Home » وجودِ باری پر قیامِ دلائل کا قرآنی طریقہء کار
تفسیر وحدیث کلام

وجودِ باری پر قیامِ دلائل کا قرآنی طریقہء کار

خزیمہ الظاہری

خدا کی ہستی کے وجود پر دلائل قائم کرنے کے لئے قرآنِ مجید کا طریقہ کار یہ ہے کہ جیسے ہم کسی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر محسوس کر لیتے ہیں کہ کسی کاریگر نے اسے بیٹھنے کے لئے ہی تراشا ہے اور یہ لکڑی محض اتفاق سے بیٹھنے کے لئے موزوں نہیں ہے. بالکل اسی طرح قرآنِ مجید یہ دلیل دیتا ہے کہ اس کائنات میں پانی صرف موجود نہیں ہے بلکہ اسکا وجود جانداروں کو زندگی اور خوراک فراہم کرنے کے لئے موزوں ہے اور ہوا، درخت وغيرہ صرف موجود نہیں ہیں بلکہ انکا وجود اس خاص طرح سے ہے کہ یہ زندگانی کے قیام میں لازماً مددگار ہیں. تو کائنات میں ان چیزوں کا نظامِ زندگی چلانے کے لئے موزوں اور معاون ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ چیزیں بے ڈھب انداز سے اپنا وجود نہیں رکھتی ہیں بلکہ یہ اسطرح سے موجود ہیں کہ انسانوں کی زندگی بھی درست انداز سے چلاتی ہیں اور زندگی کے طریقے سے انکا وجود ہم آہنگ ہے. لہذا ان اشیاء کا زندگی کے لئے موزوں تَر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انکا وجود محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ انکا وجود زندگی چلانے کے ارادہ و قصد کے ساتھ بخشا گیا ہے. چنانچہ کائنات میں تمام اشیاء کا وجود، محض وجود نہیں ہے کہ اسے “اتفاقی” قرار دیا جا سکے بلکہ تمام موجودات نظامِ کائنات کے ساتھ ایسی مناسبت رکھتی ہیں جو شعور، ارادے اور قصد کے تحت ہی پیدا ہو سکتی ہے. اور اسی ہستی کا نام خدا ہے کہ جس نے کائنات کو ارادے اور شعور کے ساتھ، مقصد کے تحت پیدا کیا.
مثال کے طور پر قرآنِ مجید کی بعض آیات پڑھ کر اس طریقے کی مزید وضاحت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ألم نجعل الأرض مهادا
کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا ؟
و الجبال اوتادا
اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ نہیں دیا ؟
و خلقناكم ازواجا
اور تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا
و جعلنا نومكم سباتا
اور تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا
و جعلنا الليل لباسا
اور رات کو پردہ پوش
و جعلنا النهار معاشا
اور دن کو وقتِ معاش
و بنينا فوقكم سبعا شدادا
اور تم پر سات مضبوط آسمان قائم کئے
و جعلنا سراجا وهاجا
اور گرم و روشن سورج پیدا کیا
و انزلنا من المعصرات ماء ثجاحا
اور بادلوں سے لگاتار بارش
لنخرج به حبا و نباتا
تا کہ اس سے غلہ اور سبزیاں (وغيرہ) اگائیں
و جنات الفافا
اور گھنے باغات
(سوره نبأ – ٦ تا ١٦).
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام مخلوقات کے وجود کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ انکے وجود کی زندگی کے سکون و آرام اور سہولتوں سے مناسبت بیان کی ہے کہ کیا انکا یہ وجود تمہاری زندگی کے شب و روز سے مناسب ترین نہیں ہے ؟، اور جب ہے تو کیا یہ مناسبت محض اتفاقی ہو سکتی ہے اور بلا شعور و قصد کے اسکا امکان ہے ؟ یقیناً ایسا نہیں ہے تو پھر مان لینا چاہیے کہ کائنات کے وجود میں جو شعور اور مناسبت نظر آتی ہے، یہ کسی حکیم و لطیف ذات کی تخلیق ہی ہو سکتی ہے.
– قرآنِ مجید نے اس سلسلے میں استدلال کے بعض دیگر طریقے بھی اختیار کئے ہیں.
– قرآنِ مجید کے یہ تمام طریقہائے استدلال سادہ، فطری اور انسانیت کے اجتماعی شعور پر مبنی ہیں.
– قرآنِ مجید کا یہ طریقہ خدا کی ذات کے اثبات میں کافی شافی ہے اور تشکیک کے سفسطوں میں مبتلاؤں کے علاوہ باقیوں کو اضافی طور پر مزید عقلی دلائل بتانے کی نوبت نہیں آتی ہے.
– قرآنِ مجید کا یہ طریقہ، استدلال میں اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے اور متکلمین، عقل دشمن حشویہ، صوفیاء اور باطنیوں وغيرہ کے طریقے سے جُدا حیثیت رکھتا ہے.

(افاداتِ فیلسوف الإسلام، امام ابنِ رشد – الكشف عن مناهج الأدلة في عقائد الملة لابن رشد، ص ١١٨ تا ١٢٢)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں