Home » افضل البشر سے وابستگی کی خصوصیت اور اس کے اسرار و رموز
تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث شخصیات وافکار عربی کتب

افضل البشر سے وابستگی کی خصوصیت اور اس کے اسرار و رموز

سیرت مقدسہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے جس پر تاقیامت لکھا جاتا رہے گا اور پھر بھی اس کا حق ادا کرنا کسی فردِ بشر کی طاقت سے باہر ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کا مکمل احاطہ خاصہ خداوندی ہے جس میں کوٸی شریک نہیں۔
یمن کے مشہور صوفی شیخ سید حبیب علی زین العابدین الجفری نے اس موضوع پر مختصر رسالہ “سر الخصوصیت فی الارتباط بخیر البریہ” تحریر کیا ہے جس کا ترجمہ مولانا افروز عالم علیمی نے “افضل البشر سے وابستگی کی خصوصیت اور اس کے اسرار و رموز” کے نام سے کیا۔ اس کتاب کو کتاب محل لاہور نے شائع کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں اُردو ترجمہ کا پیش لفظ ڈاکٹر انوار احمد بغدادی نے لکھا ہے۔ جس میں کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ مصنف شیخ سید حبیب کی شخصیت کا بھی تعارف ہے۔ شیخ سید حبیب کی پیدائش ۱۹۷۱ میں جدہ میں ہوئی اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم بھی جدہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد یمن کی صنعاء یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ یمن ، شام، مصر اور حجاز کے شیوخ سے استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مکہ مکرمہ کے سید علوی المالکی ، یمن کے سید حبیب عمر بن حفیظ ، مصر کے محمد متولی الشعراوی اور شام کے شیخ ابو غدہ شامل ہیں۔ آپ کا لقب حبیب ہے جو کہ یمن میں ان سادات کے لیئے استعمال ہوتا ہے جنہوں نے اسلامیات میں تخصص کیا ہو۔
شیخ سید حبیب علی زین العابدین الجفری نے شروع میں لکھا ہے کہ
اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی نیابت کی ادائیگی دونوں اہم مقاصد اور اہم ترین فرائض ہیں ان کا جاننا اور سمجھنا انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔تاکہ اسے معلوم ہو کہ حقوق اللہ کیا ہیں، حقوق العباد کیا ہیں۔ کیونکہ حقوق اللہ کو ادا کرنا عبادت اور حقوق العباد کی ادائیگی نیابت و خلافت ہے، اور عبادات و معاملات کی مزید تحقیق انسانی کمال کے نمونے کی متقاضی ہے جس کے ذریعے حقِ بندگی اور حقِ معاملات کا صحیح علم حاصل ہوتا ہے”
میرے خیال میں شیخ الجفری نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بہت عمدگی سے تعریف کی ہے۔ جس سے ان دونوں کی اہمیت اور رب تعالیٰ کے ہاں مطلوب ہونے کو بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد شیخ الجفری فرماتے ہیں کہ جب ہم مطلقاً کمال کی نسبت کرتے ہیں تو یہ کمال فقط ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے۔ جب افراد بشر کے لیے کمال کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے امام سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان کی ذاتِ اقدس سے وابستہ ہو کر ہم صاحبِ کمالِ مطلق کی بندگی تک رسائی کرتے ہیں۔
انسان کی اہم ترین فرائض کی نشاندھی کرنے کے بعد شیخ الجفری نے کمال پر گفتگو کر کے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنے فرائض اور مقاصد میں اگر انسان کو کمال حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا رشتہ صاحب کمالات بشریہ سے استوار ہو جائے۔ اور صاحبِ کمالات بشریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ شیخ الجفری کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا دعویٰ ہے انسان کمال حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام ہیں۔ اس لیے وہ صاحبِ کمالات بشریہ کا اعزاز ان کا ہے۔ اس پر شیخ الجفری نے لکھا کہ بیشک حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام انسان کامل تھے اور ان کو بے شمار کمالات سے نوازا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حصول کے لیے جس ذات کی اقتداء کی جانی چاہیے اور جو تمام کمالات بشریہ سے متصف ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ پھر نصاریٰ نے جن چیزوں کو کمال سمجھ رکھا ہے وہ بھی محل نظر کیونکہ انہوں رہبانیت اور دنیا سے مکمل قطع تعلقی کو کمال سمجھا ہوا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق طاقتور مومن کمزور مومن کی نسبت زیادہ مقبول ہے۔ اور ایسے ہی وہ مسلمان جو لوگوں کے درمیان رہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کرے اس سے زیادہ اجر پائے گا جو لوگوں کے درمیان نہ رہے اور ان کی ایذا رسانیوں پر صبر نہ کر سکے۔
اس کے بعد شیخ الجفری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کے اوپر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بیشک آپ لباسِ بشری میں ملبوس ہو کر دنیا میں تشریف لائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خصائل و فضائل سے نوازا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی کشش تک ہم میں سے کسی کی رسائی نہیں ہے۔ نیز شیخ الجفری نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباسِ بشری میں آنا عالم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و اطاعت ہی سے انسان اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی بجا لا سکتا ہے جو کہ اس کا مقصد تخلیق ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشریت سے متصف نہ ہوتے تو انسان کسی کامل نمونے سے محروم ہوتا جو اس کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں راہنمائی کر سکے۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے پھرنے ، سونے، بازار جانے اور شادی بیاہ نے انسانوں کے لئے ایک نمونہ پیش کر دیا جس کی اتباع سے وہ قرب الہی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الجفری کہتے ہیں کہ بالفرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوتے نہ ہوتے تو ہمارا سونا سنت کے خلاف ہو جائے گا جو کہ قرب خداوندی سے دور کرنے کا سبب بن جائے گا اور یہ ہماری عبادات کے منافی ہو جائے گا۔ اگر ہم مجاہدہ نفس کرتے ہوئے سونا بالکل کم کردیں تو اس صورت میں بھی فطرت کی مخالفت ہو گی اور ہم کمزوری کے سبب مخلوق سے معاملات سے دور ہو جائیں گے۔یوں ہم عبادت اور نیابت دونوں کی ادائیگی نہیں کر سکتے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند ہمارے لیے نمونہ بن گئی کہ بقدرِ ضرورت سو کر ذہنی سکون حاصل کیا جائے تاکہ عبادت اور نیابت کی ادائیگی صیح طور پر سر انجام دی جا سکے
شیخ الجفری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواجی زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بالخصوص ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کو ذکر کیا ہے جس کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کامیاب ازدواجی زندگی کا اعلیٰ نمونہ ملتا ہے۔ اور ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفا اور مصیبت کے وقت ثابت قدمی اور اپنے شوہر کا ساتھ دینا صاف نظر آتا ہے۔
اس کے بعد ازدواجی زندگی ہی کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بھی ذکر کیا کہ ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح حسن سلوک سے پیش آتے اور ان کا خیال رکھتے۔ ان کے ساتھ دوڑ لگاتے۔ ان کی قلبی تفریح کا خیال رکھتے۔
یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ اور اس پر غور وفکر سے باقی انسانوں کو راہنمائی ملی کہ ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کیسے گزارنی ہے۔ بالفرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی نہ کی ہوتی تو پھر ہمارے سامنے کوئی مثالی نمونہ نہ ہوتا کہ ہم کیسے بہترین ازدواجی زندگی گزار سکیں۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شادی کرنا بھی انسانوں کے حق میں رحمت ثابت ہوا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورتِ بشریہ کے کمال پر بات کرتے ہوئے شیخ الجفری نے صفت نورانیت کو بھی موضوع بنایا ہے اور بتایا ہے کہ صفت نورانی دو طرح کی ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
“صفت نورانی دو طرح کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم: وہ جس سے حاصل کرنے کی تمنا مخلوقات میں سے کوئی بھی نہیں کرتا وہ ایسی نعمت ہے جس کے لیے اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چن لیا ہے کوئی انسان نہ تو اسے پا سکتا ہے نہ اس تک پہنچ سکتا ہے”
اس کی مثال میں شیخ الجفری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صوم وصال کے روزوں کا ذکر کیا جن کی خصوصیت الگ تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ان کو نہ پا سکتے تھے۔ ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ
میری آنکھیں سوتی ہیں ، میرا دل بیدار رہتا ہے
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سونے سے وضو کا برقرار رہنا۔ اس سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند میں آرام فرماتے تھے لہذا ہمارے لیے سونا عبادت بن گیا تو دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے سونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیند میں آرام فرمانے میں کوئی برابری نہیں۔
صفت نورانی کی دوسری قسم کے اوپر بات کرتے ہوئے شیخ الجفری کہتے ہیں
“صفت نورانی کی دوسری شکل وہ ہے جس سے امت کے بعض دوسرے افراد بھی سرفراز کیے جاتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جس کا جتنا خاص تعلق ہوتا ہے وہ اتنا ہی مستحقِ نور ہوتا ہے۔ یہ کمالات اور خصوصیات اسے عطا کی جاتی ہیں جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری صورت بشریہ کی اقتدا کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے باطنی فضائل و کمالات کا دل سے معترف ہو”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے اور یہاں پر نور ایمان کو شیخ الجفری نے دوسری صفت نورانی کی طور پر ہی ذکر کیا ہے۔ جس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جتنا مضبوط ہو گا اس کا ایمان اتنا ہی کامل ہو گا۔ یہاں پر مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے لازم ایمان ہونے کے ثبوت کے لیے چند احادیث ذکر ہیں۔
محبت کے بارے میں مصنف نے بہت خوبصورت وضاحت کی ہے وہ لکھتے ہیں
“محبت کا معنی محض ظاہری اتباع اور پیروی نہیں، صرف اتباع کے ذریعے مطلوب کی حقیقت کا پھل نہیں ملتا۔جب تک اسے محبت کی زمین میں نہ بویا جائے، اتباع اور پیروی ایک درخت کی مانند ہیں آپ انہیں محبت کی زمین میں بوئیں یا کسی اور زمین میں، لیکن اگر محبت کی زمین میں اس درخت کو نہ لگایا گیا تو اتباع کرنے والے کو ایمان کا کمال نصیب نہیں ہو سکتا وہ محض ظاہری نقل کرنے والا ہے۔
محبت دراصل باطنی کیفیت کا نام ہے، جس سے دل محبوب کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور جب محبت بڑھتی ہے تو محبت کرنے والے کو محبوب کی ہر شے کا گرویدہ پناہ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ مکمل ہو جائے اور اپنی جان سے بھی قوی تر ہو جائے تو نتیجے میں محب کو تین چیزیں حاصل ہوتی ہیں جو تبلیغ دین کے سلسلے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ (۱) اتباع (۲)خدمت (۳)ایثار ،یہ تین چیزیں بھی محبت کی مقدار کے اعتبار سے ہی حاصل ہوتی ہیں چنانچہ جب محبت کامل ہو کر دل میں گھر کر لیتی ہے تو اتباع خدمت اور عطا کا جذبہ بھی مضبوط تر ہو جاتا ہے”
یہاں شیخ سید حبیب علی زین العابدین الجفری نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کچھ واقعات نقل کیے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اندر محبت رسول کس قدر سرایت کر چکی تھی۔
اس کے بعد مصنف نے اپنی اس بات کو متعدد انداز واضح کیا ہے۔ جس میں انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالوں کا سہارا لیا ہے۔ اہل سنت میں اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد افضل ترین طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔ حالانکہ اگر ہم تابعین کے حالات کو پڑھیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ان میں کئی لوگ تقوی و طہارت اور راسخ العلم تھے۔ جیسے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ یا پھر حضرت ثابت البنانی رحمہ اللہ، لیکن یہ تابعین اپنے تمام تر علم و تقوی کے باوجود اس اعرابی صحابی کے برابر نہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے فقط ادائیگی فرائض اور محرمات سے بچنے کا وعدہ کیا۔ کیونکہ ان اعرابی صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے جس کا کوئی مثیل نہیں ہو سکتا۔ یہاں پر شیخ الجفری نے صحابی کی تعریف بھی کی ہے وہ خوش نصیب شخصیت جنہوں نے حالت ایمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں انتقال کیا ہو۔
مصنف نے یہ بہت اہم نکتہ بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انوار و برکات کا براہ راست مشاہدہ کرنا اور ان سے مستفید ہونا بھلے وہ ایک بار ہی کیوں نہ ہو بہت بڑی دولت ہے۔ جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔جو اس بات کی اہمیت کا اندازہ نہیں کرتے وہ اس بات کو ہلکا لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت بڑی جسارت ہے۔ جس پر غور کر کے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں ایک اور بات کی وضاحت فرما دوں کہ چہرہ اقدس اور جسم اطہر سے نکلنے والی ان انوار و تجلیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایمان شرط ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کفار اور منافقین اس سے وہ فوائد حاصل نہیں کر سکے جو اہل ایمان کے نصیب میں آئے۔
اس سلسلے میں شیخ الجفری نے یہ بھی لکھا ہے
“انوارِ محمدیہ سے اکتسابِ فیض ، آپ سے محبت کی مقدار کے اعتبار سے ہی ممکن ہے جیسا کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کمالات کا مشاہدہ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزات، اخلاق و معاملات آپ کی رحمتوں ،شفقتوں ،آپ کی عاجزی و انکساری آپ کے زہد و تقوی کے بے مثال کارناموں کو دیکھا اور ان کی گواہی دی، مگر ان کے مراتب انہی خصوصیات کی معرفت کے اعتبار سے تھے جس نے جتنا سمجھا اتنا ہی وہ بلند مرتبے پر فائز ہوتا گیا”
یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بات ہے ورنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والا زمانہ بھی شرف سے محروم نہیں ۔ ایسے ہی وہ شہر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی کی رب تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور دوسرا شہر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی اس کا نام طیبہ ہو گیا حتیٰ کہ یثرب نام لینے سے منع کر دیا کیونکہ اس کے معنی میں عیب پایا جاتا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شہر اور زمانہ جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جائے وہ رب تعالیٰ کے ہاں مقبول اور محبوب ہو جاتے ہیں تو وہ لوگ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وابستگی کا شرف حاصل ہوا ان کا مقام و منزلت رب تعالیٰ کے ہاں کتنی بلند ہو گی۔ ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مراتب میں درجہ بندی ہے جس کا اوپر والے شیخ الجفری کے اقتباس میں بھی ذکر ہے۔ اس لیے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو خصوصی طور پر شیخ الجفری نے ذکر کیا ہے۔
شیخ الجفری نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کوئی محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مفہوم تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے راز بھی کھولتا ہے اور اس کو رب تعالیٰ کے فرامین کا فہم بھی عطاء ہوتا ہے جس سے وہ ان کے اندر پوشیدہ حکمت کے موتیوں کو تلاش کر لیتا ہے اور یوں وہ منشاء الہی کو بہتر انداز میں جاننے والا بن جاتا ہے۔ یہ سب انعامات اس کو افضل البشر سے وابستگی اختیار کرنے کی صورت میں ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کی وابستگی جتنی مضبوط ہو وہ اتنا ہی زیادہ مستفید ہوتا ہے۔
شیخ الجفری نے بتایا کہ اسلام میں داخلے کے لئے توحید و رسالت کی شہادت شرط ہے۔ جس کی ذات رسالت سے وابستگی جتنی مضبوط اللہ تعالیٰ اس پر اپنی توحید کے معرفت کو کھول دیتا ہے۔ توحید کی معرفت کے بارے میں شیخ الجفری کہتے ہیں کہ اس میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو باقی امت سے ممتاز مقام حاصل ہے وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست توحید کی معرفت حاصل کی ہے۔
یہاں شیخ الجفری نے اس نظریے کہ رسول فقط ایک ایلچی ہوتا ہے جس کا کام فقط پیغام پہنچانا ہوتا اور پہنچا کر چلے گئے کو مسترد کیا اور بتایا ہے کہ یہ نظریہ باطل ہے ہمارے اسلاف کا عمل بتاتا ہے کہ پیغام کبھی بھی پیغمبر سے جدا نہیں ہو سکتا۔
ایسے ہی شیخ الجفری نے ایم اور خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ نہ کرو ، حد سے تجاوز نہ کرو کو بھی مسترد کیا ہے اور اس کے جواب میں دوسروں پر حد سے تجاوز کا الزام لگانے والوں کی اپنی حد کیا ہے؟ ان لوگوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال کو دیکھنا چاہیے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے برکت حاصل کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کو نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر کے زینے کو برکت کے لیے مس کرتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اندر اطاعت شعاری کے جذبے کو بھی مصنف نے ذکر کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت شعاری کا شوق ان کی دل کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔ اس پر مصنف نے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کدو کھاتے دیکھا تو انہوں نے فرمایا میں اسی دن سے کدو پسند کرتا ہوں۔
مصنف نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مثال بھی پیش کی ہے وہ ان مقامات کو تلاش کیا کرتے تھے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا یا پھر نماز ادا کی۔ اور یہی کام ان کے بیٹے حضرت سالم بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کیا کرتے تھے
اطاعت کے ساتھ خدمت بھی مربوط ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جذبہ خدمت و ایثار بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بے مثال تھا۔
یہاں پر شیخ الجفری نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مثال دی ہے کہ ہجرت کی رات ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سونا جبکہ تلواریں اور نیزے باہر آپ کا انتظار کر رہے ہوں اس ہی جذبہ ایثار کی ایک عمدہ مثال ہے۔
دوسری مثال مصنف حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی دی ہے جو غار ثور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے کھانا اور پانی لاتی تھیں۔
ایثار کی ایک اور مثال حضرت سیدنا معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بھی ذکر کی ہے جس طرح غزوہ بدر میں انہوں نے حضرت سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابو جہل کا پتہ پوچھا اور پھر اس پر وار کیا۔
حضرت سیدہ ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی بھی جذبہ ایثار کو ذکر کیا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع میں شہادت کو گلے لگا لیا۔
ایک اور خاتون کے مثالی جذبہ ایثار کا بھی ذکر کیا جن کی غزوہ احد میں والد، شوہر اور بھائی شہید ہو گئے مگر ان کو فکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہو گیا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے کے بعد میری ہر مصیبت آسان ہو گئی۔
یہ جذبہ کس قدر بے مثال اور حقیقی ہے۔ اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر جو سکون میسر آتا ہو گا وہ کتنا بلند ہوگا۔ پھر اس ہی پر سوچا جا سکتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کیا حالت ہوگی اور یہاں ہمیں حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تلوار ہاتھ میں لینا کر ایسی بات سے روک دینا ایک معمولی بات محسوس ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کی برکات کا بھی ذکر مصنف نے کیا ہے جس پر انہوں نے حضرت سیدنا رابعی بن عامر رضی اللہ عنہ کے رستم سے مکالمے کا ذکر کیا کہ ہم لوگوں کو لوگوں کی بندگی نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرنے کے لیے آئے ہیں۔
ایسے ہی ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جن لوگوں سے جنگ کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قیدی بنایا، قیدی بنانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کی خاطر ان قیدیوں کو کھانا کھلانے میں اپنے اوپر ترجیح دی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ ذکر کرنے کے بعد مصنف بیان کرتے ہیں
“یہی فرق ہے صحابہ اور غیر صحابہ کے درمیان کہ جب ان کے دلوں میں تسلیم و رضا داخل ہو گئی، تو اللہ تعالی نے ان کو چن لیا،ان کو امامت عطاء کی، انہیں زمین کا وارث بنا دیا،ان کو اخلاق حسنہ سے نوازا ؛ کیونکہ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا ، وہ دنیا کا قائد ہو گیا”
کتاب کے آخر میں مصنف نے اس رسالے کے مقصد تالیف میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کے کمالات کے ذریعے توحید الٰہی کی معرفت حاصل کی جائے۔
کتاب میں اردو ترجمے کے ساتھ عربی متن بھی موجود ہے تاکہ عربی جاننے والی عربی عبارت کا براہ راست مطالعہ کرسکیں۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ پر لکھی یہ کتاب ایک عمدہ اضافہ ہے۔اللہ مصنف سید حبیب علی زین العابدین کو جزائے خیر دے اور ان سے اپنے دین اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا ٕ کا مذید کام لے۔
کتاب کی اشاعت پر کتاب محل کی ٹیم بالخصوص نوفل جیلانی بھاٸی اور فہد بھاٸی مبارک کے مستحق ہیں۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں