Home » ” جبریت اور جہد ” مارکسزم کا ایک گمبھیر مسئلہ
تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار فلسفہ

” جبریت اور جہد ” مارکسزم کا ایک گمبھیر مسئلہ

ڈاکٹر  ظہور بابر

ایک طرف تو مارکسزم کا نظریہ مادیت ہے جو دو سلسلوں سے وابستہ ہے مادا اورحرکت۔ ( مارکس و اینگلز) دوسری جانب مارکسزم نظریہ ارتقاء کو مانتا ہے کے انسان مادہ سے ارتقا شدہ مخلوق ہے۔ اس کے علاوہ مارکسزم اس بات کو بھی ماننے پر مجبور ہے کہ تمام مادہ ان سائنسی یا علی قوانین کے تابع ہے جسے عرف عام میں مادی جبریت physical       determinism کہا جاتا ہے جس کے تحت علت و معلول کا رشتہ تمام مادی واقعات بشمول انسانی تہذیب، الغرض تمام مادی معاملات پر لاگو ہے (چند مارکسسٹس یہ بات نہیں مانتے)

بہرحال مادیت اور جبریت لازم و ملزوم ہیں اور جبریت مادیت کا ہی نتیجہ ہے اس مسئلے پر میری ڈاکٹر ظفرعارف مرحوم سے بھی بحث ہوئی جو اس سے انکاری تھے ۔ اور شاید جیف براؤن (لندن کے نامور سوشلسٹ) سے بھی ڈاکٹر ریاض کے ہمراہ بحث ہوئی۔

میرا سوال یہ تھا کہ جب مارکسزم کا بنیادی نظریہ مادیت ہی ہے تو پھر مارکسزم شعوری کاوش کا پرچار کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ مادیت اور جبریت کے تحت تو تمام واقعات و حالات، جبریت کے تحت، پہلے سے طے شدہ ہیں کہ ایسا ہوا تو ویسا بھی لازمی ہوگا۔ کارل مارکس نے بھی لندن کے بارے میں کئی پیشگوئیاں کیں جو اکثر ثابت نہ ہوئیں۔

بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ شعور کو اگر انفرادی اور اجتماعی کوشش کرنی ہے، اور جس کیلئے تمام کارکنوں کو آمادہ کیا جاتا رہا ہے۔ تو یہ جدوجہد جبریت کے تحت تو ایک اختیاری جدوجہد نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ کسی پہلے سے موجود حالات کا لازمی نتیجہ ہوگی، تو پھر یہ تضاد کیسا ہے کہ جبریت بھی درست ہے اور شعوری جدوجہد کے ارادے بھی باندھنے ہیں۔

چنانچہ اس پر اکثر مارکسسٹس اس کی کوئی واضح توجیحات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔۔ چاہے ہسٹوریکل میٹیریلزم لے لیں، جسے مارکس نے سائنٹیفک مٹیریلزم بھی کہ ڈالا ۔ چاہے نظریہ ارتقاء لے لیں۔ جبریت یا مادی جبریت کے حقیقت ہوتے ہؤے اختیار کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ پہلے سے موجود مادی حالات ہی لازمی طور پر ہونے والے حالات پیدا کریں گے۔

اگر بات سوسائٹی کی کی جائے تو بھی بات وہیں اٹک جاتی ہے۔ بقول مارکس جب کوانٹٹی بڑھتی جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی کوالٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے سوشل پیشگوئی بھی ہے۔ جب مزدور زیادہ اور ماکان کم ہوتے جائیں گے تو بلآخر مالکان ہی نہیں رہیں گے مزدور مالکان میں تبدیل ہو جائیں گے۔ یا جب پرولتاری طبقہ بڑھتا جائے گا تو سرمایہ دار طبقہ خود بخود کم ہوتے ہوتے ناپید ہو جائے گا۔ مگر پھر اس تناظر میں شعوری کاوش کے ذریعے انقلابی جدوجہد کیا معنی رکھتی ہے؟

یہاں تک کہ جبریت کے تحت تو اخلاقیات بھی ممکن نہیں۔ اخلاقیات کا سارا دار و مدار آزادی ارادہ کے ہونے پر ہے۔ اس سلسلے میں دیگر فلسفیوں میں نامور ترین فلسفی کانٹ اس پر قائم ہے کہ آزادی ارادہ کے بغیر اور اس سے وابستہ دیگر مابعدالطبیاتی حقیقتوں پر یقین کے بغیر اخلاقیات کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے ۔

مزید برآں اس مسئلے پر میرا ایک تحقیقی مقالہ بھی شایع ہوا ہے ماضی قریب میں، جس میں جبریت اور اخلاقیات کے امکان پر میں نے بحث کی ہے کہ مغربی فلسفیوں نے جبریت اور اخلاقیات کو مطابقتی نظریہ کے تحت جبریت اور آزادئ ارادہ کے اس مشکل ترین اور سدابہار مسئلے کو ایک رستہ دکھانے کی کوشش کی کہ جبریت اور آزادی ارادہ باہم مطابقت رکھتے ہیں۔ مطابقتی فلسفیوں کا کہنا ہے کہ آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ یہ علت کے بغیر ہے۔ آزادی کا مطلب ہے کہ وہ کام کر سکنے کے قابل ہونا یا اس کام کا ممکن ہونا جو کسی خواہش کے ساتھ منسلک ہو۔ خواہش کے برخلاف کوئی کام کرنا پڑے تو آزادی نہیں۔ مطابقتی فلسفیوں کے نزدیک آزادی کا یہی مطلب ہے۔ ان کے لئے بغیر علت آزادی اس لیے ممکن نہیں کہ آزادئ ارادہ بقول ان کے خواہش سے منسلک ہے، اور خواہش ان کے نزدیک ایک طرح کی ایسی علت ہے جس کے تانے بانے بیرونی مادی حقائق سے جڑے ہوئے ہیں۔ مطابقتی نظریہ کو میں نے دلائل کے ذریعے غلط ثابت کیا اور یہ مقالہ میں گذشتہ عرصہ میں مکمل طور پر شیئر کر چکا ہوں۔

بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ مارکسزم کے کئی ایک فکری مغالطے ہیں مگر کوئی مارکسسٹ انہیں مغالطے ماننے کو تیار نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ دلائل دینے کو بھی تیار نہیں، اور نہ ہی یہ ثابت کرنے کو تیار ہیں کہ جبریت کے حقیقت ہوتے ہؤے آزادی ارادہ اور شعوری کاوش کیا معنی رکھتی ہے۔

نہ صرف مارکسزم بلکہ ہر طرح کی مادیت میں یہ مسئلہ بڑا گھمبیر ہے۔ اس مسئلے پر بڑی تقسیم ہے۔ مادی سائنسی نظریہ ماننے والے بیشتر فلسفی جبریت کے قائل ہیں اور غیر علی عمل یا ارادے کو ممکن نہیں مانتے۔ جبکہ آزادی پرست فلسفی جبریت کے ہوتے ہوئے آزادی ارادہ کو ناممکن سمجھتے ہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ جبریت کو حقیقے ماننے کے نتیجے میں اخلاقیات بھی ممکن نہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے جو فلسفہ مغرب میں کئی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ہمارے اہل فکر و نظر بھی اس مسئلے پر تقسیم ہیں۔ اکثر یہ نہیں مانتے کہ ماکسزم میں کوئی جبریت کا معاملہ بھی شامل ہے۔ تو پھر مارکسزم مادیت کو تمام حقیقت مانتے ہؤے شعوری آزادی کی بات کس بنیاد پر کرتا ہے ؟ اگر جبریت کے تحت جدوجہد کی نتائج کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے تو پھر جدوجہد کس بات کی؟ یہ تو ہونا ہی تھا اس کے نتیجے میں وہ بھی ہونا تھا ۔ یعنی اگر جدوجہد کا آغاز اور برقراری کے پیچھے علت و معلول کے عوامل کارفرما ہیں جو جدوجہد کی صورت میں لازمی نمودار ہوتے ہیں تو پھر یہ بھی تو ہونا ہی تھا تو پھر جدوجہد کا شعوری پرچار کرنے یا لٹریچر کے پھیلانے کی کیا منطق ہے؟ یا تو سب کچھ ہی بشمول پرچار لازمی ہے یعنی پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر لیڈر کا کیا کمال ہے؟ لیڈر بھی ایک مادی قوانین کا ایک پرزہ ہے جو کسی اور گراری سے چلتا ہے اور وہ گراری کسی اور گراری سے، جس کا عمل اور رد عمل ازخود ہی رواں دواں ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جہاں انسان ہے وہاں شعور ہے جہاں کچھ حد تک انسان خود ہی اپنے کام پر اختیار رکھتا ہے کہ وہ یہ کرے یا نہ کرے۔ اگر سوسائٹی کوئی مادی مشین ہے تو کوئی کام ایسا نہیں ہو سکتا جسے کرنے سے کوئی رک سکے یا اپنا ارادہ از خود بدل ڈالے۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ بحث بھی کوئی رخ اختیار کرتی دکھائی نہیں دیتا البتہ فکری مغالطوں سے شناسائی کروانا اپنا مشن ہے باوجودیکہ جبر و اختیار پر انسانی دنیا آپس میں نظریاتی طور پر ہمیشہ تقسیم رہے گی۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں