سجیل کاظمی
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کیا آپ کے فیصلے آزاد ہیں؟ بہت سے دوستوں کا یہی جواب ہوگا کہ یہ کیسا سوال ہوا بلکل ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں جو چاہے کرسکتے ہیں لیکن اگر ان سے سوال کیا جائے کہ آپ کیسے جانتے ہیں کہ آپ آزاد ہیں؟ تو ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کیونکہ ہمیں فیصلہ لیتے ہوئے یہ بلکل محسوس نہیں ہوتا کہ ہم یہ فیصلہ زبردستی لے رہے ہیں بلکہ ہم خود اپنی مرضی اور حالات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ اس نظریے کہ ہمارے سارے فیصلے مکمل آزاد ہے اور ان پر علت و معلول کا اصول اپلائی نہیں ہوتا کو “فری وِل” کہا (Free will) جاتا ہے لیکن اگر ہم احساسات سے بالاتر ہوکر دیکھے اور ان باتوں کو عقل کے تناظر پر دیکھا جائے تو سوائے اس بات کے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم آزاد ہیں کیا فری ول کے حق میں کوئی مضبوط دلیل ہے؟ آزاد مرضی (Free will) ہی کے مخالف ایک اور نظریہ ہے جسے ہم ڈٹرمنزم (Determinism) کہتے ہیں جس کے مطابق ہمارے تمام اعمالِ فطرت کی طرح ہمارے فیصلے بھی علت و معلول کے ذریعے ہی لیے جاتے ہیں اور جو ہمیں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے خود لیا ہے یہ صرف ایک دھوکا ہے جو ہمارا دماغ ہمیں دیتا ہے۔
مثال سے سمجھتے ہیں کہ جیسے آپ کو اگر بریانی پسند ہے اس کی علت (cause) ہوسکتی ہے کہ آپ کے ابھی تک کے بریانی کے ساتھ تجربات اچھے ہی رہے ہیں پھر آپ کے بریانی کے ساتھ اچھے تجربات رہنے کے پیچھے کی علت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کی امی کھانا اچھا پکاتی تھی وغیرہ۔ اس طرح ڈٹرمنزم (Determinism) کے مطابق آپ کے ہر فیصلے کے پیچھے ماضی میں ایک علت موجود ہوتی ہے جس نے کسی نہ کسی طرح آپ کے حالات پر یا آپ کے ذہن پر ایسا اثر ڈالا ہوتا ہے کہ آپ کوئی فیصلہ لیتے ہو۔
ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ فیصلہ آپ لے رہے ہو لیکن اس میں آپ کی پرورش، آپ کے ماحول اور آپ کا ماضی شعوری یا لاشعوری طور پر اس پر اثرانداز ہورہے ہیں اور وہی فیصلہ لیتے ہو جیسا یہ تمام چیزیں آپ پر اثر ڈالتی ہیں۔
– ڈٹرمِنزم کی اقسام
(Types of Determinism)
1) کوزل ڈٹرمنزم (Causal Determinism)
یہ ڈٹرمنزم کی سب سے مشہور قسم ہے، جس کی مثال اوپر بھی دی گئی اس کے مطابق انسان کے تمام فیصلے ان کے پیچھے موجود علتوں (Causes) کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
2) تھیولوجیکل ڈٹرمنزم (Theological Determinism)
ڈٹرمنزم کی یہ قسم مذہبی عقائد پر مبنی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام واقعات بشمول انسانی اعمال، کسی الٰہی طاقت یا اعلیٰ ہستی کی طرف سے پہلے سے طے شدہ ہیں۔ تھیولوجیکل ڈیٹرمنزم بتاتا ہے کہ انسانوں کے پاس حقیقی آزاد مرضی یعنی فری وِل نہیں ہے کیونکہ ان کے اعمال بالآخر ایک اعلیٰ ہستی کی مرضی کے تابع ہیں۔
3) انوایرومنٹل ڈٹرمنزم
(Environmental Determinism)
ڈٹرمنزم کی یہ قسم انسانی رویے پر بیرونی ماحول کے اثر و رسوخ پر زور دیتی ہے۔ یہ دلیل دیتا ہے کہ ہمارے اعمال اور انتخاب ہماری پرورش، سماجی حالات، ثقافتی اصولوں اور ماحولیاتی عوامل جیسے سماجی اقتصادی حالات اور تعلیمی مواقع سے تشکیل پاتے ہیں۔
4) بایولوجییکل ڈٹرمنزم (Biological Determinism)
ڈٹرمنزم کی یہ شکل بتاتی ہے کہ انسانی رویے کا تعین بنیادی طور پر حیاتیاتی عوامل جیسے جینیات (genes)، نیورو کیمسٹری (neurochemistry)، اور ارتقائی عمل (evolution) سے ہوتا ہے۔
یہ دلیل دیتا ہے کہ ہمارے اعمال، خیالات اور جذبات ہمارے جینیات اور حیاتیاتی رجحانات سے متاثر ہوتے ہیں۔
– ڈٹرمنزم کے حق میں دلائل
(Arguments in the favor of Determinism)
۱) پہلی دلیل جو ڈٹرمنزم کے حق میں دی جاتی ہے کہ ڈٹرمنزم علت و معلول جو کہ عقلی طور پر اور تجرباتی طور پر درست ہے کے عین مطابق ہے اور اگر دنیا کی ہر چیز کی علت ہوتی ہے تو انسان بھی تو اسی دنیا کا حصہ ہے تو اس کے فیصلوں کی علت ہونا بھی لازمی ہے۔
۲) دوسری دلیل سائنسی علوم کو بنیاد بنا کر دی جاتی ہے کہ نیورو سائنس میں ہمیں یہ بات پتہ لگ چکی ہے کہ دماغ میں ہونے والے کچھ خاص کیمیائی بدلاؤ انسان کی فیصلے پر اور احساسات پر کیسا اثر ڈالتے ہیں اور ظاہر ہے وہ کیمیائی ردعمل جن کیمسٹری کے جن قوانین کے تحت ہوتے ہیں وہ بھی ڈٹرمائند ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح نفسیات کے مطابق بھی لاشعور میں بیٹھی چیزیں اور ہمارے دماغ کا اسٹرکچر ہمارے فیصلوں میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
۳) تیسری دلیل لاء آف کنزرویشن آف انرجی کے تحت دی جاتی جس کے مطابق توانائی نہ پیدا کی جاسکتی ہے نہ تباہ بس ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو توانائی کائنات کی ابتداء کے وقت موجود تھی، وہی کائنات میں ہونے والے تمام کاموں کے پیچھے کسی دوسری شکل میں کارفرماں ہے۔ اگر اسی بات کو ہم انسان کے فیصلہ لینے کے عمل کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے تمام فیصلے اور خیالات آخرکار الیکٹروکمیکل اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور ان اعمال میں نیورل نیٹ ورک میں توانائی کی تبدیلی اور منتقلی بھی شامل ہوتی ہے تو اگر دماغ فزکس کے لاز مطابق کام کرتا ہے تو ہمارے فیصلے ایک بار پھر ڈٹرمائنڈ ہوجاتے ہیں۔
– ڈٹرمنزم کے خلاف دلائل
(Arguments against Determinism)
۱) ڈٹرمنزم کے خلاف آنے والی پہلی دلیل یہ ہے کہ ڈیٹرمنزم کو حیاتیاتی نظاموں میں مشاہدہ شدہ ارتقائی عمل اور موافقت کی وضاحت کرنے میں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ارتقاء تغیرات، انتخاب، اور بدلتے ہوئے ماحول سے موافقت پر انحصار کرتا ہے۔ اگر تمام واقعات پہلے سے طے شدہ ہیں، تو حقیقی تبدیلیوں اور بے ترتیب تغیرات کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جو ارتقائی عمل کو چلاتے ہیں۔
۲) دوسری دلیل کوانٹم انڈیٹرمینیسی کو بنیاد بنا کر دی جاتی ہے کہ حقیقت کی بنیادی سطح پر، کوانٹم فزکس غیر یقینی کے تصور کو متعارف کراتی ہے۔ کوپن ہیگن انٹرپرٹیشن کے مطابق، سب ایٹومک پارٹیکلز کا طرز عمل فطری طور پر امکانی (probabilistic) ہوتا ہے، جو تجویز کرتا ہے کہ ڈٹرمنزم بنیادی سطح پر نہیں ہو سکتا۔ اگر کوانٹم واقعات واقعتاً انڈٹرمنزم ہیں، تو یہ میکروسکوپک دنیا میں ڈٹرمنزم کے لاگو ہونے کے بارے میں بھی سوالات اٹھ جاتے ہیں۔
۳) تیسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ڈٹرمنزم کا مطلب ایک سخت causal سلسلہ ہے جہاں ہر واقعہ کی ایک متعین علت ہوتی ہے۔ تاہم، انسانی تخلیقی صلاحیتیں سخت قسم کے ڈٹرمنزم کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تخلیقی عمل، جیسے کہ فنکارانہ تخلیق یا سائنسی دریافت، نئے خیالات اور طریقے کار کا پیدا پونا، یہ سب دیکھ کر نہیں لگتا کہ ان چیز کے اسباب پہلے سے متعین ہونگے۔
۴) ایک اور اعتراض جو ڈٹرمنزم کی مخالفت میں اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ڈٹرمنزم فری ول کے خیال کو چیلنج کرتی ہے اور تمام اعمال کی وجہ ان کے پیچھے موجود علتوں کو قرار دیتا ہے تو اگر تمام اعمال اسباب سے پہلے سے طے شدہ ہیں، تو افراد اپنے انتخاب اور اعمال کے لیے صحیح معنوں میں ذمہ دار نہیں ہیں۔ اخلاقی ذمہ داری کا تصور مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، کیونکہ افراد مختلف انتخاب کرنے یا اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کا جواب ڈٹرمنزم کے حامی سوفٹ ڈٹرمنزم یا کمپاٹیبلازم کی صورت میں دیتے ہیں۔
– سوفٹ ڈٹرمنزم/کمپٹبلزم
(Soft Determinism/Compatibilism)
اب تک ہم نے جس ڈٹرمنزم کی بات کی جس کے مطابق فری ول صرف ایک دھوکا ہے اسے ہم “ہارڈ ڈٹرمنزم” (Hard Determinism) کہتے ہیں۔
اب سوفٹ ڈٹرمنزم کیا ہوتا ہے؟ سوفٹ ڈٹرمنزم جس کے مطابق ہمارے فیصلوں کی علت تو ہوتی ہے لیکن فری ول بھی موجود ہے۔ سوفٹ ڈٹرمنزم والے فری ول کے تصور کو ہی مختلف طریقے سے سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق فری ول بنا کسی اثر کے فیصلہ لینے نہیں بلکہ بنا کسی بیرونی اثر کے فیصلہ لینا ہے۔ یعنی اگر آپ کو چوری کی عادت اس وجہ سے لگی ہے کہ آپ کا ماحول ایسا تھا جس میں چوری عام سی بات تھی اور اس نے آپ کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا پھر بھی کیونکہ اب چوری کرنے کا فیصلہ آپ کرتے ہیں چاہے اس میں آپ کی نفسیاتی حالت اور ماحول کا اثر ہے آپ چوری کے لیے ذمہ دار ہیں۔ چونکہ یہ ڈٹرمنزم اور فری ول میں مفاہمت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے اسے ہم کمپٹبلزم (Compatibilism)
بھی کہتے ہیں۔
– کمپٹبلزم کی اقسام
(Types of Compatibilism)
1) کلاسیکل کمپٹبلزم (Classical Compatibilism)
یہ کمپٹبلزم کا روایتی قسم ہے، جو اکثر ڈیوڈ ہیوم اور تھامس ہوبز جیسے فلسفیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ استدلال کرتا ہے کہ فری ول کی نئی تعریف کرکے ہم اس میں اور ڈٹرمنزم میں مفاہمت قائم کرسکتے ہیں۔ کلاسیکل کمپٹبلزم کے مطابق، فری ول اس وقت موجود ہوتی ہے جب افراد اپنی خواہشات اور مقاصد کے مطابق عمل کرتے ہیں، چاہے وہ خواہشات اور محرکات مختلف علتوں سے متعین ہوں۔
2) مقصودی کمپٹبلزم
(Consequential Compatiblism)
کمپاٹیبلازم کی یہ قسم، ارادوں کے نتائج پر توجہ دیتی ہے بجائے ان کی مابعدالطبیعیاتی نوعیت کے. مقصودی کمپاٹیبلازم کے حامیان دعویٰ کرتے ہیں کہ فری ول لازمی طور پر ڈٹرمنزم سے متضاد نہیں. بلکہ وہ اخلاقی ذمہ داری اور من مانے نتیجے تک پہنچے کے لیے فیصلہ لینے کی صلاحیت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق، جب تک افراد میں بامقصد انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو ان کی اقدار کے مطابق ہوں اور مناسب نتائج پیدا کریں، تو فری ول موجود ہے، چاہے وہ ارادے ڈٹرمنزم پر مشتمل ہو یا نہیں۔
3) سیمی کمپٹبلزم (Semi-Compatibilism)
سیمی کمپاٹیبلازم بھی فری ول اور ڈٹرمنزم میں مفاہمت کی کوشش کرتا ہے لیکن ان کی فری ول کی کی جانے والی تعریف مزید مختلف ہے۔ سیمی کمپاٹیبلازم کے مطابق فری ول تب تک موجود جب تک انسان کوئی اس فیصلے کے علاوہ کوئی دوسرا فیصلہ لے سکتا ہو جو اس نے کیا ہے۔
– کمپٹبلزم کے حق میں دلائل
(Arguments in the favor of Compatibilism)
۱) کمپاٹیبلازم کے حامی یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہمارے فری ول کے متعلق موضوعی تجربات اور احساسات کمپاٹیبلازم کے لیے علمی جواز فراہم کرتے ہیں اور کمپاٹیبلازم کے حامیوں کے مطابق یہ احساسات ڈٹرمنزم کے خلاف دلیل کے طور پر تو استعمال نہیں کیے جاسکتے لیکن پھر بھی علمی وزن رکھتے ہیں۔
۲) دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کمپاٹیبلازم سے ہی فری ول کی درست تعریف کی جاتی ہے بغیر کسی ڈٹرمنسٹک سائنسنٹفک لاء کی خلاف ورزی کیے۔
۳) تیسری دلیل یہ کہ کمپاٹیبلازم ڈٹرمنزم جیسی حقیقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اخلاقی ذمہ داری کے مسئلے کو بھی حل کر دیتا ہے۔
– کمپٹبلزم کے خلاف دلائل
(Arguments against Compatibilism)
۱) کمپاٹیبلازم کے خلاف پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ڈٹرمنزم فری ول دونوں بلکل متضاد چیزیں ہیں اور دونوں میں مفاہمت قائم کرنے میں کوئی ایک اپنی حقیقت کھو دیتی ہے۔
۲) دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کی فیصلے کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص کوئی دوسرا فیصلہ لے سکے اگر ہماری دماغی حالت پہلے سے ڈٹرمائنڈ ہے تو آزادی کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی ذہنی حالت کے مطابق ایک ہی فیصلہ لینا ہے۔
– فرینکفرٹ کیسز (Frankfurt’s cases)
اب تک ہم نے جس بھی چیز کو دیکھا کہ انسان تبھی اخلاقی طور پر کسی چیز کا ذمہ دار ہے جب وہ کچھ اور نہ کرسکتا ہو لیکن امریکی مفکر ہیری فرینکفرٹ (Frankfurt)
اس بات سے اختلاف کرتے ہیں ان کے مطابق کچھ معاملات میں انسان تب بھی اخلاقی طور پر ذمہ دار ہے جب وہ کسی بیرونی علت کی وجہ سے بھی کچھ اور نہ کرسکتا ہو۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی شخص کا قتل کرنا چاہتے ہیں اور کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ آپ کے لئے اسے قتل کرنا لازمی ہوجاتا ہے اور آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رہتا تو پھر بھی آپ اخلاقی طور پر اس قتل کے ذمہ دار ہیں کیونکہ آپ کا اس شخص کو مارنے کا ارادہ کافی وقت سے تھا اور آپ پر ایسا موقع آتا یا نہیں آپ اس کا قتل کرنا چاہتے تھے اس وجہ سے آپ ذمہ دار ہیں۔
– خلاصہ
فری ول اور ڈٹرمنزم کافی پرانی بحث ہے جس میں دونوں طرف سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں بنیادی طور پر دونوں نظریات کو اور ان کے بیچ مفاہمت قائم کرتے کمپاٹیبلازم کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں بیان کیے گئے دلائل پر کافی تنقید بھی ہوئی ہے ان سے مخالف نظریہ رکھنے والے بہت سے دلائل کو مسترد بھی کرچکے ہیں۔ کوانٹم انڈٹرمنزم (Quantum Indeterminism) کو بنیاد بنا کر جو دلیل دی گئی ہے اس کے جواب میں اسٹیفن ہاکنگ (جو ڈٹرمنزم پر یقین رکھتے تھے) کہتے ہیں کہ کوانٹم لیول (Quantum Level) پر موجود انڈٹرمنزم (Indeterminism) ہماری دنیا کے اعمال میں بہت کم ہی اثر انداز ہوتا ہے اور ہماری دنیا کافی حد تک ڈٹرمنسٹک ہی ہے، اسی بات کو بنیاد بنا کر وہ فری ول کو ایک دھوکا قرار دیتے تھے لیکن اس طرح فری وِل کے حامیوں کی طرف سے بھی ڈٹرمنزم کے کچھ دلائل پر سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن اس تحریر کا مقصد صرف دونوں نظریات کی بنیادی معلومات فراہم کرنا تھا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجیل کاظمی کراچی میں مقیم انجنئیرنگ کے طالب علم ہیں اور فلسفہ و سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
کمنت کیجے