عمران شاہد بھنڈر
مذہبی حضرات کی جانب سے اکثر یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اگر خدا کا تصور مفقود ہو جائے تو تمام تر ”ملحدانہ اخلاقیات“ مسمار ہو جاتی ہیں۔ اس کا جواب مذہب لوگ یہ دیتے ہیں کہ الحادی اخلاقیات کسی مضبوط تصور پر قائم نہیں ہوتیں۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ایسا وہ سائنس، تکنیک، طب، فلسفہ، علم البشریات، کیمیا، طبیعات، کونیات، تاریخ اور فن و ادب کے بارے میں نہیں کہتے کہ ان علوم میں خدا کا تصور نہ ہوا تو ساری علوم کا جنازہ اٹھ جائے گا۔حالانکہ سادہ سی بات یہ ہے کہ ان تمام علوم میں انسان جن بلندیوں کو چھو چکا ہے، اس کے لیے عقلی اخلاقیات تشکیل دینا سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک بچہ سکول سے سائنس کا سبق سیکھتا ہے تو چاند پر قدم رکھ دیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اخلاقیات کے اکتساب سے وہ یہ بھی نہ سمجھ پائے کہ انسانوں سے متعلق اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جنہیں اس نے ہر صورت میں بجا لانا ہے۔ تمام علوم میں معراج کمال کو پہنچنے کے لیے بھی اخلاقیات کی ضرورت ہوتی ہے جو ان علوم کی داخلی ساخت کا تقاضا بھی ہے۔ اخلاقیات کا اکتساب سماجی بقا کی اساس ہے۔ علمی اور سماجی سطح پر ایمانداری، دیانتداری، سچائی، لگن اور احساس ذمہ داری جیسی اخلاقی اقدار کے بغیر علوم اور سماج میں کسی بھی طرح کے مثبت رجحان کی نمود اور ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے اخلاقیات تمام علوم اور سماجی عمل میں ترقی کی شرطِ اولین ہے۔
فرض کریں کہ اگر مذہب پرستوں کی اس بات کو مان لیا جائے کہ اخلاقیات کے لیے خدا کا تصور اخلاقیات کا جزو لازم ہے تو پھر ایک سادہ سا امتحان یہ ہے کہ جن ممالک میں خدا کا تصور موجود ہے وہاں اخلاقیات کی سطح بھی بلند ہونی چاہیے۔ جبکہ سب سے زیادہ لاقانونیت اور غیر اخلاقی اعمال الحادی یا سیکولر معاشروں میں ہی دکھائی دینے چاہییں۔ تاہم حقیقت اس کے یکسر برعکس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الحادی معاشروں میں اخلاقیات کی بنیاد کسی متصورہ ہستی کے تصور پر نہیں رکھی جاتی کہ جہاں یہی علم نہ ہو کہ کوئی عمل اگر اچھا ہے تو کیوں اچھاہے؟ اور اگر بُرا ہے تو کیوں بُرا ہے؟ مذہبی اخلاقیات کا سب سے بنیادی نقص ہی یہ ہے کہ اس میں اخلاقی عمل کی کوئی بھی عقلی، منطقی بنیاد نہیں ہوتی۔فلاں عمل کیا جائے گا تو خدا خوش ہو گا اور جنت انعام میں ملے گی۔ فلاں عمل کیا جائے گا تو دوزخ کی آگ میں جلنا ہو گا۔ یعنی خدا کا تصور ہی کافی نہیں بلکہ خدا کے تصور کے ساتھ دو مزید تصورات کی بھی ضرورت پڑتی ہے جیسا کہ جنت اور دوزخ، تاکہ انسان کو مطلوب اہداف اور من پسند عمل کے لیے راغب کیا جا سکے۔
ایک مذہب پرست نے الحادی اخلاقیات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے،
”امریکہ میں جب ایک سیریئل ریپسٹ کو گرفتار کیا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو تو اس نے کہا کہ میں ملحد ہوں، خدا، رسول اور آخرت کو نہیں مانتا۔ میرا نظریہ مجھے ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ہی کا سبق دیتا ہے اور جب میں نے یہ بات مان لی کہ یہ زندگی محض ایک بے معنی اندھے اتفاق کا نتیجہ ہیجس کے بعد مزید کچھ نہیں تو کسی کو ریپ کرنا اور نہ کرنا سب مساوی اعمال ہیں۔
”یہ الحادی اخلاقیات کا حقیقی نمونہ ہے، دنیا کے کسی ملحد کے پاس اس ریپسٹ کی بات کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔“
ریپسٹ کے اس بیان میں بنیادی کمزوری یہ ہے کہ اس ریپسٹ کو بتایا ہی یہ گیا تھا کہ جب ”خدا، رسول اور آخرت“ پر سے ”ایمان“ اٹھ جائے تو ریپ یا ہر طرح کا غیر اخلاقی عمل جائز ہو جاتا ہے۔ اس ریپسٹ کو اس ریپ تک لے جانے والے اصل لوگ وہی ہیں جو اخلاقیات کو سماجی ذمہ داری کی بجائے خدا اور ہمنوا سے جوڑتے رہتے ہیں۔ آخر میں مذہب پرست نے جو کہا ہے اگر اس کا اطلاق اس مذہب پرست پر کر دیا جائے یعنی اس کو یقین دلا دیا جائے کہ تصورِ خدا میں کوئی سچائی نہیں ہے توکیا یہ جاننے کے بعدمذہبی انسان پہلا قدم یہی اٹھائے گا کہ وہ ریپ کرنے چل پڑے گا؟ ظاہر ہے اس کا جواب تو مذہبی انسان کو ہی دینا ہو گا لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اخلاقیات کو سماجی و عقلی بنیادوں سے کاٹ کر پیش کرنا ہی ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ اصل شے وہ احساس ذمہ داری ہے، وہ بنیادی تربیت اور احساس فرض ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے حوالے سے بنتا ہے۔ وہ فلسفیانہ سوال ہے کہ جہاں ایک کے حقوق سب کے حقوق سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، اور جہاں ایک کی آزادی سب کی آزادی سے منطقی تعلق رکھتی ہے۔ سیکولر ممالک میں یہ سب آدرش سکولوں سے ہی پڑھانے شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تمام سیکولر ممالک بدامنی، لاقانونیت، ظلم، جبر اور دیگر بداخلاقیوں کا شاخسانہ ہوتے۔ تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ جہاں یہ سب بداخلاقی ہو وہاں علمی، فکری، اخلاقی اقدار کبھی نہیں پنپ سکتیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اخلاقیات اور اس کی مختلف اشکال سماجی ارتقا کا نتیجہ ہیں۔ یہ کوئی ہمیشہ کے لیے تیار شدہ اور کہیں سے ودیعت کردہ احکامات کا پلند۱نہیں ہوتا کہ جس پر عمل کرنا ہر نسل پر فرض ہو۔ اخلاقیات کا بنیادی محرک، بقول عظیم فلسفی سپائینوزا، انسان کا سب سے بنیادی جذبہ اپنی ذات، اپنے قبیلے اور سماج میں عدم تحفظ کے احساس پر غالب آنا ہے جسے انسان اپنی عقل کے ذریعے ممکن بناتا آرہا ہے۔ ذات کے تحفظ سے مراد کوئی ایک انسان نہیں، بلکہ نوعِ انسانی ہے، جہاں ہر ایک کا مفاد ہر ایک سے جڑا ہو، جہاں نیکی، خیر،انصاف، مساوات اور انفرادیت کی افزائش جیسی اقدار آفاقی حیثیت رکھتی ہوں۔ آفاقی سے یہاں مراد یہ نہیں کہ ہر قدر کو تمام بنی نوع انسان پر جبراََ مسلط کر دیا جائے، بلکہ ہر قدر اپنے تخصیصی پس منظر میں مختلف ہو۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ انصاف ایک آفاقی قدر ہے، لیکن ہر وہ واقعہ جہاں انصاف درکار ہے وہ اس کی تخصیصی حیثیت میں ہوگا۔
ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہیگل نے اپنی کتاب ”فینومینالوجی‘ آف سپرٹ‘ میں ”آقا اور غلام“ کے مابین رشتے کا منطقی حل دریافت کیا تھا، جو اپنی سرشت میں اخلاقی نوعیت کا ہے۔ اس کا کارل مارکس پر فیصلہ کُن اثر مرتب ہوا۔ تاہم مارکس کو محض عقلی حل ہی درکار نہیں تھا، بلکہ اسے حقیقی سطح پر یقینی بنانا بھی اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ اس کے لیے مارکس نے انقلابی حل پیش کیا تھا۔ اس طرح ”استحصال“ سے پاک معاشرے کا تصور جو کہ جرمن عینیت، فرانسیسی سوشلزم اور برطانوی معیشت کے مختلف مباحث کے لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آیا تھا وہ بنیادی طور پر ایک ”اخلاقی“ تصور ہی تھا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ استحصال سے پاک معاشرے کے اس تصور کے بنیاد گزاروں میں سبھی عقلیت پسند شامل رہے ہیں۔ اس میں الحادی اور غیر الحادی مفکرین کی کوئی تخصیص نہیں ہے، البتہ عقلیت اور غیر عقلیت (مذہب) کا فرق اس میں بہت واضح ہے۔ اس مثالی معاشرے کی احتیاج عقلی منہج کی داخلی پُکار تھی، نہ کہ کسی متصورہ ہستی کے کسی مقصد کی تکمیل کی خواہش! لہذا نکتہ یہ ذہن میں رہے کہ انسان کے سماجی، سیاسی اور فکری ارتقا میں مبنی بر انصاف اور استحصال سے ماورا معاشرے کا تصور از خود سماجی اور عقلی عمل کے طور پر ابھرا ہے۔
عظیم فلسفی افلاطون نے اپنے مکالمے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کوئی شے صرف اس لیے اچھی ہے کہ وہ دیوتا کو پسند ہے یا پھر اس لیے اچھی ہے کہ وہ شے بذات خود اچھی ہے؟ اس پر اعلیٰ درجے کے مکالمے کے بعد یہی نتیجہ نکلا کہ اچھی شے بنیادی تصور ہے نہ کہ دیوتا کا اس شے کو پسند کرنا،اور اس کی بنیاد پر اپنی نام نہاد اخلاقیات کی بنیاد رکھنا۔ اچھا عمل وہی ہے جو سماجی وحدت کو برقرار رکھتا ہے، جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، جس میں مثبت اور منفی آزادی کو عقلی بنیادوں پر الگ کیا جاتا ہے، اور یہ سب کچھ خدا کے خوف یا جنت اور حوروں کے لالچ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ خود انسانی اور اخلاقی اقدار کی عقلی تفہیم اور سماجی بقا کے لیے عقل کے داخلی تقاضوں کی خاطر کیا جاتا ہے۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ انسان خوشی و رنج وغیرہ جیسی کیفیات اور خیر و شر، وغیرہ جیسی اقدار سے اپنے داخلی فطری رجحان کی وجہ سے آگاہ ہوتا ہے۔ خوشی وغم کیا ہیں یہ جاننے کے لیے انسان کو کسی ’حکم‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح نیکی و بدی کیا ہیں یہ جاننے کے لیے بھی انسان کی اپنی کیفیات ہی کافی ہیں، وہ کیفیات جو نیکی اور بدی کا تعین کرنے میں معاون ہیں۔ اور یہ سب ہم نے بحیثیت مجموعی ایک معاشرے میں رہتے ہوئے سیکھا ہے۔ آئیے مختصراََ ان چند بنیادی اقدار و رجحانات کو ممیز اور ان کی تفہیم کو آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ ہمیں کیسے پتا چلتا ہے کہ خوشی و رنج کیا ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ چونکہ میرا مقصد اخلاقیات کی، کسی بھی نظریے سے قبل، بنیادی حیثیت یا ماخذکو سمجھنا ہے اس لیے میری توجہ کا محور بھی وہی رہیں گے۔ اگر کوئی انسان مجھے دھوکہ دیتا ہے تو مجھے رنج ہوتا ہے۔ میرا رنج مجھے بتاتا ہے کہ اس انسان نے میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اگر میں کسی کے ساتھ بالکل ویسا ہی عمل کروں گا تو اس کو بھی رنج ہوگا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کوئی ایسا اصول بنا لیا جائے کہ دھوکے بازی سے نجات مل جائے۔ لہذا اپنے عمل سے سیکھتا ہوا انسان کسی اصول کی تشکیل کے لیے آمادہ ہوتا ہے کہ جس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے امکانات مفقود ہو کر رہ جائیں۔
اگر انسان کوئی ریڑھی لگا کر بیٹھا ہے اور کوئی دوسرا انسان اس کی ریڑھی کو توڑ پھوڑ دیتا ہے اور اس پر پڑی ہوئی چیزیں اٹھا کر چلا جاتا ہے، تو متاثرہ انسان کو جہاں دکھ یا غم لاحق ہوتا ہے تو وہاں اس انسان کا یہ عمل اس کو خیر کا عمل نہیں لگتا بلکہ ایک ’شر انگیز“ عمل نظر آتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ عمل پھیل جائے تو معاشرہ انتہائی بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ داخلی رجحان ہے جس کا گہرا تعلق انسان کے محسوسات سے ہے۔ یعنی اس کو انسان کسی بھی ’ضابطے‘ کے بغیر محسوس کرتا ہے اور اس کا تدارک چاہتا ہے تاکہ مزید شر سے بچ سکے۔ یہی اعمال ہماری اخلاقیات کی بنیاد بنتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر ہم اپنے لیے ایک اجتماعی نصب العین کا تعین کرتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی انسان کی ساری تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ خود کے ساتھ ہونے والے واقعات سے سیکھا، اور آہستہ آہستہ ہر اس عمل کو فروغ دیتا گیا جو اس کی خوشیوں میں اضافہ کر سکے اور اس کے غموں میں کمی لا سکے۔ انسانی تاریخ میں آج تک جتنے بھی اخلاقی اصول و ضوابط بنے ہیں ان کی بنیاد انسان کا اپنا عمل ہے۔ فلسفیوں کی عظمت جو انہیں کُل کائنات کے تمام مصلحین سے بلند مقام پر فائز کرتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے ان سماجی برائیوں اور غیر ہمواریوں کو ختم کرنے کی کوشش میں صرف انسانی عقل پر بھروسہ کیا۔ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے غم میں اضافہ کیسے ہوتا ہے اور اس میں کمی کیسے لانی ہے، یہی وہ اجتماعی خیر و نیکی ہے، جس کا منبع و ماخذ خود انسانی عقل ہے۔ مصلحین سے یہ گھناونی غلطی ہوئی کہ انہوں نے انسان کی اصلاح ’خوف‘ سے کرنے کی کوشش کی، تقدس کو اذہان میں راسخ کیا، جس کا خمیازہ انسان آج تک بھگت رہا ہے۔ انسان نے خود اپنے لیے پہلے ’خوف‘ کو پیدا کیا، اور بعد ازاں اس’خوف‘ کو اپنے اعمال کی تصحیح کا ذریعہ بنا لیا۔ عقلیت پسند معاشرے اس حقیقت کا شعور حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ انسان کے لیے خیر و شر انسان کے اپنے اعمال ہیں۔ اگر وہ اجتماعی فلاح میں معاون ہیں تو خوشی و مسرت کا باعث ہیں۔ اور اگر وہ اعمال انسانوں کی فلاح میں مانع ہیں تو شر کا باعث ہیں۔ جبکہ خوشی و رنج اور خیر و شر کی کیفیات و احساسات خود انسان کے اپنے محسوسات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفے کی تاریخ کا ہر وہ فلسفی جس نے اخلاقیات پر انمٹ نقوش چھوڑے اس نے اخلاقی عمل کے لیے ’مسرت‘ کو بنیاد بنایا، اور اخلاقیات کو ’آفاقی‘ گردانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے