نویں جماعت میں تھا جب پہلی دفعہ مسیحیت کے متعلق لٹریچر پڑھنا شروع کیا۔ پھر بائبل کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا اور ایف ایس سی کے آخر تک مسیحیت کے متعلق کئی مضامین لکھ چکا تھا۔ اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لیتے وقت خواہش تھی کہ کلیۂ اصول الدین میں شعبۂ تقابلِ ادیان میں داخلہ ہوجائے لیکن والد صاحب کی خواہش پر کلیۂ شریعہ میں بھی اپلائی کیا۔ داخلہ دونوں میں ہوگیا اور پھر کلیۂ شریعہ جوائن کی ۔ (یہ فیصلہ والد صاحب کی خواہش کے احترام میں کیا تھا جنھوں نے اپنا فیصلہ مجھ پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی لیکن اپنا رجحان بتادیا تھا اور ان کی اس بات نے مجھے قائل کرلیا تھا کہ اگر ایف ایس سی کے ساتھ ساتھ مسیحیت پر کام ہوسکتا ہے تو ایل ایل بی شریعہ کے ساتھ ساتھ مسیحیت پر کام کرنا تو مزید آسان ہوگا۔)
تحقیق کے سلسلے میں بارہا لاہور جا کر پاکستان بائبل سوسائٹی اور مسیحی اشاعت خانے سے کتابیں خریدیں اور ہر دفعہ وہاں موجود افراد کے اخلاق نے متاثر کیا کیونکہ وہ کاروبار اور منافع کی نیت سے نہیں بلکہ تبلیغ و اشاعت کی نیت سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بائبل سوسائٹی کے سامنے ہی ایک معروف دینی اشاعتی ادارے کی “دکان” بھی ہے اور “گاہک” کے ساتھ اگرچہ وہ بھی “ڈسکاؤنٹ” کرتے ہیں لیکن عمومی اخلاقیات کے معاملے میں دونوں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ (یہ میرا تاثر ہے جسے بدقسمتی سے ہر دفعہ مسلسل تقویت ہی ملی ہے۔)
اب کی بار بہت عرصے بعد بائبل سوسائٹی جانے کا موقع ملا تو پہلے ہی قدم پر جھٹکا لگا جب سوسائٹی کے دفتر سے باہر کئی میٹرز کے فاصلے پر زنجیر لگی دیکھی اور ایک مسیحی گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔ میں نے کہا کہ کتابیں دیکھنی ہیں تو کہنے لگا کہ یہاں تو بائبل ہی ملتے ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں اسی لیے آیا ہوں۔ پھر اس نے مسکرا کر معذرت کی اور کہا کہ گاڑی بھی ادھر ہی کھڑی کردیتے۔ میں نے کہا کہ نہیں گاڑی ڈرائیور آگے کسی کھلی جگہ پر پارک کرلے گا۔ اندر گیا تو ایک اور جھٹکا لگا کہ پہلے تو دروازے سے داخل ہو کر آپ سیدھے بڑے ہال میں پہنچتے جہاں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں ہوتیں۔ اب اندر داخل ہوچکنے کے بعد پہلے سکینر سے گزرنا پڑا ، پھر تنگ سی مختصر گلی میں بائیں مڑنا پڑا، پھر دائیں مڑنا پڑا اور پھر مزید دائیں مڑ کر ایک چھوٹے سے ہال میں داخل ہوا تو کتابوں تک رسائی ہوئی۔ ان بھول بھلیوں میں کیمرے بھی لگے ہوئے تھے جن پر اندر سے مانیٹرنگ ہورہی تھی۔ اندر پہنچنے تو کاؤنٹر پر موجود خاتون نے ذرا نروس انداز میں ویلکم کیا۔ پھر میں تو کتابیں دیکھنے لگا اور میری اہلیہ اور ہُلَیل نے ان کے ساتھ گپ شپ کی اور یوں کشیدگی میں کچھ کمی ہوئی۔
میٹرک کے دنوں سے میرا مسیحی اداروں میں، گرجا گھروں میں اور پادری صاحبان کے ہاں آنا جانا رہا ہے لیکن اس دفعہ شاید دس بارہ سال بعد جانا پڑا اور جس طرح کے عدم تحفظ کا احساس ان میں اس دفعہ پایا اس نے سخت پریشان کیا۔ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں مسیحی اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، انھیں زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے۔ (شاید عذر خواہ کہنے لگیں کہ اسی طرح کا احساس مسلمانوں کے دینی طبقے میں بھی پایا جاتا ہے لیکن بہرحال یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔)
مسیحی اشاعت خانے کی کتب ہوں یا بائبل سوسائٹی کی، یا ان کے ہاں پائی جانے والی وہ کتب جو دیگر اداروں نے شائع کی ہوں، ہمیشہ بہت کم قیمت پر ملتی ہیں۔ اتنی کم قیمت پر کہ اس کے بعد کسی “ڈسکاؤنٹ” کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتب تبلیغ کے مقصد سے شائع کی جاتی ہیں، نہ کہ تجارت کی غرض سے۔ ہمارے ایک استاد محترم کراچی کے ایک مشہور دینی اشاعتی ادارے کا نام لے رہے تھے تو غلطی سے “تجارۃ القرآن و العلوم الاسلامیۃ” کہہ گئے۔ ذرا رکے۔ پھر مسکرا کر کہا: ہاں، نام تو یہی صحیح ہے۔
کمنت کیجے