اسلامی نظریاتی کونسل نے شاید دوسری شادی پر لگائی گئی تمام شرائط کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے. امر واقعہ یہ ہے کہ
تعدد ازدواج کا تعلق کسی سماج یا فرد کے مخصوص حالات سے ہے۔اسلام نے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں دی بلکہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے رائج بے لگام تعدد ازدواج کو چار تک محدود کر دیا۔سورہ النساء کی آیات غزوہ احد کے بعد نازل ہوئیں جب مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں ساٹھ ستر خواتین یکبارگی بیوہ ہو گئیں اور ان کے بچے یتیم اور بے سہارا رہ گئے۔ ریاست کے پاس ان کی کفالت کے وسائل نہیں تھے۔لوگوں سے ان کی کفالت اور دیکھ بھال کا رضاکارانہ مطالبہ کیا جاتا تو اس سے مرد اکتا جاتے، عورتیں بدنام ہو جاتیں اور یتیم توجہ سے محروم۔ اس لئیے تعدد ازدواج کو تعداد اور عدل سے مشروط کر کے ہنگامی حالات میں اسے سماج کی ایک الجھن دور کرنے کا ذریعہ بنایا۔ چونکہ اس نوعیت کی یا اس سے کسی طور مختلف ضروریات کسی بھی فرد یا سماج کو کبھی بھی پیش آ سکتی ہیں اس لیے اس رعایت کو ختم نہیں کیا گیا۔اگر کسی مرد کے لئے جنسی ضرورت کے لئے ایک بیوی کافی نہ ہو، اسے کسی ضرورت مند خاتون یا اس کے بچوں کی کفالت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو، زیادہ اولاد کی ضرورت یا خواہش ہو، کسی کے حصول کی خواہش ہر لمحہ بے چین رکھتی ہو تواس مشروط اجازت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ تعدد ازدواج میں اسلام نے عورت کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے یہ راستہ کھلا رکھا ہےجبکہ مرد کے جذبات کو نظر انداز کر دیا گیا اور وہ یوں کہ اگر کسی دوشیزہ کو کسی دوسری خاتون کا شوہر پسند آ جائے تو وہ بے تکلف اس کی دوسری بیوی بن کر اپنی پسند کو حاصل کر سکتی ہے۔
لیکن اگر کسی مرد کو کسی دوسرے کی بیوی پسند آ جائے تو وہ ساری زندگی حسرت سے ہی ٹھنڈی آہیں بھر سکتا ہے. تو رعایت کس کی ہوئی؟
اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت، کونسل کی منظوری وغیرہ کو کتاب وسنت کے منافی بتایا ھے ۔درست۔۔ہماری پریشانی یہ ھے کہ قرآن نے اس اجازت کو عدل سے مشروط کیا ھے ۔عدل کا فیصلہ کون کرے گا ۔کیاآپ کوئ ایسا بندہ تلاش کر سکتے ہیں جو یہ کہے کہ میں عدل نہیں کر سکتا ۔کیا شوہر خود فیصلہ کرے گا ۔کیا کوئ شخص اپنا جج خود ہو سکتا ھے کہ اپنے حق میں خود فیصلہ کر دے ۔یا عدالت فیصلہ کرے گی یا حکمین کریں گے .کوئ تو ہونا چاہئیے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ضرورت مند عدل کرے گا ۔
امید ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس مسئلے پر تبدل الاحکام بتبدل الزمان کے فارمولے کے تحت دوبارہ غور کرے گی۔
کمنت کیجے