Home » وجود باری پر ناقابل تصور و ناقابل مشاہدہ ہونے کا سوال
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

وجود باری پر ناقابل تصور و ناقابل مشاہدہ ہونے کا سوال

کانٹ ذدہ ملحدین اور بعض مذہبی مفکرین یہ باور کرانے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ پچھلے وقتوں کے متکلمین کو یہ خبر نہ تھی کہ کسی شے کی حقیقت کا علم تب ممکن ہوتا ہے جب وہ حسی مشاہدے میں آئے کیونکہ اس کے بغیر اس پر ادراک کی ساخت کا اطلاق نہیں ہوسکتا بلکہ وہ محض امکان کا معاملہ رہتا ہے۔ انسانی ادراک کی آخری سرحد “مکان” (space) ہے جس کے آگے عقل اندھی ہے اور اس سے پرے وہ کسی شے کا علم حاصل نہیں کرسکتی۔ دیکھو ذات باری زمان و مکان کی حد سے ماوراء ہے لہذا عقل سے اس کے بارے میں کوئی علم ممکن نہیں۔ اگر متکلمین کو یہ معلوم ہوتا تو اثبات باری کے دلائل جمع کرنے کا کشت نہ اٹھاتے۔اس استدلال کے لئے یہ لوگ چند گاڑھی اصطلاحات بھی استعمال کرتے ہیں لیکن اندرون خانہ بات اتنی ہی ہے۔

کانٹین فکر کے پس پشت جو مسائل ہیں ان پر گاھے بگاہے بات ہوتی رہی ہے، یہاں دو نکات پر بات کرنا ہے کہ کیا یہ واقعی کوئی ایسی انوکھی بات کہہ رہے ہیں جس کا پچھلے وقتوں کے متکلمین کو علم نہ تھا کہ خدا کاتصور ممکن نہیں؟ نیز کیا قابل تصور ہونا موجود ہونے کی شرط ہے؟ یہاں اس حوالے سے کچھ امور ایک خاص ترتیب سے گوش گزار کئے جاتے ہوں۔

خدا کی ماہیت ناقابل تصور ہے

1۔ امام رازی (م 606 ھ / 1210 ء) کتاب “المطالب العالیة”میں فصل قائم فرماتے ہیں:”انا فی هذه الحیاة هل نعرف ذات الله من حیث انها هی؟” یعنی اس دنیاوی زندگی میں کیا ہم ذات باری جیسی کہ وہ ہے اسے جان سکتے ہیں؟ اسی طرح کتاب “نهایة العقول” میں اس بحث سے متعلق مسئلے کا یہ عنوان قائم کرتے ہیں: “فی ان حقیقتة سبحانه هل هی معلومة للبشر؟” (اس مسئلے کا بیان کہ کیا ذات باری کی حقیقت انسان کو معلوم ہے؟)۔ آپ کہتے ہیں کہ انسان کے لئے یہ علم ناممکن ہے اور آپ اس پر آٹھ طرح سے دلائل قائم کرتے ہیں۔ یہاں سب دلائل پیش کرنا ممکن نہیں، صرف ایک دلیل پیش کرنا مقصود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
• علم یا تصور (concept) ہے اور یا تصدیق (judgement)، یعنی ایک تصور کی دوسرے کے ساتھ اثباتی یا سلبی نسبت
• دنیاوی زندگی میں انسان کو جمیع تصورات چار طرح حاصل ہوتے ہیں:
الف) پانچ حواس ظاہرہ سے، جیسے ٹھنڈا گرم وغیرہ
ب) حواس باطنہ سے، جیسے لذت و تکلیف ، محبت و نفرت وغیرہ
ج) عقل محضہ سے ، جیسے وجود اور عدم، وحدت و کثرت، وجوب اور امکان وغیرہ
د) وہ تصورات جو انسان خیال و عقل کے زور پر ترکیب کے ذریعے تشکیل دیتا ہے، ترکیب خیالی کی مثال گھوڑے کے نچلے حصے اور انسانی دھڑ کو ملا کر ایک شے کا تصور قائم کرلیناہے، ترکیب عقلی کی مثال استخراجی دلیل میں دو مقدمات کے مابین ترتیب سے ایک نیا مقدمہ سامنے آنا ہے
• ان چار کے سوا انسان کے پاس تصور قائم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں
• حقیقت الہیہ کو نہ ہم حواس ظاہرہ سے جان سکتے ہیں، نہ حواس باطنہ سے، نہ مجرد تصورات عقلیہ سے جیسے کہ وجود و عدم اور نہ ہی ان کے مجموعے و ترکیب سے
• ثابت ہوا کہ زندگی میں ذات باری کی حقیقت کا ادراک انسان کے لئے محال ہے

2۔ یہ بات کہ “ذات باری کا تصور ممکن نہیں” متکلمین کو پوری طرح معلوم تھی اور جن لوگوں نے کلام کی کسی کتاب میں ‘تنزیہات باری کے احکام” کی فصول پڑھی ہیں ان پر یہ مخفی نہیں۔
یہاں قابل غور بات (جس پر اکثر غور نہیں کیا جاتا) یہ ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ “ذات باری کی حقیقت کا علم اس لئے ممکن نہیں کیونکہ اس کا تصور ممکن نہیں ” تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ “تصور ” کسے کہتےہیں؟ متکلمین کے مطابق تصور کا معنی ہے “حصول صورة الشیئ فی الذهن”، یعنی ذہن میں کسی شے کی صورت گری ہوجانا۔ صورت گری کی ان کیفیتوں کو علم کلام کی زبان میں اعراض کہتے ہیں اور وہ نو ہیں: کم، کیف، أین، متی، فعل، انفعال ملک، اضافت، وضع۔ سب کی وضاحت مقصود نہیں، اصل بات سمجھنے کے لئے چند کی مراد سمجھ لیجئے:
• “کم “کا مطلب ہے مقدار، یعنی جب ذہن کسی شے کی صورت گری کرتا ہے تو اس کے ساتھ “مقدار ” کا تصور متصل ہوتا ہے
• “کیف ” کامطلب ہے کیفیت، جیسے کہ ٹھنڈی گرم وغیرہ
• “این” کا مطلب ہے مکان، یعنی وہ شے کہاں ہے ، جہت کا سوال بھی اسی سے متعلق ہے
• “متی ” کا مطلب ہے زمان
الغرض اعراض کسی جسم کے ہونے کی کیفیات ہیں۔

3۔ اب متکلمین سے پوچھئے کہ جسم کیا ہے؟ جواب ہے جواہر کا مجموعہ۔ جوہر کیا ہے؟ مکان میں پایا جاسکنے والا چھوٹے سے چھوٹا قابل تصور جزو، یا وہ چھوٹے سے چھوٹا قابل تصور جزو جو مکان گھیرے۔ جوہر و جسم کاوجود مکان کو مفروضے کے طور پر فرض کرتا ہے اور یہ مکانی شے مختلف اعراض (“اکوان” یعنی ہونے کی کیفیات) سے متصف ہوتی ہے جن میں سے ایک “کون” مکان کو گھیرتےہوئے حرکت و سکون سے متصف ہونا ہے۔ متکلمین سے جب پوچھیں گے کہ جواہر و اعراض کا علم کیسے ہوتا ہے تو وہ بتائیں گے کہ حسی مشاہدے سے۔ کیامطلب ہوا؟ مطلب یہ کہ حسی مشاہدے کی آخری حد مکان ہے، اس حد کے بعد تصور (حصول صورة الشیئ فی الذهن) کا امکان ختم ہوجائے گا۔ چونکہ ذات باری زمان و مکان سے ماوراء ہے لہذا اس کا تصور ممکن نہیں اور جب تصور ممکن نہیں تو اس کی حقیقت تک رسائی اس دنیا میں محال ہے۔ بتائیے کانٹ نے یہاں تک کونسی نئی بات بتائی؟

ناقابل تصور ہونا معدوم ہونا نہیں

4۔ جو شے درج بالامعنی میں ناقابل تصور ہے کیا وہ معدوم بھی ہے؟ کانٹ اس کے جواب میں “ہاں “نہیں کہہ سکتا بلکہ وہ کہے گا کہ اس کا امکان بہرحال موجود ہے۔ لیکن اگر خود میرے تصورات یہ بتائیں کہ جو مشاہدے میں ہے وہ معلول ہے اور علت مکان سے باہر ہونا ہی لازم ہے تو کیا کرو گے؟ ناقد کا کہنا ہے کہ میں اس ماوراء موجود کا تصور قائم نہیں کرسکتا۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ اس ذات کا “تصور ” ممکن نہیں لیکن قابل تصور ہونا موجود ہونے کی شرط نہیں(اس پہلو پر ذیل میں مزید بات ہوگی)، تو اب یہ بتائیے کہ جب یہ شرط نہیں تو آپ کی یہ بات کہ “اس کا تصور ممکن نہیں” ہمارے اس مقدمے کو غلط کیسے ثابت کرتی ہے کہ ” اگر خود میرے تصورات یہ بتائیں کہ جو مشاہدے میں ہے وہ معلول ہے اور علت مکان سے باہر ہونا ہی لازم ہے ؟” آخر آپ کس دلیل کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس کے موجود ہونے کاحکم جاری کرنا بھی محال ہے؟

5۔ امام رازی کہتے ہیں کہ موجود ممکنہ طور پر دو طرح کا ہے: وہ جو متحیز (مکانی) ہے اور وہ جو غیر متحیز ہے۔ متحیز یا جوہر و جسم ہوگا اور یا عرض، اور وہ جو غیر متحیز ہے وہ نہ جوہر ہے اور نہ عرض ۔ موخر الذکر کے اثبات میں اگر کوئی دلیل میسر نہ ہو تو اس کا اثبات تجویز عقلی یا امکان کے درجے میں رہے گا (یعنی نہ اقرار کیا جائے گا اور نہ انکار)، اور اگر دلیل اس کے ہونے کا وجوبی حکم لگائے تو اسے مانا جائے گا۔ کسی شے کے موجود ہونے کا اثباتی علم اور اس موجود کی کیفیات کے علم میں جو فرق ہے اسے ہمارے جدید اذھان خلط ملط کردیتے ہیں۔ متکلمین کے مابین جب اس موضوع پر بحث ہوئی کہ کیا ذات باری کا علم ممکن ہے تو بعض نے کہا ہاں اور بعض نے کہا نہیں۔ علامہ آمدی (م 631 ھ / 1234 ء) ہر فریق کے دلائل درج کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہاں “علم ہونے” سے کیا مراد ہے اسے کھولنے کی ضرورت ہے۔ اگر علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً اس ذات کا موجود ہونا ثابت ہے اور وہ واجب الوجود ہے (یا اس طرح دیگر احکام وغیرہ) تو اس کا علم ممکن ہے اور اگر علم سے مراد کسی شے کے ترکیبی خصائص و اوصاف وغیرہ ہیں تو اس کا علم ممکن نہیں۔

موجود ہونے کے لئے قابل تصور ہونا لازم نہیں

6۔ قابل تصور ہونے کا مفہوم اوپر بیان کیا جاچکا (حصول صورة الشیء فی الذهن) اوریہ بتایا گیا کہ متکلمین کے نزدیک ذات باری کیوں کر اس مفہوم میں ناقابل تصور ہے۔ کانٹین فکر کے متاثرین یہاں سوالاٹھاتے ہیں کہ جو وجود قابل تصور نہیں (یعنی جس کی ماہیت حسی طور پر جاننا ممکن نہیں) اس کا موجود ہونا کیسے متحقق ہوگا؟ گویا موجود ہونے کے لئے قابل تصور ہونا شرط ہے اور جو قابل تصور نہیں اس کا وجود محض امکان ہےنہ کہ خارجی وجود وہونا۔

7۔ خدا کے موجود ہونے پر یہ اعتراض کرنا کہ “وہ قابل تصور نہیں” ایک غیر معقول اعتراض ہے، اس لئے کہ جو قابل تصور ہو وہ “اکوان” یعنی ہونے کی کیفیات سے متصف ہوتا ہے اور جو ان کیفیات سے متصف ہو وہ حادث (یعنی اثر یا نتیجہ) ہوتا ہے نہ کہ علت جبکہ دلیل سے ثابت ہے کہ خدا علت یا محدث ہے اور اس کے سوا سب حادث۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھئے کہ جنہیں “ہونے کی کیفیات ” کہتے ہیں اور جو شے کوقابل تصور بناتی ہیں، یہ سب تعیینات (determinations) و تخصیصات (specification) کے نام ہیں اور ان تعیینات و تخصیصات کا وجود مفروضے کے طور پر ایک ایسے وجود کو فرض کررہا ہے جو انہیں مرتب کررہا ہے۔ اب اگر بالفرض وہ موجود بھی ان تعیینات و تخصیصات سے عبارت ہو تو وہ علت و محدث کب ہوا، وہ تو خود معلول و حادث اور علت کا محتاج ہوا۔ پس عقل مسلسل بتا رہی ہے کہ ان تعیینات و تخصیصات کی علت یقیناً ان سے ماورا ہوگی اور جب وہ ان سے ماورا ہوگی تو لازما ناقابل تصور ہوگی۔
8۔ چنانچہ جو لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ اس مفہوم میں قابل تصور ہو جو حادث کے ہونے کے لئے ضروری ہیں، وہ دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا کا حادث ہونا لازم ہے! اور جو مزید اصرار کرتا ہے کہ صرف قابل تصور ہی موجود ہے وہ دراصل یہ کہتا ہے کہ صرف حادث (یعنی معلول) ہی موجود ہے، ان کی علت موجود نہیں۔ یہ حماقت نہیں تو کیا ہے؟ اگر خدا حادث کی صفات سے متصف ہو تو وہ علت و محدث نہیں بلکہ معلول و حادث ہوگا اور حادث خدا نہیں ہوسکتا ، اس بات کو سمجھو۔ جن کیفیات وجود سے ہم واقف ہوسکتے ہیں وہ حادث کی کیفیات ہیں، خدا تو ان کیفیات کا محدث ہے۔ لہذا ناقدین کا یہ اعتراض ہی بے معنی ہے، خدا لازماً ان تصورات سے ماورا ہوگا جو حادث سے متعلق تصورات ہیں۔ جو کہتا ہے کہ خدا کا ان تصورات پر پورا اترنا ثابت کرو جنہیں میں حسی مشاہدے سے معلوم کرتا ہوں وہ دراصل یہ کہہ رہا ہے کہ خدا کا حادث ہونا ثابت کرو۔ اس نا سمجھ کو علم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، وہ علم کو جہالت اور قدرت کو عجز ثابت کرنے جیسی oxymoron باتیں کررہا ہے۔ ہر الحادی اعتراض بے سر و پیر ہی ہوتا ہے، کم از کم سوال تو درست کیجئے۔

پس جو کہے کہ موجود ہونے کے لئے قابل تصور ہونا شرط ہے اس سے پوچھئے کہ کس موجود کی بات کررہے ہو، حادث کی یا اس کے محدث کی؟ اگر حادث کی تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر محدث کی تو اپنی عقل کا علاج کراؤ۔ اور اگر وہ کہے کہ جو قابل تصور نہیں اس کی حقیقت کا علم نہیں ہوسکتا، تو اسے کہئے کہ یہ بات ہم تمہارے بتانے سے پہلے جانتے ہیں۔ خدا موجود ہونے کی دلیل یہ نہیں کہ وہ (درج بالا معنی میں) قابل تصور ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ ہر قابل تصور شے (یعنی حوادث) کا سبب ہے اور اگر حوادث موجود ہیں تو وہ محدث بھی موجود ہے جس کی جانب ان حوادث کی نسبت کی جائے گی۔ عقل یہ بات ماننے پر قطعی طور پر مجبور ہے، اس کا انکار مکابرے کے سوا ممکن نہیں۔ لہذا تمہاری اس بات کہ “خدا قابل تصور نہیں” میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جو اس قطعی عقلی قضئیے کی تردید کرتی ہو کہ “حادث موجود ہے تو محدث بھی موجود ہے” ۔ آپ سے پہلے یہ بے عقلی کی باتیں کرامیہ فرقے والے بھی کیا کرتے تھے کہ جو ناقابل تصور ہے وہ معدوم ہے۔

8۔ پھر جو یہ کہتا ہے کہ “موجود ہونے کے لئے قابل تصور ہونا شرط ہے”، وہ اپنے دعوے کی دلیل پیش کرے کیونکہ یہ صرف ان کا دعوی ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ موجود امکانی طور پر دو طرح کا ہے: (1) وہ جو تعیینات و تخصیصات سے عبارت اور ہمارے مشاہدات کا موضوع ہے، یہ حادث کہلاتا ہے، (2) وہ جو تعیینات و تخصیصات سے ماورا یعنی وجود مطلق ہے، اسے ہم محدث کہتے ہیں جو ان تعیینات و تخصیصات کا سبب ہے جو حادث کو لاحق ہیں۔ پس جو کہتا ہے کہ موجود صرف پہلی طرح ہی کا ہے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ صرف حادث ہی کا وجود ممکن ہے۔ یعنی ان کے بقول ممکن الوجود (حادث و معلول) تو ہوسکتا ہے لیکن واجب الوجود (ان تعیینات و تخصیصات کا محدث و سبب) نہیں ہوسکتا۔ اسے بے عقلی کے ساتھ ساتھ تحکم بھی کہتے ہیں۔

موجود ہونے کے لئے نظیر ہونا شرط نہیں

9۔ اس پر ایک آخری اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ایسا وجود ہمیں سمجھ نہیں آتا کیونکہ اس کی کوئی نظیر ہمارے مشاہدے میں نہیں۔ امام رازی واضح فرماتے ہیں کہ کسی موجود کی نظیر و مثال ہونا اس کے موجود ہونے کی شرط نہیں، یعنی نظیر نہ ہونے سے عدم وجود لازم نہیں آتا۔ اس کی پہلی آسان وضاحت یہ ہے کہ کسی شے کا وجود یا اپنی نظیر پر موقوف ہوگا اور یا نہیں ہوگا۔ پہلی بات باطل ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دونوں کا وجود ایک دوسرے پر موقوف ہے اور یہ دور (circularity) ہے۔ معلوم ہوا کہ نظیر ہونا موجود ہونے کی شرط نہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جو پہلو ایک شے (مثلا الف) کو دوسری شے (مثلا ب) سے ممیز کرتا ہے ، لازم ہے کہ وہ پہلو دوسری شے میں نہ پایا جائے کیونکہ اگر وہ دوسری شے میں بھی موجود ہو تو دونوں میں فرق ہی نہ رہے گااور نتیجتاً وہ ایک ہی شے ہوگی۔ مثال سے بات سمجھئے۔ دو چیزوں میں فرق سمجھنے کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ یا ان کا زمان فرق ہو اور یا مکان، اگر دونوں یکجا ہوجائیں تو دوئی کا حکم محال ہوجائے گا۔ مثلاً “یہ کالا بورڈ اور وہ کالا بورڈ” دو اشیا کے طور پر قابل فہم ہیں کیونکہ مکان فرق ہے۔ ایک ہی بورڈ ایک وقت میں کالا اور دوسرے وقت میں سفید، یہ بھی قابل فہم ہے۔ لیکن ایک ہی بورڈ ایک ہی وقت میں کالا و سفید ناقابل فہم و محال ہیں۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ ایک شے کو دوسری سے ممیز کرنے والا پہلو دوسری میں نہ پایا جانا لازم ہے۔ پس جسے مثال یا نظیر کہا جارہا ہے، اگر وہ ہر پہلو سے اصل جیسی ہے تو دو وجود متحقق نہ ہوئے۔ اور اگر کسی پہلو سے اس سے مختلف ہے تو ماننا ہوگا کہ دونوں میں تمیز کرنے والا کوئی ایسا پہلو موجود ہے جو اصل میں اور یا مثال میں نہیں لیکن اس کے باوجود دونوں موجود ہیں۔ پس جب ایک شے کو دوسری کی مثال کہا تو ثابت ہوا کہ دو الگ وجود متحقق الوجود ہیں، یعنی ایک شے کسی پہلو سے دوسری سے الگ ہونے کے باوجود موجود ہے۔ اب اگر ایک وجود ہو ہی ایسا کہ اس جیسا کوئی وجود نہیں، یعنی عقل کی رو سے وہ تنہا و یکتا ہو، تو اس کی نظیر ہونا محال ہوگا لیکن یہ عدم نظیر اس کے عد وجود کو مستلزم نہیں۔ چونکہ ذات باری یکتا و تنہا ہے، لہذا اس کی عدم نظیر سے اس کا عدم وجود لازم نہیں آتا۔

خلاصہ

علم کلام کا ڈسکورس اس چیز کے شعوری ادراک کے ساتھ پروان چڑھا کہ حقیقت الہیہ کا ادراک اس دنیا میں انسانی معرفی بساط سے باہر ہے۔ اس لیے علم کلام پر ہر وہ تنقید بے معنی ہے جو یہ دعوی کرے کہ “چونکہ حقیقت الہیہ انسانی بساط سے باہر ہے اس لیے کلامی دلائل سے خدا کا وجود ثابت نہیں ہو سکتا” الا یہ کہ کوئی یہ ثابت کرے کہ محقق علمائے کلام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا کی حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے، اسی صورت میں کوئی بامعنی تنقید ہو سکتی ہے۔ لہذا متاثرین کانٹ سے گزارش ہے کہ چاند ماری کا شوق بھلے سے پورا کیجئے لیکن کسی فرصت میں متکلمین کے نظام فکر سے واقفیت بھی حاصل کیجئے۔

ذات باری کے وجود پر یہ اعتراض کرنا کہ وہ ناقابل تصور و نا قابل مشاہدہ ہے سطحی و بے معنی اعتراض ہے کیونکہ اس معترض کا اعتراض یہ ہے کہ خدا حادث کیوں نہیں ہے ؟ ظاہر ہے یہ لغو اعتراض ہے کیونکہ جو حادث ہو وہ علت نہیں معلول ہوتا ہے جبکہ خدا علت ہے۔ چونکہ عقل کی رو سے اس علت کا یکتا و تنہا ہونا لازم ہے، لہذا اس کی نظیر پیش کئے جانے کا مطالبہ بھی ساقط الاعتبار ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں