علم کلام پر متاخرین، بالخصوص مابعد امام رازی دور، کی کتب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فلسفے کے مسائل کو عقیدے کے ساتھ اس قدر مکس کردیا کہ عقیدہ فلسفہ بن کر رہ گیا۔ اگر اس کا مقصد یہ کہنا ہے کہ ان متعدد مسائل کا ایمان و کفر کی بحث سے براہ راست تعلق نہیں بلکہ دین اسلام جن عقائد کے اقرار کا مطالبہ کرتا ہے وہ ان فلسفیانہ مسائل سے بہت کم ہیں تو یہ بات درست ہے۔ لیکن اگر مراد یہ کہنا ہے کہ ان مسائل کا عقیدے سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں نیز انہیں سیکھنا فضول ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ یہ مسائل عقیدے کے ساتھ دو طرح متعلق ہوتے ہیں:
1) جو عقائد مطلوب ہیں ان سے متعلق ایسے ماقبل تصورات کی نشاندہی کرنا جو مطلوب عقائد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں
2) عقیدے کی تفہییم میں مدد گار ہونا
ان کی مثال اصول فقہ کی طرح ہے۔ مثلاً عام کی دلالت قطعی ہے یا ظنی، امر وجوب کے لئے ہوتا ہے یا ندب کے لئے وغیرہ، یہ مسائل براہ راست شارع کو مطلوب نہیں۔ تاہم یہ اصول دراصل وہ لسانی و قانونی مقدمات ہیں جو ایک مجتہد کے نزدیک نصوص کی ہم آہنگ تعبیر و تفہییم کے لئے لازم ہیں۔ یہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ اصول فقہ میں نصوص میں مذکور احکام کے سوا بھی بے شمار باتیں موجود ہیں۔ تقریباً یہی معاملہ علم کلام کی کتب میں درج عقلی مسائل کا ہے۔ مثال کے طور پر علمیات (epistemology) کے باب میں متکلمین یہ بتاتے ہیں کہ عقیدے کے علمی طور پر بامعنی ہونے کے لئے حقیقت و علم سے متعلق وہ کونسے مقدمات ہیں جنہیں ماننا ضروری ہے، یعنی اگر ان کا انکار کردیا جائے تو نبی پر ایمان بے معنی یا غیر ہم آھنگ بات بن جائے گا۔ اسی ضمن میں وہ سوفسطائیت کا رد کرتے ہیں۔ اگر کوئی مجتھد ان عقلی مقدمات کے بغیر کسی دوسری طرح ان عقائد کی تفہییم ممکن بنادے جو مطلوب ہیں تو اس کی قوت دلیل وغیرہ کے پیش نظر اس کی بات ایک دائرے کے اندر قبول کی جاسکتی ہے، جیسے اصول فقہ میں یہ اختلاف برداشت کئے جاتے ہیں۔
کمنت کیجے