Home » قدیم لاہور میں چند گھنٹے قسط نمبر (1)
احوال وآثار تاریخ / جغرافیہ

قدیم لاہور میں چند گھنٹے قسط نمبر (1)

خالی دماغ ہی کچھ سوچ سکتا ہے اور بے کار شخص ہی کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش پال سکتا ہے۔ وگرنہ کرنے والے تو کرنے میں ہی مگن رہتے ہیں۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہے، بیٹھے رہتے ہیں، وہ بھی اس طرح کہ تصور جاناں بھی میسر نہیں ہوتا، اور سوچتے رہتے ہیں۔ یوں ہی سوچتے سوچتے دماغ میں ایک آئیڈیا ابھرا، وہ ہمیں کچھ قابل عمل سا محسوس ہوا تو مشاورت شروع کی، لیکن پھر فوراً ہی کرونا نے  ہم سب کو آ لیا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آن کی آن میں سب ہی کچھ معطل ہو کر رہ گیا، پوری زندگی ہی گویا تھم سی گئی اور سارا عالم منجمد ہو کر رہ گیا۔ حالات جب بہتر ہونے لگے اور کرونا سے کچھ آزادی میسر آئی تو گزشتہ سال اس آئیڈیے کو عملی پیرہن عطا کرنے کی سوجھی۔ رابطہ ۲۰۲۲ اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا۔ اس سفر کی داستان کا ایک حصہ ہم قلم بند کر چکے ہیں۔اس سال ۹ جون سے ۱۸ جون تک ہم رابطہ ۲۰۲۳ کے عنوان سے ایک بار پھر عازم سفر ہوئے۔ ہمارا یہ قافلہ آٹھ دس افراد پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان کا تعلق ملک کے مختلف حصوں سے ہوتا ہے، اس لیے کراچی سے اس سفر کا آغاز کرنے والے صرف تین حضرات تھے۔ حالات کا جبر یہ رہا کہ اس بار اس قافلے میں ہم خود بھی شامل نہیں تھے۔

کراچی سے عزیزم محمد اویس شاہد، حافظ محمد شارق اور مفتی محمد شہزاد شیخ نے رابطہ ۲۰۲۳ کا سفر کراچی ایکسپریس کے ذریعے ۹ جون۲۰۲۳ بہ روز جمعہ  شام پانچ بجے شروع کیا۔ باقی حضرات نے لاہور سے شریکِ سفر ہونا تھا۔ اتفاق یہ کہ ہم ان دنوں اپنی دفتری مصروفیتوں کے تحت کوئٹہ میں تھے، وہاں سے واپس لوٹ کر ہمیں شریک سفر ہونا کچھ دشوار محسوس ہوا کہ جہازوں کے اوقات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے، اندیشہ یہ تھا کہ ہم وقت پر کراچی نہیں پہنچ سکیں گے، اس لیے ہم نے کوئٹہ سے بہ راہ راست لاہور پہنچنے کا ارادہ کیا، لیکن سوئے قسمت کہ ہمیں کوئٹہ سے لاہور کی بھی بہ راہ راست فلائٹ نہ مل سکی تو مجبوراً ہم پہلے اسلام آباد پہنچے، لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ رونما ہوا کہ عزیزم فضل اللہ فانی بھی اسلام آباد سے ہمارے شریک سفر ہو گئے۔ یوں ۹ جون کو شام میں کراچی سے حضرات روانہ ہوئے اور ہم ۹ جون کو بعد از جمعہ اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔

لاہور پہنچ کر ہماری اور فانی کی راہیں رات بھر کے لیے جدا ہو گئیں، وہ اپنے کسی دوست کی طرف نکل گئے اور ہمیں یہ رات طاہر بھائی کے ہاں گزارنی تھی۔ لاہور میں ہمارا ایک مضبوط ٹھکانہ طاہر بھائی کا گھر ہوتا ہے، وہاں ہمیں رات گزارنے کے لیے الگ سے کمرہ اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے طرح طرح کے پکوان سہولت سے میسر آ جاتے ہیں۔ مسافر کو اس کے سوا اور کیا چاہیے، پھر مسافر ہم جیسا ۔۔۔۔ بھی ہو تو اس کی دل چسپاں لذت کام و دہن سے اآگے بہ مشکل ہی بڑھ پاتی ہیں۔ سو جب موقع ملتا ہے، ہم ان کے گھر پر رہتے ہیں۔ اس دوران ہمارا کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے ساتھیوں سے مسلسل رابطہ تھا۔ رابطہ ۲۰۲۳ء کے نام سے وہاٹس اپ گروپ مسلسل فعال تھا، اور لمحے لمحے کی اطلاع سب شرکا کو میسر آرہی تھی۔ مفتی فیاض علی دس جون کو صبح سات بجے مینگورہ سے آ کر لاہور ریلوے اسٹیشن پر سب حضرات کے منتظر تھے۔ دس بجتے بجتے مولوی اشفاق یونس بھی اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ ان کا تعلق بکھر کے قریب دریا خان سے ہے، لیکن آپ عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں، اور خاصے سرگرم بھی۔ لیکن اس وقت وہ اپنے علاقے سے ہمارے ساتھ شریک سفر ہو رہے تھے۔ کراچی سے آنے والے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ ٹھیک دس بجے لاہور میں موجود ہوں گے۔چناں چہ ان سے یہی طے ہوا کہ وہ اسٹیشن سے باہر نکل کر حافظ ہوٹل پر ناشتہ کریں گے، جو باہر ہی واقع ہے، اس دوران ہم ان سے ملاقات کے لیے وہیں پہنچ جائیں گے کہ ہمارے سفر کا آغاز اور پہلی منزل اس ہوٹل کے قریب ہی تھی۔

لاہور

لاہور شہر ہے، لیکن لاہور تاریخ ہے، لاہور تہذیب ہے۔ لاہور کی آج سے ۵۰۰ سال پرانی تاریخ ہے، جسے دیکھا جا سکتا ہے، جس سے محظوظ ہو سکتے ہیں، اور اس سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہم ایک بار پھر لاہور یاترا کو نکلے ہیں، ہمارے پاس اس بار بھی چند ہی گھنٹے ہیں۔ لیکن عزم لاہور کی سڑکیں ناپنا اور اس کے کوچے چھاننا ہے۔ لیکن اس سے پہلے لاہور کی تاریخ پر ذرا نظر ڈال لیتے ہیں۔

لاہور کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ ہندوؤں کے پرانوں کے مطابق رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرتسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کر کے اپنے چہیتے غلام ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا، اور لاہور کو اسلام سے روشناس کرایا۔

کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو پرانے زمانے میں لوپور (Lavapur) کہا جاتا تھا، کیوں کہ اسے لو نے آباد کیا تھا،جب کہ اس کے جڑواں بھائی کُش نے قصور کو آباد کیا تھا۔ یہ دونوں لو اور کش ہندو دیوتا رام کے بیٹے تھے۔ ان دونوں کا ذکر ہندو مذہبی کتاب رامائن میں تفصیل سے موجود ہے۔ اس شہر کا پرانا نام لوپور (معنی:لو کا علاقہ/شہر) ہوا کرتا تھا بعد میں اسے لاہور کہا جانے لگا، لاہور دو الفاظ کا مرکب ہے لوہ یا لاہ، اور آور جس کا مطلب قلعہ ہے، یعنی لو کا قلعہ۔

لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا، جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے ۶۳۰ عیسوی میں گزرے تھے۔ راجپوت دستاویزات میں بھی اسے “لوہ کوٹ” یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نویں صدی عیسوی کے مشہور سیاح “الادریسی” نے اسے “لہاور” کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یہ شہر اپنی اوائل تاریخ سے ہی اہمیت کا حامل تھا۔ درحقیقت اس کا دریا کے کنارے پر اور ایک ایسے راستے پر جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کی راہ گزر رہا ہے، واقع ہونا اس کی اہمیت بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس شہر کو زیادہ اہمیت مغل دور میں حاصل ہوئی، اور یہ شہر ۱۵۲۴ء سے ۱۷۵۲ء تک مسلسل مغل حکومت کا حصہ رہا۔ تمام مغل حکم ران خصوصا شاہجہان فن تعمیرات کے حوالے سے معروف تھے۔ ان کے آثار تعمیر پورے ہندوستان میں خوب صورت عمارتوں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ انہوں نے لاہور میں بھی تاریخی اور قابل ذکر مقامات کی بنیاد رکھی، جن میں بادشاہی مسجد سرفہرست ہے، جو اورنگزیب عالمگیر کے دور میں بنائی گئی۔ لاہور مغل دور حکومت میں  ۱۵۸۵ء  سے ۱۵۹۸ء تک سلطنت کا دار الحکومت بھی رہا ہے۔

خیرجناب ہمارے سفر رابطہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ہم لاہور میں ہیں، اور حافظ ہو ٹل پر سب ساتھی ناشتے سے فارغ ہو چکے ہیں۔ ہم طاہر بھائی کے ساتھ وہاں پہنچے۔ طاہر بھائی ہمارے کزن ہیں، اور زمینوں کی خریدوفروخت کے  کاروبار سے وابستہ، قناعت پسند ہیں، تھوڑے کو بہت جانتے ہیں، اور اپنے حال میں مگن رہتے ہیں، دیکھنے والا چاہے اسے ان کی سستی پر محمول کرتا رہے۔ مستقل مزاج بھی ہیں، اس لیے کسی کے کہے کو بہت زیادہ وزن بھی نہیں دیتے۔ لاہور شہر سے خاصے فاصلے پر رائیونڈ روڈ پر رہتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ ان کی گاڑی پر اسٹیشن پہنچے اور انہوں نے مشورے سے گاڑی وہیں اسٹیشن کی پارکنگ میں کھڑی کردی۔ حافظ ہوٹل پہنچے تو ناشتے کا اختتامی دور چل رہا تھا۔ آپس میں ملنے اور خیریت کے تبادلے کا عمل ہوا۔ چند ہی لمحوں میں ہم پیدل اپنے سفر کا آغاز کرچکے تھے۔ ہماری پہلی منزل دائی انگہ کی مسجد تھی۔

مسجد دائی انگہ

مسجد دائی انگہ لاہور شہر میں ریلوے اسٹیشن کے عقب میں واقع ہے۔ اس کی طرف راستہ حافظ ہوٹل کی پشت سے جاتا ہے۔ یہ مسجد ۱۶۳۵ء میں مغل باد شاہ شاہجہان نے دائی انگہ کے اعزاز میں تعمیر کروائی تھی۔ دائی انگہ کا نام زیب النساء تھا۔ یہ شاہجہان کی دایہ تھیں۔ ان کا پورا ہی خاندان مغلیہ سے کسی نہ کسی طور منسلک تھا۔ چناں چہ ان کے شوہر مراد خان نے ریاست بیکانیر میں عہد جہانگیر میں منصف کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔

یہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس کی تعمیر کو آج تقریباً چار سو برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی تعمیر کا حسن اور کاری گری، نفسات و نزاکت آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مسجد کے اندر ایک چھوٹا سا مکتب قائم تھا، جس میں بچے قاعدہ اور ناظرہ قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ باہر بیت الخلا بھی موجود تھے اور وضو خانہ بھی، لیکن یہ بعد کا اضافہ معلوم ہو رہا تھا۔ ہم نے جلدی جلدی اس مسجد کا نظارہ کیا، ایک دو تصویریں لیں اور باہر نکل آئے۔

ویسے یہاں پر دائی انگہ کی نسبت سے ان کا مقبرہ بھی معروف ہے، جو لاہور کے قدیم شہر سے باہر بیگم پورہ کے علاقے میں گلابی باغ میں واقع ہے، اور اسے  ایک تاریخی مقبرے کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر ہم وہاں نہیں جا سکے۔

اس کے بعد ہماری اگلی منزل دہلی دروازہ تھا۔

دائی انگہ کی مسجد سے ہم دہلی دروازے کا عزم کر کے پیدل روانہ ہوئے۔ اس وقت لاہور کا درجہ حرارت چالیس سے زائد تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کم از کم ہم جیسوں کے لیے پیدل چلنے کا موسم تو نہیں تھا، لیکن ہم نے اعلان کیا کہ ہم پیدل ہی چلیں گے، ہمارا رہ نما گوگل میپ تھا، ہم نے پیدل فاصلہ معلوم کیا تو اس نے کوئی بیس بائیس منٹ بتایا، ہم نے خوشی خوشی سفر شروع کر دیا لیکن نیٹ کی فراہمی بھی ظاہر ہے کہ راستے میں مسلسل میسر نہیں تھی۔ اس لیے بروقت ایک دو موڑ کاٹنے میں تاخیر ہوئی، یوں ہمارا سفر طویل ہوتا چلا گیا اور کوئی پون گھنٹے میں ہم دہلی گیٹ پہنچ سکے۔ شاید اس میں کچھ حصہ گوگل میپ کا بھی ہو، وہ بھی جب گھمانے پر آتا ہے، تو بالکل ہی گھماکر رکھ دیتا ہے۔

۲۰۲۲ءیہاں ہماری پہلی منزل شاہی حمام تھا۔ اس کے بعد سنہری مسجد، باولی، گوردوارہ اور مسجد وزیر خان دیکھنے کا ارادہ تھا۔ اس لیے کہ رابطہ ۲۰۲۳ء کا قافلہ بالکل مختلف اور الگ شرکا پر مشتمل تھا، لیکن ہم یہ تمام مقامات پہلے دیکھ بھی چکے تھے اور اپنے گزشتہ سفر نامے میں بیان بھی کر چکے ہیں، اس لیے اس تحریر میں ان کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔

یہاں پہنچنے سے پہلے ہمارے ساتھی گزشتہ سال کے گائڈ یوسف صاحب سے رابطہ کر چکے تھے اور وہ ہمارے منتظر تھے، یوسف سے ہماری گزشتہ سفر میں ملاقات ہوئی تھی، ان کا ذوق بہت اچھا ہے، فارسی اشعار میں بھی دل چسپی رکھتے ہیں، اس وجہ سے فانی سے بھی ان کا رابطہ قائم ہوا اور اویس بھی ان سے رابطے میں تھے۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے تو ہم نے دلی گیٹ کا باہر سے نظارہ کیا اور اس منظر کو اپنے موبائل میں محفوظ کیا، رابطہ کے بینر کے ساتھ ایک یادگاری تصویر لی، اس کے بعد ہمارے گائیڈ ہمیں اپنے دفتر لے گئے جو دہلی دروازے سے داخل ہوتے ہی الٹے ہاتھ کی جانب ہے۔ یہاں موجود بڑے بڑے نقشوں کے ذریعے انہوں نے قدیم شہر لاہور کی حدود، اس کے دروازے، اس کی قدیم تاریخ اور موجودہ صورت حال کو دس پندرہ منٹ کے اندر اختصار مگر جامعیت کے ساتھ بیان کردیا۔

گرمی کی اس شدت میں میں پیاس کا لگنا تو فطری عمل تھا، ہمارے ہاتھ میں پانی کی بوتلیں تھیں، جو ہم ختم کر چکے تھے۔ دفتر کے سامنے ہی ایک صاحب ستو لے ہوئے کھڑے تھے۔ فانی میاں نے کہا کہ آئیے ستو نوش کرتے ہیں۔ ہم نے ان کی تجویز کو بروقت سمجھ کر صاد کیا۔ ستو تیار ہونے میں وقت لگا، دہلی گیٹ کے اندرونی حصے میں قدرے ٹھنڈک تھی، یوں وہاں سستایا جاسکتا تھا، یہ وقفہ اس عمل کے لیے بہت کام آیا۔ ستو کے ایک گلاس نے فوری طور پر گرمی کے اثرات کم کرنے میں بہت مدد دی، اور ہم تازہ دم ہوکر مزید سفر کے لیے تیار ہوگئے۔

اس کے بعد ہمارے سفر کا آغاز ہوگیا ہم نے پہلے نہایت تفصیل کے ساتھ شاہی حمام کا مشاہدہ کیا، پھر ہم قدیم ترین عمارت ہندوستان کمرشل بینک کی طرف آ گئے۔

ہندوستان کمرشل بینک

ہندوستان کمرشل بینک ۱۸۰۵ء میں گوبند رام بلڈنگ میں قائم ہوا۔ گوبند رام کی اس عمارت کی زمینی منزل پر اچار، چٹنی اور شربت وغیرہ کی دکان تھی، اور وہ اپنے پھیلے ہوئے کاروبار کی وجہ سے وہ علاقے کا بہت امیرشخص کہلاتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت اس نے اپنی ساری دولت وہیں چھپا کر انڈیا کی طرف نقل مکانی کی، اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں وہ کسی موقع پر آ کر اپنی ساری دولت نکال کر لے گیا۔

کمرشل بینک آف ہندوستان نے ۱۸۰۵ میں ملک بھر میں اپنی پانچ شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ چناں چہ اس کی پہلی برانچ امرتسر میں، جب کہ دوسری بنگال میں ۱۸۰۹ میں کھولی گئی تھی۔ لاہور میں اس کی برانچ رنگ محل میں قائم ہوئی تھی۔

اس بینک کے سامنے اس زمانے میں بازار ہوا کرتا تھا، جہاں زیادہ دکانیں ہندو سناروں کی تھیں۔ ان دکانوں میں  لوہے کی زمین دوز نہایت وزنی تجوریاں موجود تھیں۔ یہ شہر کی محفوظ ترین جگہیں سمجھی جاتی تھیں۔ لوگ اپنا قیمتی سامان ان تجوریوں میں رکھواتے تھے۔ جن کی حفاظت کے نام پر ہندو دکان دار ماہانہ بنیادوں پر کچھ رقم وصول کرتے تھے۔ جب کہ یہ ہندو دکان دار اس سامان کو، جو عام طور پر قیمتی زیورات پر مشتمل ہوتا تھا، اس کمرشل بینک میں رکھوا کر اس پر سود الگ سے کھاتے تھے، جب کہ دوسری جانب مالکان سے حفاظت کے اخراجات الگ سے وصول کرتے تھے یوں ہندو دکاندار اپنے اس عمل کے ذریعے دوہرے فائدے اٹھاتے تھے۔

آج سے کوئی سوا دو سو سال پرانی یہ عمارت پورے شکوہ کے ساتھ موجود ہے، اور دعوت نظارہ دے رہی ہے۔البتہ اہل ایمان نے شاید قریب میں موجود کسی مسجد کے اسپیکر اس بلند عمارت کی چوٹی پر نصب کرکے اسے اسلامیانے کی سعی فرمادی ہے۔

اس تاریخی عمارت سے گزرتے ہوئے ہم نے پہلے لاہور کے پرانے حصے کو دیکھا اور خاص طور پر ان تنگ گلیوں کا مشاہدہ کیا جن کے بارے میں حضرت یوسفی فرما چکے ہیں کہ ان گلیوں میں اگر آمنے سامنے سے ایک مرد اور عورت آجائیں تو نکاح کے سوا کوئی صورت نہیں بچتی۔ پھر ہم سنہری مسجد کی طرف گئے۔ وہاں سے ہم نے سکھوں کی مقدس باؤلی کا رخ کیا۔ یہاں سے نکل کر ہم انہیں قدیم گلیوں اور کوچوں میں ایک جگہ واقع محمود غزنوی کے نمائندے اور پسندیدہ شخصیت ایاز کے مقبرے کی طرف گئے۔ وہی ایاز اور وہی محمود غزنوی جن کی نسبت سے اردو میں محمود و ایاز کی ترکیب آج تک استعمال ہوتی آرہی ہے۔

ایاز

ایاز محمود غزنوی کا محبوب غلام اور مشیرتھا، اس کا پورا نام ابوالنجم احمد ایاز بیان کیا گیا ہے۔ اس کی زندگی بڑی سادہ اور کفایت شعارانہ تھی۔ وہ دور حکومت سے قبل کا لباس بھی یادگار کے طور پر محفوظ رکھتا، اور جب کبھی اس یادگار کو ملاحظہ کرتا تو ایاز قدر خود بہ شناس کہتا، یعنی ایاز تو اپنی ماضی کی حیثیت کو بھول نہ جانا۔ مورخین کا خیال ہے کہ وزیرآباد کے قریب سوہدرہ نامی قصبہ بھی اسی ایاز نے آباد کیا تھا۔ ایاز ۱۰۳۶ء کے لگ بھگ لاہور کا صوبیدار مقرر ہوا۔ اور یہیں وفات پائی۔ اس کا مزار چوک رنگ محل میں ہے۔

ایاز کے خاندان، اس کے ماضی، اس کی ولادت اور وفات کے بارے میں ایک سے زائد روایات ہیں، حتی کے اس کے مزار کے بارے میں بھی لاہور کے علاوہ صوابی کی روایت بھی موجود ہے۔ صوابی میں اس کی بنائی ہوئی مسجد کے آثار ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔

مجالس العشاق کے مطابق ۳۹۷ھ میں غلام فروشوں کی ایک جماعت نے سلطان کے لیے ۱۲۰ غلام پیش کیے اور ایک روایت کے مطابق ایاز کو اس کی خوب صورتی کے باعث ان سب میں پہلے منتخب کیا گیا۔

اسی طرح ایاز کو لاہور کا پہلا حاکم بھی کہا جاتا ہے لیکن غزنوی دور میں لاہور کے اولین صوبہ داروں میں عبد اللہ فراتگین اور حاجب اریاروق کے نام بھی ملتے ہیں۔ ایاز لاہور میں کب آیا اس کے متعلق مورخین کا اختلاف ہے۔ بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ ایاز کو لاہور کا منتظم محمود غزنوی نے فتح لاہور  کے بعد خود بنایا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ محمود جب غزنی لوٹ گیا تو یہ شہر چند سال ویران پڑا رہا۔ پھر جب ایاز پنجاب کا حاکم بنا، تب اس نے یہ شہر از سر نو آباد کیا۔

یہ مزار انتہائی تنگ جگہ پر واقع ہے، اور انتہائی مختصر سے رقبے پر موجود ہے، جہاں ایک وقت میں چند لوگوں سے زیادہ افراد کے لیے کھڑے ہونا بھی ممکن نہیں۔ ہم لوگ بھی باری باری ہی اندر جا سکے، سب ساتھیوں نے باری باری اندر جاکر مزاج کی تعمیرات کا نظارہ کیا، اس کے شکوہ سے محظوظ ہوئے، فاتحہ پڑھی اور فوراً لوٹ آئے۔

موسم سخت گرم تھا، ہمارے ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں تھیں، جو بہت کم وقت میں ختم ہو جاتی تھیں، اس دوران ہم نے دو تین بار مختلف نوعیتوں کے مشروب بھی استعمال کیے، لیکن گرمی کی شدت، لاہور کی گلیوں اور پیدل سفر نے مل کر ایسی حدت پیدا کردی تھی، جسے کم کرنے میں کوئی مشروب کام یاب نہیں تھا۔ ایک اور مشکل بھی ہمیں پیش آرہی تھی۔ پانی کی ٹھنڈی بوتلیں ہر جگہ دست یاب نہیں تھیں، کہیں تھیں تو بڑی بوتلیں ہیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں کوئی معروف نہیں۔ سب مقامی برانڈ۔ خیر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہمیں کچھ میسر آ ہی جاتا تھا۔

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن

ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، دعوہ اکیڈمی کے ریجنل سنٹر، کراچی کے انچارج اور شش ماہی السیرۃ عالمی کے نائب مدیر ہیں۔

syed.azizurrahman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں