Home » صوفیاء اور نظم قرآن
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث کلام

صوفیاء اور نظم قرآن

گل رحمان ہمدرد

قل ھو اللہ احد ایک ایسی آیت ہے جو کسی بھی قسم کے نظم کے بغیر بھی سمجھی جاسکتی ہے۔جبکہ ھوالاول والآخر والظاہر والباطن ایک ایسی آیت ہے کہ نظم کا کوئی بھی تصور اس کا ایسا فہم مہیا نہیں کرسکتا جسکے بارے میں یقین سے کہاجاسکے کہ یہ اس کا حقیقی فہم ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بعض آیتیں ایسی ہیں جو کہ نظم کوپیشِ نظر رکھے بغیر بھی سمجھی جا سکتی ہیں۔اور بعض ایسی ہیں کہ کوٸ سا بھی نظم اس کا یقینی مفہوم دینے سے قاصر ہوتا ہے۔۔۔۔۔صوفیاء قرآن فہمی کےلیۓ نظم کے بجاۓ اپنی باطنی بصیرت پر انحصار کرتےرہے ہیں۔بعض لوگوں کو صوفیاء کا یہ رویہ غیر معقول نظر آتا ہے,حالانکہ یہ رویہ اتنا ہی معقول ہے جتنا کہ نظم قرآن کے حاملین کا رویہ معقول ہے۔۔۔نظم قرآن آپ کو آیات کی ظاہری تعبیر تک پہنچا سکتا ہے لیکن باطنی تعبیر تک یعنی گہرے مقاصد تک نہیں پہنچا سکتا۔اس کےلیۓ باطنی بصیرت پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی باطنی بصیرت ان آیات کی تفہیم میں زیادہ معاون ہوتی ہے جن میں دقیق فلسفیانہ و صوفیانہ اشارات موجود ہوتے ہیں لیکن ایسی آیات جن میں امورعامہ کا بیان ہوتا ہے کی تفہیم میں نظم کی اہمیت کا انکار بھی ممکن نہیں ہے۔
کسی بھی متن میں سائنٹفک نوعیت نظم تلاش کرکے تفہیم متن میں اسی پر تکیہ کرنا اور اس کو شاہ کلید(Master Key) قرار دینا کوئی درست رویہ نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف متن کو مکمل طور Fragmented سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ مصنف کے کسی بھی جملے کا اس کے کسی دوسرے جملےسےکوئی ربط نہیں ہے بھی ایک غیر متوازن بات ہے۔مصنف کی ایک مجموعی فکر ہوتی ہے ,اس کے مختلف جملے اسی فکر کےعکاس ہوتے ہیں اور ان میں آپس میں ایک ربط بہرحال موجود ہوتا ہے۔ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ گاہے مصنف کا ایک جملہ اسکی پوری کتاب پر بھاری ہوتا ہے ۔المختصر یہ کہ متن کی تفہیم میں مکمل طور پر معروضی نظم پر انحصار کرنے یا کامل طور پر اپنی موضوعی باطنی بصیرت پر انحصار کرنے کے بجاۓ ان دونوں روِشوں سے استفادہ کیاجاناچاہیۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گل رحمان  ہمدرد  صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • علم کی تمناؤں میں سے ایک تمنا معروضیت کا حصول ہے۔ صوفیہ اور دوسرے مکاتب فکر میں تنازع یہ ہے کہ روایات کی روشنی میں قرآن کی تفہیم ہو یا زبان کے وسائل جن میں ایک چیز نظم بھی ہےکی مدد سے، معروضیت حاصل ہو جاتی ہے اور اختلاف یا اتفاق کا پیمانہ دستیاب ہے ۔ جبکہ موضوعی اپروچ اس وصف سے خالی ہے یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کے ہاں پھر یہ دلیل دیتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں کہ یہ مجھ پر کشف ہوا ہے۔ گویا اختلاف کرنے والی صوفی سے نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔