اہل علم جانتے ہیں کہ اشاعرہ و ماتریدیہ کا نظریہ “خلق مستمر” (occasionalism) ارسطو کے نظریہ تاثیر (potentialities) پر مبنی ثانوی علتوں کی کاسمولوجی کی تردید کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک طرف عالم قدیم ہو کر کسی فاعل مختار کا فعل نہیں رہتا اور دوسری طرف عالم پر خدا کا اقتدار متعدد ثانوی سلسلہ اسباب کے ذریعے نافذ ہوتا ہے اور جس سلسلے کے صرف پہلے سرے پر خدا ہوتا ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کے ناقد بعض مفکرین کا خیال ہے کہ خلق مستمر ایک گوناں سوفسطائیت کی صورت لئے ہوئے ہے جو ان ناقدین کے دعوے کی رو سے اس “فطری” انسانی تجربے کی نفی کرتا ہے کہ اشیا اشیا پر مؤثر ہیں۔ ان حضرات نے ایک درمیانی موقف اختیار کرنے کی کوشش کی جس کی رو سے خدا نے اشیا میں حقیقتاً تاثیرات پیدا کی ہیں اور ساتھ ہی خدا انہیں برہ راست خلق بھی کرتا ہے۔ یوں خدا کی قدرت بطور حقیقی علت اور اشیا کی تاثیرات بطور ثانوی علت مل کر اثر انگیز ہوتی ہیں۔ ان حضرات کے خیال میں یہ رائے فلاسفہ کی رائے کے برعکس عالم پر خدا کے اختیار کو بھی برقرار رکھتی ہے اور اشاعرہ و ماتریدیہ کی رائے کے برعکس انسانی تجرباتی علم کی زیادہ بہتر توجیہہ کرتی ہے کہ اشیا کی تاثیرات فی الواقع خارج میں متحقق ہیں۔ اس رائے کو concurrentism کہتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اس سے ملتی جلتی رائے شیخ ابن تیمیہ (م 1328 ء) کی رہی ہے اور عیسائی دنیا میں یہ تھامس اکواناس (م 1274 ء) وغیرہ کی جانب منسوب ہے۔ عام طور پر یہ تصور لوگوں کو زیادہ بامعنی محسوس ہوتا ہے اور کئی مذہبی اہل علم بھی اسی قسم کے خیال کے حامی ہوتے ہیں۔ تاہم یہ رائے متعدد قسم کے تضادات و مسائل پر مبنی ہے، مثلاً:
1) اس رائے میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہاں ایک چیز کی دو علتیں قرار دی جارہی ہیں جو ممکن نہیں۔ یا تو الف و ب دونوں مستقل حیثیت میں ج کی علت ہوں گی اور یا نہیں ہوں گی۔ اگر الف و ب دونوں ج کی مستقل علتیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک الگ حیثیت میں ج کے حصول و عدم کا سبب ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ الف کے بغیر بھی ج ہوسکتا ہے اور ب کے بغیر بھی ہوسکتا کیونکہ ایک کی موجودگی میں دوسری غیر ضروری (redundant) ہوگی، یوں ج دونوں ہی سے آزاد ہوجائے گا اور نتیجتا دونوں ہی علت نہ ہوں گی۔ خلاصہ یہ کہ ایک ہی شے کے لئے دو مستقل علتوں کو مقرر کرنا دونوں کو علت نہ کہنا ہے۔ اس کیفیت میں دونوں redundant ہوں گی (اور یا کم از کم ایک ضرور redundant ہوگی)۔ اور اگر دونوں الگ مستقل حیثیت میں نہیں بلکہ مل کر علت بنتی ہیں تو علت یہ دونوں نہیں بلکہ ان کا مجموعہ ہے جو مل کر ایک اکائی بنتا ہے اور نتیجتاً علت ایک ہی ہوئی نہ کہ دو۔ تاہم اس موقف کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا کی قدرت الگ حیثیت میں اثر کے حصول میں ناکافی ہے یہاں تک کہ کسی شے کی تاثیر بھی اس کے ساتھ مل کر کسی نتیجے کے حصول میں شامل ہو۔ الغرض اس موقف کی رو سے خدا کی قدرت کا علت ہونا یا redundant ہے اور یا ناکافی۔
2) آثار کا مسلسل خدا کی قدرت کے تحت ہونا اور ثانوی علت کا تصور دو متضاد چیزوں کو جمع کرلینا ہے۔ علت کہتے ہی اس شے کو ہیں جو کسی شے پر مؤثر ہو کر اس کے وجود و عدم کی توجیہہ بنے۔ اگر خدا کی قدرت و ارادہ واقعی ہر ہر شے سے متعلق ہو کر اس کی توجیہہ ہے تو ثانوی علت محض ایک نام ہے جس کا کوئی کردار نہیں، اور اگر ثانوی علت نامی کوئی شے واقعی بطور مؤثر اثر دکھا رہی ہے تو خدا کی قدرت کا ہر ہر شے پر اثر انداز ہونا محض زبانی جمع خرچ ہے, یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں. اس نظرئیے کی رو سے خدا کی قدرت کا براہ راست تعلق صرف علت سے ہے نہ کہ معلول سے، معلول کی نسبت بالواسطہ خدا کی قدرت کی جانب ہے۔
3) یہ نظریہ دراصل فلاسفہ کے نظریہ فیض پر منتج ہوتا ہے۔ ایسا اس لئے کہ کسی بھی دو واقعات، مثلا الف و ب، میں سے جس ایک (مثلا الف) کو علت کہا جارہا ہے، ثانوی علتوں کی سیریز میں وہ علت اپنے سے ماقبل کا معلول ہے اور جسے (مثلا ب کو) معلول کہا جارہا ہے وہ اپنے سے مابعد کے لئے علت بن جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا نے صرف پہلی شے کو خلق کیا جس کے بعد علت و معلول کا ثانوی سلسلہ چل پڑا۔ یہ گھڑی ساز خدا اور ارسطو کی علت اولی کا تصور ہے۔ الغرض دو مؤثر علتوں (حقیقی و ثانوی) کے تصور پر مبنی یہ رائے متضاد ہونے کے ساتھ ساتھ نظریہ فیض کے قریب جا پہنچتی ہے۔
آخری نکتے کے جواب میں اس نظرئیے کے حامیوں کا کہنا ہوتا ہے کہ ہمارا نظریہ بہرحال فلاسفہ کے نظرئیے کی طرح یہ نہیں کہتا کہ کائنات قدیم ہے نیز یہ کہ اس نٖظرئیے کے حامیوں کے مطابق خدا نے اپنی قدرت سے اشیا میں تاثیر رکھی ہے اور وہ جب چاہے اس سلسلے کو سسپنڈ کرسکتا ہے۔ کیا واقعی یہ معاملہ اتنا سادہ ہے؟ یہ جسے “تاثیر” کہا جاتا ہے کیا یہ واقعی مجعولہ (created) ہوسکتی ہے؟ ہمارا فہم یہ ہے کہ ان امور کا گہرائی میں تجزیہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حقیقتاً ماڈل دو ہی ہیں: وہ جو اشاعرہ و ماتریدیہ نے اختیار کیا اور وہ جو مسلم فلاسفہ نے اختیار کیا، درمیانی راہ کے نام پر جو یہ ماڈل تیار کیا جاتا ہے یہ فلاسفہ کی بات کو شوگر کوٹ کرکے آگے بڑھانے کی کاوش ہے (واللہ اعلم)۔ تاہم یہ کچھ گہرے مباحث ہیں جن پر الگ سے بات ہوسکتی ہے، البتہ یہ بات طے ہے کہ درج بالا نظریہ متضاد باتوں پر مبنی ہے اور اس میں دراصل متضاد باتوں کو تلفیق کی صورت جمع کرکے دو مواقف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کمنت کیجے