Home » فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال
اسلامی فکری روایت زبان وادب شخصیات وافکار کلام

فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر جثہ حصہ ڈالا ہے۔ اس ضمن میں ساجد صاحب نے جو مقدمہ کھڑا کیا ہے نیز اس کے لئے وہ جو دلائل لائے ہیں، اس پر ہم ان شاء اللہ کسی فرصت میں تبصرہ کریں گے، ہمارے نزدیک انہوں نے امام شافعی سمیت جمیع اصولیین کا مقدمہ سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ تاہم فی الوقت ہم قارئین کے سامنے مکتب فراہی کے دیگر افراد کی طرح محترم موصوف کے تصور قطعی کا حال واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہم ان کہ تحریر میں درج ایک مثال کا مختصرا تجزیہ کرتے ہیں۔ قرآن میں مطلقہ خواتین کو تین قروء عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فقہا کے مابین اس بات پراختلاف ہوا کہ قروء کا مطلب حالت حیض ہے یا طہر۔ طرفین کے موقف و دلائل کی صحت و عدم صحت سے ہمیں یہاں دلچسپی نہیں، اصل بات یہ ہےکہ ساجد حمید صاحب کے بقول یہاں قروء کا مطلب حیض ہے اور یہ بات قرآن کی ایک اور آیت سے صاف ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

“عدت کے احکام کو دوسری جگہ دیکھیں۔ ارشاد ہے:
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ…. (الطلاق۶۵: ۴)
’’یعنی تمھاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں، ان کے بارے میں اگر شک ہو تو عدت تین ماہ ہے۔‘‘

ان دو مقامات سے واضح ہے کہ عدت کے شمار اور تعینِ اولاد کے لیے ایک ہی چیز بیان ہوئی ہے وہ حیض ہے، قرآن مجید کا مدعا دو ٹوک ہے۔لیکن اس کے باوجود (فقہا کے نزدیک) کلام ظنی ہی مانا جائے گا”

آئیے اس “دو ٹوک” نتیجے کے لئے کئے جانے والے استدلال کا حال ملاحظہ کرتے ہیں۔

عدت کے احکام سے متعلق جن دو آیات کو ملاکر وہ قروء سے مراد قطعی طور پر حیض قرار دینا چاہتے ہیں اس کی کمزوری بالکل سامنے کی چیز ہے۔ آیت وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ الخ یہ کہہ رہی ہے کہ جو خواتین مایوسی کے ایام کو پہنچ چکیں، چونکہ ان کے حق میں حیض وطہر میں فرق کا کوئی پیمانہ ممکن نہیں رہا اس لیے وہ دنوں (یعنی تین ماہ) کو معیار بنائیں گی۔ لیکن اس سے یہ کس لغوی دلالت سے معلوم ہوا کہ قروء کا مطلب حیض ہے؟ شوافع اس استدلال پر یہ کہیں گے کہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان خواتین کے حق میں “طہر”، جو اصلا قروء کا مطلب ہے، جب تک ان کے درمیان حیض مدخل نہ ہو تو وہ لامتناہی حد تک چلتا رہے گا اور نتیجتاً گنتی ناقابل تصور ہو جائے گی، لہذا شارع نے ان خواتین کے لئے دن معیار مقرر کردئیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مستحاضہ کے حق میں طہر بظاہر ناقابل تصور ہو جاتا ہے کہ اسے مستقل خون آتا رہتا ہے، اس لیے اس کے لیے عادت وغیرہ کے ذریعے سے کسی دوسرے پیمانے کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ پس آیت کے الفاظ “جو حیض سے مایوس ہوئیں” سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قروء والی آیت میں اس سے حیض مراد ہے، چہ جائیکہ اسے قطعی بھی کہا جاسکے۔ ہاں اگر کسی چیز کو محض لفاظی کے زور پر دو ٹوک کہہ دینے سے وہ قطعی ہوجاتی ہے تو الگ بات ہے۔ بات کو اصولی زبان میں مزید کھولا جائے تو بات یہ ہے کہ اس آیت کی بنیاد پر قروء سے حیض مراد لینا عبارت النص، اشارۃ النص، دلالت النص و اقتضاء النص کے ذریعے تو رہا ایک طرف، مفہوم مخالف (جو الفاظ سے مفہوم اخذ کرنے کا کمزور و مختلف فیہ طریقہ ہے) سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں “جسے حیض نہیں آتا، تو مہینوں کا اعتبار کرے” منطوق ہے جس کا مفہوم مخالف “جسے حیض آتا ہے وہ مہینوں کا اعتبار نہ کرے” بنتا ہے۔ اس سے قروء کا مطلب حیض نکال لینا کونسی قطعی لغوی دلالت ہے جسے دو ٹوک کہا جاسکے؟ البتہ یہ بات درست ہے کہ ایسے قرینے (کہ “دیکھو دنوں کا تقابل حیض نہ آنے سے کیا گیا ہے”) مجتہد کے حق میں وجوہات ترجیح ہوسکتے ہیں لیکن انہیں “دو ٹوک” کہنے سے گریز ضروری ہے کیونکہ ان قرآئن میں تشریحات کے واضح احتمالات موجود ہوتے ہیں جیسا کہ یہاں واضح کیا گیا اور اگر دوسرا مجتہد دیگر قوی دلائل یا قرائن کی بنا پر دوسری رائے کو ترجیح دے تو وہ بھی مصیب ہوسکتا ہے۔

ہم پہلے بھی گزارش کرتے رہے ہیں اور پھر کہیں گے کہ مکتب فراہی کا تصور قطعی ان اصولیین کے تصور ظنی کے سوا کچھ نہیں جن کے نزدیک الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ساجد صاحب کی یہ مثال بھی اس کی پرفیکٹ مثال ہے اور ایسی “قطعیت” کی درجنوں مثالیں اس مکتب فکر کی کتب میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ قطعی الدلالۃ اگر اسی چیز کا نام ہے کہ ایک ہی آیت سے متعلق مولانا فراہی و مولانا اصلاحی و جناب غامدی و جناب ساجد حمید صاحبان نظم قرآن کے تحت الگ الگ باتیں کہہ دیں مگر پھر بھی نہ صرف یہ کہ یہ سب مسلمان رہیں بلکہ عند اللہ ماجور نیز اپنے فہم کے مطابق حکم اللہ کے مکلف رہیں تو اس مفہوم میں “قطعی دلالت” کا انکار کس نے کیا ہے کہ اسے منوانے کے لئے ساجد صاحب کی طویل تحریر کی ضرورت ہو؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اصولیین کے ظنی کو اپنے ہاں قطعی بنا کر بحث کرتے رہیں گے اور اس بات کو اگنور کردیں گے کہ قطعی سے وہ کیا مراد لیتے ہیں تو اس کا حاصل لفظی نزاع کے سوا کیا ہے؟ اس لفظی نزاع کو وقیع بنانے کے لئے امام شافعی سے کہانی کا آغاز کرنا مفید نہیں۔ امام غزالی کتاب المستصفی میں مباحث اجتہاد کے تحت کہتے ہیں کہ قطعی مسائل میں حق صرف ایک ہوتا ہے اور ان میں اختلاف جائز نہیں ہوتا بلکہ اختلاف کرنے والا گنہگار یہاں تک کہ بدعتی و کافر تک ہوتا ہے، البتہ مسائل ظنیہ میں ہر مجتہد مصیب ہوسکتا ہے۔ آپ قطعیات کی مثالیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عالم حادث ہے، حادث کے لئے محدث ہے، اجماع حجت ہے، نماز فرض ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متعلقہ مثال میں قروء سے مراد حیض ہونے کے لئے ساجد صاحب نے جن دلائل کا تذکرہ کیا ہے، یہ اس مسئلے پر احناف کےدلائل ہیں جن پر فریقین کا موقف اور جوابی موقف کتب فقہ میں موجود ہے۔ امام رازی نے “تفسیر کبیر” میں آیت قروء کے تحت ان دلائل سمیت شافعی و حنفی ہر ایک موقف کے حق میں لگ بھگ آدھ درجن دلائل ذکر کئے ہیں جن کی تفصیل وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ان دلائل کے بعد آپ لکھتے ہیں:

أَنَّ عِنْدَ تَعَارُضِ هَذِهِ الْوُجُوهِ تَضْعُفُ التَّرْجِيحَاتُ، وَيَكُونُ حُكْمُ اللَّهِ فِي حَقِّ الْكُلِّ مَا أَدَّى اجْتِهَادُهُ إِلَيْهِ
یعنی ان معارض وجوہات کی بنا پر کسی ایک جانب کو راجح قرار دینے کی بنیاد کمزور ہوجاتی ہے اور اس لئے ہر مجتہد کے حق میں حکم اللہ اس کے اجتہاد کے مطابق ہوتا ہے

جی ہاں، جب وجوہات ترجیح کمزور ہوں تبھی ہر مجتہد مصیب اور اپنے اجتہاد کا مکلف ہوا کرتا ہے۔ امام رازی چونکہ کلام، اصول، فقہ و لغت سب علوم جانتے تھے لہذا انہیں یہاں “دو ٹوک” کی غلط فہمی نہیں لگی۔ امام غزالی المستصفی میں فرماتے ہیں کہ دو آراء کے مابین ایک کو ترجیح دیا جانا ظنیات کے باب کی چیز ہے کیونکہ قطعیات میں ترجیح کا تصور نہیں ہوتا کہ قطعی میں گمان غالب یا اولی ہونے کا پہلو نہیں ہوتا بلکہ ہونے وہ نہ ہونے کا پہلو جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ مکتب فراہی سے متعلق اہل علم سے ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اصولیین پر نقد سے قبل ان کے ہاں قطعی و ظنی کے مفہوم کی تفصیلات و احکام ضرور دیکھ لیجئے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں