مولانا اصلاحی صاحب کتاب “مبادی تدبر حدیث” میں فرماتے ہیں:
“سنت قرآن کی تفسیر، تعریف اور تبیین کرتی ہے، یہ سوال بالکل خارج از بحث ہے کہ کوئی حدیث یا سنت قرآن کی ناسخ ہوسکے”
اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں:
“جہاں تک حدیث کا تعلق ہے، اس میں ضعف کے اتنے پہلو موجود ہیں کہ اس کا قرآن جیسی قطعی الدلالۃ چیز کو منسوخ کردینا بالکل خلاف عقل ہے”
“قرآن جیسی قطعی الدلالۃ” جیسی ترکیب از خود مغالطہ انگیز ہے چہ جائیکہ یہ متعلقہ دعوے کی دلیل بن سکے (فی الوقت ہمیں اس پہلو سے سروکار نہیں، اس پر الگ سے بات ہوچکی)۔ یہاں اہم بات ان کا یہ دعوی ہے کہ نسخ بیان و تبیین نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق سنت تبیین کرتی ہے نہ کہ نسخ۔ لیکن اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ “بیان کن امور سے عبارت ہے” تو اس کا جواب غامدی صاحب کے یہاں کتاب “برھان” میں ان امور کی صورت ملتا ہے:
1۔لغوی مفہوم کا پھیلاؤ
2۔ جملے کی نحوی ترکیب کا تقاضا
3۔ سیاق و سباق
4۔ متکلم کی عادت
5۔ عقل عام
تغییر، تبدیل و نسخ کے بیان نہ ہونے سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ:
“کسی کلام کے وجود میں آنے کے بعد جو تغیر بھی اُس کلام کی طرف منسوب کیا جائے گا، آپ اُسے ’نسخ‘ کہیے یا ’تغیر و تبدل‘ ، اُسے ’تبیین‘ یا ’بیان‘ یا ’شرح‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔”
مولانا اصلاحی و غامدی صاحب کا تصور بیان مبہم ہونے کے ساتھ ساتھ ناقص و محدود بھی ہے اور یہ اصل سوالات کا جواب فراہم نہیں کرتا۔ آئیے یہاں حنفی اصولیین کے ہاں بیان کی اقسام کی روشنی میں بیان کا مفہوم سمجھتے ہیں جس سے بیان کا تصور نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔
کسی شے کا بیان دو جہات میں ہوسکتا ہے۔ فقہ چونکہ حکم شرعی سے بحث کرتی ہے، لہذا حکم کا بیان دو جہات میں ہوسکتا ہے:
1) حکم کے مفہوم کا بیان (یعنی حکم کیا اور کس چیز کا ہے) اور (2) حکم سے متعلق بعض تفصیلات کا بیان۔ دونوں کی تفصیل یہ ہے:
1۔ حکم کیا ہے، مثلاً فرضیت نماز
• حکم کا مفہوم لفظ سے از خود واضح ہوگا یا نہیں ہوگا۔ حکم کا مفہوم واضح نہ ہونے میں چند طرح کے امکانات کی وجہ سے ابہام کا احتمال ہوتا ہے:
الف) مشترک لفظ کےاستعمال کی وجہ سے (جیسے ثلاثۃ قروء)
ب) حقیقی و مجازی معنی کے مابین احتمال کی وجہ سے (جیسے اولمستم النساء)
ج) لفظ کے معنی میں کسی ایسے شرعی مفہوم کا اضافہ ہوجانے کی وجہ سے جو لغت سے معلوم نہ ہوسکے (جیسے اقیموا الصلوۃ)
ان صورتوں میں حکم کا مفہوم مقرر کرنے کے لئے جو وضاحت لائی جائے، وہ “بیان تفسیر” ہے (امر، نہی، حقیقت مجاز، مشترک موول وغیرہ جیسی ابحاث اصول فقہ میں اس تناظر میں آتی ہیں)
2۔ حکم کا مطلب واضح ہونے کے بعد درج ذیل اہم امور اس کی جانب متوجہ ہوسکتے ہیں جو جواب طلب ہوتے ہیں:
الف) کیا حکم اب بھی باقی ہے یا نہیں؟ یعنی نسخ کا بیان، اسے اصطلاحاً “بیان تبدیل” کہتے ہیں
ب) کیا حکم لفظ میں بظاہر مذکور تمام افراد پر لاگو ہے یا بعض کی تخصیص خود متکلم کے خطاب سے ثابت ہے اور جو یہ بتاتی ہے کہ متکلم نے ظاہری عموم کبھی مراد ہی نہیں لیا؟ یعنی حکم کی تخصیصات کا بیان، اسے اصطلاحاً عام کی تخصیص کی بحث کہتے ہیں
ج) کیا خود حکم پر کچھ شروط و قیود عائد ہیں؟ یعنی حکم کی تقییدات کا بیان، اسے اصطلاحاً مطلق و مقید کی بحث کہتے ہیں
د) کیا حکم میں کچھ استثناء ہے؟
• (ب ) تا (د ) کو اصطلاحاً “بیان تغییر” کہتے ہیں
ھ) حکم کی صحت کے لئے ضروری قضایا یا حکم سے جنم لینے والے ضروری قضایا کی تفصیلات کا بیان، اسے اصطلاحاً “بیان ضرورت” کہتے ہیں
یہ ہے کسی حکم کے بیان کا واضح ادراک۔ قرآن میں شارع کا مطلوب حکم کبھی اس سادگی کے ساتھ مذکور نہیں ہوتا کہ “نماز پڑھو”، بلکہ حکم ان تمام کلی امور (یعنی استثناءات، تخصیصات، تقییدات، تنسیخات و دیگر تقاضوں) کے ساتھ ہی مطلوب ہوتا ہے اور انہی کی وضاحت سے حکم واضح ہوتا ہے۔ یہ بحث کہ آیا سنت و حدیث سے تخصیص یا نسخ ہوسکتا ہے یا نہیں یہ ثانوی بات ہے، یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر نسخ، تخصیص، تقیید وغیرہ کس لغوی و عقلی اصول کی رو سے متکلم کے بیان سے خارج ہے؟ آخر ایک حکم کا بیان ان امور کے سوا کس چیز کا نام ہے؟ یہ کہنا کہ “بیان شرح کا نام ہے”، اس سوال کا کوئی جواب نہیں، کسی حکم کی مثلا “انتہائے مدت” بتانا بھی حکم کی شرح ہی کہلاتی ہے۔ خود قرآن نے ان سب امور کو “تبیین” قرار دیا ہے جس پر ہم الگ سے ایک تحریر لکھ چکے ہیں۔
چنانچہ کہنا پڑتا ہے کہ دیگر امور کی طرح مکتب فراہی کے ہاں بیان کی بحث بھی انڈر ڈویلپڈ ہے اور یہاں اس بات کا کلی ادراک موجود نہیں کہ آیا بیان اصلاً کن امور سے عبارت ہے اور کن سے نہیں۔ جونہی بیان و تبیین کا وہ درست مفہوم واضح ہو جائے جو اصولیین نے واضح کیا اور اس کے ساتھ یہ بات ملا لی جائے کہ سنت و حدیث قرآن کے حکم کی تبیین کرتی ہے تو معاملہ سمجھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔
کمنت کیجے