Home » آیت صیام میں فدیے کی اجازت
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث فقہ وقانون

آیت صیام میں فدیے کی اجازت

سورہ بقرہ کی آیت 184 میں کہا گیا ہے کہ گنتی کے چند دنوں کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ اگر کوئی بیمار یا مسافر ہو تو (مشقت کی وجہ سے) وہ دوسرے دنوں میں چھوڑے ہوئے روزے رکھ کر گنتی پوری کر سکتا ہے۔ اس حد تک حکم واضح ہے، لیکن اس سے اگلا حصہ مفسرین کے لیے کافی الجھن کا باعث رہا ہے۔ بظاہر مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں لیکن نہ رکھنا چاہیں، وہ چھوڑے ہوئے روزے کا فدیہ دے سکتے ہیں، تاہم اگر وہ روزہ رکھ کر ہی گنتی کو پورا کریں تو یہ بہتر ہے۔ عموماً‌ مفسرین نے اس کی تاویل یوں کی ہے، جیسا کہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے تفسیری حاشیے سے واضح ہے، کہ یہ گنجائش ابتدائی مرحلے پر، مسلمانوں میں روزے کی عادت اور معمول نہ ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر دی گئی تھی، پھر بعد میں اس رخصت کو منسوخ کر دیا گیا اور روزے کی طاقت رکھنے والوں کے لیے ہر حال میں رمضان کے روزے رکھنا فرض قرار دیا گیا، جس کا ذکر اس سے اگلی آیت میں کیا گیا ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس پر یہ اشکال پیش کیا کہ یہ عجیب بات ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور بیماروں پر تو دوسرے دنوں میں روزہ رکھ کر گنتی پورا کرنے کو لازم قرار دیا، لیکن جو روزہ رکھ سکتے تھے، ان کو رخصت دے دی کہ وہ فدیہ ادا کر کے بری الذمہ ہو جائیں۔ اس اشکال کے پیش نظر مولانا نے یہ رائے پیش کی ہے کہ اس رخصت کا تعلق عام روزہ داروں سے نہیں، بلکہ یہ گنجائش بھی مسافروں اور بیماروں سے ہی متعلق تھی، یعنی مسافر یا بیمار بعد میں روزہ رکھ کر بھی گنتی پوری کر سکتے تھے اور اگر وہ فدیہ دینا چاہیں تو فدیہ بھی دے سکتے تھے، اگرچہ روزوں کی قضا کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔

مولانا کی تفسیر مذکورہ عقلی اشکال کو تو دور کر دیتی ہے، لیکن اس کے لیے لفظ ’’یطیقونہ’’ (جو اس کی طاقت رکھتے ہوں) میں ضمیر کا مرجع مولانا کو روزے کے بجائے فدیے کو قرار دینا پڑا جو شاہ ولی اللہؒ وغیرہ کی بھی رائے ہے (اگرچہ شاہ صاحب اس کا مصداق صدقۃ الفطر کو قرار دیتے ہیں، جبکہ مولانا کی رائے میں اس سے مراد چھوڑے ہوئے روزے کا فدیہ ہے)۔ یہ تفسیر دو پہلووں سے ناموزوں لگتی ہے۔ ایک یہ کہ یطیق کا لفظ عربیت کے لحاظ سے بدنی طاقت کے لیے زیادہ متبادر اور موزوں ہے، نہ کہ مالی طاقت کے لیے، جیسا کہ کفارے کی آیات میں ’’من لم یستطع’’ کے تکرار سے واضح ہے۔ لفظ استطاعت میں تو کافی وسعت ہے، اور یہ مالی اور بدنی ہر طرح کی طاقت کو شامل ہے، لیکن لفظ اطاق کے عمومی استعمالات بدنی طاقت سے ہی متعلق ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا کوئی ایسی غیر معمولی مشقت نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ ’’وعلی الذین یطیقونہ’’ کی تعبیر اختیار کی جائے۔ ان دونوں پہلووں سے مولانا اصلاحی کی تفسیر سیاق کلام سے زیادہ مناسبت رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔

ہماری طالب علمانہ رائے میں جمہور مفسرین نے بعض آثار کی روشنی میں آیت کی جو تفسیر بیان کی ہے، وہی زیادہ درست ہے۔ تاہم اس میں کچھ مزید وضاحتوں کا شامل ہونا ضروری ہے:

پہلی یہ کہ یہاں فدیے کی رخصت پورے مہینے کے روزے چھوڑ دینے یعنی سرے سے روزے کی پابندی قبول نہ کرنے کے لیے بیان نہیں کی گئی۔ اس رخصت کی نوعیت ویسی ہی تھی جیسے بیماروں اور مسافروں کو دی گئی رخصت کی تھی، یعنی اگر مسلسل روزے رکھنے سے کسی کو تنگی یا حرج محسوس ہوتا ہو تو ایسے لوگ بھی بیچ میں بقدر ضرورت روزے چھوڑ کر ان کی جگہ فدیہ دے سکتے تھے۔

دوسری یہ کہ یہ رخصت بھی اصولاً‌ عام نہیں تھی، اور صاحب عزیمت مسلمان اس کے براہ راست مخاطب نہیں تھے۔ رخصت دراصل کمزور مسلمانوں کے لیے تھی اور مقصود یہ تھا کہ عادت اور معمول نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مسلمان اس عبادت کی مشقت کو قبول کرنے سے بالکل برگشتہ نہ ہو جائیں۔ اسی پہلو سے ان کو مقررہ دنوں میں روزے چھوڑ کر بعد میں گنتی پوری کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ پابندی بھی ایسے لوگوں کو ایک دوسری طرح کی مشقت میں ڈالنے کا موجب ہوتی۔

تیسری یہ کہ یہ رخصت اگرچہ تصریحاً‌ روزے کی طاقت رکھنے والوں کے لیے بیان کی گئی، لیکن اگر بیماروں اور مسافروں میں بھی اس طرح کے مسلمان ہوتے تو ازروئے علت وہ بھی اس گنجائش سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، یعنی بعد میں روزہ قضا کرنے کے بجائے اگر فدیہ دینا چاہتے تو دے سکتے تھے۔ قرآن نے رخصت کی اس وسعت کو تصریحاً‌ بیان نہیں کیا، تاکہ الفاظ میں اصل مقصود یعنی روزوں کی گنتی پوری کرنا ہی نمایاں رہے جبکہ گنجائش کا پہلو بقدر ضرورت سمجھا جائے اور استنباطاً‌ ہی اخذ کیا جائے ۔

ان توضیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے نسق کلام کو دیکھا جائے تو آیت کا مدعا اور اس میں دی گئی رخصتوں کی نوعیت اور حکمت بہتر انداز میں سامنے آتی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ گنتی کے چند دن ہیں جن میں روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس حکم میں ایک اصولی رخصت سب مسلمانوں کے لیے عام ہے، اور وہ یہ کہ سفر یا بیماری میں ان پر روزہ رکھنا فرض نہیں اور ان دنوں کی گنتی وہ بعد میں قضا روزے رکھ کر پوری کر سکتے ہیں۔ (یہ رخصت اصولی اور عام ہونے کی وجہ سے بعد میں بھی برقرار رکھی گئی)۔ اس کے ساتھ ایک وقتی اور عبوری نوعیت کی رخصت ان کمزور مسلمانوں کے لیے ہے جو روزے کی مشقت کا عادی نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل روزے رکھنے میں حرج اور تنگی محسوس کرتے ہوں۔ ایسے لوگ درمیان میں بقدر ضرورت کچھ روزے چھوڑ کر ان کی جگہ فدیہ دے سکتے ہیں، تاہم ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ روزے پورے کرنے کی کوشش کریں۔ (یہ رخصت عبوری ہونے کی وجہ سے اگلے مرحلےپر منسوخ کر دی گئی اور أصحاب عذر کے علاوہ سب مسلمانوں کے لیے ہر حال میں رمضان میں مسلسل روزے رکھنے کو لازم قرار دے دیا گیا)۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں