Home » زندگی بمقابلہ فطرت
سائنس

زندگی بمقابلہ فطرت

ایڈووکیٹ عزیز خان

زمین پر زندگی کی تاریخ جانداروں کا اپنی بقاء کی خواہش یا فناء کے خوف کی تاریخ ہے۔ بقاء کی خواہش یا مسلسل تگ و دو کے مظاہرہ  کوزندگی کی اولین فارم یعنی یک خلوی بیکٹیریا تک میں بڑی آسانی کے ساتھ دیکھاجاسکتاہے۔ 

امیبا ایک سیل پر مشتعمل جاندار ہے۔ اپنے اردگرد کی سمتوں میں امیبا واضح طور پر صرف اس سمت میں حرکت کرےگی کہ جس سمت میں امیبا کی خوراک پڑی ہو کیونکہ جبلی طور پر امیبا جیسے صرف ایک سیل پر مشتمل جاندار اپنی ہستی کی گہرائی میں موجزن بقاء کی خواہش یا فناء کے خوف پر مبنی گہری جبلت کا ادراک رکھتے ہیں کہ اسکی بقاء صرف اس سمت پر حرکت کرنے میں ہے  کہ جو خوراک کی طرف جاتی ہے اور باقی تمام سمتیں فناء کے تاریک گڑھے ہیں۔ اسلئے امیبا یا پیرا میشیم دیگر تمام سمتوں کو رد کرکے اس میں اپنی بقاء کے حوالے سے درست سمت اختیار کرنے پر قادر ہوجاتاہے۔ اسی طرح ایسے یک خلوی جانداروں میں انکا وقت کے انگنت لمحوں میں خاص اس لمحے کا انتخاب کہ جو انکی بقاء کی دوسری اہم کڑی یعنی سیل ڈویژن یا بڈنگ ( Budding) پراسیس کیلئے صحیح اور ٹھیک لمحہ ہو۔

زندگی میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ جب اسکے اردگرد کا ماحول بدلتا ہے تو پھر زندگی اپنی خاصیت یعنی بقاء کی خواہش کے بل بوتے پر اپنے اندر سے ایک ایسا پروگرام تشکیل دے کر فطرت کے روبرو پیش کرتی ہے کہ جو زندگی کو فطرت کے ساتھ ہم آھنگی میں ایک قدم مزید ایک ساتھ آگے بڑھنے میں مدد فراہم کرسکے اور فطرت کے مقابلے میں زندگی فناءہوجانے سے بچ سکے۔

زندگی کی شروعات یک خلوی جانداروں سے ہوئی۔ یہ یک خلوی جاندار اپنی انتہائی قدیم حالت میں تھے۔ انکو سوڈو یعنی جھوٹا سیل کہاجاتاہے جیسے کہ بیکٹیریا وغیرہ ، کیونکہ ایسے سیل یا خلیے میں انکا جینیاتی مواد یا ڈی۔این۔اے اس سیل کے سائیٹوپلازم میں آزادانہ حرکت کرتاہے۔ اسکے برعکس ایک ٹرو سیل یا حقیقی سیل میں زندگی یعنی ڈی۔این۔اے حفاظت کے ساتھ سیل کے مرکزے کی جھلی میں بند ہوتاہے۔ پھر مرکزے میں موجود زندگی یا ڈی۔این۔اے کی حفاظت پر مامور سائیٹوپلازم میں کئی طاقتور ڈیپارٹمنٹس ہوتے ہیں جن میں ہر ایک ڈیپاٹمنٹ کی اول و آخر زمہ داری مرکزے میں موجود ڈی۔این۔اے کی حفاظت اور بھرپور حفاظت ہوا کرتی ہے۔

سیل کے اندر یہ تمام پیچیدہ نظام یا پروگرام دراصل زندگی کی اپنی خاصیت یعنی بقاء کی خواہش یا جبلت کی دین ہے جسکی الٹ یا مخالف فناء کا خوف ہے۔

تو اسکا مطلب زندگی کی تاریخ دراصل اسکی بقاء کی جبلت اور فناء کے خوف کی جبلت کی آپسی کشمکش کی تاریخ ہے۔

جب کسی مخصوص خطے میں رہنے والے سادہ ترین یک خلوی جانداروں پر فطرت نے اپنی بدلون کی شکل میں قہر نازل کیاتو زندگی یا ڈی۔این۔اے کے اندر سے خلیے کو آواز یا سگنل آئے کہ اپنی ساری طاقت اور مشینری کو اس کام پر لگا دو کہ ڈی۔این۔اے کے ارگرد گرد ایک حفاظتی جھلی بنائی جائے جسے مرکزہ کہاجاتاہے۔ اب ڈی۔این۔اے یا کروموسوم سیل کے مرکزے کی جھلی میں پہلے سے زیادہ محفوظ ہوگئے۔ اس طرح سے زندگی عظیم فطرت کے ساتھ ہم آھنگ ہوگئی اور زندگی کی بقاء کی خواہش کی تشفی ہوگئی۔ اب یہ ٹرو سیل یعنی حقیقی سیل کا درجہ پاگیا جیسا کہ “امیبا”۔

پھر لاکھوں اور کروڑوں سال کے بعد جب ایک بار پھر ان حقیقی مگر اکیلے اکیلے رھنے والے سیلز پر فطرت چینج کی شکل میں  حملہ آور ہوئی تو ڈی۔این۔اے کے اندر سے یہ آواز آئی کہ اب ہر سیل اکیلے رہنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کثیر خلوی جانداروں کی تشکیل کریں۔ یعنی سب اپنی طاقت کو آپس میں جمع کرکے اور سب کی طاقت کو ایک طاقت بناکے فطرت کو جواب دیں۔ اس طرح سے ملٹی سیلولر یا کثیر خلوی جانداروں کی شروعات ہوگئی اور زندگی ایک بار پھر سے فطرت کے ساتھ ہم آھنگ ہوکر فطرت کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئی، دوسرے لفظوں میں بقاء کی خواہش کی ایک بار پھر سے تشفی ہونےلگی۔

پھر کروڑوں سال بعد جب فطرت نے اپنی نیچر کے تحت ایک بار پھر سے پلٹا کھایا اور اس نے زندگی کو فناء کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کیا تو اسکے ردعمل میں زندگی یا ڈی۔این۔اے کے اندر سے پھر سے پروگرام یا آواز آئی کہ اب سیل یا خلیہ اپنی ساخت بدل کے اعصابی خلیے یا نیوران سیل میں تبدیل ہوکر ایک مرکزی اعصابی نظام کی تشکیل کرلیں۔ یہ وہ مقام تھا کہ جب کثیر خلوی جانداروں میں دماغ یا اعصابی نظام کی تشکیل ممکن ہوپائی جس نے فطرت کو اسکی وار یا ڈیمانڈ کے مطابق جواب فراہم کیا اور زندگی پھر سے آگے بڑھنے کے قابل ہوگئی۔

پھر زمین کے مخصوص حصے پر جب مرکزی اعصابی نظام رکھنے والے کچھ جانوروں پر فطرت چینج کی شکل میں حملہ آور ہوئی تو اسکے ردعمل میں ڈی۔این۔اے کے اندر سے آواز آئی کہ مرکزی اعصابی نظام میں ذہن یا عقل کی کیٹیگری کی تشکیل کی جائے۔ ذہن یا شعور کی اس برتر کیٹیگری نے انسان کی شکل میں فطرت کی طرف سے عائد کئے گئے مسائل کا حل ڈونڈھ کر فطرت کے روبرو پیش کیا اور پہلے ہی کی طرح سے یہاں بھی زندگی فطرت سے ہم آھنگ ہونے لگی اور فطرت کی حرکت کے ساتھ اسکے شانہ بشانہ چلنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہاں بھی بقاء کی جبلت کی تشفی ہوگئی لیکن اب کی بار یہ تشفی اعلی پیمانے اور وسیع تر سطح پر تھی۔ یہ حضرت انسان کی شروعات تھی جس میں زندگی کی بقاء کی خواہش نے ذہن و عقل جیسی کیٹیگری کو اپنی حفاظت کیلئے عین اسی طرح سے حفاظتی غلاف بناکر اوڑھ لیا کہ جس طرح آج سے کئی ارب سال پہلے زندگی یا ڈی۔این۔اے نے خلیے میں مرکزے کی جھلی کی تشکیل کرکے اسے اپنے ارگرد کامیابی کے ساتھ اوڑھ لیاتھا۔

زندگی نے فطرت کے ساتھ کشمکش میں ایک مقرونی سادہ سیل یعنی بیکٹیریا سے ایک تجریدی آئیڈیا یا عقل تک کا سفر تقریبا چار ارب سالوں میں طے کیا ہے۔ زندگی مادی فطرت کے مقابلے اپنی بقاء کی خواہش کو مسلسل ترقی دیتی رہی ہے۔ آج زندگی عظیم اور لامحدود فطرت کے سامنے انسانی عقل کا ہتھیار لیکر اسکے سامنے کھڑی ہے۔ فطرت میں حرکت مسلسل ہے کیونکہ بذات خود فطرت حرکت ہی ہے۔ حرکت کی خاصیت چینج اور ارتقاء ہے۔ اور فطرت میں جاری اسکی روح یعنی حرکت کے نتیجے میں مسلسل واقع ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کیلئے زندگی مستقبل بعید میں اپنی یقینی بقاء کیلئے کس سمت یا اسٹریٹیجی کو اپنائےگی؟ یہ خاکے انسانی عقل و ذہن نے کچھ حد تک بنا بھی ڈالے ہیں جسکے کچھ حصوں میں جینئیس قسم کے انسانوں نے عمل یا تجربات کی شکل میں رنگ بھردئیے ہیں اور کچھ میں تجریدی آئیڈیاز اور مفروضات کے رنگ ابھی تک بھرے جارہے ہیں۔

زندگی اور فطرت کی اس دوڑ میں اگر انسان ناگہانی طور پر فنا ہوجانے سے بچ جاتاہے تو پھر اس عجیب و غریب نوع میں زندگی نے اپنے کئی ارب سالوں میں حاصل کی گئی وہ تمام قوت بھردی ہے کہ جو اس کے واسطے زندگی کو فطرت ہی کی طرح سے لافانیت کی دہلیز تک چھوڑ آنے کیلئے کافی ہے۔

زندگی نے اپنی بقاء کیلئے اربوں سالوں میں جن ٹولز کا استعمال کیا ہے وہ مختصراً کچھ اس ترتیب سے بیان کئے جاسکتے ہیں۔

©….نیوکلیوٹائیڈز یعنی (ایڈنین، تھائمین، گوانین اور سائیٹوسین)

©….ڈی۔این۔اے یعنی( ڈی آکسی رائیبو نیوکلک ایسڈ)

©….یک خلوی جاندار یا سوڈو سیل یعنی( ایسا سیل جس میں ڈی۔این۔اے یا کروموسوم اسکے سائیٹوپلازم میں آزادانہ تیرتے رہتے ہوں)

©….یک خلوی جاندار یا ٹرو سیل( جس میں کروموسوم یا ڈی۔این۔اے مرکزے کی جھلی یا لفافے میں بند ہوں)

©…..ملٹی سیلولر آرگنزم یعنی( ایسے جاندار جسکے اجسام ایک سے زیادہ خلیوں پر مشتعمل ہوں)

©…..نیوران سیلز پر مشتعمل ایک مرکزی اعصابی نظام رکھنے والے جاندار جسکی سب سے اعلی شکل انسان میں ظاہر ہوئی۔

©…..اور انسانی عقل جو انسانی دماغ، شعور یا ذہن کی سب سے اعلی اور برتر کیٹیگری کے نام سے جانی جاتی ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں