Home » غیرت و مردانگی
تہذیبی مطالعات زبان وادب

غیرت و مردانگی

ڈاکٹر عزیر سرویا

غیرت اور مردانگی دو ایسی صفات ہیں جن کو جدید دور میں بالکل اسی طرح ایک مربوط انداز میں بدنام کیا جا رہا ہے جیسے مذہب (خصوصاً اسلام) کو کئی سالوں سے کیا جا رہا ہے۔

ابھی جس ٹِک ٹوکر بچی کا قتل ہوا ہے کہا جا رہا ہے کہ غیرت کے نام پر ہوا ہے۔ یہ اور ایسے تمام ق-تل فی الحقیقت حسد، جلن، اور سماج کی جاہلانہ سوچ جیسے محرکات رکھتے ہیں۔ موجودہ کیس میں تو تازہ خبر کے مطابق قا-تل بچی کا کوئی دوست ہی تھا۔ یعنی غیرت والی بونگی بغیر کسی ثبوت کے بڑے اسکیل پر چھوڑی گئی اور ہنوز چھوڑی جا رہی ہے۔

مردانگی یا غیرت تو دراصل وہ جذبے ہیں جن کے تحت مرد اپنی تمام تر قوت کو بروئے کار لا کر اپنی زندگی کو دینی اور دنیاوی لحاظ سے متوازن بناتا ہے، اپنے آس پاس کے کمزور طبقے (عورتیں، بچے، بوڑھے، کم وسائل کے حامل لوگوں) کا دست و بازو بنتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے بڑھ کر اپنا، اپنے کنبے کا، اپنی قوم کا، اپنی ملت کا اور اپنے نظریے یا دین کا محافظ بنتا ہے۔ اور یہ سب کرنے میں وہ اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتا۔ غیرت مند مرد تو کشادہ دل، اعلی ظرف اور خوددار ہوتا ہے اور یہ خصائص حسد اور سڑاپے کے ساتھ یکجا ہو ہی نہیں سکتے۔ سو اس لیے غیرت اور مردانگی کے ذکر پر کسی بھی مرد کو کبھی معذرت خواہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ تو فخر کا باعث ہیں۔

لیکن ارد گرد ہو کیا رہا ہے؟ ہر ایسا بزدلانہ کام جو کہ بالکل واضح طور پر کوئی جاہل اور نکما آدمی سڑاپے، حسد، اور آس پاس والوں کے مذاق کا نشانہ بننے کی وجہ سے کرتا ہے اس پر غیرت اور ٹاکسک مردانگی کا لیبل لگا کر مارکیٹ میں مذمت کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ چھری، چاقو یا ہر نوکیلے اوزار کے خلاف کمپین چلا کر ان پر مکمل پابندی لگوانے کی وکالت کی جائے کیونکہ ان سے لوگوں کو چوٹ لگ سکتی ہے!!

ایک بات سمجھ لیں؛ کوئی کسی کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے بعد اگر کہے کہ اس نے ایسا اسلام کی خدمت کے لیے کیا؛ اپنی یا اپنے خاندان کی عزت و غیرت کی حفاظت کے لیے کیا؛ یا پھر کسی بھی نظریے کی خدمت کے لیے کیا؛ تو ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم مجرم کو اس کے جرم کے مطابق دیکھیں اور کسی بھی نظریے (اسلام، غیرت، مردانگی وغیرہ) کی تعریف اس قا-تل کی صوابدید پر نہ چھوڑ دیں۔ اسلام، ختم نبوت، ناموس رسالت، غیرت و حمیت، مردانگی و اس کے تقاضے؛ ان سب کی تشریح کرنا کسی نیم خواندہ نفسیاتی مریض کا اختیار یا دائرہ کار نہیں ہے۔ یہ کام سلجھے ہوئے، علم رکھنے والے، ذمہ دار شہریوں/مردوں کا ہے۔

جو شخص بھی ارد گرد آپ کو ایسا نظر آئے جو ان پاکیزہ نظریات اور اوصاف کو صرف اس لیے برا کہہ رہا ہو کیونکہ کسی مجرم کی زبان پر ان کا نام تھا، اسے شٹ اَپ کال دے کر تلقین کریں کہ وہ مجرم اور اس کے جرم کی مذمت تک محدود رہے اور مجرم کو کوئی اسکالر یا نظریات کا ٹھیکیدار بنا کر ہمارے سروں پے مسلط کر کے پوری مرد جاتی کو معذرت خواہ ہونے پر مجبور مت کرے۔

یہ اور ایسے قتل تب تک ہوتے رہیں گے جب تک ہم (سلجھے ہوئے مرد) غیرت کی تعریف، جو کہ دراصل ہماری ہی کھوئی ہوئی میراث ہے، اور اس وقت بدقسمتی سے جاہلوں اور مخصوص ایجنڈے کے پیروکاروں کے ہاتھ یرغمال ہے، اسے بازیاب کروا کے اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے۔ پہلا قدم یہ ہے کہ ایسے مجرموں کو پکڑ کے عبرت ناک سزا دیں، اور لانگ ٹرم حکمت عملی یہ ہے کہ سماجی و ریاستی سطح پر ایک سلجھا ہوا بیانیہ تشکیل دیں، میڈیا و سوشل میڈیا پر اس کی باقاعدہ ترویج کریں اور اپنے بچوں (خصوصاً لڑکوں) کو تربیت دیں کہ ایک غیرت مند مرد کیسے بننا ہوتا ہے!

 

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں