Home » کیا قران مجید سائنس کی کتاب ہے
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث سائنس کلام

کیا قران مجید سائنس کی کتاب ہے

ڈاکٹر سہیل زبیری

قرآن نہ تو تاریخ کی کتاب ہے اور نہ ہی رسومات کی کتاب۔ اس نے زندگی کا ایک ایسا طریقہ بیان کیا جو ایک روشن خیال اور پرامن معاشرے کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآن میں انسانی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کے بارے میں قوانین بیان کیے گئے۔ ان میں شادی، طلاق، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ سلوک اور والدین، غلاموں اور یتیموں کے حقوق شامل تھے۔ قرآن نے تجارت اور سیاست کے احکام بیان کیے ہیں۔ اس نے سود اور قرضوں سے متعلق اصول بتائے۔ قتل، چوری اور زنا جیسے جرائم کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں۔ اس نے مساوات اور انصاف کو فروغ دیا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو وراثت کے حقوق دیے گئے۔

ان اعلیٰ اقدار نے بہت کم وقت میں عربوں کو ایک عظیم قوم بنانے میں مدد کی۔ انھوں نے ایک قبائلی سوسائٹی کوایک ایسی قوم میں تبدیل کیا جو آئیڈیلزم اور تخلیقی صلاحیتوں سے مزین تھی۔ پیغمبر اسلام کی موت کے فوراً بعد یہ قوم عالمی منظر نامے پر نمودار ہوئی اور چند دہائیوں کے اندر جدید پاکستان سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحلوں تک ایک سلطنت قائم کی۔ اس اسلامی سلطنت نے ایک ایسی تہذیب پیدا کی جو دنیا کی تاریخ کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک تھی۔ تاریخ میں یہ ایک بے مثال واقعہ ہے کہ ایک سلطنت اپنے ساتھ ایک عظیم تہذیب لے کر آئی۔ اس تہذیب نے علم کی تمام شاخوں بشمول طب، فلکیات، فلسفہ، طبیعیات، کیمسٹری اور ریاضی میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انہوں نے الجبرا ایجاد کیا، جدید کیمسٹری کی بنیاد رکھی، اور اپنے دور کے عظیم فلسفیوں کو پیدا کیا۔

بدقسمتی سے آج کے اسلامی معاشرہ کا ابتدائی سالوں کے ان سنہرے دنوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ مسلم معاشرے کے اندر متحرک اور تخلیقی صلاحیتیں بہت پہلے ختم ہو چکی ہیں۔ قرآن، جو شروع میں ایک اعلی زندگی کی رہنمائی کا ایک الہامی ذریعہ تھا، اب ایک غیر متحرک اور رجعت پسندانہ سوچ کا منبع بن گیا ہے۔ اگرچہ مغرب نے پچھلی کئی صدیوں کے دوران سائنس کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے ہیں، مسلمانوں کے پاس سائنس کے میدان میں کسی بڑی کامیابی دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ مغرب میں تیار کی گئی ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے صارف بن گئے ہیں، لیکن ان سائنسی دریافتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے جو اس تکنیکی انقلاب کا ذریعہ بنیں۔

اس شرمناک حیثیت نے موجودہ اسلامی دنیا میں ایک روایت کو جنم دیا ہے کہ تمام سائنسی علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور جدید سائنس کی تمام بڑی دریافتوں کا ذکر چودہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل قرآن مجید میں موجود تھا۔ مثال کے طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کائنات کی تخلیق کی بگ بینگ تھیوری، بلیک ہول کی تفصیل، کائنات کے پھیلنے کا مشاہدہ، یہ سب قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ یہ دعوے ایک طرف تو پچھلی پانچ صدیوں کے سائنسی انقلاب میں اپنا حصہ ڈالنے میں تقریباً مکمل عدم موجودگی سے جڑی شرمندگی کے کچھ حصے کو مٹانے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں یہ اہم سوالات پوچھنے سے روکتے ہیں کہ مسلم معاشرے کیوں سائنسی سوچ کو فروغ دینے میں ناکام رہے۔

اس پس منظر میں یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ آیا قرآن واقعی ایک ایسی کتاب ہے جس میں سائنس اور سائنسی نظریات کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔

یہاں میں یہ نکتہ بیان کرنا چاہوں گا کہ جیسا کہ اوپر بحث کی گئی ہے، اسلام کے آغاز کے وقت عرب میں موجود قدیم معاشرے پر قرآن کے سماجی اثرات غیر معمولی اور معجزاتی تھے۔ تاہم، قرآن کو سائنس کی کتاب کے طور پر تشریح کرنا انتہائی غلط ہے، یہاں تک کہ خطرناک بھی۔

میں اپنے اعتراض کی تائید میں کئی مشاہدات پیش کرتا ہوں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ قرآن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس وقت کے سائنسی نظریات سے متصادم تھی جو قرآن کے نازل ہونے کے وقت معلوم تھے۔ یہاں میں تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔

پیغمبر اسلام کے زمانے میں کائنات کے بارے میں جاری نظریے کے مطابق زمین کائنات کے مرکز میں ساکن تھی اور تمام فلکی اشیاء بشمول سیارے، سورج، چاند اور ستارے اس کے گرد حرکت کر رہے تھے۔ یونانی ماہر فلکیات بطلیموس کے تجویز کردہ اس جیو سینٹرک ماڈل کو سولہویں صدی میں نکولس کوپرنیکس نے ایک ہیلیو سینٹرک ماڈل سے تبدیل کر دیا۔ اس ماڈل میں زمین کسی بھی عام سیارے کی طرح سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد یہ سمجھنے میں کئی صدیاں لگیں کہ زمین ساکن نہیں ہے۔ قرآن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو سورج کے مرکزی نظام کے بارے میں پیش گوئی کرتی ہو۔ مسلمانوں کے پاس تقریباً ہزار سال کا وقت تھا جس میں وہ بطلیموس کے جیو سینٹرک ماڈل کو ختم کر کے ہیلیو سینٹرک ماڈل تجویز کرتے جو سچائی کے زیادہ قریب ہے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

ایک اور مثال کے طور پر، پیغمبر اسلام کے دور میں بصارت کو آنکھ سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں اور اشیاء سے ٹکرانے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کی سوچ کے مطابق، آنکھ سے نکلنے والی ان شعاعوں کے ذریعے اشیاء کی شکل، رنگ اور سائز کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم آنکھ کھولتے ہیں تو آنکھ سے بصری شعاعیں خارج ہوتی ہیں اور جب یہ شعاعیں کسی چیز کو ”چھوتی“ ہیں تو ہم اسے دیکھ سکتے تھے۔ یہ ایکسٹرمیشن تھیوری چوتھی صدی قبل مسیح میں افلاطون نے پیش کی تھی۔

اس نظریے کو عربی سائنسدان ابن الہیثم نے تقریباً 1400 سال بعد 12 ویں صدی کے اوائل میں رد کیا جب انھوں نے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ دیکھنے کے عمل کے دوران روشنی ان اشیا سے ٹکراتی ہماری انکھ میں داخل ہوتی ہے جن کو ہم دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو افلاطون کے نظریہ اخراج کو چیلنج کرتی ہو اور ابن الہیثم، جو خود مسلمان تھے، انھوں نے کبھی قرآن سے الہام حاصل کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔

اپنی آخری مثال کے طور پر، میں ارسطو کے نقطہ نظر کا ذکر کرتا ہوں کہ کائنات میں تمام اشیاء کیسے بنتی ہیں۔ ارسطو کے مطابق اس دنیا کی تمام اشیاء چار عناصر، مٹی، آگ، ہوا اور پانی سے بنی ہیں۔ اس میں تقریباً دو ہزار سال گے جب ایک برطانوی کیمیا دان جان ڈالٹن نے دکھایا کہ تمام عناصر ایٹموں سے بنتے ہیں۔ مسلم کیمیا دانوں کے اہم کارناموں کے باوجود، کسی مسلمان سائنسدان نے ایٹم کی دریافت سے پہلے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ایٹمی تھیوری قرآن کا حصہ ہے۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قرآن کو سائنسی کتاب قرار دینا محض جہالت کو ظاہر کرتا ہے۔ سائنس اور مذہب دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ مذہب کی بنیاد ایمان پر ہے جبکہ سائنس کی بنیاد عقل پر ہے۔ مذہبی عقیدہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا جبکہ سائنسی نظریات ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔ مذہبی عقیدے مابعد الطبیعات کے دائرے میں ہیں اور ان کی جانچ نہیں کی جا سکتی جبکہ سائنسی حقائق کو کوئی بھی کہیں بھی جانچ سکتا ہے۔

سترہویں صدی سے پہلے ارسطو کو سائنس کی کلیدی شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ پھر انیسویں صدی کے آخر تک نیوٹن کے نظریات کا سائنسی منظرنامے پر غلبہ رہا۔ اور بیسویں صدی کے آغاز میں کوانٹم مکینیکل قوانین اور نظریہ اضافیت نے کائنات کے بارے میں ہمارے تصور کو مکمل طور پر بدل دیا۔ کاسمولوجی میں بڑی دریافتیں ابھی جاری ہیں۔ صرف 25 سال پہلے ہم نے سیکھا ہے کہ کائنات کا 95 فیصد حصہ تاریک مادہ اور تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ ہم سے بالکل پوشیدہ ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں وہ کائنات کا 5 فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔ ہم تاریک مادے اور تاریک توانائی کے ستاروں اور کہکشاؤں کی حرکت پر اثرات تو دیکھتے ہیں لیکن ہمیں ان کی نوعیت کے بارے میں ابھی تک قطعی طور پر کوئی علم نہیں ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر علماء کرام قرآن مجید میں موجود سائنسی حقائق کے تذکرے کو مختلف ادوار میں، 17 ویں صدی سے پہلے، 17 ویں اور 19 ویں صدی کے درمیان اور 19 ویں صدی کے بعد تلاش کرتے تو وہ بالکل مختلف حقائق تلاش کر رہے ہوتے۔ یہی خطرہ ہے کہ قرآن جس نے اپنے پیغام کے ذریعے صدیوں تک لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا، کو اگر ایک سائنسی کتاب سمجھا جائے تو اس کے متضاد نتائج نکل سکتے ہیں۔

آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کی چودہ صدیوں میں آج تک کسی نے بھی قرآن کی بنیاد پر کوئی ایسی نئی سائنسی حقیقت دریافت نہیں کی جو سائنسی سچائی کی کسوٹی پر پوری اتر سکے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب کوئی نئی سائنسی حقیقت دریافت ہوتی ہے، تو لوگ عام طور پر بعض آیات کی تشریح کر کے نئے مفہوم کے ذریعے قرآنی متن میں اس کی وضاحت تلاش کر لیتے ہیں۔

قرآن اور سائنس کا دائرہ مکمل طور پر مختلف ہے اور ان دونوں میں مصالحت کی کسی بھی کوشش کو سراسر جہالت کا کام سمجھا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کو جو سوال کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں سائنسی فکر اور سائنسی ثقافت کیسے پیدا کی جائے اور اس طویل تاریکی کی رات کو کیسے ختم کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس کے Distinguished       Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں