مشرف بیگ اشرف/ڈاکٹر زاہد مغل
انعقاد خلافت اور ولی عہدی کا موضوع اسلام کی سیاسی فکر میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس بحث کے ساتھ مسلمانوں کے قرون اولی ایک حدیث کے مطابق مسلمانوں کے بہترین زمانے کی تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا اور اس میں بنیادی کردار ادا کرنے والی شخصیات کے فیصلوں کے شرعی پہلو پر بحث ناگزیر ہے۔ امت کے ہر دور اور ہر علاقے کے لوگوں نے اگر اپنی سیاسی واجتماعی زندگی کو شریعت کے احکام کے مطابق گزارنا ہے تو اسے یہ سرگرمی کرنا ہوگی۔ اس لیے یہ ایک سدابہار موضوع ہے جو ماضی میں بھی چلتا رہا اور مستقبل میں بھی چلتا رہے گا۔ ہم اس رائے کو درست نہیں سمجھتے کہ وہ سخن ہائے گوناں گوں جو کتاب وسنت اور ہماری دینی روایت کے تشکیلی عہد میں جاری رہے ان کی بابت اب یہ کہا جائے کہ چونکہ ان پر ماضی میں گفتگو ہوچکی لہذا اب جدید مسائل کو حل کیا جائے اور ان پر مزید گفتگو یا تحقیق کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید مسائل کے حل کے لئے ان موضوعات کو موجوع سخن بنانا ہوگا کہ یہ اصول فراہم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے ہر نسل نے یہ طے کرنا ہے کہ ہماری روایت ان مسائل کے حوالے سے کیا کہتی ہے اور زندہ روایت اسی سے عبارت ہے۔
پار سال کسی مناسبت سے “اسلامی فقہی وکلامی روایت میں ولی عہدی” کے موضوع پر تفصیلی کلام ہوا اور اس کتاب کے دونوں مصنفین کو اس میں حصہ لینے، اس پر تفصیلی مطالعہ اور مختلف پہلووں پر لکھنے کا موقع ملا اور اس پوری علمی سرگرمی کا محور یہ نقطہ رہا کہ ہماری فقہی وکلامی روایت میں خلافت کے انعقاد کے لیے کتنے طریقوں کو شرعی قرار دیا گیا ہے اور خاص طور سے ولی عہدی کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ ظاہر ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری فقہی وکلامی روایات نے اس موضوع کو کس طرح دیکھا، تو اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کتاب و سنت اور امت کی روایت کے تشکیلی دور کو ہمارے علما نے کیسے دیکھا۔ اس لیے کتاب وسنت کو امت کے فقہا و اہل کلام کے مقابلے میں لانا ایک بے معنی دوئی ہے جو عوامی حلقوں میں اگرچہ پرکشش محسوس ہوتی ہے تاہم علمی حلقوں میں ایسی کسی دوئی کا وجود نہیں۔
چنانچہ اس گفتگو کا محور، جو کتاب کی شکل میں اب چھپ چکی، یہ تھا کہ ولی عہدی ارباب حل وعقد کی تعیین سے ہٹ کر ایک مستقل طریقہ ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف شوری یا ارباب حل وعقد ہی اصل ہیں اور حکمران کی جانب سے ولی عہدی کی حیثیت صرف ایک تجویز کی ہے کہ حاکم کے مرنے کے بعد ارباب حل و عقد چاہیں تو ولی عہد کو حاکم بنالیں اور چاہیں تو نہ بنائیں۔
کتاب کے بنیادی سوالات:
بنیادی سوالات جن کے حل کے لیے یہ کتاب لکھی گئی وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱: متکلمین و فقہائے اسلام کے ہاں ولی عہدی کی حیثیت کیا ہے، یعنی کیا یہ انتقال خلافت کا ایک جائز طریقہ ہے؟
۲: اگر یہ جائز ہے، تو کیا کراہت کے ساتھ جائز اور ایک غیر مثالی طریقہ ہے یا یہ بھی ایک جائز و مستحب طریقہ ہی ہے؟
۳: کیا ان علما کے نزدیک اسلام کا معیاری طریقہ صرف اھل حل و عقد کے فیصلے سے حکمران کا تعین ہونا ہے؟
۴: اگر ولی عہدی ایک جائز طریقہ ہے، تو اس کی شرائط کیا ہیں؟
۵: انعقاد خلافت کے جلو میں ولی عہدی اور ارباب حل و عقل کے مابین کیا رشتہ اور ان کا کیا کردار ہے؟ کیا کسی خلیفہ کی ولی عہدی اس کے بعد ارباب حل وعقد کے اتفاق سے مشروط ہے؟
۶: کیا ولی عہد مقرر کیا جانا محض ایک تجویز ہے؟
۷: کیا ارباب حل وعقد کے لیے روا ہے کہ وہ خلیفہ کے بعد اس کے ولی عہد کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیں اگرچہ اس میں خلافت کی شرائط پائی جاتی ہوں؟
۸: ولی عہدی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس حوالے سے فقہی مذاہب میں کوئی اختلاف پایا جاتا ہے؟ نیز اس اختلاف کا فقہی جزئیات اور تنائج پر کتنا اثر ہے؟
۹: امام وقت کی فقہی وقانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ اصطلاحی معنے میں امت کا وکیل ہے؟ کیا وہ امت کا اجیر وملازم ہے؟
یہ سوالات ولی عہدی کا اصولی پہلو ہیں جو ہماری کتاب کا موضوع ہیں۔ اس کے برعکس ان کا انطباقی پہلو یہ جانچ کرنا ہے کہ تاریخ میں کسی حاکم وقت کی جانب سے کسی خآص شخص کو ولی عہد مقرر کرنا درست تھا یا نہیں۔ یہ انطباقی پہلو اس کتاب میں ہمارے پیش نظر نہیں۔
“خلافت و ملوکیت” کی جدید ابحاث اور ولی عہدی کے خلاف استدلال:
کتاب کا موضوع متقاضی ہوا کہ بحث کا آغاز مولانا مودودی رحمہ اللہ کی بحث سے کیا جائے کیونکہ آپ کی کتاب “خلافت و ملوکیت” ولی عہدی کے تصور کے جدید فہم میں خاص اہمیت رکھتی ہے حتی کہ کئی لوگ جو مولانا کی کتاب میں صحابہ سے متعلق مباحث سے نالاں ہیں، ولی عہدی کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کی رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں خلافت اور ملوکیت میں خط فاصل کھینچے کی کوشش کی اور اسی کی بنیاد پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ولی عہدی کے فیصلے کو اس خط فاصل میں ملوکیت کی طرف رکھتے ہوئے تنقید کی۔ اس تنقید کا ایک بہت بنیادی عنصر یہ تھا کہ آپ ولی عہدی کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ آپ کے دانست میں حضرت امیر معاویہ نے بیٹے کو ولی عہد بنا کر اسلامی نظام کو خلافت کی جانب پلٹانے کا آخری موقع بھی گنوادیا اور اس کے بعد پھر مسلمان اصل اسلامی نظام کی جانب نہ لوٹ سکے۔ آپ کے اسی موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ کے وکیل صفائی جناب ملک غلام علی صاحب رحمہ اللہ نے قرار دیا کہ رسول اللہﷺ کی جانب سے ولی عہد مقرر نہ کرنے کا مقصد ولی عہدی کے تصور پر کاری ضرب لگانا تھا۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق کی جانب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو ولی عہد بنانے کو یزید کی ولی عہدی کے لئے نظیر نہیں بنایا جاسکتا۔ ملک صاحب کے نزدیک ولی عہدی کو جواز بخشنا دراصل اسلام کے سیاسی نظام کے ماہ رخ پر ایک بد نما داغ لگانے کے مترادف ہے۔ فقہائے امت کا نظریہ اپنے تئیں واضح کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ فقہا کے نزدیک بھی ولی عہدی ایک تجویز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ نیز اگر ولی عہد بنانا مقصود ہی ہو تو اس کا انعقاد ارباب حل و عقد کی بیعت و رضا مندی سے مشروط ہے۔ ولی عہدی کو ایک تجویز قرار دینے کا یہ موقف ان سے پہلے مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی ہی نے بیان کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب نے بھی فقہا کی بعض عبارات پیش کرکے اسی موقف کو آگے دہرایا۔ ان سب حضرات نے قاضی ابویعلی کی ایک عبارت پر انحصار کیا۔ اس کے علاوہ فقہا کے بعض بیانات کو ان کے تناظر سے ہٹا کر استدلال کیا گیا۔ اس پر اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ امام کی حیثیت بس امت کے وکیل کی ہے اور وکیل کو حق نہیں کہ اصیل کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکے۔
اس کتاب کے آنے کے بعد بعض لوگوں کی جانب سے یہ بات سننے کو ملی کہ مولانا مودودی بھی اسی موقف کے قائل تھے جو ان کے مطابق فقہا کا تھا۔ اول تو مولانا مودودی اور ان کے وکیل صفائی کی عبارات کی روشنی میں اس توجیہ کو قبول کرنا قرین از قیاس نہیں، لیکن ہمیں اس کتاب میں اس سے سروکار نہیں۔ بالفرض اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ مولانا مودودی بھی وہی فرماتے تھے جو بعض لوگوں کا اصرار ہے، تب بھی ہمارا ماننا یہ ہے کہ ولی عہدی ارباب حل وعقد سے ایک مستقل طریقہ ہے اور اگر حاکم وقت کسی کو ولی عہد بنا دے تو اس کے مرنے کے بعد وہ حاکم وقت بن جاتا ہے اور ارباب حل وعقد پر واجب ہے کہ وہ اسے تسلیم کریں اور اس کی طاعت سے ہاتھ نہ کھینچے بشرطیکہ اس ولی عہد میں حاکم وقت کی بنیادی شرائط موجود ہوں کہ وہ عاقل، بالغ ہو فاسق نہ ہو وغیرہ۔ یعنی معاملہ یوں نہیں ہے کہ حکمران کی جانب سے ولی عہدی کی حیثیت صرف ایک تجویز کی ہے کہ حاکم کے مرنے کے بعد ارباب حل و عقد چاہیں تو ولی عہد کو حاکم بنالیں اور چاہیں تو نہ بنائیں۔ رہی بات حاکم بننے والے شخص میں امام بننے کی اہلیت ہونے کی تو اس کا تعلق صرف ولی عہد سے نہیں بلکہ اگر ارباب حل وعقد نے کسی کو حاکم بنا دیا تو اس کی برقراری کی بھی یہ بنیادی شرط ہے کہ اس میں حاکم بننے کی شرائط پائی جائیں۔ پس مولانا مودودی کے نظریے کی اس تعبیر نو سے ہماری کتاب کے مدعا پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کتاب میں اسی کی غلطی واضح کی گئی ہے۔
علمائے امت کے نزدیک نصب امام فرض کفایۃ ہے جسے ادا کرن کے دو طریقے ہیں: ارباب حل و عقد کی جانب سے تقرر اور امام وقت کی جانب سے ولی عہدی۔ یہ دونوں جداگانہ طرق ہیں اور ولی عہدی کو ارباب حل و عقد کی بیعت و رضا مندی سے مشروط نہیں کیا گیا۔ جمہور فقہا کے نزدیک ولی عہدی کی نظیر خلفائے راشدین کے طرز عمل سے ثابت ہے نیز جس بنیاد پر اہل حل و عقد کی جانب سے حکمران کا تعین جائز ہے بعینہ اسی وجہ سے حاکم وقت کی طرف سے بھی تعیین جائز ہے۔ اگر موجودہ نظم حکومت کے پیش نظر ولی عہدی پر تنقید کی جائے، تو وہ ارباب حل وعقد کی تعیین پر بھی وارد ہوتی ہے کہ ارباب حل وعقد کے لیے فقہا کے ہاں کوئی عددی شرط نہیں بلکہ اگر کسی ایک شخصیت کو بھی امت میں ایسی قوت حاصل ہو جائے کہ اس کے فیصلے سے حکومت کے پائے جم جائیں، تو اس کا فیصلہ ہی ارباب حل وعقد کا فیصلہ ہے۔ ہماری فقہی روایات میں معتزلہ وغیرہ کی طرف سے دو، تین یا پانچ لوگوں کی قیود لگائی گئیں لیکن وہ اقوال اپنی کمزور بنیاد کی وجہ سے فقہا کے ہاں عام طور سے پذیرائی نہ پا سکے۔ چنانچہ حاکم وقت کے حوالے سے یہ قانونی مفروضہ ہے کہ وہ ارباب حل وعقد سے زیادہ اس کا حقدار ہے کہ وہ حاکم وقت کو مقرر کر سکے۔
کتاب کا منہج:
اس کتاب میں چاروں دبستان ہائے فقہ اور کلامی روایات کی معتبر کتابوں کی روشنی میں بحث کی گئی ہے اور اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر دبستان کی قدیم اور متاخر دور کی ان شخصیات کے ہاں سے کلام نقل کر کے اس کا تجزیہ کیا جائے جنہیں اس فقہی مذہب میں معتبر شمار کیا گیا۔ اس کتاب میں مسئلہ ولی عہدی پر جن علمائے اسلام کی رائے کو بیان کیا ہے ان کے نام یہ ہیں (بریکٹ میں ھجری سن وفات ہے):
قاضي ابوبکر باقلانی مالکی (403)
ابوالحسن ماوردی شافعی (450)
ابو يعلى فراء حنبلی (458)
ابو المعالی جوینی شافعی (478)
ابو الیسر بزدوی حنفی (493)
ابو حامد الغزالی شافعی (505)
ابو معین النسفی حنفی (508)
علاء الدین سمرقندی اسمندی حنفی (552)
نور الدین صابونی حنفی (580)
علاء الدین کاساني حنفی (587)
سیف الدین آمدی شافعی (631)
تقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (728)
سعد الدین تفتازانی شافعی (771)
بدر الدین عینی حنفی (855)
عبد الرحمن ابن خلدون مالکی (806)
سید شریف جرجانی حنفی (816)
کمال ابن ہمام حنفی (861)
شهاب الدین رملی شافعی (1004)
شاه ولي الله دہلوي حنفی (1176)
محمد امیر مالکی (1233)
مصطفی سیوطی رحیبانی حنبلی (1243)
نواب صدیق حسن خان (1308)
مفتی احمد یار خان نعیمی حنفی (1391)
سعید احمد پالن پوری حنفی (1441)
رحمہم اللہ
یہ سب حضرات ولی عہدی کے جواز اور اس کے ذریعے انعقاد خلافت پر یک زبان ہیں۔
کسی موضوع سے متعلق کسی کا نقطہ نظر جاننے کے دو طریقے ہوتے ہیں:
۱: اس کی تصریح یا اشارہ موجود ہو۔
۲: یا دوسرے مسئلے کے لوازم ومقتضی کے طور پر اس موضوع میں ان کا نقطہ نگاہ جانا جائے۔ (جسی منطق میں دلیل انی کہتے ہیں)
ولی عہدی سے متعلق صرف پہلے طریقے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ دیگر جزئیات پیش کرکے ان کا فقہی تجزیہ کر کے دکھایا گیا کہ وہ بھی پوری طرح ان کی تصریحات سے ہم آہنگ ہیں۔
اس پوری کاوش کا مقصد ہماری فقہی وکلامی روایت کا نقطہ نگاہ پیش کرنا ہے۔ اس لیے کتاب وسنت و دیگر شرعی مصادر سے براہ راست استدلال نہیں کیا گیا۔ کتاب میں خلافت راشدہ اور صحابہ وغیرہ کے عمل سے جو استدلال ہے وہ فقہی وکلامی روایت کے ضمن میں ہے۔
ہماری فقہی روایت کو معاصر سیاسی وقانونی تعبیرات کے جھروکوں سے دیکھنے کی خو کا یہ نتیجہ ہے کہ حاکم وقت کو لوگ اجیر اور بعض وکیل سمجھ کر اس کی جزئیات کا انطباق کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اس غلط فہمی کی بنیادی وجہ منصوص حکم کو غیر منصوص حکم تک پھیلانے کا منہج جو اس امت کے اصولی اور فقہا حضرات نے طے کیا، اس پر توجہ نہ دینا ہے۔ ہماری فقہی روایت میں یہ عام اصول ہے کہ ایک شے کو “من وجہ” کسی دوسری شے کے حکم میں کر کے اس کا متعلقہ حکم وقانون منطبق کیا جاتا ہے۔ لیکن باقی وجوہ سے اس کا قانون منطبق نہیں ہوتا۔ کتاب میں اس کی غلطی کو جابجا واضح کیا گیا ہے
ہم نے احناف سے متعلق باب میں حاکم وقت کی قانونی حیثیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور حنفی قانون کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ حاکم وقت دراصل امت کا ولی ہے نہ کہ اجیر و وکیل اور “ولایت” کا فقہی تصور بھی واضح کیا ہے جو “اجبار” سے عبارت ہے۔ اس حوالے سے فقہا کی تصریحات اور ان کی جزئیات کا تجزیہ بھی کر کے دکھایا ہے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قبول فرمائے۔ جناب فہد حارث صاحب بھی شکریہ و اجر کے مستحق ہیں جنہوں نے اس کتاب کو شائع کیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس طرح کے مزید علمی منصوبوں کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے!
کمنت کیجے