تین فلسفیانہ و منطقی مقولات ہیں جن کی جگہ متعین کرنا ازحد ضروری ہے۔ کائنات عدم سے تخلیق ہوئی، یہ دعوی مذہب پرستوں کا ہے۔ یعنی ایک لمحہ ایسا تھا جب کائنات نہیں تھی، وہ عدم تھی۔ وہ عدم کہاں اور کس میں تھا؟ یہ طے کرنا ازحد ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ عدم تھا۔ مذہب اور متکلمین اس عدم کو متعین کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ انہی کے مذہب کا دعوی ہے کہ ایک وقت تھا جب کائنات عدم تھی۔ جب کائنات تھی تو عدم نہیں تھا، جب عدم تھا تو کائنات نہیں تھی۔ یعنی عدم کائنات سے پہلے تھا، کائنات کے ساتھ وجود ہوا اور عدم کا خاتمہ ہوا۔ چونکہ یہ کائنات سے پہلے تھا اس لیے اسے کائنات سے پہلے دریافت کرنا ہو گا۔ کیونکہ کائنات وجود ہے، عدم نہیں۔ مختصر یہ کہ عدم ایک “حقیقی” کیٹیگری ہے، جس کی تعیین بہت ضروری ہے۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پارمینائڈز نے وجود (وجود) کی کیٹیگری تشکیل دی اور ہیراقلیٹس نے بی کمنگ کو دریافت کیا۔ ہیگل نے دونوں میں مصالحت کرائی۔ بی کمنگ کا مطلب ہی یہ تھا کہ کسی “وجود” پر ہی بی کمنگ کا اطلاق ہو سکتا ہے، یعنی وجود وہ بن گیا جو وہ پہلے نہیں تھا، یعنی عدم تھا۔ لہذا نتھنگ اور بی کمنگ وجود کی کیٹیگریز ہیں، وجود سے باہر اور ماورا نہیں ہیں۔
اسی لیے ہیگل نے کہا تھا کہ اے برابر ہے ناٹ اے۔ اے کب ناٹ اے کے برابر ہوتا ہے، اس کے لیے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ انسان سے تمام رنگوں کے تصورات واپس لے لیے جائیں اور صرف ایک باقی رہے۔ تو کیا اسے شناخت کیا جا سکتا ہے؟ شناخت کی بنیادی شرط “فرق” ہے اور فرق کے لیے “دوسرا” لازمی ہے۔ فرق کی عدم موجودگی رنگ کی بھی عدم موجودگی ہو گی۔ صرف ایک ہی رنگ موجود ہے، دوسرا نہیں ہے۔ تو کیا ہم اس کو کسی رنگ کا نام دے سکیں گے؟ ایک رنگ کا ہونا اس رنگ کا نہ ہونا ہے، کیونکہ رنگ ایک تجریدی کلی ہے، جبکہ سرخ، سبز، نیلا جزئی خصوصیات ہیں۔ لہذا یہ کمی اور احتیاج خود اے کے اندر ہے کہ “دوسرا” موجود ہو، بصورت دیگر اے خصوصیت کے اعتبار سے کیا ہے؟ صرف عدم!منطقی طور پر دوسرے کی عدم موجودگی دراصل پہلے کی بھی عدم موجودگی ہوتی ہے، کیونکہ کوئی بھی تعیین کسی “شے” کی تعیین ہوتی ہے اور جب تک تعیین نہ ہو، صرف غیر متعین ہوتا ہے۔ ہیگل کے الفاظ میں تجریدی شناخت، صفت سے عاری، خد و خال اور خصوصیت سے محروم وجود ہی عدم ہوتا ہے۔
اب فرض کریں کہ ہم نے اس اے کو متعین کرنا ہے اور اس کی تجریدی حیثیت کی تعیین کرنی ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اس تجریدی اے کی تجریدی حیثیت کی نفی کی جائے۔ تجریدی اے کی نفی وجود (کائنات یا ناٹ اے) سے ہوتی ہے۔ اب ہمارے پاس کائنات ایک کنکریٹ وجود کے طور پر موجود ہے۔ اب اگر ہم یہ مان لیں کہ کائنات سے قبل کوئی موجود تھا تو پھر کائنات کو حذف کر کے اس کی موجودگی کو ثابت کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس خدا کے تصور کا واحد حوالہ کائنات ہے۔ مذہب پرست ہر مکالمہ میں کائناتی حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ کائنات کہاں سے آئی؟ مطلب یہ کہ کائنات کو ہٹا دیں تو خدا ہی عدم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کائنات کو قدیم مانا جائے اور عدم کے مقولے سے نجات حاصل کی جائے۔
یہ کائنات موجودگی کا واحد حوالہ ہے۔ جب یہ کائنات موجود نہیں تھی، تو عدم تھا۔ یہ عدم کہاں تھا؟ یہ قارئین نے خود طے کرنا ہے۔ تاہم یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ وجود عدم نہیں ہوتا، اس کے برعکس ہوتا ہے۔
اب فرض کریں کہ ہم نے کائنات کو معدوم کر دیا۔ پھر عدم کائنات باقی رہا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے عدم کائنات کے تصور کے بغیر کسی “وجود” کو ثابت کر سکتا ہے تو ابتدا کرے۔ ہم منتظر ہیں۔ کیونکہ ہمارے نزدیک کائنات کی عدم موجودگی کی صورت میں کسی “موجودگی” کو ماننا عقیدہ تو ہو سکتا ہے، کوئی فلسفیانہ و منطقی پوزیشن نہیں ہو سکتی۔ وجہ یہ کہ کائنات کی عدم موجودگی کا مطلب ہر اس شے کی عدم موجودگی ہے جو اس کائنات میں موجود ہے، جیسا کہ انسان۔ انسان کو حذف کر کے کوئی پوزیشن ممکن نہیں ہے۔ لہذا منطقی مباحث میں عقیدے کو نہ گھسیڑیں۔ متکلمین نے ارسطوئی منطق کا “خوب” استعمال کر کے اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ارسطوئی منطق کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے ماورائی گمراہیوں کے ساتھ نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ متکلمین نے عدم کو وجود اور وجود کو عدم ظاہر کر کے ان کی ترتیب بدل دی۔ لیکن بی کمنگ کو نہ دیکھ سکے، جو وجود کی ہی ایک خصوصیت تھی۔ وجود جب کچھ بنتا ہے تو وہ جو کچھ بھی بنتا ہے، اس سے قبل وہ عدم ہوتا ہے۔ ہم جدلیاتی منطق میں عدم کو وجود کا حصہ مانتے ہیں۔ ہم منطقی طور پر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سا مقولہ کب ظاہر ہوتا ہے۔ منطق کو ان الف لیلوی داستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ “ہو جا” اور ہو “گئی۔” یہ جادوگری تو ہو سکتی ہے کوئی منطقی پوزیشن نہیں ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفہ کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
بھت خوب.یہ مرشد کی کاوشیں ہیں جسکی بدولت ہمیں فلسفہ کی موشگافیوں اور کلیات سے روشناسی مل رہی ہے. اور ہمارے سیکھنے اور آگاہی کا علم جاری ہے. حالانکہ اس سے پہلے ہم غافل اور ناسمجھ تھے