ڈاکٹر خضر یسین
“لفظ” اور “شے” میں فرق یہ ہے کہ لفظ قدر یا value ہے اور شے مقدور یا valued ہے۔ لفظ بولا اور سنا جاتا ہے اور شے دیکھی جاتی ہے، چھوئی جاتی ہے، چکھی جاتی ہے اور سونگھی جاتی ہے۔ لفظ نہ سونگھا جاتا ہے، نہ چکھا جاتا ہے، نہ چھوا جاتا ہے اور نہ دیکھا جاتا ہے۔ “لفظ” اسم ہے، “شے” یا معروض ہے۔
لفظ اور شے کی نسبت سے دو طرح کے علم وجود میں آتے ہیں۔ لفظ قدر ہے، اس لئے اس کی نسبت سے جو علم وجود میں آتا ہے وہ قدری یا معیاری علم normative science کہلاتا ہے اور شے کے تعلق میں جو علم وجود میں آتا ہے، اسے واقعی علم positive science کہلاتا ہے۔
لفظ “اسم” ہے تو اس کا “مسمی” شے بھی ہو سکتا ہے اور “قدر” norm بھی ہو سکتا ہے۔ جب مسمی “شے” object ہو تو ہمارا علم ان چار حسوں کا پیدا کردہ ہوتا ہے جو اس تک رسائی پا رہی ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ “شی فی نفسہ” thing in itself اور شے جیسی حواس کے وسیلے سے منکشف ہوتی ہے as it appears to senses، میں فرق کرنا پڑتا ھے۔ “شی فی نفسہ” ہمارے علم کے دائرے سے خارج ہو جاتی ہے اور ہمارا علم شے کے اس حصے تک محدود رہتا ہے جو حواس کے وسیلے سے ہم پر منکشف ہوا ہے۔ گویا “شے” کا کچھ حصہ معلوم ہے اور باقی ماندہ مجہول ہے۔ معلوم و مجہول کی یہ تقسیم صرف واقعی علم میں ممکن ہوتی ہے۔
جہاں تک “معیاری علم” normative science کا تعلق ہے تو لفظ بطور اسم جب قدر norm کو مسمی بناتا ہے تو یہ اسم مسمی کا عین ہوتا ہے۔ اقدار ہمارے شعور میں اور نفس الامر میں “امر واحد” ہیں۔ دو چیزیں نہیں ہیں۔
کلام اور اس کا فہم “امر واحد” ہیں۔ اگر یہ دو مختلف امر ہیں تو ان دونوں کے مابین ہر نوع نسبت ختم ہو جاتی ہے۔
علم و شعور کے فقدان نے یہاں لاکھڑا کیا کہ جو بات “علم واقعی” میں متحقق ہوتی ہے، عقل مندوں نے اسے “معیاری علم” میں داخل کر دیا ہے۔ اقدار اور اشیاء values and objects کے مابین جو فرق نہیں کر سکتے، انہیں ہماری اصلاح سے پہلے اپنی علمی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خضر یسین صاحب فاضل علومِ اسلامیہ ہیں اور آپ نے فلسفہء وجود میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
کمنت کیجے