احمد بلال
محترم زاہد صدیق مغل صاحب کی مذکورہ بالا عنوان کی حامل تحریر نظر سے گزری۔ مکتبِ فراہی کے تصوّرِ قطعی الدّلالہ کے فقہا کے تصوّر سے تقابل کے ذریعے زاہد صاحب نے اس میں یہ باور کرانے کی سعی فرمائی ہے کہ “فراہی و اصلاحی صاحبان کا نظریۂِ قطعی الدّلالۃ نہ صرف مبہم ہے بلکہ ظنی کی ایک قسم ہونے کے ساتھ ساتھ سبجیکٹو (subjective) بھی ہے”۔ میری نظر میں ایسی تحاریر موضوع سے متعلق الجھنوں کو رفع کرنے کے لیے اچھی بنیاد فراہم کرتی ہیں، اس لیے ایسے مواقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہئیں۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دیے گئے اہم دلائل ان الفاظ میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
1۔ فقہا چونکہ وضوح و خفا کے اعتبار سے آیات کو آٹھ مدارج میں تقسیم کرتے ہیں اس لیے جن اقسام کو وہ قطعی الدلالۃ کہتے ہیں وہ واقعی ‘definite in meaning’ ہوتی بھی ہیں، اور نتیجتاً وہ انمیں سے زیادہ واضح کے مفاہیم میں تاویل کرنے والوں پر گمراہی کا حکم بھی لگا سکتے ہیں اور لگاتے ہیں۔ جبکہ مکتبِ فراہی جب سب کو قطعی کہہ دیتا ہے تو ایک تو یہ واضح نہیں کرتا کہ ان مدارج میں سے کس درجے کا وضوح مراد لیتا ہے، اور اسی طرح یہ بھی بیان نہیں کرتا کہ اس قطعی مفہوم کے انکار کرنے والے کو وہ گمراہ کہے گا کہ نہیں، اور دونوں صورتوں میں کیوں کا جواب بھی نہیں دیتا۔
2۔ اُن کے یہاں جس طرح لفظِ قطعی کے معنی میں ابہام ہے اسی طرح لفظِ دلالۃ کے مفہوم میں بھی ہے۔ وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ قطعیت عبارۃ النص، دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص میں سے کس قسم کی ہے۔
3۔ مکتبِ فراہی جب کلام کو قطعی ماننے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے معنی دو مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوں، تو پھر درحقیقت وہ قطعی ہی کو ظنی کر دیتا ہے، اور پس پورا تصوّرِ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جاتا ہے۔ جبکہ فقہا کا طریقہ کار کلام کو حد الامکان آبجیکٹو (objective) قطعیت سے متصف دکھاتا ہے، کیونکہ انہیں حکم اخذ کرنے کے لیے جو عموم و استحکام درکار ہوتا ہے، وہ اسی طریقے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
4۔ مکتبِ فراہی کے منتسبین کلام کو عنداللہ قطعی مانتے ہیں نہ کہ عندالنّاس۔ تو اس اعتبار سے تو یہ کوئی فرق ہی نہیں کیونکہ فقہا بھی عندالناس ہی کی بات کرتے ہیں۔
5۔ پھر یہ بھی واضح نہیں کہ عندالناس سارا کلام ظنی ہے یا قطعیت کا کوئی دائرہ ہے؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مفسر کے سمجھے ہوئے معنی کو ہم قطعی نہیں کہتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلام کے معنی سبجیکٹو ہیں، گویا عندالناس قطعیت کا کوئی دائرہ موجود نہیں۔
6۔ قرآن عنداللہ میزان اور فرقان ہے یا عندالناس؟ جب عندالناس معنی کو آپ قطعی نہیں مانتے تو پھر فرقان و میزان ہونے کا کیا مطلب؟
یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات ہمارے روایتی مذہبی علم سے متاثر و وابستہ اور اہلِ علم بھی کرتے ہیں، اس لیے ان سے تعرض عمومی اعتبار سے ہی مناسب رہے گا۔ ان کے جوابات ویسے تو بہت سادہ اور سیدھے ہیں، پر چونکہ یہ سوالات کچھ ایسی بنیادی غلط فہمیوں سے پیدا ہوئے ہیں جن کی درستگی اگر ایک دفعہ پہلے ہو گئی تو ان سوالات سے تعرض کا مختصر ترین راستہ بھی وا ہو جائے گا، اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے یہ بھی جان لیں گے کہ کیسے اس طرح کے ابہامات محض دو مختلف مباحث کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے پیدا ہو جاتے ہیں اور جو یہاں ہو گئے ہیں۔
تاہم، اس سے پہلے کہ میں نفسِ مسئلہ کی طرف بڑھوں، ایک اور نکتے کی طرف توجہ دلانا بھی شائید اہم ہے۔اس نکتے کا بہترین بیان اداروں پر تحقیق کرنے والے محققین پیٹر ایم بلاؤ کے ریفرنس سے یوں نقل کرتے ہیں: “اداروں کے ممبران (رفتہ رفتہ) دنیا کو انہی مخصوص تصورات کی بنیاد پر دیکھنے لگتے ہیں جو اُن اداروں کی لغت میں منعکس ہوتے ہیں۔ پس جو درجہ بندیاں اور تقسیم کی اسکیمیں اس ادارے میں مستعمل ہوتی ہیں، وہی حقیقی دِکھنے لگتی ہیں، اور اس ادارے کے ممبران کی نظر میں محض اصطلاحات کی بجائے دنیا کی صفات بن جاتی ہیں۔”
میری نظر میں ہمارے فقہا کی طرف سے علم الفقہ میں اُن کے زاویۂِ نظر سے الفاظ کی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے کی گئی درجہ بندیاں بھی اسی لیے ہمارے بعض اہلِ علم کے لیے اصطلاحات سے آگے بڑھ کر ‘دنیا کی صفات’ بن گئ ہیں۔
چند بنیادی باتیں
—————-
>> سب سے پہلی اور ضروری بات اس بحث کی تاریخ ہے، جس کی طرف زاہد صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں سوفسطائی نظریات کی یلغار ہوئی اور عقلی مقدمات کے جواب میں ہمارے فقہا نے جب قرآن و حدیث سے استدلال پیش فرمایا تو ان کے جواب میں یہ کہا گیا کہ بھئی زبان تو ظنی الدلالہ ہوتی ہے اس لیے عقلی برہانیات کے مقابل میں ان سے استدلال سرے سے درست ہی نہیں۔ اس مقدمے کو ہمارے بھی کچھ اہلِ علم نے قبول کر لیا۔ امام رازی اور کچھ دوسرے بزرگوں نے بھی جب اسی مقدمے کی تائید کی تو ہمارے جلیل القدر فقہا نے اس کا جواب یہ دیا کہ زبان بالکل متواترات پر مبنی اور قطعیت کا فائدہ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ اس لیے یہ مقدمہ ہی درست نہیں۔ اس معاملے کو ابنِ قیّم، شاہ اسمٰعیل شہید، التوضیح والتلویح کے مصنفین وغیرہ نے موضوعِ بحث بنایا اور یونانی فلسفے سے متاثر اس مقدمے کو منہدم کر دیا۔چنانچہ ائمہ فقہ و حدیث ایک مسلمہ قاعدے کی حیثیت سے اس حقیقت کو بیان کرتے رہے کہ ’ماثبت بالکتاب قطعی موجب للعلم والعمل‘۔
>> آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جہاں فقہا نے یہ بحث کی ہو گی، مثلاً ابنِ قیّمؒ یا شاہ سمٰعیلؒ وغیرہ نے، وہاں انہوں نے کلام کو قطعیت اور ظنیت کے اعتبار سے آٹھ مدارج میں تقسیم کر کے یہ بتایا ہو گا کہ کیسے بس جب محکم یا مفسر الفاظ آئیں تبھی قطعیت حاصل ہو سکتی ہے؟ جی نہیں! ایسا کچھ بھی نہیں۔ حنفی ہوں یا سلفی ہوں، اس موضوع پر جب بحث ہوئی تو بس قطعی اور ظنی ہی پر ہوئی۔ یہ حضرات یقیناً ان فقہی مدارجِ وضوح و خفا سے آگاہ ہوں گے، پر اس کلامی بحث کا آخر اس فقہی تقسیم سے تعلق کیا تھا جو وہ اسے اس میں گڈ مڈ کر دیتے!
>> اور دلچسپ بات دیکھیے۔ اس بحث میں جب قطعی اور ظنی کی تعریف ہمارے اصولیّین نے فرمائی تو وہ کیا تھی؟ غامدی صاحب نے اس پر بڑی سیر حاصل بحث اپنے قطعی و ظنی کی سیریز کے مضامین میں بحوالہ کر دی ہے۔ مثلاً استاذ مخلوف نے’’الموافقات‘‘ پر اپنی تعلیقات میں قطعی کی تعریف کو یوں لکھا ہے: یستعمل القطع فی دلالۃ الالفاظ فیاتی علی نوعین: اولہما الجزم الحاصل من النص القاطع، وہو ما لایتطرقہ احتمال اصلًا… ثانیہما العلم الحاصل من الدلیل الذی لم یقم بازاۂ احتمال یستند الی اصل یعتد بہ ، و لایضرہ الاحتمالات المستندۃ الی وجوہ ضعیفۃ او نادرۃ.(الموافقات، الشاطبی ۱/۱۳) ’’یہ لفظ جب دلالت الفاظ کے باب میں استعمال کیا جاتا ہے تو دو صورتوں کے لیے آتا ہے: ایک اُس جزم کے لیے جو نص قطعی سے حاصل ہوتاہے، یعنی وہ نص جس میں سرے سے احتمال کی گنجایش نہ ہو… دوسرے اُس علم کے لیے جو اُس دلیل سے حاصل ہوتا ہے جس کے مقابل میں کوئی ایسا احتمال نہ ہو جس کی بنا قابل لحاظ سمجھی جائے۔ نادر اور کمزور وجوہ پر مبنی احتمالات اُس پر اثرانداز نہیں ہوتے۔‘‘ پھر اس کے بالکل مقابل اصولیّین ظن کا لفظ شمار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اِس میں احتمال کی نفی ممکن نہیں ہوتی، صرف ایک احتمال کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ پس مکتبِ فراہی جب اس بحث کے پسِ منظر میں یہ کہتا ہے کہ قرآن قطعی الدلالۃ ہی ہے، تو ظاہر سی بات ہے وہ اوپر بیان کیے گئے انہی دو معانی میں سے ایک میں کہتا ہے، یعنی یا تو سرے سے اس میں احتمال ہی نہیں ہوتا، اور اگر ہو تو قابلِ لحاظ نہیں ہوتا، کیونکہ اسے غور و تفحص سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
>> اس خلطِ مبحث کو مثال سے یوں سمجھیے کہ ہم آج کسی ایسے شخص سے بحث کر رہے ہوں جو یہ کہتا ہو کہ یار یہ مذاہب و ادیان تو بس لوگوں کی اپنی اختراعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ بھی جانا نہیں جا سکتا کہ ان کی اصلی صورت کیا تھی، اس میں کونسے وہ احکامات تھے جو ان کے بانیوں کے پیشِ نظر تھے اور کونسے وہ جو بعد کی صدیوں میں لوگوں نے ان میں اضافی داخل کر دیے۔ اور ہم اسے یہ بتا رہے ہوں کہ اسلام میں ایسا نہیں ہے بھائی۔ ہم تحقیق سے یہ قطعی طور پر جان لیتے ہیں کہ کون سا حکم ثابت ہے اور کونسا نہیں۔ اور اسی اثنا میں ہماری فقہ سے واقف ایک شخص وہاں آ کر ہم سے پوچھے کہ بھئی ہماری فقہ میں واجب تو دراصل دلیلِ ظنی سے ثابت ہوتا ہے، اس میں آپ قطعیت کہاں سے تلاش کر لیتے ہیں۔۔۔۔تو بتائیے! کیا یہ سوال اس بحث سے متعلق ہو گا؟
>> ایک اور دلچسپ بات نوٹ کیجیے۔ ہمارے جلیل القدر فقہا نے، یہ جو آٹھ مدارجِ وضوح و خفا کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اور زاہد صاحب نے بھی دیا ہے، ان میں تقسیم کی کس پہلو سے ہے۔ کیا وہ اسی متکلمین والی بحث میں اپنا حصہ ڈالنا چاہ رہے تھے؟ ارے نہیں! وہ اس پہلو سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ وہ تو استنباطِ احکام کے لیے تقسیم فرما رہے تھے۔ انہیں اس مذکورہ بالا بحث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی لیے انہوں نے کہیں یہ بھی نہیں کہا کہ ہم قرآنِ مجید کی آیات کی قطعی و ظنی تقسیم کرنے جارہے ہیں۔ وہ تو بس احکام اخذ کرنے کی غرض سے جو دقتیں انہیں مدعا تک رسائی میں پیش آتی ہیں انہیں اپنی وضع کردہ اصطلاحات میں ایک معیاری طریقے سے بیان کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے برعکس، غامدی صاحب یا مکتبِ فراہی ان فقہا کے زاویے سے بحث کر ہی نہیں رہے۔ انہوں نے کہاں یہ فرمایا ہے کہ ہم فقہا کے اِن آٹھ مدارج کے مقابل میں یہ دو مدارج دے رہے ہیں؟ ان کی بحث بھی بالکل ایک مختلف پہلو سے ہے، اور اسی پہلو سے ہے جس سے متکلمین سے بحث ہو رہی تھی۔ اس میں نہ مکتبِ فراہی پہلا ہے اور نہ ہی منفرد، اسی اسلاف کی بحث کو آگے بڑھا رہا ہے۔
>> باایں ہمہ ایک انتہائی بنیادی فرق اور دیکھیے۔ ہمارے فقہا جب استنباطِ احکام کے لیے وضوح و خفا میں تقسیم کرتے ہیں تو وہ دراصل ‘الفاظ’کے مدارج طے کر رہے ہوتے ہیں، نہ کہ ‘کلام’ کے۔ جبکہ زبان کی قطعی و ظنی الدلالۃ والی بحث جن حضرات نے بھی تاریخ میں کی ہے، اور جو مکتبِ فراہی کر رہا ہے، وہ ‘کلام’ کی بحث ہے۔ الفاظ کی تحقیق کے حساب سے کوئی نئے مدارج دینا ان کے پیشِ نظر ہی نہیں۔ تاہم، اگر وہ الفاظ کی مشکلات کے زاویے سے بحث کریں تو یہ عین ممکن ہے کہ فقہا کے بیان کردہ بہت سے مدارج خود بھی اختیار کر لیں، یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے پندرہ اور مدارج بھی اس میں شامل کر لیں، اور یہ بھی پوری طرح ممکن ہے کہ اس طرح کی کوئی تقسیم بھی اختیار نہ کریں، کیونکہ یہ محض فنی اصطلاحات ہیں، جو ایک خاص ایپروچ کے باعث وضع کی گئ ہیں؛ نہ شرعی ہیں اور نہ ضروری۔ اور اس ایپروچ کے علاوہ اور بھی ایپروچیں کلام کو دیکھنے کی ہو سکتی ہیں جن سے اصطلاحات بھی یقیناً فرق ہو جائیں گی ۔ لیکن ظاہر ہے، یہ بحث تو فی الحال انہوں نے کی نہیں۔
>> ایک آخری بات بھی دیکھیے۔ فقہا نے جو الفاظ کی یہ تقسیم کی ہے یہ ‘لغوی’ اعتبار سے ایک ‘initial’پوزیشن کے لحاظ سے ہے۔ اس لیے جب کلام میں رکھ کر کسی لفظ میں سے وہ احتمالات ختم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو اسے قطعی کی کیٹیگری میں بھی لے آتے ہیں۔ پس اس بحث کو اگر مکتبِ فراہی کی تقسیم سے ‘intersect’ کرانا ہی ہو تو چاہے کسی لفظ کو فقہا ‘initially’ کسی بھی درجے میں پلیس کر رہے ہوں، مکتبِ فراہی زبان و بیان کے اصولوں اور کلام کے قرائن سے احتمالات ختم کر کے اس کی ‘final’ پوزیشن آپکو قطعی کی کیٹیگری میں لا کر ہی دکھائے گا۔ اس لیے جو مطالبہ ہونا چاہیے وہ احتمالات کی نفی کا ہونا چاہیے۔ یہ ہر جگہ قطعی اور ظنی کی بحث کو بیچ میں لے آنا عجیب ‘frustration’ کا مظہر لگنا شروع ہو گیا ہے۔
ان نکات کا حاصل یہ کہ یہ دونوں بحثیں بہت مختلف ہیں۔ نہ تو براہِ مہربانی ان میں خلطِ مبحث پیدا کریں، اور نہ ہی ایک بحث کے قطعی و ظنی کو اٹھا کر دوسرے میں وضع کردہ اصطلاحات پر محمول کر کے وضاحت طلب کیجیے۔ آپ خود بھی شکوک میں مبتلا ہوں گے اور دوسروں کو بھی کریں گے۔ تاہم، اگر قرآن کے کسی مقام پر یہ بحث کرنی ہو کہ کلام کا منشا سمجھ نہیں آ پا رہا، یا محتمل الوجوہ ہو گیا ہے، یا یہ کہ زیادہ سے زیادہ بس کسی ایک احتمال کی ترجیح ممکن رہ گئی ہے، تو وہاں پر مکتبِ فراہی سے اگر ان کے اصولوں کے تحت کوئی گفتگو کرنی ہے تو کسی کلام (نہ کہ لفظ کو) کو ظنی قرار دینے کے لیے نقیض کا احتمال ثابت کیجیے، ورنہ اصولیّین کے معیارات کے مطابق اس کلام کی تاویلات میں اس سے کمتر درجے کے اختلافات کسی طور قطعیت کو مانع نہیں قرار دیے جا سکتے۔
اب آئیے سوالات کی طرف اوپر دی گئی ترتیب کے لحاظ سے نکتہ بہ نکتہ۔۔۔
1۔ تمہید سے یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ مکتبِ فراہی کیوں فقہا کے سے مدارج اختیار نہیں کرتا۔ اس کے پیشِ نظر ‘کلام’ کی جو قطعیت ہے وہ یا تو بادنیٰ تأمل حاصل ہو جاتی ہے، یا غور و خوض سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی احتمالِ نقیض تھا بھی تو وہ کیوں ناقابلِ اعتنا تھا۔ تو جب پورا قرآن قطعی الدلالہ ہی ہے تو اسی لیے کسی رائے کو گمراہی کہنے کے لیے جو چیز درکار ہوتی ہے وہ کسی خاص درجے کا وضوح نہیں بلکہ مضمون کی نوعیت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی غلط تاویل کسی عقیدہ و عمل کی ضلالت سے عبارت ہو گی تبھی گمراہی قرار پا سکے گی۔ جیسے کوئی خاتم النبیّین سے بہت بلند پائے کا نبی مراد لے گا، یا قاقطعوا ایدھما سے غربت کے نظام کا خاتمہ مراد لے گا وغیرہ، تو ہی اسے گمراہی سے تعبیر کیا جا سکے گا، اور خود غامدی صاحب نے بھی کیا اور لکھا ہے، نہ کہ اگر کوئی ملکہ بلقیس کے عرش کی تحویل کے متعلق کوئی مختلف رائے رکھے گا تو وہ رائے گمراہی قرار پائے گی۔ اس دوسری طرح کے معاملات میں ‘درست’ اور ‘غلط’ کی تقسیم تک محدود رہنا بھلا کیوں کفایت نہ کرے گا!
ویسے میں قارئین سے کہوں گا کہ کبھی اس رائے کے حاملین سے درخواست کیجیے گا کہ ان ‘definite in meaning’ آیات کی، یا مثلاً محکم الفاظ کی، پورے قرآن سے ایک فہرست مرتب کر دیں تا کہ قارئین یہ جان سکیں کہ اس تقسیم کے مطابق قرآنِ مجید جیسی ضخیم کتاب سے بس کتنی آیات اور کتنے الفاظ قطعی کی کیٹیگری میں جگہ بنا پاتے ہیں اور کتنے ظنی۔ میرے خیال سے قارئین کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ شائید پورے قرآن سے بس اعداد کے نام، جیسے ثلاثہ اربعہ، یا لوگوں جگہوں وغیرہ کے نام کی قسم کے گنتی بھر الفاظ ہو ں گے جو اس موضوعہ معیار کے مطابق ‘subjectivity’ کے دائرے سے باہر، یعنی قطعی بن پائیں گے۔ پس فقہا کی ان تعبیرات کا کلام پر اطلاق واقعی اہمیت کا حامل ہوتا اگر ان کے نتیجے میں قرآنِ مجید کے اکثر حصے سے متعلق کوئی ایسی معنی خیز حدبندی ہو جاتی کہ ہم خود دیکھ لیتے کہ جس طرح ہم روزمرّہ کلام کے اکثر حصے سے قطعیت کے عادی ہوتے ہیں اسی طرح بس قرآن کے وہ کونسے چند مقامات ہیں جن کی قطعیت ‘objective’ نہیں ہو پائی۔ حالانکہ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے۔
2۔ تمہید کے بعد یہ اعتراض بھی غیر متعلق ہو جانا چاہیے۔ تاہم، انہی اصطلاحات میں رہتے ہوئے اگر سمجھانے کی کوشش کی جائے تو بھی بات بہت سادہ ہے۔ مکتبِ فراہی اصلاً دلالۃ النص ہی کے تعیّن پر اکتفا کرے گا، کیونکہ متکلم کا سیدھا سادہ منشا اخذ کرنا ہی وہ بنیادی چیز ہے جو قطعیت سے متعلق ہے۔ اس کے بعد اگر کسی مسئلے میں استنباط کی نؤبت آئے تو پھر اضافی طور پر کسی نص کے اشارات و اقتضاءات زیرِ بحث آ سکتے ہیں۔ اس طرح کے اعتراضات اس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ عموماً اس بنیادی پیراڈائم کے فرق کو اہلِ علم پوری طرح باور نہیں کرتے، یعنی یہ کہ مکتبِ فراہی اللہ کے کسی موضوع سے متعلق احکامات کو بس دین یا بالفاظِ دیگر پاکیزگی کے زاویے سے دیکھے گا، جبکہ ہمارے فقہا اس موضوع سے متعلق پورا قانون انہی احکامات سے اخذ کرنے کا قصد کرتے ہیں، اسی لیے مکتبِ فراہی میں دلالت تک محدود رہنا ہی عام ہے۔
3۔ مکتبِ فراہی مذکورہ امکان اس لیے مانتا ہے کہ وہ انسانوں میں غلطی کا امکان مانتا ہے، نہ کہ کلام میں احتمال کا، کہ قطعیت ہی سبجیکٹو ہو جائے۔ انسانوں میں سے غلطی کا امکان اگر ختم ہو جائے تو پھر یقیناً مکتبِ فراہی اس امکان سے بھی انکار کر دے گا۔یہ بالکل سادہ سی حقیقت کا اظہار ہے۔ پر آئیے اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھ لیتے ہیں۔
کوئی کلام جو بالکل چھوٹے بچوں کے لیے معصوم سے جملوں میں نہ ترتیب دیا گیا ہو، بڑوں کے لیے مرتب کیا گیا ہو، ادبی ذوق رکھنے والوں کو متاثر کرنا بھی اس کےمقاصدِ تشکیل میں سے ہو، زندگی کے اہم معاملات پر گویا ہو، اپنے فہم کے لیے قارئین سے غور و خوض کا طلبگار تو ہوتا ہی ہے۔ تو جب غور و خوض کسی کلام کے عواملِ فہم میں سے ہو تو اس امکان کو بھلا کون رد کر سکتا ہے کہ کوئی شخص غور و تفکر کا حق نہیں بھی ادا کرے گا؟ یعنی یہ تو منطقی ہے کہ اگر کوئی قلتِ تدبر یا قلتِ فہم کا مظاہرہ کرے گا تو ممکن ہے کلام کا مدعا متکلم کے منشا کے علاوہ کچھ اور متعین کرنے پر اکتفا کر بیٹھے۔ پر کیا ایسا کرنے سے کلام ظنی ہو جایا کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس لیے یہ تو کوئی لائقِ التفات رائے نہیں۔ پر یہ قطعی ہی کو ظنی کر دینے والی بات پر ذرا مزید غور کر لیتے ہیں۔ یعنی اصول یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جب بھی کبھی کسی حقیقت کے متعلق اگر سب لوگ ایک ہی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں، تو بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ کیا جس محقق نے اختلاف کیا ہے اس نے تحقیق کا حق ادا کیا ہے کہ نہیں، یہ اس بات کا اشاریہ شمار کر لینا چاہیے کہ حقیقت ہی دراصل قطعی نہیں؟ ما لکم کیف تحکمون! اگر کسی شے کے قطعی ہونے کے لیے سب محققین کا اتفاق ضروری ہوتا تو پھر نہ اللہ کا ایک ہونا قطعی ہے اور نہ محمد ﷺ کا رسول اللہ ہونا۔ آپ کی کسی انتہائی سادہ لکھی ہوئی عبارت سے آپکا سکول میں پڑھنے والا بیٹا بیٹی غلط مدعا اخذ کر لے تو عبارت کا ظنی ہو جانا لازم؟انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر روز بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ اس کا مدعا اِس نے ٹھیک سمجھا ہے یا اُس نے، ایک وکیل پورے رسوخ سے ایک رائے کا حامی ہوتا ہے اور دوسرا دوسری، پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ دو وکیل مختلف رائے رکھ رہے ہیں اس لیے لازماً قانون ہی ظنی الدلالۃ ہو گیا ہے۔ آہ! یہ اعزاز قرآنِ مجید ہی کے حصے میں آنا تھا۔
میرا ہمدردانہ مشورہ ہو گا کہ ‘subjectivity’ اور ‘objectivity’ طے کرنے کے لیے ‘headcount’ کا طریقہ ترک کر دیں، ورنہ دنیا میں کچھ بھی قطعی نہیں بچے گا۔ اور جو بچے گا وہ بس بے سُود و بچگانہ ہی ہو گا۔ الغرض، کلام کے مدعا میں اختلاف کرنا تحقیق کا بھی نقص ہوتا ہے، نہ کہ ہمیشہ کلام کا۔
4۔ یہ عنداللہ اور عندالناس کی تقسیم بھی ناقابلِ فہم ہے، اور معلوم نہیں کی کس نے ہے۔ کم سے کم فراہی، اصلاحی اور غامدی صاحب نے تو نہیں۔ یہ تقسیم ہی مضحکہ خیز ہے۔ قطعیت، کلام کی صفت ہوتی ہے۔
5۔ پس یہ سوال بھی پھر نہیں رہتا، کیونکہ سارا ہی کلام قطعی ہے۔ تاہم، فہم قطعی نہیں ہوتا، بھی بڑی سادہ حقیقت کا اظہار ہے۔ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ کیونکہ انسان کے فہم میں غلطی کا امکان بہر حال ماننا پڑتا ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی محقق نے جو سمجھا ہے وہ غلطی سے لازماً پاک ہی ہے۔ اس سے سبجیکٹوٹی پر استدلال کیسے درست ہو گیا؟ اگر غلطی کا امکان مان لینے سے موضوعیت آ جاتی ہے تو پھر دنیا کی ہر حقیقت سبجیکٹو ہی ہے۔ ایسا ظاہر ہے کہ نہیں ہے!
6۔ یہاں بھی وہی عندا للہ اور عندالناس کی مغالطہ انگیز اصطلاحات۔ تاہم، امید ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ اس تقسیم کا مکتبِ فراہی سے کوئی تعلق نہیں۔ پس میزان اور فرقان اس کلامِ پاک کی اپنی صفات ہیں۔ اور اگر فہم میں غلطی کے امکان کو مان لینے سے اس کی یہ صفات مجروح ہوتی ہیں تو بتایا جائے کہ کیسے؟
اختتام سے پہلے میں ایک معصوم سا سوال کرنا چاہوں گا۔ یہ سوال یقیناً اور لوگوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہوتا ہو گا اس لیے پوچھ رہا ہوں۔ چونکہ نقد کرنے والے حضرات اہلِ علم یہ رائے تو رکھتے نہیں کہ کلام بس ظنی الدلالۃ ہی ہو سکتا ہے۔ وہ تو یہ مانتے ہیں کہ کلام قطعی بھی ہوتا ہے اور ظنی بھی، اسی لیے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے متعلق مصر ہیں کہ اس کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ ظنی۔ اس لیے ان سے بس اب یہ سوال پوچھنا ہے کہ انہوں نے یہ جو انتہائی دلیری دکھا کر مالکِ ارض و سما کے کلام کو ظنی کہنے کی جرأت کی ہے، وہ اس کی وجہ کیا بتاتے ہیں۔ کیونکہ منطقی اعتبار سے اس کی وجہ بس انہی میں سے ایک ہو سکتی ہے:
1۔ (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کو قطعی کلام کرنا نہیں آتا تھا، یا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کلام لوگوں کے لیے ظنی ہو جائے گا۔
2۔ انسانی زبان و بیان کی کمزوری کے سبب جس حصے کو اللہ تعالی نے ظنی بنایا وہ درحقیقت قطعی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
3۔ اللہ تعالی نے ارادتاً کچھ حصے کو اس لیے ظنی رہنے دیا:
ا۔ تا کہ نبی اکرم ﷺ اس کی وضاحت کر کے اسے قطعی بنا سکیں۔
ب۔ تاکہ نبی ﷺ بھی اسے ظنی چھوڑ جائیں اور اُمّت کی آزمائش ہو سکے۔
ان میں سے جو نکتہ وہ اختیار کریں گے پھر اس سے تعرض کر لیں گے۔ اور پہلا نکتہ محض منطقی طور پر درج کیا ہے، ظاہر ہے کوئی مؤمن تو یہ اعتقاد رکھ نہیں سکتا۔ پر مجھے نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ سارے راستے ادھر ہی لیِڈ کرتے ہیں، بس لوگوں نے اس بارے غور نہیں کیا۔
جہاں تک مکتبِ فراہی کی بات ہے، ہم اپنے رب کے کلام کے متعلق یہ جسارت کبھی تصور نہیں کر سکتے کہ اس کے کسی حصے کو بھی ظنی کہہ بیٹھیں۔ ہم ہر نقص اور کمزوری بلاخوفِ تردید انسانوں کی ہی جانب تسلیم کرتے ہیں۔
کمنت کیجے