی معاشرے میں سائنس اور علمی کاموں کی کوئی ضرورت نہیں تو اس صورت میں زبان میں الفاظ کہاں سے آئیں گے؟آخر میں وہ اس کا نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں” اس دانشورانہ روایات کی کمزوری کے اثرات ہمارے معاشرے پر کئی طرح سے ہوتے ہیں مثلا” سب سے پہلا اثر تو یہ ہوا ہے کہ ہمارا معاشرہ ثقافت اور کلچر سے بالکل بے بہرہ ہو گیا ہے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ بن گئے ہیں کہ جس میں تہذیبی روایات باقی نہیں رہی ہیں ، ہمارے رویوں میں اور ہماری عادتوں میں کوئی سلیقہ باقی نہیں رہا ہے، ہماری گفتگو اور ہمارے آداب کھردرے اور غیر مہذب ہو گئے ہیں ہماری فطرت میں تشدد و بربریت آگئی ہے۔ ہم نقل اور تقلید پرستی کو فن اور دانش کی معراج سمجھنے لگے ہیں۔ اور ایک ایسا معاشرہ بن گئے ہیں کہ جہاں تخلیقی صلاحیتوں کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔کتاب کے “حصہ اول”کا review ختم ہوا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد ابراہیم تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان قاری ہیں ۔آپ تیرہویں جماعت کے طالبعلم اور کتب بینی کے شوقین ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں