” قاضی ضیاء الدین سنامیؒ اور اُن کا عہد”
مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی۔نوید الرحمن داور
آثار مولانا ضیاء الدین سنامی:
مولانا سنامی اپنی شخصیت ، اپنی فکر اور اپنی گفتار سے اپنے زمانے میں ایک ہلچل مچا دی تھی اور ایک ایسی حرکتِ فکری کو نمودار کیا جو قیام و ثبات کی آئینہ دار تھی۔ ان کے شاگردوں کا ایک حلقہ وہ تھا جنہوں نے تفسیرِ قرآن میں ان سے استفادہ کیا۔ ان کے درس ِقرآن میں اہل ِاستفادہ کی تعداد جیسا کہ برنی نے بتایا ہے تین ہزار سے زیادہ ہوتی تھی اور یہ تفسیرِ قرآن کس انداز کی ہوتی تھی، برنی ہی کا بیان ہے کہ وہ قرآن کی ہر آیت پر متعدد اقوال بیان کرتے یعنی ان کی مفصل تفسیر بیان کرتے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جو آپ کی خدمت میں رہتے اور علمی استفادہ کرتے۔ ان تلامذہ نے اپنے استاد کے کام اور نام کو باقی رکھنے کے لئے بہت کچھ کیا ہو گا اور ان کی فکری امانت کو آنے والی نسلوں کے لئے ضرور محفوظ کیا ہو گا۔ مگر ہندوستان میں ا س دور کے علما اور ان کے کارناموں کو جاننے کا ہمارے پاس ذریعہ نہیں ہے۔ افسوس کہ یہاں کوئی حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نہیں گذرا جنہوں نے اپنے ملک کے علما کی پوری تاریخ لکھ ڈالی۔
ہمارے پاس ان کی علمی نشانی صرف ان کی موضوع ِاحتساب پر لکھی ہوئی کتاب نصاب الاحتساب ہے۔ اگرچہ مؤرخین نے تفسیر ِقرآن کے موضوع پر سورۃ یوسف کی تفسیر کا بھی حوالہ دیا ہے مگر وہ کہیں دستیاب نہیں ہے۔
نصاب الاحتساب کے قلمی نسخے:
1۔ نصاب الاحتساب کا قدیم نسخہ حیدر آباد دکن میں ہے۔ یہ 913ہجری کا لکھا ہوا ہے۔ یہ مخطوطہ قدیم ہونے کے ساتھ مکمل بھی ہے۔
2۔ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں 1070ہجری کا لکھا ہوا نسخہ موجود ہے۔
3۔ امریکہ میں پرنسٹن یونیورسٹی کی لائبریری میں بھی ایک نسخہ موجود ہے۔
4۔ جرمنی کے سرکاری مکتبہ میں بھی ایک نسخہ ہے
5۔ ہالینڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں 1060ہجری کا لکھا ہوا نسخہ موجود ہے۔
6۔ برطانیہ کے انڈیا آفس کی لائبریری میں کلکتہ کا مطبوعہ نسخہ موجود ہے۔
7۔ وزراتِ ہند لابئریری میں لندن میں 1241ء قلمی نسخہ ہے۔
8۔ مصر کے دار الکتب میں 1010 ہجری کا لکھا ہوا ایک نسخہ موجود ہے۔
9۔ مانچسٹر میں 1192ہجری کا مخطوطہ موجود ہے۔
10۔ عراق میں بغداد کے عجائب گھر کی لائبریری میں شوال 1039ہجری کا لکھا ہوا نسخہ ہے۔
11۔ ایشاٹک سوسائٹی بنگال کلکتہ میں 1121ہجری کا لکھا ہوا نسخہ موجود ہے۔
12۔ خدا بخش لائبریری ہندوستان میں 1245ہجری کا لکھا ہوا مخطوطہ ہے۔
ان میں حیدر آباد کا نسخہ سب سے زیادہ قدیم ہے۔
نصاب الاحتساب کی علمی حیثیت:
چونکہ ہندوستان کی بیشتر آبادی فقہی مدارس میں امام ِاعظم کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتی تھی اس لئے مولانا سنامی نے یہ کتاب خالص حنفی نقطۂ نظر کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔ اس کتاب کی تالیف میں انہوں نے جس قدر علمی ذخیرے سے استفادہ کیا ہے اس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام، تاریخ، اصولِ حدیث، اصول ِفقہ، علم الاجتماع، قانون سب ہی موجود ہیں۔
نصاب الاحتساب ایسی کتاب ہے جس میں مفید و نتیجہ خیز مناقشات اور علمِ صحیح و عمیق کی جامعیت ہے۔ وہ اگر ایک طرف اپنے موضوع میں انفرادیت رکھتی ہے اور علمی حقائق پر مشتمل ہے تو دوسری طرف صحیح بحث و تحقیق اس کا وصف ہے۔ اس کتاب کی تالیف کا خود انہوں نے سبب یہ بتایا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اسلامی مملکت میں محکمۂ احتساب میں کام کرتے ہیں تاکہ یہ اھ کے لئے رہنما بن جائے اور پیش پا افتادہ مسائل میں ان کی ضروریات کی کفایت کر سکے۔
آغاز میں انہوں نے احتساب کے لغوی، شرعی اور عرفی معنی بتائے ہیں اور لکھا ہے کہ شرعی معنی کے لحاظ سے اسلام میں عدلیہ کو بھی احتساب کا شعبہ بنایا گیا ہے۔
احتساب کو انہوں نے اسلامی زندگی کے سارے شعبوں تک وسیع کر دیا ہے۔ گویا احتساب اسلامی مملکت کے شہریوں کی روحانی، اخلاقی، عائلی، معاشرتی، معاشی ، سیاسی اور قانونی گوشوں میں معروف کو قائم کرنے اور منکر کو مٹانے کا نام ہے۔
کتاب کی علمی حیثیت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک احتساب کے موضوع پر منتشر مواد کو مختلف کتابوں میں نہ دیکھا جائے۔
کم از کم ماوردی اور موصلی کی الأحكام السلطانية کا مواد نہ دیکھ لیا جائے کہ احتسابی مسائل میں ان کا منتہائے نظر کیا ہے۔ فی الواقع مولانا نے بکھری ہوئی چیزوں کو یکجا کر کے بہت محنت کی ہو گی۔ وہ خود ہی فرماتے ہیں:
“بہت بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد کتاب مرتب ہو ئی ہے”۔
کتاب اگر ایک طرف ان کےمطالعہ کی وسعتوں کی غمازی کرتی ہے تو دوسری طرف تفسیر، حدیث، فقہ میں ان کی شناوری کو بھی بتاتی اور فقہ میں ان کی اجتہادی شان کو ظاہر کرتی ہے۔ صرف متقدمین ہی کے علوم سےمولانا سنامی نے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ اپنے معاصرین کے علوم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک موقعہ پر باب سابّ النبی کے کفر پر بحث کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ اس کے تفصیلی دلائل کےلئے الصارم المسلول علی شاتم الرسول پڑھو۔ حافظ ابن تیمیہ کی وفات 728 ہجری میں ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن تیمیہ کی تالیفات ان کی زندگی میں ہی ہندوستان آ چکی تھیں۔ بلکہ کہنے والوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف مصر سے چین تک پھیل چکی تھیں۔ امام ابن تیمیہ اور ان کی تحریک کے اثر پر مولانا ابو الکلام آزاد نے تذکرہ میں فاضلانہ بحث کی ہے۔ ممکن نہیں کہ مولانا سنامی جو ممالکِ اسلامی کی علمی تحریکوں سے باخبر رہتےتھے امام ابن تیمیہ اور ان کی کتابوں سے بے خبر رہے ہوں۔
تصوف کے معاملے میں مولانا سنامی کے خیالات شاہراہِ عام پر تھے۔جہاں تک صوفیۂ خام کی بدعات کا تعلق ہے ان کی مذمت میں مولانا سنامی تلوار ِبرہنہ تھے۔ زیارتِ قبور، سماع، تصورِ ولایت ، خانقاہی نظام وغیرہ پر ان کے خیالات نصاب الاحتساب میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ مولانا عبد الحی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ:
”كان شديد النكير على أهل البدع والأهواء ولا يهاب فيه أحدا”۔
اور صرف بدعاتِ عمل ہی نہیں، بلکہ بدعتِ افکار پر بھی ان کی ضرب کاری تھی۔ مولانا سنامی علم و عمل کی مثالی شخصیت تھے۔ سب کہتے ہیں کہ مولانا ضیاء الدین سنامی دیانت و تقوی میں مقتدائے وقت تھے۔ تقوی میں اس قدر بلند مقام رکھتے تھے کہ تلا ش کے باوجود تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
نصاب الاحتساب میں ایک مسئلہ فتاوی ظہیریہ کے حوالہ سے لکھا ہے:
“شیخ الاسلام ابو الیسر نے ان کتابوں کے بارے میں جو متقدمین نے علمِ کلام کےموضوع پر لکھی ہیں اور جن میں کچھ فلاسفہ کی لکھی ہوئی ہیں جیسے اسحق کندی اور اسفرائنی، یہ کتابیں دین کے صراط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہیں اور ان میں راہِ حق نہیں ہے، ان کتابوں کو نہ دیکھنا جائز ہے اور نہ ان کو پاس رکھنا درست ہے۔ اور یہ بھی لکھا کہ اس فن کی اکثر کتابیں معتزلہ کی لکھی ہوئی ہیں جیسے عبد الجبار رازی ، جبائی، کعبی اور نظام وغیرہ ۔ ان کتابوں کا نہ مطالعہ جائز ہے اور نہ لائبریری میں رکھنا جائز ہے”۔
یہ مسئلہ لکھ کر مولانا نے آپ بیتی سنائی ہے:
“مجھے جب یہ روایت معلوم ہوئی کہ معتزلہ کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھنے والی کتابوں کا نہ رکھنا جائز ہے اور نہ مطالعہ کرنا” ۔آگے سنیئے، فرماتے ہیں:
“میرے پاس علامہ زمخشری کی کشاف تھی، اس کے ہر ورق اور ہر صفحہ پر اعتزال کے جراثیم ہیں”۔
فرماتے ہیں کہ:
“میں نے کتاب اپنی لائبریری سے نکال دی”۔
یہ تو ابو الیسر عبد الاسلام کے فتوی پر عمل ہوا۔ جو بات سنانا چاہتا ہوں وہ ہے فتوی پر عمل کے بعد تقوی اور احتیاط کا آخری درجہ کہ شاید لائبریری سے نکالنے کا جملہ پڑھ کر آپ کا ذہن اس طرف جائے کہ مولانا نے اسے فروخت کر دیا۔ نہیں ہر گز نہیں، فرماتے ہیں:
“میں نے اسے فروخت نہیں کیا، صرف اس اندیشہ سے کہ اس کی قیمت حرام ہےکیونکہ حرام کی قیمت بھی حرام ہے۔ جیسے شراب اور مردار اور سور کی قیمت”۔
آپ اندازہ لگایئے کہ نجی اور ذاتی زندگی میں تقوی کا کس قدر بلند مقام ہے۔ کشاف کی کہانی مولانا نجم الدین سنامی کی زبانی آپ پہلے بھی سن چکے ہیں۔ حالانکہ اس زمانے میں ہندوستان کے علماء کو کشاف سے خاصی دلچسپی تھی۔ شیخ المشائخ نظام الدین جیسے بزرگوں کی دلچسپی کا تذکرہ فوائد الفواد کے مختلف مواقع پر ملتا ہے۔
اسی تقوی کی آخری درجہ کی ایک اور مثال خود مولانا سنامی نے نصاب الاحتساب میں بیان کی ہے، وہ بھی سن لیجئے؛
” ایک سوال کیا ہے کہ کیا مسجد میں منبر پر واعظ کو اشعار پڑھنے کی اجازت ہے؟” ۔
یہ سوال اس زمانے کےحالات کے مطابق ہے۔ اس زمانے میں مساجد میں وعظ کہنے والے اشعار کو مزے لے کر پڑھتے تھے اور اس کے نتیجے میں سامعین کے نفوس ایک ہیجان کا شکار ہوتے تھے۔ اوروں کا پتہ نہیں شیخ المشائخ کے حوالے سے شاہ عبد الحق اخبار میں لکھتے ہیں مشہور واعظ ابو المؤید نظام الدین نے وعظ میں یہ شعر پڑھا:
بر عشقِ تو و بر تو نظر خواہم کرد جان در غم تو زیر و زبر خواہم کرد
فرماتے ہیں کہ شعر پڑھنا تھا کہ نفر ہا از خلق برآمد ۔ بار بار اسی شعر کو دہراتے جاتے اور اہلِ محفل میں شور و ہنگامہ تھا۔ اس سے اُس زمانے میں جو طریقہ ٔ وعظ ہندوستان میں رائج تھا کا اندازہ ہوتا ہے کہ مواعظ میں اثر آفرینی کے لئے اشعار کا بہت استعمال ہوتا تھا۔ علاء الدین خلجی کے زمانے میں مولانا کریم الدین دہلی کے ایک واعظ تھے۔ برنی نے لکھا ہے کہ:
“اپنےوعظوں میں اپنے اشعار پڑھنے کی ان کو عادت تھی اور مقفی گفتگو کرتے ۔ اسی لئے لوگ ان کا وعظ پسند نہ کرتے اور نہ دلوں پر اثر ہوتا تھا۔ ان کے وعظ میں سامعین کی تعداد کم ہوتی تھی”۔
اس ماحول کے تقاضوں کے مطابق مولانا نے نصاب الاحتساب میں یہ سوال پیش کر کے اس کا جواب دیا ہے ۔
جواب یہ دیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اچھے اور باکردار لوگوں کو نیچ بنا دیا جائے گا اور بد تر اور بد کردار لوگوں کو اونچا کر دیا جائے گا اور لوگوں کے سامنے اشعار پڑھے جائیں گے ۔الفاظ یہ ہیں: أن تقرأ المثناة. صحاح جوہری کے حوالے سے مثناۃ کے معنی بتاتے ہیں کہ فارسی دو بیتی کو کہتے ہیں۔ اس ممانعت کی فقہی توجیہہ یہ بتائی ہے کہ یہ گانا ہے اور گانا تو مسجد سے باہر بھی حرام ہے، پھرمنبرِ و عظ پر اشعار پڑھنا تو جرم ہےاور سنگینی پیدا کر دیتا ہے۔ حدیث کی روایتی اور تاریخی حیثیت سے بحث نہیں، بتانا تو مولانا کے استدلال کو ہے ۔ اس کے بعد مولانا سنامی نے جو بات آپ بیتی کی لکھی ہے وہی سنانی مقصود ہے، فرماتے ہیں:
“مجھے اس حدیث کا اس وقت علم ہوا جب کہ میں پورے تیس سال شہری زندگی میں رائے عامہ کو اپنے وعظوں کے ذریعےمخاطب کر چکا تھا ۔ میں نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ الحمد للہ وعظ کی تیس سالہ زندگی میں کبھی میرے دامن پر شعر خوانی کا داغ نہیں لگا۔ یہ میرا کمال نہیں بلکہ اللہ سبحانہ کا مجھ پر احسان ہے”۔
یہ صرف تقوی نہیں بلکہ کمالِ تقوی کی بہترین مثال ہے۔
نصاب الاحتساب کا قاری کتاب پڑھ کر مولانا سنامی کے فقہی پایہ کا بھی اندازہ کر سکتا ہے ۔ کتاب میں مولانا سنامی کی فقاہت کو جس طرح معلوم کیا جا سکتا ہے وہ کوئی دشوار نہیں ہے۔ کتاب کا ایک حصہ عام دینی مسائل میں عوام کی رہنمائی کا ہے۔ کچھ نمونے فقہی مذاہب کے تقابل و موازنے کے جس میں بعض کا تعلق لوگوں کےعام حالات ِ زندگی سے ہے ۔ بعض نظام ِ سیاسی سے اور بعض کا انتظام ِ شہریت اور عدالت سے۔ پھر ہر ایک کی چید ہ مثالیں کتاب میں موجود ہیں۔ اس سے آپ کی ممتاز فقہی شخصیت کی ٹھوس تحقیقات کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ کتاب کا اگر نگاہِ غائر سےمطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ ان کی فقہ تمام تر مجتہدانہ ہے۔ اپنے فتووں میں وہ صاحب ِاختیار و استنباط نظر آتے ہیں۔ ان کی مقارنات فقہیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی معلومات بہت وسیع ہیں ، ان میں ملکۂ استنباط بدرجہ ٔ اتم موجود ہے۔ قیاس اور مصادر ِشریعت سے وہ اچھی طرح آشنا ہیں۔ معانی ٔ آ ثار کی تحقیق وہ اس طرح کرتے ہیں کہ مصلحتِ عوام مجروح نہ ہو۔ اپنے استنباط میں وہ کتاب و سنت ، منہاجِ سلفِ صالح اور منہاجِ ائمہ ٔ مجتہدین کو پورا پورا ملحوظ رکھتے ہیں۔ میں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں جس سے مجتہدانہ شان کا آپ کو کچھ اندازہ ہو جائے:
کتاب میں عوارف کے حوالہ سے حضرت عمر کا ایک اثر نقل کیا ہے کہ عباس بن عبد المطلب کے گھر کا پرنالہ صفا اور مروہ کے درمیان راستہ میں تھا۔ اسے حضرت عمر نے ہٹانےکا حکم دے دیا۔ حضرت عباس کو معلوم ہوا تو حضرت عمر سےمخاطب ہو کر فرمایا: آپ نے وہ پرنالہ ہٹا دیا جسےحضور اقدس ﷺ نے اپنے دست ِمبارک سےلگایا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ آ پ ہی اس کو اپنی جگہ لگایئے اور لگانےکے لئے عمر کے شانے کو سیڑھی بنایئے۔ حضرت عمر نے ان کو اپنے شانے پر کھڑا کیا اور پرنالہ کو اپنی جگہ لگا دیا۔ بات مختصر سی ہے اور تاریخ کا ایک واقعہ ہے مگر آیئے مولانا سنامی کی مجتہدانہ شان اور ملکۂ استنباط ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے اس جزئی واقعہ سے 51 مسائل استنباط کیے ۔ لیجئے آ پ بھی پڑھ لیجئے اور مولانا سنامی کےذہن ِرسا کی داد دیجئے۔ مسائل یہ ہیں:
1۔ پرنالہ اگر سڑک پر ہو تو سرکار کو حق ہے کہ رفاہ ِ عام کی خاطر اسےہٹا دے۔
2۔ حاکم اس میں خود مختار ہے، اس کے لئے کسی دعوی او رشہادت کی ضرورت نہیں ہے۔
3۔ اس کام کو کرنے کے لئے حاکم کی حد تک نہ مالک کا موجود ہونا ضروری ہے اور نہ مالک کی اجازت درکار ہے۔
4۔ مالک کا ہر ایسا تصرف جو شہری زندگی کے لئے ضرررساں ہو شاہراہوں پر حاکم کو اسے ہٹا دینے کی اجازت ہے۔
5۔ برائی کو ہٹانے میں چھوٹےبڑےکی کوئی رعایت نہیں ہے۔
6۔ عادل کی خبرِ واحد قابل پذیرائی ہےکیونکہ حضرت عمر نے عباس کی بات کہ یہ پرنالہ آپﷺ کے دست مبارک کا لگایا ہوا ہے قبول کر لی۔
7۔ روایت کرنے والےکا ذاتی قبول روایت میں مانع نہیں ہے، بشرطیکہ راوی عادل ہو۔
8۔ حضور اقدس ﷺ کا کام شرعی قانون ہے، خواہ نبوت سے پہلے ہو یا بعد میں، کیونکہ حضرت عمر نے حضرت عباس سے تفصیل نہیں پوچھی۔
9۔ خبرِ واحد موجبِ علم نہیں ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر نے حضرت عباس کو اپنے ہاتھ سے لگانے کا حکم دیا۔
10۔ ترکِ ادب میں اگر اطاعت ہو تو اطاعت بہتر ہے کیونکہ ترکِ ادب ترکِ فرض کے مقابلے میں معمولی ہے ۔ حضرت عباس حضرت عمر کے شانے پر پاؤں رکھنا اس کا مؤید ہے۔
11۔ دوستوں کی خدمت کا انجام دینا کارِ خیر ہے۔
12۔ گھروں کی درستگی اور مرمت صحابہ کی سنت ہے۔
13۔ شاہراہوں میں کوئی تصرف اگر قدیم ہو تو دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
14۔ کسی شخص کے شانے کو اس کی اجازت سے استعمال کرنا درست ہے۔
15۔ چچا کے گھر میں بھتیجے کا پرنالہ لگانا سنت ہے، اسی پر ساری مرمتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
16۔ اس سے حضور اقدس ﷺ کی شان ِتواضع معلوم ہوتی ہے کہ چچا کے گھر میں خود کام کر رہے ہیں۔
17۔ پرنالے کو ایسے مواقع پر صحیح و سالم ہٹایا جائے، نہ کاٹا جائے اور نہ توڑا جائے۔ اس میں فقہ یہ ہے کہ زیادتی کو ہٹا دینا بغیر نقصان کے بھی ممکن ہے۔
18۔ عام شہریوں کو ظلم سے بچانا خاص فرد کے نقصان کے بغیر اگر ممکن ہو تو فردِ خاص کو گوارا کر لیا جائے گا۔
19۔ اس میں حضرت عمر کے مناقب معلوم ہوتے ہیں مثلا دین میں صلابت، آپ کی تواضع، حق کے سامنے جھک جانا وغیرہ۔
20۔ محتسب کو اپنے احتسابی عمل میں اگر غلطی کا علم ہو جائے تو فیصلہ سے رجوع کر لینا چاہئے۔ حاکم کا بھی یہی حکم ہے۔
21۔ محتسب اگر احتسابی عمل میں کہیں غلطی کر جائے تو اس کی پاداش میں اس کو اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں۔ یہی حکم عدالت کے ججوں کا بھی ہے۔
22۔ محتسب اگر احتساب میں غلطی کر جائے تو قانونی طور پر تو کوئی سزا نہیں لیکن اس کی غلطی کی وجہ سے جس کا نقصان ہوا ہے دیانتا اور اخلاقا اس سے معذرت کر نی چاہئے۔
یہ ایک نمونہ ہے مولانا سنامی کے احادیث اور آثار سے مسائل کے استنباط کا۔ مجھے استیعاب مقصود نہیں ورنہ انہوں نے حضرت عمر کا واقعہ لکھ کر آغاز ہی میں لکھ دیا ہے : الرواية فيها احدى وخمسون فائدة. مولانا سنامی کے اس ملکۂ استنباط کو دیکھتے ہوئے فقیہانہ اصطلاح کے اعتبار سے جو مرتبۂ اجتہاد چاہے ان کو دے دیجئے، لیکن ان کا فقہی مرتبہ بہت بلند ہے۔ فقہ، اصولِ فقہ اور مصادرِ فقہ سے ممارست پر نصاب الاحتساب کا ایک ایک صفحہ شاہدِ عدل ہے۔
مولانا سنامی کا دور وہ ہے کہ فقہ میں وسعت پیدا ہو چکی تھی، فتاوی بکثرت وجود میں آ رہے تھے اور تخریج کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ مولانا سنامی جب منصہ ٔ شہودپر آئے ،یعنی ساتویں صدی کے آخری اور آٹھویں صدی کے آغاز میں ، تو اس وقت انہوں نے پچھلوں کے لئے کام کی گنجائش ہی نہ چھوڑی تھی۔
آپ نصاب الاحتساب کو پڑھیں گے تو آپ کو محسو س ہو گا کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فقۂ احناف میں جمود ہے وہ غلطی کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا سنامی نے دین کے احیاء کا فقۂ احناف کی وساطت سے کارنامہ انجام دیا ہے۔ آپ نے اس کتاب میں پیش پا افتادہ واقعات کے بارے میں جو فتاوی دیئے وہ حال احوال کے عین مطابق تھے ۔ کبھی کبھی آپ نے اپنے اکابر سے اختلاف بھی کیا مگر یہ اختلاف خود دلیل و برہان کا نہیں بلکہ وقت اور زمانے کا اختلاف تھا،۔ یعنی اگر وہ اکابر مولانا سنامی کے زمانے میں ہوتے تو وہ بھی وہی فتوی دیتے۔
اس کتاب میں مولانا سنامی نے صرف فقہی ذخیرے سے استفادہ نہیں کیا بلکہ تفسیر ، حدیث اصولِ فقہ، اصولِ حدیث، تصوف، تاریخ اور علمِ کلام سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے۔ مثلا فقہ میں شمس الدین کا اصول، ذخیرہ، محیط، سیوط، المنتقی، سیر الکبیر، مجموع النوازل، التجنیس، المتلتقط، فتاوی النفسیہ، الخانیہ، ادب القاضی ۔۔۔۔الکفایہ، الصلاۃ المسعودیہ، شرح الکرخی، الہدایۃ، شرح الطحاوی، الظہیریہ، فتاوی البیہقی، یواقیت المواقیت، ادب القاضی للجصاص، ۔۔۔ (ص: 26)الاجناس، خلاصۃ الفتاوی، المزید، الخلاصۃ جامع صغیر، الاحکام السلطانیہ۔ ایسے ہی تفسیر ، حدیث، لغت، تصوف اور تاریخ کی کتابوں سے بھی اس کتاب کی ترتیب میں انہوں نے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ تفسیر میں ابن جریر طبری، عین المعانی، مدارک، اور کشاف اور حدیث میں صحاح ستہ کے سوا دوسری کتابیں ان کے پیش نظر ہیں۔ نصاب الاحتساب میں 145 احادیث نقل کی ہیں۔ اس سے یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے کہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی سے پہلے ہندوستان حدیث سے آشنا ہی نہ تھا۔ علامہ رضی الدین ابو فضائل حسن الصغانی المتوفی 650 کی بخاری کی شرح اور مصباح الدجی ،مشارق الانوار،درر السحابہ جیسی کتابیں ہندوستان میں ہی تصنیف ہوئی ہیں۔ اور یہاں نصاب فضل میں داخل ہیں۔ مولانا سنامی کے معاصر شیخ المشائخ کے متعلق سیر الاولیا میں ہے: مشارق الانوار را یاد گرفت۔ اس کتاب میں اگر 2246 حدیثیں ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ شیخ المشائخ کو 2246 حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ اور جب مشائخ کا یہ حال ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے علماء کا کیا حال ہو گا جن کا اوڑھنا بچھونا ہی حدیث و تفسیر تھا۔ نصاب الاحتساب میں حدیثوں کا یہ ذخیرہ اس دور کی حدیث کی آشنائی کی غمازی کرتا ہے۔ حدیث و تفسیر اور فقہ کی کتابیں تو خیر اپنی جگہ مگر آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ مولانا سنامی نے اس کتاب میں تصوف کی کتابوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ابو طالب مکی کی قوت القلوب ، غزالی کی احیاء العلوم، تذکرۃ الاولیا وغیرہ۔
بہرحال یہ ہے مولانا سنامی کی نصاب الاحتساب ، یا یہ ہے مولانا سنامی کا علمی کارنامہ۔
نصاب الاحتساب کا سب سے پہلے ترجمہ مولانا شاہ عبد الغنی مجددی نے کیا ہے۔ مولانا شاہ ابو سعید مجددی کے صاحبزادے ہیں، اوائل 1274 میں آئے۔ پھر شاہ احمد سعید کے ساتھ حرمین شریفین کی طرف ہجرت کی اور وہیں مقیم ہو کر حدیث کے درس میں مشغول ہو گئے۔ آپ کو بہت مقبولیت ملی اور مسند وقت کہلائے۔ علما نے آپ کی سند حدیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ، الیانع الجنی في أسانيد الشيخ عبد الغني کے نام سے شیخ محسنی نے اور مولانا عبد الستار صدیقی مہاجر مکی نے المورد الهنیئ في أسانيد الشيخ عبد الغني لکھی۔ آپ کی تصانیف ایک سے زیادہ ہیں۔
کمنت کیجے