ثقلین سرفراز
سماج افراد سے متشکل ہوتے ہیں اور افراد اپنے تمام تر معاملات زندگی سماجی عمل کے بغیر بروٸے کار نہیں لا سکتے، اس کے لیے اُنہیں سماجی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے اُن کا وجود بھی اسی میکانزم کا حصہ بن جاتا ہے۔ سماج میں افراد کے اشتراکات یعنی مشترکہ زبان، بنیادی ضروریات، عصبیت، خیالات و نظریات، ثقافت، جذبات، اور اقتصادیات وغیرہ، سماجی میکانزم کو مضبوط کرتے ہیں۔ سب سے بڑی قدر خود انسانی وجود ہوتا ہے اور اس انسانی وجود کی تشکیل کے لیے سماجی عمل ازحد ضروری ہوتا ہے۔ فرد کی سماجی تشکیل و کردار سماجی آزادی کے بغیر نہ ممکن ہے۔ سماجی آزادی ہی دراصل حقیقی آزادی ہوتی ہے۔ انفرادی طور پر آزادی محض فرد کے اپنے ذہنی سماج کی حد تک ہوتی ہے یعنی خیال تک محدود، ایک اعتبار سے کسی حد تک یہ ذہنی تسکین کا عمل ضرور ہے لیکن ماوراٸے شناخت ہے۔ فرد چوں کہ سماج کے بغیر کچھ نہیں ہوتا، اس لحاظ سے دیکھا جاٸے تو نظری پہلوٶں کی وقعت عملی سطح کے بغیر کچھ نہیں ہوتی، اور عمل سماجی ہوتا ہے لہذا اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ نظری اخلاقیات ماسواٸے یوٹوپیا کے کچھ نہیں، اخلاقیات دراصل معاملات کا نام ہے اور معاملات کے سروکار سماجی طرز کے ہوتے ہیں یعنی فرد کے افراد سے جُڑے ہوتے ہیں۔ یہاں معاملات سے کیا مراد ہے اور معاملات کون سے ہوتے ہیں؟ یعنی بنیادی نوعیت کے معاملات، جو کہ ناگزیر بنیادوں پر واقع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوٸی ایک فرد اکیلا کچھ نہیں ہوتا اُس نے لوگوں سے معاملات سرانجام دینا ہوتے ہیں اور معاملات سماجی عمل سے مشروط ہوتے ہیں۔ کسی فرد کو کسی دوسرے فرد سے ضروریات زندگی کی اشیا چاہیے ہوں اور اس کے پاس متبادل میں دینے کو کچھ نہ ہو تو وہ اخلاقی بنیاد پر اُس سے اشیا کے حصول کا تقاضا کرے گا، اور یہ تقاضا وہ خود اُس سماجی عمل کا حصہ ہوتے ہوٸے ہی کر سکتا ہے وگرنہ وہ اشیا سے محروم ہی رہے گا۔ اب آتے ہیں اخلاقی اقدار پر، اگر وہ اُس شے کو جن ضابطوں یا شراٸط پر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اُنہی ضابطوں اور شراٸط کی پاسداری سماجی اخلاقیات کے داٸرہ کار میں آٸے گی۔ میں سمجھتا ہوں انفرادی طرز کے اخلاق نام کی کوٸی شے نہیں ہوتی، البتہ ماوراٸی آٸیڈیالوجی سے اس کی سینکڑوں امثال دی جا سکتی ہیں جن کی کوٸی بنیاد یا حیثیت نہیں ہوتی، اسی پر ایک ماوراٸی مثال پیش کرتا ہوں، ایک فرد اکیلا بیٹھ کر خود سے ہی متبسم ہونا شروع ہو جاٸے اور کہے اخلاقی عمل سرانجام دے رہا ہوں تو کیا آپ اس عمل کو اخلاقی عمل کہیں گے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا اگرچہ تعقل پسندی اس عمل کو ایک ہیجان زدہ کیفیت قرار دے گی۔
ہم لاشعوری طور پر ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں، ہماری بنیادی ضروریات ہی ہیں جو دراصل ہمیں لاشعوری طور پر ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہیں، یہ ناگزیر ہوتی ہیں، مثلاً جمالیات کی کشید کاری، جبلت کی تسکین، خوراک کا حصول، وغیرہ۔ ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سماج جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے سماجی عمل سے گزرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ سماجی اقدار و اصول ایک طرح لازمہ کی مانند ہوتے ہیں یہ مسلسل انسانی محنت کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور یہ کوٸی مستقل نہیں ہوتے بلکہ مسلسل تغیّر کی حالت میں رہتے ہیں، ہر سماج کی اپنی اقدار اور اپنے اصول ہوتے ہیں جو کہ مخصوص جغرافیہ کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں، یہاں ایک بات واضح رہے ”قدر“ مسلسل انسانی محنت کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔
سمجھ داری کا تعلق بھی سماج سے ہوتا ہے یعنی فرد کی سماج کے بارے میں سمجھ بوجھ، جب کہ ذہانت انفرادی طرز کی شے ہوتی ہے نہ کہ اجتماعی، جو نظریہ، شے اکیلے فرد تک محدود ہو وہ سماج کے داٸرہ کار میں نہیں آتا۔ سماج کے مظاہر میں ذہانت ضرور نظر آتی ہے بشرط کہ سماج کی تعمیر میں اس نے حصہ لیا ہو یا وہاں اُس کا اطلاق ہوا ہو۔ جو خیال، تصور، یا شے سماجی عمل سے گزر جاٸے وہی اس کا حصہ تصور ہوتی ہے۔
یہاں ہم سماج کے حوالہ سے جُز اور کُل کی وضاحت کرتے ہیں۔ جُز، جب نظری حوالہ سے ہنگامی بنیادوں پر کُل پر غالب آتا ہے تو ظاہر ہے اکثریت ہم نوا بن جاتی ہے لیکن کُل اگر نظری سطح سے ہٹ کر معاشی حوالے سے ”مرکز“ میں ہو تو جُز کا اغلب کردار محض وقتی تصور ہو گا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ تصورات کی دنیا میں جب تک عوام کی سطح پر بنیادیں فراہم نہیں کی جاتیں یا ہوں گی تو تب تک وہ تضریبی اغلب کردار کھوکھلا ہی متصور ہو گا۔ جب بھی کسی سماج میں کوٸی نیا نظریہ تشکیل و فروغ پاتا ہے تو وہ اپنے سے پہلے نظریے سے بہتر ہوتا ہے بلکہ یوں کہنا صاٸب ہو گا کہ عوام کی بنیادی ضروریات یا مفادات اُس سے جُڑے ہوتے ہیں تبھی وہ ایک واضح شناخت حاصل کر پاتا ہے۔ نظری تناظر میں جُز جب بھی ہنگامی بنیاد پر یا چاہے جس صورت میں بھی سماج میں اپنی شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ اپنے نظریے کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ جُز جب آٸیڈیولاجیکل اُپج سے کُل پر غالب آتا ہے تو اس کو ہم حقیقی طور پر تب تک تسلیم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جب تک کہ معاشی اعتبار سے اُن کا تقابل نہ کر لیا جاٸے۔ تہ وقتیکہ جُز ، کُل کو اپنے تصورات کا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو جاٸے یا کُل کی یہ ہم نواٸی اگرچہ مجبورِ محض ہی کیوں نہ ہو۔ اس صورت میں اگر یہ سفر چاہے کچھ عرصہ ہی چلے بشرط کہ مزاحمت صفر ہو، بالآخر اُس کا مستقل بنیادوں پر انضمام ہو ہی جاتا ہے لیکن یہاں یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ”مرکز“ جب تک معاشی بنیادوں پر متزلزل نہیں ہو جاتا تب تک کُل کو نظری سطح پر اور مرکز کو معاشی حوالے سے شکست سے دوچار کرنا نہ ممکن ہو گا، چوں کہ تاریخ کے اسباق سے یہی معلوم پڑتا ہے کہ معاشی پہلو نظری سطح کو کنٹرول کرتے آٸے ہیں۔
سماج کا ارتقا شعور سے عبارت ہوتا ہے، اگر ہم عام سماج کے ارتقا کی بات کریں تو اس میں جو تصور کارفرما ہوتا ہے، وہ کافی پیچیدہ نوعیت کا حامل ہوتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے سماج کے میکانزم پر غور کرنا ہو گا، بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ وہ اپنی بُنتر میں مخصوص تعینات لیے ہوتا ہے جسے سماج کی کلیت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اب جو سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ یہ سماجی تعیین کیسے ممکن ہوٸی؟ میرے اپنے سماجی تجربات کے مطابق شعوری بنیادوں پر سماج کا میکانزم اپنی بُنتر میں کچھ ایسے درست متعینات کا حامل ہو جاتا ہے، جو کہ بعد ازاں اس کے ثمرات اس میں لاشعوری طور پر مزید ارتقا کے ضامن بنتے چلے جاتے ہیں۔ اگر یہاں ہم ایسے سماج کا تذکرہ کریں جو انہی خصوصیات کا حامل ہو اور پھر اُس کا ریاست سے ناطہ جوڑنے کی کوشش کریں تو یہ قطعی طور پر درست نہ ہو گا۔ ایسے سماج اور ریاست کے درمیان ( سماج کی اپنے طور پر شعوری کاوش کے تناظر میں بُنتر) تفریق خود بہ خود قاٸم ہو جاتی ہے۔
آزادی کے حوالے سے ایک اور پہلو یہ ذہن نشین رہے کہ آزادی کی ایک اعلی قسم فرد کا ”تعقل پسند“ ہونا ہے، لیکن اس کے جوہر سماجی فعالیت میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔
باشعور معاشروں میں جب جب بھی نظریاتی سطح پر تصادم ہوا تو فتح تعقل کو حاصل ہوٸی۔تعقل پسند معاشروں کے حاصلات بھی ان کی سماجی فعالیت میں مضمر ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ارتقا یافتہ معاشرے وہی تصور کیے جاتے ہیں جن کے کُل میکانزم میں یہ عملی صورت نظر آٸے اور ان کی تمام سماجی اقدار اسی سے عبارت ہوں
ماوراٸے تجربی سماجی اقدار جب عملی سطح پر فعال نہیں ہوتیں تو تب آزادی کی وہ صورت جنم لیتی ہے، جس پر ایک طرح سے سماجی پریشر نہیں ہوتا، مطلب یہ ایک طرح سے غیر عملی آزادی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس سے بھی سماج میں آزادی کا ایک نیا تصور جنم لیتا ہے اس سے راٸج سماجی عمل کی آزادی متزلزل ہونے لگتی ہے جو بالآخر نظری سطح پر بھی ہماری یاداشت سے محو ہونے لگتی ہے، یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب تعقلی سماجی اقدار کو تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر لحاظ سے باشعور معاشروں کی شناخت کا حوالہ ہوتی ہیں۔ آزادی کی تکمیل محض ماوراٸیت سے نجات میں نہیں ہوتی بلکہ اس نجات کے بعد سماجی کلیت میں تعقل پسندی کا نظر آنا لازم ہے۔
فرد کی حقیقی آزادی اُس کی سماجی کُلیت میں مُضمر ہوتی ہے۔ انفرادی آزادی اپنی بُنتر میں فعال نہیں ہوتی، بلکہ سماجی تعامل کے نتیجے میں جو آزادی حاصل ہوتی ہے وہی ”حقیقی آزادی“ ہوتی ہے۔ سماجی کُلیت سے مراد سماج کے تمام پہلو ہیں۔ سماج میں فرد گُم نہیں ہوتا بلکہ فرد یہاں دو سطح پر اپنا الگ تشخص برقرار رکھتا ہے، یعنی ایک بطور فرد کے اور دوسرا بطور یونیورسل کے، اب میں یہاں اپنے مقدمے کی بنیاد پر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مذہبی سماج میں اکیلے فرد کی تعقلی آزادی نہیں ہوتی، جب تک کہ پورا سماجی میکانزم اُس تعقل پسندی کے جذبے کی فضا سے لبریز نہیں ہو گا، یعنی ایسے مہابیانیاٸی سماج میں یا کسی بھی سماج میں اکیلے فرد کی آزادی کو آپ ”حقیقی آزادی“ نہیں کہہ سکتے۔ انسانی آزادی کو آپ کلیدی سماجی مسئلہ بھی کہہ سکتے ہیں اور دوسرے سماجی پہلو یا تو انسانی آزادی کی عکاسی یا توسیع ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اب تک دیکھا ہے، انسانی آزادی کی تعریف موجودہ سیاسی حالات سے ہوتی ہے جو اپنائے جانے والے قانونی فریم ورک کی مزید وضاحت کرتی ہے، یعنی یہاں ریاست کا کردار شامل ہو جاتا ہے چونکہ سماج اپنے اصولوں اور جغرافیاٸی اقدار و ثقافت کے تابع ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سماجی کلیت دوسرے تناظر میں جبر، استبراد، جھوٹ اور فریب سے عبارت ہوتی ہے۔
فرد اپنی بُنتر میں جہاں ”فرد“ ہوتا ہے وہیں ”یونیورسل“ بھی ہوتا ہے، وہ سماج میں بھی انہی دو سطح پر اپنی تشکیل کرتا ہے۔ جب وہ سماج کے عملی اشکال میں محض اپنی صورت گری کرتے ہوٸے اپنا الگ تشخص برقرار رکھتا ہے تو وہاں وہ جُزوی سطح پر خود کو متشکل کرتا ہے اور جب یہی فرد کی عملی صورت سماجی کلیت میں ضم ہو جاتی ہے تو تب اُس کی شناخت یونیورسل کے داٸرہ کار میں آ جاتی ہے یعنی کُلی روپ دھار لیتی ہے۔تجربات مادی و سماجی حقاٸق کی رساٸی کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ البتہ ماوراٸے تجربہ ”عقل“ بھی حقاٸق کو سامنے لاتی ہے۔
کسی بھی سماج میں فرد کا عمل محدود ہوتا ہے یعنی وہ محض سماج کے ایک جُز کی سطح تک محدود ہوتا ہے، لیکن وہی محدود ہی دراصل لامحدود ہوتا ہے، مثال کے طور پر پانی کا ایک قطرہ اپنی بُنتر میں محدود ہوتا ہے، جب کہ وہی قطرہ جب دوسرے قطروں سے ملے گا تو لامحدود ہو جاٸے گا۔ یعنی جُز تھا تو محدود اور کُل میں ضم ہو گیا تو لامحدود تصور کیا جاٸے گا۔ قطرہ تھا تو جُز تھا اور قطروں سے ملا تو کُلیت کے داٸرہ کار میں آ جاٸے گا۔ ایک مثال اور ملاحظہ کریں، چھوٹا بیانیہ اپنی اصل میں بڑا بیانیہ بھی ہوتا ہے، یعنی جب تک وہ حاشیے یا لامرکز سطح پر ہے تو چھوٹا بیانیہ کہلاٸے گا، لیکن جب وہی مرکز میں آ گیا تو بڑے بیانیے میں شمار ہو گا۔
سماجی میکانزم میں فرد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یعنی جب تک انسان کا وجود خود سے خارج میں فعال نہیں ہوتا تب تک وہ نامکمل ہی رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثقلین سرفراز صاحب مابعد جدید نقاد ہیں اور اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور میں ڈیپارٹمنٹ آف اردو میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔
کمنت کیجے