Home » قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث زبان وادب شخصیات وافکار کلام

قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ

جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امام صاحب قرآن کی دلالت کو حدیث کے مقابلے میں ظنی ثابت کرتے ہیں اور اسی سے اس کا جواز پیدا ہوا کہ “قرآن کا متن کچھ کہہ رہا تھا، مگر سنت نے اس کے دوسرے ہی معنی نکال کر بتا دیے۔ یا خود قرآن کے دوسرے مقام نے اس کے معنی بدل کے رکھ دیے”۔ اس ساری بحث کو ساجد صاحب نے جس طرح پیش کیا ہے وہ امام صاحب کے مدعا کا بیان نہیں ہے۔ آئیے امام صاحب کی بحث دیکھتے ہیں۔

“الرسالۃ” کی ابتدا میں امام شافعی یہ بحث نہیں کررہے کہ قرآن کی دلالت قطعی ہے یا ظنی، بلکہ امام شافعی کی بحث یہ ہے کہ کلام عرب (یعنی لینگویج ) کیسے کام کرتی ہے۔ چنانچہ آپ کتاب الرسالۃ میں بیان کی پانچویں قسم ذکر کرنے کے بعد یہ بحث لائے ہیں کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ اس بحث کو لانے کی وجہ آپ یہ لکھتے ہیں:

وإنما بدأت بما وصفتُ من أن القُرَآن نزل بلسان العرب دون غيره لأنه لا يعلم مِن إيضاح جُمَل عِلْم الكتاب أحد جهِل سَعَة لسان العرب وكثرةَ وجوهه وجِماعَ معانيه وتفرقَها ومن علِمه انتفَتْ عنه الشُّبَه التي دخلت على من جهل لسانها (۔۔۔) خاطب الله بكتابه العربَ بلسانها على ما تَعْرِف مِن معانيها وكان مما تعرف من معانيها اتساعُ لسانها وأنَّ فطرته أن يخاطب بالشئ منه عامًّا ظاهِرًا يُراد به العام الظاهر ويُسْتغنى بأوَّل هذا منه عن آخِرِه وعاماً ظاهراً يراد به العام ويَدْخُلُه الخاصُّ فيُسْتَدلُّ على هذا ببَعْض ما خوطِبَ به فيه وعاما ظاهرا يراد به الخاص وظاهر يُعْرَف في سِياقه أنَّه يُراد به غيرُ ظاهره فكلُّ هذا موجود عِلْمُه في أول الكلام أو وسطه أو آخره وتبتدئ الشئ من كلامها يُبَيِّنُ أوَّلُ لفظها فيه عن آخره وتبتدئ الشئ يبين آخر لفظِها منه عن أوَّلِهِ وتكلَّمُ بالشئ تُعَرِّفُه بالمعنى دون الإيضاح باللفظ كما تعرِّف الإشارةُ ثم يكون هذا عندها من أعلى كلامها لانفراد أهل علمها به دون أهل جهالتها۔ وتسمي الشئ الواحد بالأسماء الكثيرة وتُسمي بالاسم الواحد المعانيَ الكثرة
مفہوم: قرآن عربی میں نازل ہوا ، ہم نے اس بحث سے اس لئے ابتدا کی کیونکہ جو شخص عربی زبان کی وسعت ، اس (سے اخذ معنی) کی وجوہ ، معانی کی جامعیت (یعنی شمول) و انفرادیت (کے اصولوں) سے واقف نہیں وہ کلام اللہ کے جملہ علوم کی تفصیلات سے واقف نہیں ہوسکتا (۔۔۔) اللہ نے عرب کو اپنی کتاب میں اس عربی زبان میں خطاب کیا جن کے معنی ان کے لئے معروف تھے۔ (زبان کے استعمال کی بنا پر) یہ بات ان کی فطرت میں شامل تھی کہ کبھی ظاہری طور پر عام لفظ سے خطاب کیا جاتا ہے اور مراد بھی وہی ظاہری عام (معنی) ہوتے ہیں، کبھی عام الفاظ سے خطاب ہوتا ہے اور مراد عام ہی ہوتی ہے مگر خصوص بھی موجود ہوتا ہے اور خطاب کے بعض (دیگر) الفاظ سے اس خصوص پر استدلال کرلیا جاتا ہے، اور کبھی الفاظ ظاہرا عام ہوتے ہیں مگر اس سے مراد خاص ہوتی ہے اور کبھی سیاق کلام سے یہ سمجھ لیاجاتا ہے کہ ظاہری مفہوم مراد نہیں۔ ان میں سے ہر ایک صنف کلام کے اول ، وسط یا آخر سے معلوم ہوجاتی ہے، یعنی کبھی کلام کی ابتدا ایسے لفظ سے ہوتی ہے جس کا پہلا لفظ آخری حصے کو واضح کردیتا ہے اور کبھی کلام کے آخر میں کوئی ایسا لفظ ہوتا ہے جو ابتدائی حصے کی وضاحت کردیتا ہے۔ اور کبھی ایسا کلام ہوتا ہے جس کے معنی غور و فکر سے سمجھ آتے ہیں اگرچہ لفظوں میں وضاحت موجود نہ ہو (بالکل اسی طرح) جیسے اشارے سے کام لیا جاتا ہے۔ اہل عرب کے نزدیک اس قسم کا کلام اعلی درجے کا تصور کیا جاتا ہے۔ کبھی ایک معنی کے لئے کثیر الفاظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک لفظ کے لئے کثیر معنی۔

اس اقتباس سے واضح ہے کہ امام شافعی کی بحث کا مقصود یہ بتانا ہے کہ کلام عرب کی خصوصیات کیا ہیں اور یہ اصولی بحث وہ اس لئے کررہے ہیں کیونکہ اپنے مخالفین پر وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زبان کا یہ اسلوب ایک فطری چیز ہے کہ عام بول کر کبھی عام تو کبھی خاص مراد ہوتی ہے، یہ سمجھنا کہ عام سے اصلاً ہمیشہ تمام افراد مراد ہوتے ہیں یہ عربی زبان کا اسلوب نہیں۔ پھر آپ متعدد قرآنی آیات سے اس پر استدلال کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے لفظ عام محتمل الوجوہ ہوتا ہے۔ آئیے بعض کا مطالعہ کرتے ہیں۔

1۔ قرآن میں آتا ہے:
مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ

اس آیت کے ظاہری انداز خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر اور اس کے آس پاس کے سب نفوس پر جہاد میں شریک ہونا لازم تھا چاہے اس میں استطاعت ہو یا نہ ہو جبکہ یہاں مراد وہ مرد ہیں جو جہاد میں شریک ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں اور یہ تخصیص ظاہر ہے کلام کے دیگر حصوں سے کی گئی ہے۔

2۔ قرآن میں آتا ہے کہ جب حضرت موسی اور خضر علیہما السلام کا گزر گاؤں سے ہوا تو انہوں نے لوگوں سے ضیافت کا تقاضا کیا جسے لوگوں نے قبول نہ کیا:

حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا

یہاں بظاہر یہ معلوم ہورہا ہے کہ گاؤں کے سب افراد کو جمع کرکے یا فردا فردا سب کو ضیافت کا کہا گیا جبکہ معاملہ ایسا نہیں بلکہ مراد بعض افراد ہیں۔

3۔ قرآن میں ارشاد ہوا:
وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا

یہاں الفاظ “ھذہ القریۃ الظالم” سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے گویا اس شہر کے سب لوگ ظالم تھے لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ وہاں اہل ایمان بھی تھے۔ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ظاہری الفاظ عام ہیں مگر خصوص کا احتمال موجود ہے۔

4۔ قرآن میں ارشاد ہوا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

یہاں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ “اکرمکم” میں سب انسانوں سے متعلق بات ہورہی ہے جبکہ مراد وہ لوگ ہیں جو تقوی کا مفہوم سمجھتے ہیں جبکہ پاگل وغیرہ اس سے خارج ہیں جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا کہ تین لوگوں مرفوع القلم ہیں۔

امام شافعی نے اس نوع کی دیگر مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ ان کا مقصد یہ کہنا ہے کہ کلام کے ظاہری معنی کی تعیین و تحدید عقلی قضایا نیز متکلم کے کلام کے دیگر نظائر سے کیا جانا ایک عام لسانی اصول ہےجو قرآن میں بھی جاری ہے۔ اسی ضمن میں وہ قرآن کی شرح کے لئے سنت کا حجت ہونا ثابت کرتے ہیں کہ جب خود شارع نے کہہ دیا کہ تم پر میرے رسول کی اتباع واجب ہے نیز وہ میرے کلام کی تبیین فرماتے ہیں تو پھر جس معاملے میں آپﷺ کی کوئی وضاحت سامنے آجائے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ متکلم نے اگرچہ عام لفظ استعمال کیا ہے لیکن اس کی مراد خاص ہے (فكل كلام كان عاماً ظاهراً في سنة رسول الله فهو على ظهوره وعمومه حتى يُعْلَمَ حديثٌ ثابِتٌ عن رسول الله بأبي هو وأمي يدل على أنه إنما أريد بالجملة ‌العامة في الظاهر بعضُ الجملة دون بعض) کیونکہ لفظ عام کے ظاہری معنی میں تمام افراد کا شامل ہونا از خود کوئی قطعی لسانی اصول نہیں کہ اس کی بنا پر خبر واحد سے تخصیص جائز نہ ہو۔ تبیین بذریعہ سنت کے اس عمل کو “الفاظ قرآن کے مفہوم کو بدل دینے ” جیسی تعبیر دینا علمی بدذوقی ہے اور اس پر استدلال کے نام پر یہ ردا چڑھانا کہ خود آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ “میرے نزدیک اس آیت کے معنی وہ نہیں ہیں جو اس سے بظاہر معلوم ہورہے ہیں یا میں اس کی تبیین کررہا ہوں، کیونکہ قرآن کا مدعا صاف نہیں ہے” سونے پر سہاگے کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ اس استدلال کی کاٹ سے خود مکتب فراہی بھی بچ نہیں سکے گا کیونکہ خود یہ لوگ بھی متعدد مقامات پر احادیث کو قرآن کا بیان بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ ان احادیث میں بھی یہ بات مذکور نہیں کہ “میں یہاں فلاں آیت کی شرح کررہا ہوں لہذا تم میری اس بات کو اس آیت کے تحت پڑھنا”۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مکتب فراہی اس بات کا قائل ہے کہ متکلم عام بول کر کبھی خاص مراد لیتا ہے، تو جب خود آپ کو یہ بات قبول ہے تو امام شافعی سے جھگڑا کس بات پر ہے؟ کیا قرآن میں کسی عام کا وارد ہوجانا اسے لسانیات کے اصولوں سے ماورا کردیتا ہے؟ پس یہاں معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ قرآن کے الفاظ تو متعین طور پر کچھ اور بتارہے تھے مگر حدیث نے اس کا مفہوم بدل دیا بلکہ معاملہ یوں ہے کہ ظاہر کلام سے پیدا ہونے والا مفہوم متکلم نے کبھی مراد ہی نہیں لیا تھا۔

رہی الفاظ قرآن کی دلالت قطعی و ظنی ہونے کی وہ بحث جو بعد میں اصولیین کے ہاں خاص علمی اصطلاحات میں موضوع بنی، امام شافعی کے ہاں براہ راست اس پر بحث موجود نہیں۔ البتہ اس پر اصولی بات امام صاحب نے باب “العلم” میں بیان فرمائی ہے کہ علم دو طرح کا ہے: وہ جس میں اختلاف جائز نہیں کیونکہ نصوص کے وہ مفاہیم امت کو متواترا منتقل ہوئے ہیں جیسے کہ نماز کی فرضیت وغیرہ اور دوسرا وہ جس میں اختلاف جائز ہے۔ اس دوسری قسم ہی کو اصولیین “ظنی الدلالت “ہونا کہتے ہیں جبکہ مکتب فراہی اس کا نام بھی “قطعی” رکھ دیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان حضرات نے یہ مفروضہ قائم کرلیا ہے گویا اصولیین کے نزدیک ظنی کا مطلب وہ کلام ہے جہاں کسی دلیل یا قرینے کی بنیاد پر ترجیح دینا ناممکن ہو اور دونوں جانب برابر ہوں حالانکہ اصولیین ایسی کیفیت کو ظن نہیں شک کہتے ہیں۔ جب کوئی ایک جانب راجح ہو تو یہ ظن ہے اور جب دوسری جانب کا امکان اس طرح کالعدم ہوجائے کہ اسے پیش کرنے والے کو مکابر، کافر یا کم از کم گمراہ کہا جائے تو یہ قطعیت ہے۔ مکتب فراہی والے قطعی الدلالۃ کا نعرہ بھی لگاتے رہتے ہیں اور ہر مجتہد کو مصیب بھی کہتے رہتے ہیں!

– اہل علم کے لئے چند مفید اشارات

مکتب فراہی اصولیین کے موقف کو سمجھنے میں جن غلطیوں کا شکار ہے، یہاں ہم اصولیین کے متعلقہ موقف کی تفہیم کے لئے چند اہم اشارے کرتے ہیں۔

ساجد صاحب نے اصول فقہ کی ایک کتاب کا حوالہ لگا کر قطعیت کو دو مفاہیم میں بند کیا ہے۔ یہ دراصل احناف کی تعریفات کے مطابق ہے۔ احناف کے ہاں قطعی دو قسم کا ہے: وہ جس میں احتمال کی گنجائش نہیں (اسے وہ محکم و مفسر کہتے ہیں) اور وہ جہاں احتمال تو موجود ہوتا ہے مگر دلیل سے دوسری جانب کی غلطی واضح کرکے ایک جانب کو ترجیح دی جاتی ہے (اسے وہ نص و ظاہر کہتے ہیں)۔ جن علما کے نزدیک احتمال کا امکان قطعیت کے خلاف ہے (اور اس لئے وہ سب نصوص کو ظنی کہتے ہیں) ان کے نزدیک یہ دوسری قسم (یعنی احناف کی نص و ظاہر) اصلاً ظنی کی صورت ہے۔ خود احناف بھی اس دوسری قسم میں اختلاف کرنے والے پر وہ احکام جاری نہیں کرتے جو پہلی قسم پر جاری کرتے ہیں۔

متعلقہ مباحث سمجھنے کے شوقین اہل علم کے لئے یہاں دوسرا اشارہ یہ ہے کہ جو اصولیین قطعیت کی اس دوسری قسم کو ظنی شمار کرتے ہیں، ان کا استدلال یہ ہے کہ ایک مجتہد کا کسی ایک دلیل کو مرجوح ثابت کردینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی اور ایسی دلیل موجود ہی نہیں جو راجح جانب کے خلاف ہو، ایسے میں (یعنی امکان احتمال ہوتے ہوئے) راجح جانب کو قطعی فرض کرلینا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ “عدم علم عدم وجود کی دلیل ہے”، ظاہر ہے یہ مفروضہ غلط ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں خود مجتہد کو اپنے موقف کے خلاف کوئی دلیل مل جائے یا کوئی دوسرا مجتہد ایسی دلیل پیش کردے (اس کی ایک عملی صورت غامدی صاحب کی کتاب “میزان” ہے جہاں تین دھائیوں سے غور و فکر کے بعد تبدیلیوں کا عمل جاری ہے،یہاں تک کہ اس سنت میں بھی کمی بیشی ہورہی ہے جو غامدی صاحب کے مطابق متواتر اور قرآن کی طرح منقول ہے)۔ لہذا یہ قطعیت نہیں ظنیت ہے۔ اس کے برعکس دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ایسا احتمال جو کسی معین دلیل پر مبنی نہ ہو وہ لائق التفات نہیں بلکہ دلیل لائے جانے تک ہم اپنی بات کو قطعی ہی فرض کریں گے اور محض امکان احتمال قطعیت کے خلاف نہیں۔ اس دوسری قسم کو قطعیت شمار کرنے کے موقف پر امام رازی (م 606 ھ) کا معارضہ ان کی کتاب نھایۃ العقول کی جلد اول میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بحث امام رازی نے پہلی مرتبہ نہیں اٹھائی تھی بلکہ اسی تناظر میں چلی آرہی تھی۔ اسی بنا پر قاضی ابوبکر باقلانی (م 403 ھ) فقہ کی تعریف پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ اس کی تعریف میں “ھو العلم” کے الفاظ لائے جاتے ہیں جو درست نہیں۔ متکلمین کی اصطلاح میں “علم ” قطعیت کی کیفیت کے لئے بولا جاتا ہے جبکہ اس سے کم تر کیفیت کے لئے وہ “ظن” کا لفظ بولتے ہیں۔ چنانچہ قاضی باقلانی کہتے ہیں کہ جب یہ بات معلوم ہے کہ فقہ ان مسائل عملیہ سے بحث کرتی ہے جن میں نصوص محتمل الوجوہ ہیں اور اسی لئے ان فروعی مسائل میں مختلف فقہی گروہوں کی تکفیر و تضلیل نہیں کی جاتی تو یہ اصطلاحی طور پر “علم” کیسے ہوا؟

امید ہے ان اشاروں سے اصولیین کا موقف سمجھنے میں مدد ملے گی نیز یہ بھی واضح ہوگا کہ ساجد صاحب کا مضمون اصولیین کے استدلال کو سرے سے ایڈریس نہیں کرتا چہ جائیکہ کسی بات کا جواب دیتا ہو، بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صاحب تحریر نے چند اہم متعلقہ مباحث کا لحاظ رکھے بغیر اصولیین پر تنقید کرنے کے لئے ایک کہانی وضع کرلی ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں