ابوسعد اعظمی
مولانا محمدسعود عالم قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ دار العلوم دیوبند سے فضیلت، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے قلمی تربیت اور یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات سے اعلیٰ تعلیم کاحصول کیا ہے۔ تحریر وتقریر دونوں پر قدرت ہے۔آواز میں عجیب سوز، درد اور تاثیر ہے۔ خطابت کے زیر وبم اور الفاظ کی ساخت سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان کی تقریریں بڑی شوق سے سماعت کی جاتی ہیں۔ان کی تصانیف کی تعداد تیس سے زائد ہے۔
زیر تعارف کتاب ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں شعبۂ دینیات نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا ہے۔مختلف سرکردہ شخصیات نے اس کام کی ستائش کی ہے۔اسے عمدہ کاوش،محنت، بالغ نظری اور تنقیدی تجزیہ پر مبنی قرار دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اس طرح کا معیاری تحقیقی کام شاذ ونادر ہی ہوتا ہے، یہ مقالہ دنیائے علم میں یقینی طور پر ایک طبع زاد اضافہ ہے۔(ص179)مولانا محمد سعود عالم قاسمی نے اپنے اس تحقیقی مقالہ میں شرح وبسط کے ساتھ شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے نہ صرف یہ کہ بعض قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں بلکہ بہت سی مشہور اور زبان زد عام باتوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔
یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول شاہ ولی اللہ سے بیشتر کے فارسی تراجم وتفاسیر کا اجمالی جائزہ کے عنوان سے ہے۔اس میں دو فصلیں ہیں۔ فصل اول میں بیرون ہند میں فارسی تراجم وتفاسیر کا تعارف کرایا گیا ہے جب کہ فصل دوم میں ہندوستانی فارسی تراجم وتفاسیر کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ عام طور پر شاہ ولی اللہ کے ترجمہ کو فارسی زبان کے اولین ترجمہ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور اس راہ میں علماء کی شدید تنقیدوں کا بھی خوب حوالہ دیا جاتا ہے،لیکن مولانا قاسمی کی فراہم کردہ ان تفصیلات سے وہ بنیادیں مسمار ہوجاتی ہیں اور واضح ہوجاتا ہے کہ فارسی میں تراجم قرآن کی تاریخ بہت قدیم ہے۔انھوں نے صرف ہندوستان کی ایسی تقریباً 34 فارسی تراجم وتفاسیر کا ذکر کیا ہے جو شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے قبل تحریر کی گئی تھیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ ہندوستان میں قرآن کی فارسی تفسیر کی روایت آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے۔ (ص28)
دوسرے اور تیسرے باب میں شاہ ولی اللہ کے حالات زندگی اور ان کی علمی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں تدریس کے ساتھ قرآن، حدیث، فقہ، علم کلام، تصوف، سیرت، تدوین علوم کے باب میں ان کی خدمات کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے نیز ان تصانیف کا بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے جو ان کی طرف غلط طور پر منسوب کردی گئی ہیں۔
باب چہارم میں قرآنی علوم پر شاہ ولی اللہ کی تصانیف کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور اس ضمن میں الفوز الکبیر، فتح الخبیر بما لا بد حفظہ فی علم التفسیر، تاویل الاحادیث، زہراوین اور المقدمۃ فی قوانین الترجمہ کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے اور زہراوین کے سلسلہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ شاہ ولی اللہ کی تصانیف میں اس کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر اس کے مطبوعہ ومخطوطہ کسی ایک نسخہ کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے۔تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیاء کے حوالہ سے فاضل محقق نے معجزات کے سلسلہ میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار اور اس طرح کے واقعات کی عقلی توجیہ وتاویل کاعمدہ تعارف پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “شاہ صاحب کی بعض تاویلیں عمدہ ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کی تائید قرآن وسنت سے نہیں ہوتی مثلاً انفلاق بحر کا مذکورہ واقعہ۔ شاہ صاحب کی یہ تاویلیں قرآن فہمی کے لیے کس حد تک معاون ہوسکتی ہیں اور معجزات کی سلفی تعبیر وتاویل سے کہاں تک ہم آہنگ ہیں یہ ایک قابل غور بات ہے، اس کتاب کے مقبول عام نہ ہونے کی ایک وجہ اس کا یہ پہلو بھی ہے”۔ (ص96)
باب پنجم میں فتح الرحمان بترجمۃ القرآن کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ترجمہ کے محرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک تاریخی غلط فہمی (کہ اس ترجمہ کی اشاعت کی وجہ سے شاہ صاحب کی مخالفت کی گئی اور ان پر قاتلانہ حملے ہوئے) کا ازالہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فتح الرحمان کی خصوصیات شمار کرائی گئی ہیں نیز مختلف ذیلی عناوین مثلاً ایک سے زیادہ معانی میں ترجیح، فقہی نکات کا لحاظ، موقع کلام کی رعایت، ترجمہ میں تنوع، ترجمہ کی ندرت وغیرہ سے بحث کی گئی ہے اور ان سب کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
باب ششم میں حواشی فتح الرحمان کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس کے امتیاز پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ”اس حاشیہ کا سب سے بڑا امتیاز اختصار اور جامعیت ہے۔ شاہ صاحب نے قرآن کے مطالب کو سمجھانے کے لیے حاشیہ پر چند الفاظ لکھ کر مفہوم کو کھول دیا ہے” (ص122) فاضل محقق کا خیال ہے کہ “یہ حاشیہ مولف کی قرآن فہمی کا بڑا ثبوت فراہم کرتا ہے اور ان کے تفسیری رجحان کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ شاہ صاحب نے اس میں مروجہ تفسیری اقوال سے اختصار کے ساتھ تعرض کیا ہے اور حسب موقع اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ شان نزول، ربط آیات، ناسخ ومنسوخ، فقہی احکام اور تمثیلات ومحاکات پر گفتگو کی ہے۔ گویا قرآن پڑھتے وقت ایک طالب علم کو جن ضروری چیزوں سے واقف ہونا چاہیے شاہ صاحب نے کم وبیش ان کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ یہ حاشیہ مطالعہ قرآن کا رہنما اصول ہے”۔ (ص122) ان حواشی میں بعض مواقع پر شاہ صاحب نے فقہ اربعہ سے قطع نظر اپنے ذاتی رجحان کا اظہار کیا ہے۔ چہرہ کے پردہ کے سلسلے میں آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “زینت کے مقامات دو طرح کے ہیں ایک تو وہ جس کے چھپانے میں حرج ہے اور وہ چہرہ اور ہتھیلی ہے دوسرے وہ جس کے چھپانے میں حرج نہیں ہے مثلاً سر، گردن، بازو، بانہہ اور پنڈلی۔ چنانچہ چہرہ اور ہتھیلی کا دوسروں کے سامنے چھپانا فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے اور ان کے علاوہ دیگر مذکورہ چیزوں کا چھپانا اجنبیوں کے سامنے فرض ہے لیکن محرموں کے سامنے فرض نہیں ہے” (ص128) شاہ صاحب تدبر وتفکر کے نتیجہ میں عام مفسرین سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ فاضل محقق نے اس کی متعدد مثالیں نقل کی ہیں۔اسی طرح ان کی انفرادیت کے بعض پہلووں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس سیاق میں ان کی تفسیری معنویت، ربط آیات اور نظم قرآن، الفاظ کی تحقیق، اسرائیلی روایات کے بارے میں موقف اور شان نزول وغیرہ کے ذیلی عناوین سے گفتگو کی گئی ہے ۔اسرائیلی روایات کے بارے میں ان کے موقف کا تجزیہ کرتے ہوئے فاضل محقق نے ایک واقعہ کے ضمن میں ان کی رائے نقل کرکے ان کے تسامح کی طرف بایں الفاظ اشارہ کیا ہے کہ “ہر چند یہاں شاہ صاحب نے عصمت نبی کو بچانے کی کوشش کی ہے مگر حدیث کے حوالہ سے مذکورہ واقعہ لکھ کر آیات کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جو بالعموم بتایا جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو تین وجوہ کی بنا پر معلوم قرار دیا ہے” (ص150) حدیث کا جائزہ لینے کے بعد مولانا قاسمی کا یہ تبصرہ ملاحظہ ہو: “دین کے مزاج کا تقاضا ہے کہ معیار نبوت کو گرانے کے بجائے روایت کے سقم کو قبول کرلیا جائے اور اس موقع پر شاہ صاحب کمزور محسوس ہوتے ہیں”۔ (ص151) خلاصۂ کلام ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے کہ”شاہ صاحب نے قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کی جو کوشش کی ہے وہ بعد کی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔۔۔شاہ صاحب نے جس طرح طبری ورازی، زمخشری وغزالی اور سیوطی وسمرقندی جیسے عظیم مفسرین کی نگاہوں سے قرآن کو دیکھنے اور ان کی آراء پر بھروسہ کرنے کےبجائے از خود قرآنی آیات کی تہوں تک پہنچنے کی ہمت کی ہے اس میں بعد کے اہل علم کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ بھی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اللہ کی نازل کردہ کتاب میں غور وفکر کے لیے استعمال کریں”۔(ص158)
کتاب کے آخر میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تقریباً دو سو کتابوں کا حوالہ ہے، نیز کتاب میں مذکورہ اعلام کا اشاریہ بھی تیار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شروع میں واضح کیا گیا کہ کتاب کو مختلف علماء ودانش وران نے بحث وتحقیق کا عمدہ نمونہ قرار دیاہے۔ آخر میں کتاب سے متعلق چند ارباب علم وفضل کے تاثرات کو بھی نقل کردیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو سعد صاحب انڈیا کے باشندے اور علی گڑھ کے ادارہ علوم القرآن کے رفیق ہیں ۔
کمنت کیجے