عمران شاہد بھنڈر
انسان اساسی طور پر طبیعاتی نہیں مابعد الطبیعاتی رجحان رکھتا ہے، یہ بے مثل الفاظ عظیم فلسفی فریڈرک ہیگل کے ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان زمان و مکاں سے ماورا ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف حسی یا تجربی دنیا تک محدود نہیں رہتا، بلکہ عقل اس دنیا سے اپنا معروض تلاش کر لیتی ہے اور اسے اپنی منطقی حرکت کے تحت تشکیل دیتی ہے۔یعنی انسان صرف ایک حسی مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکر و خیال کی حامل مخلوق بھی ہے جو حسیات سے ماورا ہونا چاہتی ہے۔ مابعد الطبیعات اور عینیت پسندی کے درمیان یہ فرق ملحوظِ خاطر رہے کہ ہر عینیت پسندی مابعد الطبیعات نہیں ہوتی، جبکہ ہر مابعد الطبیعات عینیت پسندانہ ہوتی ہے۔ یہاں اس کا یہ مفہوم بھی متشکل ہوتا ہے کہ انسان جب سماجی سطح پر ایک اعلیٰ زندگی کی تشکیل نہیں کر سکتا تو وہ اعلیٰ زندگی کا ایک تصور قائم کرتا ہے، جیسا کہ جنت کا تصور، جو کہ حقیقی دنیا سے کٹا ہوا ایک خالص مابعدالطبیعاتی تصور ہے۔ دراصل جنت کا تصور حقیقی دنیا سے ماورا ہو جانے کا ایسا رجحان ہے جس کی جڑیں تو حقیقی زندگی کی مایوسیوں اور انہی مایوسیوں سے جنم لیتی ہوئی ابدی زندگی کی خواہشات میں پیوست ہوتی ہیں۔ یعنی اس حقیقی زندگی میں رہتے ہوئے جب اس زندگی کو ایک مثالی شکل نہیں دی جا سکتی، تو اس وجہ سے ایک مثالی جنت تعمیر کر لی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن معاشروں میں اعلیٰ زندگی کا حصول کسی حد تک ممکن ہوا ہے، وہاں جنت کے تصور پر کاری ضرب لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں مذہبی مفکر بھی جنت کا ایسا تصور پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کوئی ”تفریحی مقام‘ نہیں ہے جہاں انسان جسمانی سطح پر ابدی زندگی گزارے گا بلکہ وہ ایک روحانی مقام ہے، یعنی زندگی کی نوعیت جسمانی یا وجودی نہیں بلکہ روحانی ہو گی۔ توجہ طلب نکتہ اس میں یہ ہے کہ انسان کے مثالی سطح پر سوچنے کے رجحان نے روح کو بھی جسم سے اعلیٰ مقام پر فائز کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ ابدی زندگی کے تصور میں بھی بقا کا سوال جسم کو رد کر کے روح کی بقا سے جڑ چکا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ جو سماجی سطح پر اعلیٰ زندگی کی تشکیل کرنے کے اہل نہیں ہوئے انہیں آج بھی جنت ایک تفریحی مقام کے طور پر نظر آتی ہے۔مثالی زندگی کے تمام تصورات اس ایک تصور سے نکلتے ہیں جو کہ انسان کے اپنے ذہن میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے اور وہی تصور ہے جسے فیورباخ کے مفاہیم میں خدا کہتے ہیں۔حقیقت میں مذہب کا خدا انسان کا اپنا ہی خیالی وجود ہے۔ انسان خود کو جس مثالی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اس نے اسی شبیہ پر خدا کا ایک تصور ایک ایسے وقت میں تشکیل دیا تھا جب انسان فکری اور عملی سطح پر ایک انتہائی پسماندہ زندگی گزار رہا تھا۔ اس وقت انسان کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ مستقبل میں خود جس دنیا کی تشکیل کرے گا وہ حقیقی سطح پر اس کی مثالی جنت سے بہتر ہو گی۔ اُس وقت انسان مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اس کے پاس یہ اختیار ضرور تھا کہ وہ موت کے بعد ایک فرضی زندگی کا تصور قائم کرے اور وہاں دنیاوی زندگی کی تمام تر محرومیوں کا ازالہ کرسکے۔
فلسفی یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ خدا کو انسان نے اپنی شبیہ پر تخلیق کیا ہے۔ تاہم یہ شبیہ اس کی حقیقی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتی، بلکہ اس کے ذہن میں اس کی اپنی ہی صلاحیتوں کا مثالی اظہار ہے۔ خدا میں وہ ہر صفت اپنی مثالی شکل میں پائی جاتی ہے جو انسان کے ذہن میں تو موجود رہتی ہے لیکن حقیقی سطح پر اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مثالی سطح پر انسان اپنی ہی فکر کی حدود کو عبور نہیں کر پایا، اس لیے اس نے خدا سے وہ تمام صفات منسوب کر دیں جو کہ اس کے اپنے ذہن کی تخلیق تھیں۔ انسان نے جو خدا تخلیق کیا، اپنی تمام تر سعی کے باوجود اس میں کوئی ایسی صفت پیش نہیں کر سکا جو انسان کے اپنے ذہن میں موجود مثالی تصور سے ممتاز مقام رکھتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر ”طاقتور“ کا تصور ہے تو وہ بنیادی طور پر انسانی تصور ہے، تاہم انسان نے ایک ایسے طاقتور کا تصور قائم کر دیا جو بے پناہ طاقت کا حامل ہے، جسے کوئی دوسری طاقت زیر نہیں کر سکتی۔ انسانی صفات کی بنیاد پر ہم بہت ہی سہولت کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ خدا انسان کا تشکیل کیا ہوا ایک مثالی تصور ہے، جس نے انسان کے لیے وہ دنیا بنا رکھی ہے جو انسان خود نہیں بنا پایا۔ آسان الفاظ میں یوں کہ خدا انسان کا ایسا ”دوسرا“ہے، جو اس سے الگ ہو کر اس سے ماورا ہو چکا ہے، جس تک رسائی انسان کے لیے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔
پندرہ سو برس قبل کے عرب قبائل کے انسان کے ذہن میں صحیح اور غلط کے تصورات پائے جاتے تھے، لیکن وہ صحیح کیا آفاقی سطح پر ہر عہد کے لیے صحیح تھا یا وہ غلط ہر عہد کے لیے غلط تھا، اس کا اندازہ کرنے کے لیے انسان کے پاس وہ شعور نہیں تھا اور نہ ہی ایک قبائلی سماج میں ایسا شعور ممکن ہو سکتا تھا۔ قبائلی سماج کا تقاضا ہی یہ تھا کہ وہ حقیقی سماج کو جنت کے تصور میں تبدیل کر دے۔ قبائلی سماج بنیادی طور پر جنگ و جدل، دہشت و بربریت کا سماج تھا۔ ان لوگوں نے اپنے تخیل میں ایک پُر آسائش جنت کی تعمیر کر دی،یعنی جنگوں سے تنگ آئے ہوئے لوگ ایک ایسی جنت تعمیر کر رہے ہیں کہ جہاں پُرامن زندگی ہو گی۔دنیاوی جنگی زندگی پُرامن اُخروی زندگی کی ضمانت ٹھہری۔ وہ لوگ بس اتنا ہی سوچ سکتے تھے۔ اس سے آگے سوچنے کی ان کی استعداد نہیں تھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں حوروں کا تصور تخلیق کر دیا گیا اور اپنی ہی عورتوں کو نظر انداز کر دیا گیا، یعنی جومثالی جنت تعمیر کی گئی تھی اس میں عورتوں کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا گیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ قبائلی سماج کی عمومی سوچ وہی تھی جس کی عکاسی قرآن کے ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ”یہ مرد تم پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔“ لہذا مردوں کا حق نہ صرف یہ کہ دنیا میں زیادہ ہے بلکہ آخرت میں بھی اس لیے زیادہ ہے کہ انہی مردوں کے اعمال کی وجہ سے جنت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔خدا جو خود کھاتا پیتا نہیں ہے وہ مردوں کو شراب پلائے گا، لیکن عورتوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ قرآن میں عورت کو جنت کی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔چونکہ ساری جنگ و جدل مرد کرتا تھا، اس لیے وہی جنت کا حقیقی معنوں میں حق دار بنتا تھا، یہی وجہ ہے کہ جنت کا تمام تصور مَرد کے گرد گردش کرتا ہے۔ اس کا محرک یہی سوچ تھی کہ جو”قربانی“ دیتا ہے وہی اُخروی زندگی کی سہولیات کا مستحق ہے۔اس طرح عرب قبائل کے سرکردہ لوگوں نے اپنے دنیاوی مفادات کی توسیع کے لیے خدا کے تصور کا استعمال کیا۔ چونکہ وہ لوگ فلسفیانہ بصیرت کے حامل نہ تھے کہ دنیا میں ہی ایک بہتر زندگی کا خواب تراش لیتے، اس لیے ان کی ساری توجہ اُخروی زندگی پر مبذول ہو گئی۔ اپنے مفادات کے حصول اور ان کی توسیع کے لیے جتنے بھی تصورات کی ضرورت تھی ان سب کی نوعیت شخصی تھی۔ ایک ایسی تصوراتی دنیا تعمیر کی گئی جس میں ہر تصور اتنی ہی بلندی پر جا سکتا تھا جتنی پندرہ سو برس قبل کے ایک عرب بدو کی سوچ ہو سکتی تھی۔ معمولی سا غور کرنے پر بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ انسان نے مذہبی کتابوں میں جنت کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ آج کے جدید ترقی یافتہ معاشروں سے کس قدر حقیر ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ خدا کی خیالی جنت انسان کی بنائی ہوئی حقیقی دنیا کا کسی بھی حوالے سے موازنہ نہیں کرتی۔شخصی خدا کی تعمیر کی گئی جنت میں دودھ، شہد، باغات، پھل، پرندوں کا گوشت اورشراب وغیرہ کے علاوہ شاید ہی کوئی قابلِ ذکر چیز موجود ہو۔ جنت میں صرف انہی اشیا کے دستیاب ہونے کے نام پیش کیے گئے تھے، جن سے عام بدو پہلے سے آگاہ تھا۔ صرف ان کی مقدار میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جنت میں ہر شے ملے گی تو اس کا مطلب ہے کہ شخصی خدا کے شعور کی یہی حد ہے۔ فلسفیانہ سطح پر تمام اشیا یا ہر شے صرف ایک کُلی قضیہ ہوتا ہے جو اپنی اسا س میں تجریدی نوعیت کا ہوتا ہے، جس کا ہونا، نہ ہونا برابر ہوتے ہیں۔ عرب بدو گدھوں، اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ اونٹوں کا گوشت کھاتے تھے۔ کچے گھر، پانی کی کمی، بیماریوں کے لیے ناکافی سہولیات کی موجودگی میں ان کا تخیل اتنی بلندی پر نہیں جا سکتا تھا کہ وہ آج کے کسی جزیرہ نما علاقے کو اپنی خیالی جنت کی صورت میں تعمیر کر سکتے۔بنظرِ غور دیکھیں توجنت کا مکمل نقشہ قبائلی انسان کے شعور کی تحدید کو موثر انداز میں منعکس کرتا ہے۔
جنگ و جدل کی مشکل زندگی میں ان کو ایک ایسی دنیا کا لالچ دیا گیا جو مستقبل میں مخصوص لوگوں کے قبائلی مفادات کو متعین کرنے کے لیے اہم ثابت ہوا۔ قبائلی مفادات کے حصول کے لیے ایک ’بلند‘ درجہ رکھنے والا شخصی خدا تشکیل دیا گیا۔ شخصی خدا سے مراد ایک ایسا خدا ہے جو تمام انسانی صفات کا حامل ہو، لیکن وہ تمام صفات اپنی اعلیٰ شکل میں ہوں۔ مثلاََ اگر ظالم ہے تو بے پناہ ظالم ہے۔ وہ دوزخ میں ابدی سزا دے گا۔ اگر وہ مہربان و شفیق ہے تو لامتناہی طور پر مہربان ہے، بشرطیکہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ تاہم جہاں تک اُخروی مقاصد کے حصول کا تعلق ہے تو اس کے لیے شخصی خدا ایک انتہائی محدود، متعصب اور تنگ نظر کردار کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ایک ایسا خدا جس نے اپنی مخلوق کے اندر ہی اپنے دشمن تخلیق کر لیے ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ جنگیں کرتا ہے۔ اپنی ہی مخلوق کو اپنے ہی لوگوں کے قتل و غارت پر اکساتا ہے۔ اس کے لیے وہ ان تصورات کی تشکیل کرتا ہے جو ان مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری تھے۔ شخصی خدا لوگوں کو سزائیں دیتا ہے۔ انہیں دھمکیاں دیتا ہے۔ انہیں دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈراتا ہے۔ وہ ان سے انتقام لینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ دوسرے لوگوں کے خداؤں سے اپنا موازنہ و مقابلہ کرتا ہے اور خود کو اُن سے کہیں زیادہ طاقتور گردانتا ہے۔وہ دوسرے خداؤں کو للکارتا ہے۔ مشرکین سے کہتا ہے جاؤ میرے مقابلے میں جس کو لانا چاہتے ہو لے آؤ۔ وہ پیغمبرکو لونڈیاں دیتا ہے۔ اس کا آسمان پر نکاح پڑھاتا ہے۔ وہ جنگوں میں خود حصہ لیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ کہتا ہے میں نے تمہیں جنگوں میں فتح دلوائی ہے۔ وہ اپنی ہی مخلوق کے قتال کے لیے آسمان سے فرشتے بھیجتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب تم لوگوں کو قتل کرنے لگے تو میں نے تمہیں ان کی جائیدادوں کا مالک بنا دیا۔ وہ خوش ہوتا ہے، ناراض ہوتا ہے۔ غصہ کرتا ہے۔لوگوں کو بددعائیں دیتا ہے۔ وعدہ کرتا ہے۔ وہ چند لوگوں کے متعین کر دہ مقاصد کے حصول میں ان کی مکمل مدد کا اعلان کرتا ہے۔ایک شخصی اور انتہائی محدود، متعصب اور تنگ نظر فکر کے ساتھ وہ کائنات کے خالق ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
شخصی خدا کا یہ تصور اپنی سرشت میں کیسا ہوتا ہے اس کی ہم چند مثالوں سے وضاحت کرتے ہیں۔ خدا نے لوگوں کے لیے جو معیار متعین کیا تھا، اگر کوئی شخص اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو خدا اس سے انتقام لے گا۔ قرآن کہتا ہے،
”ہم بھی گنہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں“۔ سجدہ: 22۔
مزید کہتا ہے،
”پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔“
واضح رہے گنہگار سے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے۔ غلط کام کی سزا دینا انسانی صفت ہے، جبکہ انتقام لینا ایک منفی عمل ہے۔ بہرحال دونوں ہی انسانی صفات ہیں۔مثال کے طور پر ایک ظالم ریاست اپنے مجرموں کے لیے بھیانک سزاؤں کا تعین کرتی ہے۔ ان سزاؤں کی موجودگی میں الگ سے کہنے کی یہ ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ ریاست اپنے شہریوں سے انتقام لے گی۔تاہم قبائلی خدا سزاؤں کے علاوہ انتقام کا ذکر الگ سے کرتا ہے۔ خدا اس انتقام کی نوعیت واضح کرتے ہوئے کہتا ہے،
”اللہ جس کی رہنمائی کرے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جسے چاہے گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ تو اس کا مددگار اس کے سوا کسی اور کو پائے۔ ایسے لوگوں کا ہم بروز قیامت اوندھے منہ حشر کریں گے، دراں حالیکہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے، ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ جب کبھی آگے بجھنے لگے لگی ہم ان پر اسے اور بھڑکا دیں گے۔“ بنی اسرائیل، 95-97۔
یہاں میرا مقصد ان آیات کا تجزیہ کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ بتانا مقصودہے کہ یہ تمام انتقامی صفات جو خدا سے منسوب کی گئی ہیں، یہ دراصل انسانی صفات ہیں۔ مزید فرماتے ہیں،
”جبکہ اللہ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی، اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہو جاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ نے بچا لیا، وہ دلوں کے بھید سے خوب واقف ہے۔ جبکہ اس نے بوقتِ ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھائے تاکہ اللہ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو اسے کرنا ہی تھا۔“ انفال، 43-44۔
ان آیات میں جو بہت اہم پہلو عیاں ہے وہ دھوکہ اور فریب سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ایک حقیقی صورتحال سے متعلق غلط بیانی کرنا تاکہ حصولِ مقاصد کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی ہو جائے۔ یہ انسانی داؤ پیچ ہیں جو انسان مختلف اوقات استعمال کرتے ہیں۔ انسان اس طرح کے ہتھکنڈے ہمیشہ ہی استعمال کرتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا خدا بھی وہی ہتھکنڈے بروئے کار لاتا ہے؟ اگر کوئی شخص خدا کے اسی عمل سے سیکھ کر یہی ہتھکنڈا استعمال کرے تو کیا یہ ایک بہتر عمل ہوگا؟ جنگی آئیڈیالوجی کے لیے یہ یقیناََ ایک’مثبت‘ قدم ہو سکتا ہے، لیکن جنگ کا آغاز تو عقلیت کی شکست سے عبارت ہے۔ کیونکہ جنگ اپنی سرشت میں غیر عقلی ہوتی ہے۔ جنگ کا مطلب ہی یہ ہے انسان اپنا مقدمہ عقلی طور پر حل کرنے میں ناکام رہا ہے اس لیے اس نے جنگی حکمتِ عملی اختیار کر لی ہے۔ لیکن کیا خدا کے پاس بھی کوئی متبادل موجود نہیں تھا کہ وہ ایک غیر عقلی عمل میں بہتری تلاش کرتا؟
خدا مزید کہتا ہے،
”لیکن اللہ کو تو ایک کام کرہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل پر ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل پر زندہ رہے۔“ انفال، 3-4
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا منطقی دلائل سے لوگوں کو قائل کر رہا ہے۔ دلیل سے یہاں مراد یہ ہے کہ خدا ہر حال میں جنگ پر آمادہ تھا اور اسے ہر حال میں جنگ کرنا ہی تھی۔ دلیل سے مراد یہ ہے کہ یہ معرکہ ہونا تھا اور خدا نے جو تعداد میں کمی بیشی کر کے دکھائی وہ صرف اس لیے کہ جنگ ٹل نہ سکے۔اکثر مجددین ان آیات میں پیش کیے گئے لفظ ”دلیل“ سے متعلق صریح غلط بیانی کرتے ہوئے یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے خدا منطقی مباحث کا قائل تھا۔ میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ پندرہ سو برس قبل کا عرب سماج صرف جنگ کی زبان جانتا تھا اور جنگ ہی ان کے لیے دلیل کہلاتی تھی۔ ان آیات میں بھی جنگ کا اٹل ہونا ہی دلیل ہے۔
اسلام کاشخصی خدا شخصیت کے اس حد تک حصار میں ہے کہ یہ آیت اس نکتے کو واشگاف طریقے سے عیاں کر دیتی ہے۔ فرماتا ہے،
”اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھر نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہاں باتوں میں نہ مشغول ہو جایا کرو۔ نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ تو وہ لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا“۔احزاب، 53
شخصی خدا کی اس سے بڑھ کر کوئی دوسری مثال شاید ہی کہیں مل پائے۔ خدا جو کہ آفاقیت کا دعوے دارہے، جو خود کو زمین و آسمان کا مالک کہتا ہے وہ ایک انتہائی معمولی کام کے لیے وحی بھیج رہا ہے جس کا فردِ واحد کے سوا کسی دوسرے شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کسی مقصد کے حصول کے لیے بھی نہیں ہے۔ کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اُس وقت کے عرب قبائل کو اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی کہ خدا کے پیغمبر کے گھر میں بیٹھ کر ا س قسم کی حرکتیں نہیں کرنی؟ اگر وہ پیغمبر کوخدا کی طرف سے بھیجا ہوا سمجھتے تھے اور اس پر کامل یقین رکھتے تھے تو کیا اس قسم کی وحی کی کوئی ضرورت تھی؟ کیا پیغمبر یہی بات ان لوگوں سے خود نہیں کہہ سکتے تھے؟ یہاں شخصی خدا کے تصور کی ایک جو تصویر بنتی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر شے پیغمبر کی شخصیت کے گرد گردش کر رہی تھی، لیکن پیغمبر میں لوگوں سے یہ معمولی بات کہنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ یہ سوال بھی نہیں اٹھایا جا سکتا کہ اُس وقت کے لوگ حیا و احترام سے یکسر عاری تھے۔ وہ اتنی سمجھ بوجھ کے حامل ضرور تھے کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کے ساتھ شادی کرنے کے عمل کو بُرائی سے تعبیر کرتے تھے اور یہ عمل آج کے عہد میں بھی قابلِ تکریم سمجھا جاتا ہے۔ اس مکمل طور پر شخصی آیت سے جہاں شخصی خدا کی تصویر کُھل کر سامنے آتی ہے تو وہاں قبائلی لوگوں کے مزاج کی بھی تفہیم اور کسی بات پر عمل کرانے کے لیے ان کے شعور کی تحدید کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔شعور کی تحدید ان معنوں میں کہ وہ کسی معمولی عمل کو بھی سرانجام دینے کے لیے ایک ماورائی حوالہ ضروری خیال کرتے تھے۔یعنی شخصی خدا اس عہد کی ضرورت اور مجبوری تھا۔
انسانوں نے خدا کے کئی تصورات تخلیق کیے ہیں،جن میں کئی ایسے تصورات ہیں جو حقیقی معنوں میں آفاقی نوعیت کے ہیں۔ جن کے اندر ہر جزئیت بآسانی سما جاتی ہے، جو کسی بھی انسان کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے، نہ اس کی ترجیحات، خواہشات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے آزاد ارادے پر قدغن لگاتے ہیں۔ تاہم شخصی خدا کی یہ صفت ہے کہ وہ ایک قبائلی انسان کی ترجیحات، مفادات اور خواہشات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ فلسفیانہ سطح پر یہی اس کی تحدیدات ہیں اور وہ اپنی تحدیدات میں بھی لامحدود نہیں ہے۔جبکہ شخصی سطح پر اس کو ماننے والوں کو اسی میں اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ایسا شخصی خدا اشخاص کے لیے کسی بھی سطح پر مکمل طور اجنبی نہیں ہے۔وہ انہی جیسا ہے، لیکن ان سے بلند بھی ہے۔ وہ انسان ہی کا خیالی وجود ہے۔ اس نے ویسی ہی خیالی جنت کی تعمیر کی تھی جو قبائلی انسان کی سرشت کے عین مطابق تھی۔ تاہم جدید لکھاریوں نے اپنی تخلیقات میں ایسی دنیائیں تخلیق کر دی ہیں جن کا قبائلی لوگوں کی تخلیق کردہ فرضی کہانیوں سے کوئی تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ جدید دنیا تحیر و اجنبیت کی ایک ایسی لامختتم فضا کی تخلیق کرتی ہے جس میں تحیر ہی ذریعہ، تحیر ہی منزل اور تحیر ہی مقصد ٹھہرتا ہے۔ یہ شخصی خداؤں کے اختتام کی ابتدا اور تحیر کی لامحدود و متنوع دنیا کا آغاز ہے۔ ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور اسی موضوع کی کئی کتب کے مصنف ہیں ۔
بہت عمدہ اوردلچسپ