ایک مذہبی ٹی وی چینل کی طرف سے حالیہ قضیے کے متعلق میرے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے رابطہ کیا گیا۔ جو مختصر موقف ریکارڈ کروایا گیا، وہ چینل کی صواب دید کے مطابق اپنے وقت پر نشر کیا جائے گا یا پھر نہیں کیا جائے گا۔ بنیادی نکتہ یہ عرض کیا گیا کہ ہمارے آئین اور قانون میں دو چیزوں کی ضمانت موجود ہے:
ایک یہ کہ احمدی کمیونٹی، مسلمانوں سے الگ ایک مذہبی گروہ ہے جو خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا اور نہ اسلامی شعائر کے اظہار سے عام مسلمانوں کو دھوکے اور اشتباہ میں ڈال سکتا ہے۔ اسی مقصد سے تعزیری قانون سازی بھی کی گئی ہے۔
دوسری یہ کہ بطور ایک مذہبی اقلیت کے احمدیوں کو بھی دیگر تمام اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کے احکام ورسوم بجا لانے کا حق حاصل ہے، یعنی ان کو غیر مسلم قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق جو اعمال وشعائر ان کے مذہب کا حصہ ہیں، ان پر عمل کے حق سے وہ محروم ہیں۔
ان دونوں آئینی ضمانتوں پر بیک وقت عمل کی صورت یہی ہے کہ احمدیوں کو اپنے نجی دائرے میں مذہبی آزادی حاصل ہو اور ان کے مذہبی اعمال ورسوم میں کوئی مداخلت نہ کی جائے، جبکہ عام مسلمانوں کے سامنے یعنی پبلک ڈومین میں ان شعائر کے اظہار سے وہ اپنے مسلمان ہونے کا التباس پیدا نہ کر سکیں۔ یہی آئینی تشریح وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے بھی کی ہے اور یہ بالکل واضح اور معقول تشریح ہے۔
البتہ احمدیوں کو دی گئی اس آزادی سے اگر ضمناً پھر بھی مسلمانوں کے لیے اشتباہ والتباس کے کچھ امکانات نکلتے ہیں تو یہ دائرہ علماء اور مذہبی اداروں یا تنظیموں کے کردار ادا کرنے کا ہے۔ وہ پہلے بھی مسلمانوں پر واضح کرتے چلے آ رہے ہیں کہ احمدیوں کو مسلمان امت، مسلمان شمار نہیں کرتی اور اب بھی یہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آئین اور قانون میں دی گئی ضمانتوں کی نفی کرنا درست نہیں ہے اور نہ احمدیوں کی عبادت گاہوں یا ان کی اپنی خاص بستیوں میں جا کر انھیں اسلامی شعائر سے روکنے کی مہم چلانا کوئی معقول یا قابل عمل طریقہ ہے۔
علماء اور مذہبی تنظیموں کا کردار اس کے بغیر بھی موثر ہے اور مثال کے طور پر انڈیا یا انڈونیشیا جیسے ممالک میں جہاں احمدیوں کی تکفیر کے حوالے سے کوئی ریاستی قانون سازی موجود نہیں، یہ مقصد سماجی سطح پر مذہبی اہل علم اور اداروں کے کردار ہی کی بدولت کامیابی سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس اصرار یا خوف کی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں علماء سماجی سطح پر یہ ذمہ داری ادا کریں تو وہ موثر نہیں ہوگی اور اس کے لیے آئینی ضمانت کی ہی نفی کرنا ضروری ہے۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم
کمنت کیجے