Home » جاہلی ادب میں نظمِ کلام
تہذیبی مطالعات زبان وادب سماجیات / فنون وثقافت

جاہلی ادب میں نظمِ کلام

خزیمہ ظاہری

ایک مکمّل کلام،خطبے یا قصیدے میں “نظم” کا خیال رکھنا عربوں کے ہاں معروف امر تھا.. اسکے بہت سے قرائن ہمیں ملتے ہیں۔

1۔چنانچہ عظیم جاہلی شاعر زہیر بن ابی سُلمیٰ کا طریقہ یہ تھا کہ قصیدہ مکمّل کرنے کے بعد ایک سال تک اسکی ترتیب،تنقیح،تہذیب اور حکّ و اضافے میں مشغول رہتا تھا.. جاحظ نے “البیان و التبیُّن” میں اسے “الحَوليّة” کا نام دیا ہے کہ وہ شاعری جو ایک سال تک زیرِ ترتیب و تنقیح رہے.. اور اسی طویل نظرِ ثانی کا اثر ہے کہ دیگر شعراء کی نسبت زہیر کے شعر میں تاثیر و معنویت زیادہ ہے جس وجہ سے اسکا نام “حکیم الشعراء” رکھا گیا اور بعض نے امرؤ القيس پر بھی اسکی فوقیت تسلیم کی.. زہیر کے کلام کو باقاعدہ مرتب کرنے سے اسکی کلام میں “نظم” سامنے آتا ہے۔

2۔اسی طرح شعر کے مخصوص موضوعات اس بات کی علامت ہیں کہ عرب شعراء کی کلام “نظم” سے خالی نہیں ہے.. اسکی تفصیل یہ ہے کہ جاہلی شعر میں ایسا ہر گز نہیں ہے کہ بغیر موضوع کی تعیین و تخصیص کے کلام کہی جاتی یا پھر قصیدے کے دوران ہی موضوع اور ترتیب توڑ کر دائیں بائیں کی باتیں شروع کر لی جاتیں.. لہذا شعراء کے دورانِ قصیدہ موضوع  پر قائم رہنے سے ہی شعر کی الگ الگ انواع سامنے آئی ہیں جیسے ھجو اور رثاء وغيرہ۔

3۔جاہلی شعراء کے نزدیک قصیدہ گوئی کے مخصوص اور مقرّر طریقے اور روایات ہیں جنکی خلاف ورزی ہرگز نہیں کی جاتی اور خاص ترتیب ہے جس سے کوئی شاعر نہیں ہٹتا۔

اسکی ایک بڑی مثال “شعر الغزل” ہے کہ غزلیہ انداز جاہلی شعراء کے ہاں پایا جاتا تھا اور غزلیہ انداز میں کوئی بھی شاعر مقرر طریقہ کار سے الگ نہیں ہوتا.. اس طریقے کی وضاحت یہ ہے کہ ملحمات،صید اور حماس سے لے کر دیگر تمام موضوعات پر قصیدے کی ابتداء غزل سے کی جاتی تھی اور مطلع میں محبوبہ کا ذکر اور اسکی یاد پر اظہارِ شوق لازمی ہوتا تھا اگرچہ آگے پہنچ کر جنگ کا قصہ ہی کیوں نا بیان کیا جاتا.. (شعر الغزل پر عمومی گفتگو کے لئے ڈاکٹر عبد المحسن عسکر کی کتاب “شعر الغزل” مفید ہے).۔

لہذا کلام کی ابتداء میں اس ترتیب کو ملحوظ رکھنے سے جاہلی شعراء کی کلام کا نظم کے تابع رہنا واضح ہوتا ہے۔

4۔علمائے بلاغت نے جاہلی شعراء کے منظّم طریقہ کار سے یہ بات اخذ کی ہے کہ عربی میں عمدہ کلام کے لیے بہترین ابتدائیہ،مناسب تمہید،خاتمہ اور تمہید سے اصل موضوع کی طرف سفر کے دوران کلام کا منظم طریقے سے ارتقاء لازمی ہے.. پھر اسکی مثالیں بھی جاہلی شعراء سے ہی دی ہیں.. جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ علمائے بلاغہ بھی جاہلی ادب کو نظم سے خالی نہیں سمجھتے.. پھر اس پر مستزاد یہ ہے کہ یہ علمائے بلاغت ہی ہیں جنکے ہاں قرآن کا اعجاز اسکے نظم میں ہے اور قرآن کا نظم اسکی لسانیاتی خوبصورتی کا ضامن ہے۔

5۔جب شعر میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ وہ نظم سے خالی نہیں تو خطاب اور نثر میں بھی بدیہی طور پر نظم کا خیال رکھنا جاہلی دور کی خاصیت معلوم ہوتی ہے.. البتہ علمائے عربیت کے نزدیک ہمیشہ جاہلی ادب سے متعلق رائے قائم کرنے کے لئے شعر ہی معتمد رہا ہے کیونکہ نثری کلام بہت کم محفوظ ہے۔

کلامِ عرب کے قدیم لٹریچر سے متعلق یہ وضاحت کی تھی کہ اس میں شعراء کے قصائد اور خطیبوں کے خطبات اور ادیبوں کے نثر پارے وغيرہ منظَّم طور پر مرتّب ہوتے تھے اور ایسا ہر گز نہیں تھا کہ بغیر کسی ترتیب اور گفتگو کے بہترین اتار چڑھاؤ کے بغیر کلام کہ دی جاتی تھی۔

اسی سے متعلق گفتگو کی مزید توضیح کے لئے بطورِ نمونہ لبید بن ربیعہ عامری کے مشہور قصیدے کے “نظم” کی وضاحت کی جا رہی ہے جسکے بنیادی نقاط درج ذیل ہیں۔

1۔جاہلی دور کے قابلِ فخر ادبی نمونوں میں معلّقات/ذھبیات/سموط کو خاص مقام حاصل ہے.. چنانچہ اس دور کے رائج الوقت طریقے معلوم کرنے کے لئے یہ بہترین ذخیرہ ہے۔

2۔یہ سات اور بعض کے انتخاب کے مطابق دس قصیدے ہیں۔

3۔ہم نے لبید بن ربیعہ عامری کے قصیدے کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ اہلِ ادب کے ہاں ان سات یا دس قصیدوں میں بھی اوّل نمبر پر امرؤ القيس اور لبید کے قصائد ہیں۔

4۔لبید بن ربیعہ کا یہ قصیدہ طوسی کی روایت کے مطابق 88 اشعار پر مشتمل ہے۔

5۔ان تمام 88 اشعار کو اپنے موضوع اور مباحث کے لحاظ سے گیارہ یا بارہ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

6۔قصیدے کے ان تمام حصوں کا آپس میں تعلق نہایت گہرا ہے اور اسے بہترین انداز سے بیان کیا گیا ہے۔

7۔قصیدے کے ان گیارہ یا بارہ حصوں کو ایک وحدت اور کُل میں رکھ کر دیکھنا اسطرح ممکن ہے کہ ان سب کا ایک ہی مرکزی خیال متعیَّن کرنا آسانی سے ممکن ہے۔

8۔قصیدے کے اجزاء کی اس منظَّم حد بندی کی بنیاد پر کلامِ عرب سے متعلق اس غلط فہمی کی تردید آسانی سے ممکن ہے کہ “عربوں کے ہاں قصائد اور خطبات وغيرہ کا طریقہ یہ تھا کہ صرف مواد بیان کیا جاتا تھا.. اور نظم کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا تھا”. (یہ غلط خیال جنہوں نے پیش کیا ہے ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شخصیت خاص طور پر قابلِ ذکر ہے)۔

9۔اس قصیدے کے گیارہ یا بارہ مباحث کونسے ہیں اور کس ترتیب سے واقع ہوئے ہیں ؟ اسکے لئے ذیل میں تفصیل دی جا رہی ہے۔

_ پہلا حصہ اپنے ترک کردہ پرانے گھر کی یاد اور اسکے اوصاف سے متعلق ہے.. اور یہ ابتدائی دس اشعار ہیں۔

_ دوسرے حصے میں اس گھر کے باسیوں کی رحلت کا تذکرہ ہے اور یہ پانچ اشعار ہیں۔

_ تیسرے حصے میں اپنی محبوبہ ” نوار ” سے جدائی کا ذکر ہے اور یہ چار اشعار ہیں۔

_ چوتھے حصے میں اپنی اونٹنی کا تذکرہ کیا ہے جسے اسفار نے تھکا دیا اور اب وہ دودھ دینا چھوڑ گئی ہے.. اور یہ پانچ اشعار میں بیان کیا ہے۔

_ پانچویں حصے میں اپنی اونٹنی کے مختلف اوصاف بیان کئے ہیں اور اسے مختلف طریقوں سے عمدہ ترین تشبیہات دی ہیں اور اسکے لئے قصیدے کے بیس اشعار کہے ہیں۔

_  چھٹے حصے میں محبوبہ کی جانب دوبارہ متوجہ ہو کر اسکی جہالت کا ذکر کیا ہے.. اور دو شعر کہے ہیں۔

_ ساتویں حصے میں اپنی محبوبہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شراب کا ذکر کیا ہے.. اور پانچ شعر کہے ہیں.۔

_ آٹھویں حصے میں کھانا کھلانے اور اپنے قبیلے کی حمایت کا ذکر کیا ہے اور آٹھ اشعار بیان کئے ہیں۔

_ نویں حصے میں اپنا ایک شخص کے ساتھ معاملہ بیان کیا ہے اور تین شعر کہے ہیں۔

_ دسویں حصے میں ایک بار پھر شراب کو زیر بحث لا کر ساتھ ساتھ اپنی مہمان نوازی اور اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو دعوتیں کھلانے کا ذکر کیا ہے اور گیارہ شعر کہے ہیں۔

_ گیارہویں اور آخری حصے میں اپنی قوم پر فخر کا اظہار کیا ہے اور پانچ شعر کہے ہیں۔

(اس تقسيم میں بنیادی طور پر مصر کے مشہور استاذ شیخ طه ازھری پر ہم نے اعتماد کیا ہے.. اسکے علاوہ معلقات کے شارحین نے بھی اس تقسیم کو بیان کیا ہے۔)

10۔ان گیارہ حصوں کو دیکھنے سے ان سب کا آپس میں نہایت گہرا ربط بھی واضح ہوتا ہے اور انکا مرکزی کردار بھی سامنے آتا ہے کہ اس قصیدے کے بیان سے آخر کیا مقصود ہے ؟

اس بات کی توضیح یہ ہے کہ لبید بنیادی طور پر اس قصیدے میں بدوی حیات کی منظر کشی کر رہے ہیں.. اور اپنی زندگی کے اطوار بیان کر رہے ہیں.. اور اسی ضمن میں اونٹنی،شراب،قبیلے کی حمایت،اپنی قوم پر فخر،مہمان نوازی اور محبوبہ کا تذکرہ کر رہے ہیں.. اور دیکھا جائے تو اس دور میں عرب کلچر کی یہی بنیادی خصوصیات تھیں.. چنانچہ معلقات کے مشہور شارحین میں سے علامہ زوزنی نے بھی اس قصیدے کے مرکزی خیال میں یہی بات ذکر کی ہے۔

11۔جہاں تک قصیدے کی ابتداء میں گھر اور محبوبہ کی یاد تذکرہ ہے تو یہ بھی اس وقت غزل کے رائج تصور کی پیروی میں اختیار کیا گیا ہے۔

12۔یہ ترتیب و تقسيم ہماری اپنی اختراع نہیں ہے بلکہ اہلِ ادب کے ہاں ان معلقات کی تحلیل بالکل اسی طرز پر کی گئی ہے اور انہی سے استفادہ کر کے ہم یہاں یہ خیال درج کر رہے ہیں۔

13۔نتیجے کے طور پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جاہلی ادب اپنی ایسی تصویر باقاعدہ طور پر پیش کرتا ہے جس میں “نظمِ کلام” کا خیال رکھا جاتا ہے اور عربی زبان و ادب کا اسلوب نظمِ کلام کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں