ابو الحسین آزاد
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں عظمت اور عبقریت کے عجیب و غریب اور نادر پہلو جمع ہو گئے ہیں۔ آپ صرف اُن کے قبولِ اسلام ہی کو لے لیجیے۔ ابتدائے اسلام کاوہ زمانہ جب قریش کی ساری سیاسی اور اقتصادی اشرافیہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہے اور انھیں نظر آرہا ہے کہ یہ نیادین کس طرح سے ہماری ارسٹوکریسی اور تھیوکریسی کے لیے پیغامِ رحیل ثابت ہو گا اور جلد ہی ہماری باطل عظمتوں کے قصر چکنا چور ہو کر زمین پر جا گریں گے۔ خصوصیت سے بنو امیہ جن کی بنو ہاشم سے خاندانی رقابت نے مخالفت کی اس آگ کو مزید دو آتشہ کر دیا تھا۔ عین اسی بنو امیہ کا ایک جلیل القدر فرزند اپنا سب کچھ پیغمبرِ خدا کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔ایک غریب یا کمزور آدمی کی بہ نسبت یہاں اشرافیہ کے لیے اسلام میں دلچسپی کے اسباب بہت تھوڑے تھے اور خطرات بہت زیادہ تھے۔
حضرت عثمان کے قبول اسلام کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے کہ ایک طرف شرف، عزت، سرداری اور وقار کھڑے ہیں جب کہ دوسری طرف نسبتاً ایک غریب اور رقیب قبیلے کا فرد آواز لگا رہاہے: میری غلامی میں آجاؤ، فلاح پاجاؤ گے۔ حضرت عثمان دیکھ رہے ہیں کہ لا الہ کا یہ اقرار اپنے ساتھ کیا کچھ طوفان اور سونامیاں لے کر آئے گا لیکن اُن کے اندر کا حق پرست ایک لمحے کے لیے بھی تذبذب کا شکا رنہیں ہوتا، ادھر انھیں صدیقِ اکبر کی دعوتِ صدق وصفا پہنچتی ہے اور اُدھر وہ لبیک، لبیک کی ندا لگاتے دارِ ارقم میں حاضر ہو جاتے ہیں۔عباس محمود عقاد لکھتے ہیں:
فمنھا نفھم أن فضل عثمان في إسلامه لا يدانيه أحد من السابقين المعدودين إلى الإسلام؛ إذ لم يكن منهم من أقامت أسرته بينها وبين النبي هذه الحواجز العريقة من المنافسة والملاحاة. (عبقرية عثمان ٤٥)
اس قبولِ اسلام کا ردعمل جو کچھ ہونا تھا وہ ظاہرہے۔ اُن کے چچا نے انھیں جس طریقے سے تنگ کیا اور تکلیفیں دیں وہ مشقتوں کے عادی شخص کے لیے تو پھر بھی کچھ سہل ہو سکتی ہیں لیکن سرادری اور ثروت میں پلنے والے عثمان کو جس جسمانی اور نفسیاتی کرب سے گزرنا پڑا ہو گا میں اور آپ صرف اس کا سوچ ہی سکتے ہیں۔اُنھیں قریش سے اتنی ایذا رسانی پہنچی کہ وہ مدینہ کی ہجرت سے بھی بہت پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
مدنی زندگی میں حضرت عثمان جس طرح بڑھ چڑھ کر اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں وہ عظمت کا ایک مستقبل باب ہے۔ وہ مسجد کے لیے زمین خرید تے ہیں، اہلِ مدینہ کے لیے کنواں خریدتے ہیں اور تبوک جیسے عُسرت اور تنگی کے زمانے میں اپنی دولت کے ڈھیر بارگاہِ رسالت کی چوکھٹ پہ رکھ دیتے ہیں۔ اُن کے اِس عمل کی قبولیت اور عظمت کا اندازہ ذرا اُس مسرت اور خوشی سے لگائیے جو اُس وقت حضور رسالت مآبؐ کے چہرے پر کھیل رہی تھی اور آپ عثمان کے صدقے کو اچھال اچھال کر فرمارہے تھے: ما ضر عثمان ما عمل بعد اليوم. آج کے بعد عثمان کا کوئی عمل اُسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔
اوراُن کو شہادت کو دیکھیے تو جیسے ذبحِ عظیم کی تفسیر سامنے آگئی ہو۔یہاں ہمیں اُ ن کی شخصیت میں عقیدے کی عجیب وغریب تاثیر نظر آتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں محافظ اُن کے گرد کھڑے ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرتے کہ اُن کے ہاتھ پر کسی مسلمان کا خون لگے یا وہ، وہ پہلا شخص بنیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم کی حرمت کو پامال کرے۔ہم بعد کے ادوار میں دیکھتے ہیں کہ خلفاء نے کس طرح ادنی سے ادنی مزاحمت کرنے والوں کے سروں کو بھی نیزوں میں پرو کر نشانۂ عبرت بنایا لیکن حضرت عثمان دیکھ بھی رہے ہیں کہ شہادت اُن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اور باغیوں کی شورش کی آگ اُن کی معزولی یا اُن کے خون کے علاوہ کسی تیسری چیز سے نہیں بجھنے والی، یہاں کون سی آڑ ہے جو عثمان کو حرہ، کربلا اور کوفہ برپا کرنے سے روک رہی ہے۔ یہ عقیدے کی قوت ہے۔وہ ایک طرف خلافت کی اُس قمیص کی بھی حفاظت کر رہے ہیں جو اللہ نے انھیں پہنائی ہے اور رسول اللہ نے انھیں اُسے پہنے رکھنے کی تلقین کی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کے خون کی بھی حفاظت کر رہے ہیں۔ وہ اگر محض اپنی حکومت کے طالب ہوتے تو بھلا جان کیوں دیتے؟ مرنے کے کون سی خلافت باقی رہ سکتی تھی؟
آپ نے عقیدے کی حفاظت کی خاطر قربانی دینے والے بہت لوگ دیتے ہیں لیکن یہاں پر عقیدے کی عطا کردہ تعلیم پر عمل پیرا ہونے کی خاطر حضرت عثمان اپنے خون کی قربانی دے رہے ہیں۔ اُن کا عقیدہ، اُن دین اور اُن کا ایمان انھیں یہ بتاتا ہے کہ کسی مسلمان کا خون نہیں بہانااور رسول اللہ کے حرم کی حرمت پامال نہیں کرنی بھلے اپنی جان بھی چلی جائے۔عباس محمود عقاد لکھتے ہیں:
وكان الخير فيه ذلك الإيمان الصادق الذي صمد به شيخ في التسعين للكرب المحيق به، وهو ظمآن محصور في داره بغير نصير، ولو شاء لكان له ألوف من النصراء، يريقون البحار من الدماء حيث عزت قطرة الماء. (عبقرية عثمان ١٦٧)
”اس حادثہ میں خیر (اور سبق) یہ ہے کہ ایمانِ صادق جب اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو ایک نوے سالہ بوڑھا شخص جس کو ہر طرف سے گھیرلیا گیا اور گھر میں محصور کردیا گیا ہے، وہ تنہا اور بے یار و مددگار رہتا ہے لیکن اپنے لیے کسی کی جان کو خطرہ میں نہیں ڈالتا، حالاں کہ اگر وہ چاہتا تو اُس کے ہزاروں جاں نثار اُس جگہ جہاں پانی کا ایک قطرہ ملنا دشوار ہوگیا تھا خون کی ندیاں بہا دیتے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو الحسین آزاد جامعہ دار العلوم کراچی میں شریک دورہ حدیث ہیں۔
کمنت کیجے