Home » جدید ریاست کے خد و خال
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات فلسفہ

جدید ریاست کے خد و خال

عمران شاہد بھنڈر

انقلابِ فرانس کے بعد جب انسانی تاریخ کی پہلی جدید ریاست قائم ہوئی تو عظیم فلسفی فریڈرک ہیگل نے لکھا کہ ”ریاست خدا کی زمین پر آمد ہے۔“ بعد ازاں مغربی مفکر اپنی سمجھ کے مطابق اس سے مختلف مفاہیم اخذ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بیشتر مفکرین اس پیچیدہ نتیجے کو سمجھنے میں ناکام رہے اور اس کی مہمل تشریحات پیش کرتے رہے۔ اس کا ایک سطحی مفہوم یہ بھی تھا کہ شاید مذہبی ریاست کی تشکیل کی بات ہوئی ہے۔ لیکن انقلابِ فرانس کے دوران مذہبی ریاست کا تو شیرازہ بکھر گیا تھا اور ہیگل نے واضح طور پر لکھا تھا کہ انقلابِ فرانس ”خیال“ کی حقیقت پر فتح ہے۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ انقلابِ فرانس فلسفے کی مسیحیت پر فتح ہے، کیونکہ فلسفیانہ خیال مسیحی ریاست کے خلاف فتح یاب ہوا تھا۔ ہر طرح کی مثالی دنیا کی تشکیل سے پہلے اس دنیا کا ایک فلسفیانہ تصور تشکیل دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ تصور ہی وہ فلسفیانہ خیال ہے جس کی منطقی حرکت کی پیروی میں جدید ریاست کی تشکیل ہونی تھی۔ تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروی ہے کہ ہیگل کے خدا اور ”مطلق“کے تصورات کے وہ مفاہیم واضح ہوں جو اس نے “سائنس آف لاجک“ میں تشکیل دیے تھے۔ان کے مطابق خدا سپرٹ ہے اور سپرٹ مطلق عقل ہے اور یہ مطلق عقل خود کو منطقی انداز میں تاریخی عمل کے دوران ظاہر کرتی ہے۔ کبھی تو وہ منطقی ہوتی ہے اور کبھی وہ ناکافی حد تک منطقی ہوتی ہے۔ منطقی کو منطقی ہونے کے لیے کسی خارجی ’ہاتھ‘ کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ منطق خود اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔ وہ منطقی خیال جدید ریاست کی شکل میں ظاہر ہوا ہے اور اسی کی صورت پر جدید ریاست کا قیام عمل میں آنا تھا۔
منطقی اصول ماورائے تاریخ محض تجریدات کا مجموعہ نہیں ہوتے، بلکہ منطقی اصول اپنا مقرونی (Concrete) مافیہا رکھتے ہیں۔ دراصل یہ خیال اور حقیقت کی جدلیات ہے جو مستقل طور پر ”بننے“ کے عمل میں ہوتی ہے جس میں ہر اگلا مرحلہ گزشتہ کی رَد و نمو کرتا ہے۔ جو لازمی ہے اسے اختیار کر لیا جاتا ہے، جو غیر ضروری ہے وہ رَد ہو جاتا ہے۔ رَد و نمو کی شناخت ایک عقلی تفاعل ہے۔ سماجی اور تاریخی نشو و نما کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ تاریخ کے ایک خاص وقت پر جدید ریاست کی تشکیل کا تصور ایک لازمیت کے طور پر پیدا ہوا تھا جس میں ہر غیر ضروری تصور جیسا کہ مسیحی حکومتیں وغیرہ کو اپنے اُلٹ میں تبدیل ہونا تھا۔ یہ سماجی نشو و نما کا تقاضا ہے کہ ہر تصور، شے حقیقت اپنے اُلٹ میں بدل جاتی ہے۔ لازمیت خود عقل کا ایک مقولہ ہے اور عقل بغیر مافیہا (Content کے کچھ بھی نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ تاریخی اعتبار سے جدید ریاست ایک عقلی و منطقی تشکیل ہے۔ ہیگل جو کہ ایک بے پناہ فلسفی تھا، اس نے حقیقت میں اتنی گہرائی اور دور تک دیکھتے ہوئے اس بنتر کو دریافت کر لیا جو ابھی تشکیل نہیں پائی تھی، جو مستور تھی، لیکن اسے مکشوف ہونا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ خود کو حقیقت کا روپ دینے کی جانب گامزن تھی۔ اس میں ایک اہم ترین پہلو جو کہ ہیگل کے فلسفے کا مغز ہے یہ ہے کہ سپرٹ روایتی مذاہب کی طرح ماورائے تاریخ نہیں ہے، یا وہ اس شکل میں نہیں ہے کہ انسان اس سپرٹ کو جان نہیں پاتا اور اس کا محض خارجی طور پر اطلاق کرتا ہے جیسا کہ عام مذہبی ریاستیں خدا کی مطلق العنانیت خارج سے قائم کرتی ہیں۔ یہ عقلی تصورات کا داخلی تقاضا نہیں ہوتا۔ اس میں سپرٹ انسانی عقل کی شکل میں خود کو ظاہر نہیں کرتی ہے، بلکہ مطلق العنانیت خارج سے خود پر مسلط کر لی جاتی ہے۔ یہ عقل کی داخلی بنتر کا تقاضا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایسے خیال کے طور پر تشکیل نہیں پاتا ہے کہ جو عقل کی داخلی حرکت کے تحت متشکل ہو۔
جدید ریاست ایک نامیاتی کُل کا کردار ادا کرنے کی حامل اس وقت ہوتی ہے جب اس کا کردار بھی یونیورسل ہو۔ ایک یونیورسل ایک ایسا کُل (ریاست بحیثیت کل) ہوتا ہے جو اپنے ہر جُز (فرد، خاندان، ادارے) کے ساتھ ربط میں ہو۔ اس میں جُز اپنا فعال کردار ادا کرنے کا اہل ہو اور جُز کی آزادانہ فعلیت کُل کی فعلیت کی نمو میں معاون ہو۔ واضح رہے کہ ریاستی کُل کا ہر جُز اپنی فعال حیثیت میں جو کردار ادا کرتا ہے وہ ریاست کے اغراض و مقاصد کے مدِ نظر نہیں کرتا، کیونکہ ایک نامیاتی ریاست میں جُز کا کردار ریاست کی کُلیت کے منافی نہیں ہوتا۔ تاہم اگر جُز اپنی خود مختار فعلیت میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے تو وہ بحیثیت مجموعی ریاست کی کُلیت کے لیے مفید بھی نہیں ہوتا۔ جُز کی خود مختاری ریاستی کُلیت کے ارتقا و نشونما کا ضروری حصہ ہے۔ کوئی بھی ملک ریاستی اداروں، سماج اور خاندان پر مشتمل ہوتا ہے۔ انہی تین پہلوؤں میں فرد اپنے وجود کو کوئی شکل دیتا ہے یا یوں کہیں کہ Realise کرتا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ ریاست کے جذبات نہیں ہوتے اور خاندان کی بنیاد ہی جذبات پر ہوتی ہے۔ یعنی خاندان نقطہ آغاز ہے۔ جبکہ سماج وہ میدان ہے، جس میں فرد خود کو بیگانہ پاتا ہے۔ سماج جتنا زیادہ بیگانہ ہوتا ہے فرد کی بیگانگی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور اس کے تخلیقی جوہر کے اظہار کے امکانات اتنے ہی مفقود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سماج وہ میدان ہے جہاں ریاست اور فرد کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔اسی میدان میں کوئی فرد اپنی خاندان سے نکل کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا ہے۔ سماجی ماحول کی فرد کی خواہشات سے ہم آہنگی ہو تو اعلیٰ افراد پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اعلیٰ سماج کی تشکیل میں ریاست (اداروں) اور افراد (خاندان) کی جدلیات قائم ہوتی ہے۔ اس سماجی جدلیات میں اگر تو عقل اپنے لزوم کے مقولے کو دریافت کر لے تو ایک اعلیٰ معاشرے کا قیام عمل میں آتا ہے۔ لزوم سے مراد یہ کہ جو فرد اور سماج کی لیے بطورِ لازمیت تشکیل پا چکا ہے اس کو عقلی سطح پر دریافت کر لے۔
ایک اعلیٰ ریاست مکمل طور پر عقلی ہوتی ہے۔ وہ جذبات کے زیرِ اثر نہیں ہوتی۔ وہ سماج میں اس ماحول کے فروغ کی کوشش کرتی ہے جس میں کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں کا مناسب اور کسی بھی رکاوٹ کے بغیر اظہار کرتا ہے۔ یہاں رکاوٹ سے مراد منفی دباؤ سے ہے جو کہ ایک غیر عقلی تقاضے کے طور پر خارج سے درمیان میں شامل ہو جائے۔ ریاست جتنی عقلی ہوتی ہے، اس کے افراد اتنا ہی زیادہ اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کرتے ہیں۔ یہ ریاست ہی ہے جو کسی بھی انسان کے وجود کو اس کی تخلیقیت کے جوہر کے اظہار کا موقع فراہم کرتی ہے۔
مذہبی ریاستوں میں اولیت مذہب کو حاصل ہوتی ہے اور فرد ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ریاست کے برعکس مذہبی ریاست میں فرد End in itself نہیں ہوتا۔ ریاست مذہبی ریاستوں میں مطلق العنانیت خدا کی ہوتی ہے، لیکن خدا افراد سے جدلیاتی ربط نہیں رکھتا، بلکہ وہ ماورائے تاریخ اور سماج ہوتا ہے۔ اس میں عقل بطور خود شعوری سماجی کلیت کا حصہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر ریاست میں مذہب داخل ہو جائے تو وہ ریاست عقلی نہیں رہتی، کیونکہ مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں بلکہ غیر عقل (وحی) پر ہوتی ہے۔ محمد اقبال نے لیکچرز میں صحیح کہا ہے کہ مذہب کا آغاز احساس سے ہوتا ہے۔ یعنی مذہب کی بنیاد ہی احساس اور جذبے پر رکھی جاتی ہے۔ اگر مذہب اپنی سرشت میں عقلی نہیں بلکہ ماورائے عقل یا جذبات ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہبی ریاست کی بنیاد عقل پر رکھی جا سکے؟ اور اگر کسی ریاست کی بنیاد عقل پر نہیں مذہب پر ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ریاست عقلی نہیں بلکہ ایک جذباتی ریاست ہے۔ ریاستی سطح پر جذبات عقل کے تابع ہوں تو مثبت نتائج پیدا کرتے ہیں اور اگر ریاست ہی جذبات پر مبنی ہو تو وہ لازمی طور پر جذبات کی ہمنوا ہوتی ہے۔ یہ دعویٰ مذہب کا اپنا ہے کہ مذہب کی بنیاد ہی ماورائے عقل ”شے فی الذات“ پر ہوتی ہے۔ عقلی تقاضا یہ ہے کہ ”شے فی الذات“ پر کسی ریاست کی بنیاد رکھنا تباہ کُن ہے، کیونکہ جو لوگ ”شے فی الذات کو مانتے ہیں، انہیں خود اس بات کا کوئی علم نہیں کہ اس ”شے فی الذات“ کی ماہیت کیا ہے؟ اور عقل یہ کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ کسی ایسی شے پر ریاست کی بنیاد رکھ دی جائے جس کا اس کے ماننے والوں کو ہی کوئی علم نہیں ہے؟ عقلی اور غیر عقلی تصورِ ریاست کے درمیان یہی وہ تضاد ہے جو ایک حتمی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس تضاد کی تحلیل مذہب سے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ایک تو تاریخی اعتبار سے مذہب خود اس تضاد کا حصہ ہے۔ دوسرا مذہب کے پاس ایسی کوئی عقلی و منطقی ہیئت نہیں ہے کہ جس کے ذریعے انتہائی پیچیدہ تضادات کی تحلیل ہو سکے۔ فلسفیانہ اور تاریخی اعتبار سے مذہب ایک تخفیف پسند آئیڈیالوجی ہے، جس میں سماجی لازمیت کی اس کی اپنی حرکت کی سمت میں نشو و نما نہیں ہوتی، بلکہ سماجی عمل کو ایک مخصوص مذہبی آئیڈیالوجی کے تحت ڈھالا جاتا ہے۔ اس طرح سماجی تضادات کی تحلیل نہیں ہوتی، بلکہ وہ سماجی تضادات زیرِ زمین چلے جاتے ہیں اور کسی اور وقت پر زیادہ شدت سے اپنا اظہار کرتے ہیں، جن کا شکار پورا معاشرہ ہوتا ہے۔
سیکولر ازم ایک خالص عقلی فلسفہ ہے، جس کی ترجیح میں تمام مذاہب کے ماننے والے مساوی ہیں۔ ایک سیکولر ریاست میں مذہب، رنگ، نسل علاقہ اور قوم وغیرہ کی بنیاد پر ”اقلیت“ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر ”اقلیت“ سماجی کُل کا ایک جُز ہوتی ہے۔ اگر جُز کے حوالے سے کسی بھی طرح کی کوئی تفریق قائم کی جائے تو وہ سماجی ”کُلیت“ کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ ایک کثیر الثقافتی اور کثیر القومی معاشرے پر مذہبی ریاست کا تسلط ایک تخفیف پسندی یا ”کلیت پسندی“ ہے۔ مذہبی ریاست ہر ارتقا پذیر خیال کی اپنے ماخذ تک تخفیف کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ اس کا جھکاؤ کسی ایک مذہب کی جانب ہونا ناگزیر ہے۔ جدید ریاست اس لیے عقلیت پسندانہ ہے کیونکہ اس کی تشکیل عقلیت پسندی کے اصولوں کے تحت ہوتی ہے۔مذہبی ریاست عقلیت کی مکمل حاکمیت کو سرے سے ہی قبول نہیں کرتی، حالانکہ خود عقلی فعلیت کی محتاج بھی ہوتی ہے۔ تاہم اس کے لیے اتنی ہی گنجائش نکالتی ہے جتنی مذہبی تعبیرات کے لیے ضروری ہو۔ عہدِ حاضر میں کئی اسلامی ریاستیں سیکولرازم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کیونکہ سیکولرازم کوئی ایسا فلسفہ و فکر نہیں ہے جو خارج سے مسلط کیا جاتا ہے، بلکہ یہ کسی بھی کثیر القومی اور کثیر الثقافتی معاشرے میں ایک داخلی ضرورت کے طور پر پیدا ہوتا ہے اور ایک مذہبی ریاست اس پہلو کو کبھی بھی مرکزی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی۔ تاہم عہدِ حاضر تک کی فکر یہی ثابت کرتی ہے کہ سیکولر ازم ہی وہ مثالی آدرش ہے جسے انسان آج تک کی تاریخی سفر میں حاصل کر پایا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں