چچ نامہ سندھ کی تاریخ پر پہلی کتاب ہے۔ مورخین کے ہاں اس کی اہمیت بہت واضح ہے۔ اصلاً یہ کتاب عربی میں لکھی گئی جس کا فارسی ترجمہ علی کوفی نامی ایک شخص نے ناصر الدین قباچہ کے زمانے میں کیا۔ اب عربی نسخہ تو دستیاب نہیں مگر یہ فارسی ترجمہ بھی برابر اہمیت کا حامل رہا۔ اس زمانے میں مترجم ترجمہ کے ساتھ اپنی باتوں کا ادراج بھی کرتا رہتا تھا علی کوفی نے بھی یہ کام کیا۔ اس کتاب کے قلمی نسخے کی تدوین و تصیح کا کام سندھ کے عالم شمس العلماء ڈاکٹر عمر بن داؤد نے تقسیم ہند سے قبل کیااور اُردو ترجمہ اختر رضوی صاحب نے کیا ہے جو کہ ۱۹۶۳ میں پہلی بار شائع ہوا۔ سندھ کی تاریخ کے حوالے سے مستند نام ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے اس کے متن کی تصیح اور حواشی لکھے۔ اس کتاب کو سندھ ادبی بورڈ نے شائع کیا ہے۔
چچ نامہ کی صحت کے حوالے سے اہل علم کے مابین بحث رہی ہے کہ یہ کہاں تک مستند ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس کی صحت پر شک کرنے والے لوگ بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے پھر اس کتاب میں جن شخصیات کا ذکر ہے وہ حقیقی کردار ہیں کوئی وضعی یا افسانوی کردار نہیں۔ اس کے ساتھ اس کے مندرجات میں سے اکثر باتوں کی دیگر تاریخی کتابوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے متن میں بہت سی کمزوریاں ہیں اور جو اس کے مترجم علی کوفی نے اپنے اضافے کیے ہیں ان سے واقعات کی حقیقت بیانی متاثر ہوئی ہے۔ لیکن اس کمی کو ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کے حواشی نے تقریباً دور کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت باریک بینی سے اس کے متن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور اس کے کئی واقعات کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ وضعی ہیں جو کہ تاریخی حقائق سے ٹکراتے ہیں۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کیونکہ خود ایک مستند حوالہ ہیں تو ان کی رائے کسی عامی کی رائے قرار دیکر مسترد نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بھی مجھ جیسے قاری کو ان کے حواشی سے کئی باتوں کی وضاحت جاننے میں مدد ملی تو وہ اہل علم جن کا یہ موضوع ہے وہ یقیناً کیسے اس کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ لہذا ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے حواشی اور تصیح کے بعد اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اس میں مضبوط اور کمزور دونوں باتوں کی نشاندھی کی جا سکتی ہے۔
علی کوفی کو یہ نسخہ کیسے ملا اس کے بارے میں خود علی کوفی نے وضاحت کی کہ ناصر الدین قباچہ کے دور میں بکھر میں ایک بزرگ قاضی محمد اسمعیل سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کے آباؤ اجداد محمد بن قاسم کے دور سے ہی برصغیر میں آباد ہوئے تھے۔ یہ نسخہ ان کے پاس نسل درنسل چلتا آ رہا تھا۔قاضی محمد اسماعیل نے یہ نسخہ علی کوفی کو دیا جس کا انہوں نے فارسی ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ ۶۱۳ ہجری میں ہوا۔ ناصر الدین قباچہ کا دور ۶۰۲ سے ۶۲۳ ہجری تک کا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ اس دور کے شروع میں علی کوفی کی قاضی اسمعیل سے ملاقات ہوئی ہو گی اور انہوں نے یہ نسخہ علی کو دیا ہو گا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نسخہ کے مصنف کا نام علی کوفی اور قاضی محمد اسمعیل دونوں کو معلوم نہیں تھا۔ ایسا ہی معاملہ کتاب کے نام کے بارے میں ہے۔ ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کتاب کے داخلی خواہد کی بنا پر خیال ظاہر کیا کہ اس کا نام فتح نامہ سندھ ہے مگر یہ کوئی حتمی نام نہیں ہے یہ اندازہ ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے مقدمہ میں بتایا کہ علی کوفی کی جانب سے عربی یا فارسی کسی نام کی وضاحت سامنے نہیں آتی۔ اس لیے اس کا نام چچ نامہ بھی کافی پرانا ہے اور مشہور ہے۔ طبقات ناصری میں بھی اس کتاب کا حوالہ چچ نامہ سے ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیشک چچ نامہ اس کتاب کا غلط نام ہے مگر کافی پرانا مشہور ہے۔ کیونکہ اس کے شروع میں چچ کے حالات درج ہیں تو اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا یہ نام مشہور ہوا کیونکہ اس وقت یہ معروف تھا کہ جس کے احوال پر کتاب ہوتی تھی کتاب کا نام بھی اس سے منسوب ہوتا تھا۔
کتاب کے آغاز پر از راہ پیش گفت کے عنوان سے بیس صفحات پر غلام ربانی آگرہ صاحب نے گفتگو کی ہے جس میں اس کتاب کے مندرجات کا بہت خوبی سے احاطہ کیا ہے اور ان پر بات کی ہے۔ کتاب کے بیشتر مضامین کا خلاصہ ان بیس صفحات میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کا مقدمہ بہت جاندار ہے جس میں اس کتاب کی استنادی حیثیت، اس کے مترجم علی کوفی اور پھر اس کتاب کے نام پر ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کی ہے۔ مقدمہ میں سب سے اہم چیز اس کتاب کے اہم راوی ابوالحسن المدئنی پر بات ہے۔ ڈاکٹر بلوچ نے بتایا ہے کہ ابوالحسن المدئنی ناصرف فتح نامہ سندھ المعروف چچ نامہ کا مرکزی راوی ہے بلکہ امام ابو جعفر طبری کی تاریخ میں بھی خراسان اور اس ملحقہ علاقوں کے بارے میں بھی المدئنی سے تقریباً پانچ سو روایات بیان ہوئی ہیں۔ علامہ بلاذری کی فتوح البلدان جس میں فتح سندھ کے بارے میں باقی عربی تواریخ سے زیادہ مواد موجود ہے ان کا بھی مرکزی راوی المدئنی ہی ہے۔ المدئنی کے بارے میں جو حالات عربی کتابوں میں ملتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی علاقوں کی فتوحات کے حوالے سے اس کے پاس مستند معلومات تھیں ۔ المدئنی ۱۳۵ ہجری میں بصرہ میں پیدا ہوئے پھر انہوں نے مدائن ہجرت کی اور وہاں ہی رہائش پذیر ہو گئے۔ اس لحاظ سے فتح سندھ کا واقعہ ان کی پیدائش سے تقریباً ۴۳ سال پہلے کا تھا تو عین ممکن ہے کہ کسی راوی سے براہ راست بھی المدئنی کو معلومات ملی ہوں ورنہ ایک واسطے سے یقیناً ان تک معلومات پہنچی ہوں گی۔ پھر المدئنی کی کتابوں کا ذکر بھی تاریخ میں موجود ہے جس میں خراسان اور سندھ کی فتوحات پر ان کی کتابوں کے نام موجود ہیں اور اس کے مطابق جن لوگوں سے انہوں نے حالات نقل کیے وہ اہل علم اور حکومتی عہدیدار تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ المدئنی کے ذرائع مضبوط تھے۔ ممکن ہے کہ فتح سندھ پر یہ عربی کتاب المدینی کی کسی کتاب کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہو کیونکہ اس ترجمے میں بھی تیرہ جگہ المدئنی کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے بتایا کہ علی کوفی نے اس کتاب کا فارسی ترجمہ کر کے علمی دنیا پر ایک احسان کیا ہے لیکن جس عربی نسخے کا اس کا ترجمہ کرتے ہوئے یا پھر زمانے کی دستبرد سے کتاب مکمل محفوظ نہیں رہی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں راویوں کے نام حذف کر دیئے گئے ہیں۔ المدئنی کے علاوہ اس کتاب میں اور دو طرح کے روای ہے ایک المدئنی کے علاوہ عرب راوی، ان سے گو کہ کم مواد نقل ہوا ہے مگر ان کو بھی یقین سے جھٹلایا نہیں جا سکتا البتہ ان کے بیان کردہ دو تین واقعات کے بارے میں حاشیہ میں ڈاکٹر صاحب نے نشاندھی کر دی ہے کہ وہ وضعی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں سندھ کے مقامی لوگوں سے بھی روایت لی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا ابتدائی حصہ جس میں چچ کے احوال اور پھر شروع کے جو راجا داہر کے حالات درج ہیں ان کی معلومات ان سے لی گئی ہے مگر مسئلہ وہ ہی ہے کہ مترجم نے راویوں کے نام حذف کر دئیے ہیں اس طرح کوئی یقینی پیمانہ نہیں جس کی بنیاد پر ان باتوں کو مسترد کیا جا سکے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا یہ مقدمہ پڑھنے کے بعد اس کتاب کی صحت کے حوالے سے بہت سے شکوک دور ہو جاتے ہیں جبکہ اس کی کمزوریوں کا ازالہ ڈاکٹر صاحب نے حواشی کی صورت میں بھی کر دیا ہے.
کتاب کا آغاز ہندو سندھ سے ہوتا ہے جس کا اروڑ پایہ تخت تھا۔ یہاں رائے سیہرس کی حکومت تھی جو کہ ایک عادل اور سخی بادشاہ تھا۔ اس کی حدود مشرق میں کشمیر تک، مغرب میں مکران اور شمال میں کیکانان تک تھیں۔ مطلب آج کے پاکستان کی حدود سے ملتی جلتی۔ یہ ہندو سندھ چار حصوں یعنی کہ صوبوں میں تقسیم تھا جہاں کے گورنر کافی خود مختار تھے مگر وہ مرکزی حاکم کے مطیع تھے۔ ایرانی بادشاہ نیمروز نے ہندو سندھ کی طرف پیش قدمی کی جس کے مقابلے کے لیے رائے سیہرس خود میدان میں آیا سہیرس کو شکست ہوئی مگر وہ بھاگا نہیں جنگ کرتے ہوئے قتل ہوا۔ نیمروز واپس لوٹ گیا اور رائے سیہرس کا بیٹا رائے ساہسی حکمران ہوا۔ چاروں صوبوں نے اس کی تابعداری کا حلف اٹھایا ۔ رائے ساہسی بھی اپنے باپ کی طرح عادل حکمران تھا۔ اس کا ایک حاجب تھا جو کافی سمجھدار اور علم والا تھا۔ ایک دن حاجب کے پاس ایک شخص چچ آیا جو برہمن تھا اور غالباً کشمیری برہمن تھا۔ وہ حاجب کی علم و حکمت سے متاثر ہو کر اس سے ملنا آیا لیکن جب حاجب کو معلوم ہوا کہ چچ خود علم والا ہے جس کو چاروں ویدوں پر عبور حاصل ہے اور اس کا انداز گفتگو بھی کافی متاثر کن تھا تو حاجب بھی چچ سے متاثر ہوا۔ چچ نے بتایا کہ وہ اپنا کام ایمانداری اور دیانتداری سے کرے گا۔ حاجب کو چچ کا یوں خدمت میں آنا کافی مفید لگا کیونکہ وہ بہت مصروف ہوتا تھا اور کئی دفعہ اس وجہ سے وہ بادشاہ کی محفل میں غیر حاضر بھی ہوتا تھا۔ اس لیے اس کی ضرورت پیش آ سکتی تھی۔ پھر ایک روز حاجب کی غیر موجودگی میں چچ نے رائے ساہسی کی طرف آئے خطوط پڑھے اور ان کی وضاحت کی اس سے حاکم بھی متاثر ہوا یوں چچ کی مصروفیات میں مزید اضافہ ہوا اور رائے ساہسی نے چچ کو وزارت سونپ دی۔ چچ ایک خوبصورت اور وجیہ شخص تھا۔ رائے ساہسی کی رانی اس پر فدا ہو گئی۔ اس نے چچ کی طرف پیغام بھی بھیجا کیونکہ ان کی اولاد نہیں تھی مگر چچ نے انکار کر دیا کہ وہ بادشاہ کے حرم میں خیانت نہیں کر سکتا۔ رانی نے اس کو کہا کہ اگر تم میری خواہش پوری نہیں کر سکتے تو کم از کم مجھے روز اپنا چہرہ تو دکھاتے رہو۔ اس طرح رانی اور چچ کے درمیان تعلقات قائم ہوئے بعد میں جب رائے ساہسی کی موت کا وقت قریب آیا تو رانی نے بہت چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو حاکم کی موت کو چھپایا پھر چچ کو تخت پر بٹھانے کے لیے جو جو ممکنہ مخالفین ہو سکتے تھے تو ان کو راستے سے ہٹا دیا۔ اس نے چھے ماہ تک بادشاہ کی موت کو چھپائے رکھا۔ جب ساہسی کی موت کی خبر اس کے بھائی مہرتھ کو ہوئی تو وہ تخت کا دعویدار بن کر سامنے آیا تو رانی کے شرم دلانے پر چچ اس کے مقابلے میں گیا دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے جب کئی ہلاکتوں کے بعد بھی جنگ کا فیصلہ نہ ہوا تو چچ نے مہرتھ کو دو بدو مقابلے کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی تو چچ نے دھوکے سے مہرتھ کو قتل کر دیا اور یوں اس سلطنت کا یہ دعویدار بھی راستے سے ہٹ گیا۔ چچ کی اس فتح کے بعد رانی نے اپنے رؤسا اور اکابرین کو جمع کیا اور ان کو اپنی چچ کے ساتھ شادی پر راضی کیا۔ یوں رانی سونھن دیوی چچ کی دلہن بن گئی ۔ چچ کے اس دو بیٹے دہرسینہ اور داہر جبکہ ایک بیٹی مایین ہوئی۔ اس نے ہر ایک کی ولادت پر نجومیوں سے حساب لگایا کہ اس کے دونوں بیٹے سندھ کے بادشاہ ہوں گے جبکہ بیٹی سندھ سے باہر نہیں جائے گی۔
چچ نے اپنے مملکت کی سرحدوں کو مزید وسیع کیا اور اس نے کئی فتوحات سے اپنی سلطنت کا نقشہ بڑھایا۔ چچ کی فتوحات کو بھی اس کتاب کے مصنف نے قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ چچ کا دور حکومت چالیس سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کا بھائی چندر تخت نشین ہوا جو سات سال تک حکومت کرتا رہا اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا راج حاکم ہوا تو ایک سال بعد ہی چچ کے بیٹے دھرسینہ نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ داہر اپنے بھائی کے ماتحت ایک صوبے میں حاکم تھا۔ مایین دھرسینہ کے ساتھ تھی اس کو اپنی بہن کی شادی کا خیال آیا رمل کے راجہ سونھن رائے بھاٹیہ نے اس کے لیے رشتہ مانگا تھا اور اس نے ایک قلعہ بھی (بطور جہیز) مانگا تھا جس کا وہ مالک ہو گا۔ دھرسینہ نے مایین کا شاہانہ جہیز تیار کیا اور اس کو راجہ داہر کی طرف روانہ کیا کہ مایین کو بھاٹیہ کے راجہ کے حوالے کر دے۔ راجہ داہر نجومیوں پر بہت یقین رکھنے والا شخص تھا اس نے مایین کا زائچہ بنوایا تو نجومیوں نے بتایا کہ یہ اروڑ کے قلعے سے باہر نہیں جائے گی اور اس کا رشتہ وہ طلب کرے گا جس کے قبضے میں پورے ہندوستان کی بادشاہت ہو گی۔ راجہ داہر کے ایک وزیر جس کا بیٹا نجومیوں میں سے تھا کو یہ معلوم ہوا تو اس نے داہر کو مشورہ دیا کہ مایین کو اپنے نکاح میں لے لے۔ یہ مشورہ بہت معیوب تھا کیونکہ اس وقت بھی بہن سے نکاح برا جانا جاتا تھا اور عوام بھی اس بات کو قبول نہ کرتی۔ داہر کو اس کا خوف بھی تھا مگر وزیر نے داہر کو تسلی دی کہ جو بھلی بری بات ہوتی ہے وہ لوگوں کی زبان پر تین دن رہتی ہے پھر لوگ بھول جاتے ہیں۔ بادشاہ سے قطع تعلق کر لینا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔اس کے بعد داہر نے پانچ سو ٹھاکروں کو جمع کیا جو کہ مقتدرہ کا حصہ تھے اور ان کے سامنے یہ بات سب نے داہر کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ اس کے بعد داہر نے اپنی بہن مایین سے شادی کر لی۔ اس نے دھرسینہ کو بھی اس کی اطلاع دی اور ساتھ عذر بھی پیش کیا کہ اس نے یہ رشتہ خوشی سے نہیں بلکہ مصلحت اور مجبوری میں کیا ہے۔ دھرسینہ نے جواباً خط میں لکھا کہ اگر تو یہ فعل بد بادشاہت کو قائم رکھنے کے لیے کیا ہے تو تیرے لیے کوئی چارہ نہیں لیکن اگر یہ سب شہوت کے جذبے سے کیا تو تجھے فوراً باز آ جانا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے اور پشیمان ہونا چاہیے.
چچ نامہ کی فراہم کردہ معلومات کی حد تک داہر اپنے دھرسینہ کا بہت احترام کرتا تھا مگر دھر سینہ اس کی مایین کی شادی سے ناخوش تھا۔ اس کے بعد داہر اپنے وزیر کے زیر اثر تھا جب دھر سینہ کی طرف سے اس کو سرد مہری محسوس ہوئی تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ اپنے تعلقات اپنے بھائی سے درست کر لے مگر داہر کے وزیر نے کہا کہ اقتدار کے اس کھیل میں دھر سینہ اب تمہارا بھائی نہیں بلکہ تمہیں اپنا مدمقابل دیکھتا ہے۔ بعد میں دھرسینہ داہر کے قلعے پر قبضے کی نیت سے جاتا ہے اور داہر اس کا استقبال کرنا چاہتا ہے مگر وزیر کے مشورے پر وہ قلعے کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ پھر کچھ شرائط پر دھر سینہ کو قلعے تک رسائی تو دیتا ہے مگر جلد ہی وزیر داہر کو دھر سینہ کے مکر سے نکال لیتا ہے۔ قلعے سے نکل کر دھر سینہ موسم کی سختیاں برداشت نہیں کر پاتا اور چار دنوں بعد مر جاتا ہے۔ داہر کو جب اس کی موت کی خبر ملتی ہے تو وہ فوراً جانا چاہتا ہے مگر وزیر اس کو روک دیتا ہے کہ یہ دھر سینہ کی چال بھی ہو سکتی ہے پھر دھر سینہ کے لشکر کی طرف اس کی موت کی یقین دہانی کے بعد داہر اپنے بھائی کی لاش پر اپنی پگڑی اتار کر بین کرتا ہے اور غم میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالتا ہے۔ دھر سینہ کی موت کے بعد اقتدار داہر کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے۔
راجہ داہر کی ایک اہم جنگ رمل کے راجا ساتھ ہوئی ، یہ ایک طاقتور راجا تھا جو بڑا لشکر لے کر داہر پر حملہ آور ہوا لیکن اس جنگ میں رمل کے راجا کو شکست ہوئی اور اس میں سب سے اہم کردار علافی جو کہ مسلمان تھے ان کا تھا۔ علافی عمان کے باشندے تھے یہ پہلے دولتِ امویہ کے وفادار تھے مگر بعد میں مکران کے گورنر سعید بن اسلم کلابی نے ایک شخص سفھوی بن لام پر غضبناک ہو کر اسے قتل کر دیا۔ علافیوں کا سفھوی کے ساتھ رشتہ تھا تو انہوں نے سفھوی کے بدلے میں سعید کو قتل کر دیا۔ سعید بن اسلم کلابی حجاج کے قریبی گورنروں میں سے تھے تو سعید کے قتل نے اس کو علافیوں سے غضبناک کیا اس نے مجاعتہ بن سعر تمیمی کو مکران کا گورنر بنایا اور کہا کہ علافی اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کرنا مگر مجاعتہ کے مکران پہنچنے سے پہلے علافی سندھ کی طرف بھاگ گئے مجاعتہ نے ان کو بہت تلاش کیا مگر علافی ہاتھ نہ آئے۔ مجاعتہ کا سال بعد انتقال ہو گیا تو حجاج نے محمد بن ہارون کو گورنر بنایا اور اس کو بھی علافیوں کی سرکوبی کا کہا کہ سعید کے قصاص میں ان کا قتل کرنا۔ محمد بن ہارون نے ایک علافی کو گرفتار کیا اور اس کا سر قلم کرکے حجاج کے پاس بھیج دیا جبکہ یہ باقی علافی سندھ میں راجا داہر کے پاس قیام پذیر ہو گئے۔ راجا داہر ان کی حربی صلاحیتوں سے واقف ہوا تو اس نے ناصرف ان کو پناہ دی بلکہ ان کا خصوصی اکرام کیا۔ عمل کے راجا کے خلاف فیصلہ کن کردار علافی اور ان کے ساتھیوں کا تھا اس وجہ سے داہر ان کا مزید قدردان ہوا۔
کچھ عرصہ بعد سراندیپ سے ایک جہاز جس میں سراندیپ کے راجا نے حجاج بن یوسف کے لیے تحائف ، غلام اور باندیوں سمیت بہت سے جواہرات پر مشتمل جہاز روانہ کیا تو اس میں کچھ مسلمان عورتیں بھی تھیں جو مکہ مکرمہ بیت اللہ کی زیارت کو جا رہی تھیں۔ جب یہ جہاز دیبل پہنچا تو وہاں کے بحری قذاقوں نے اس کو لوٹ لیا۔ یہ آٹھ جہاز تھے اس میں کئی تاجر اور سراندیپ کے راجا کے نمائندے بھی تھے انہوں نے قذاقوں کو کہا کہ یہ تحائف حجاج کے ہیں اور اس میں سوار مسلمان آزاد عورتیں بھی ہیں مگر قذاقوں نے ان پر یقین نہ کیا۔ انہوں نے تحائف ، غلام اور باندیوں سمیت مسلمان عورتوں سے بھی کچھ کو قید کر لیا۔ جبکہ کچھ تاجر اور مسلمان عورتیں اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل گئے اور یوں اس حادثے کی اطلاع حجاج بن یوسف کو ہوئی۔ جس نے اس کو غضبناک کر دیا۔ حجاج نے راجا داہر کی جانب قاصد بھیجا اور مکران کے گورنر محمد بن ہارون کو بھی حکم دیا کہ داہر کے پاس قابلِ اعتماد لوگوں کو بھیجے اور اس کو کہے کہ مسلمان عورتوں کو چھوڑ دے اور دارلخلافہ کے تحائف واپس کر دے تو راجا داہر نے جواب دیا کہ بحری قزاق اس کی ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں لہذا وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی عملداری میں نہیں آتے۔ حجاج داہر کے جواب پر مزید مشتعل ہوا اس نے اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک سے سندھ پر حملے کی اجازت مانگی مگر ولید نے انکار کر دیا۔ عربوں کے ساتھ سندھ کی ریاست کے ساتھ ماضی میں کئی سرحدی جھڑپیں ہو چکی تھی۔ اس کا آغاز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی سندھ پر حملے کی تجویز سامنے آئی مگر آپ رضی اللہ عنہ پہلے وہاں حضرت عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ اور حکیم بن جبلہ کو بھیجا کہ وہاں کے حالات معلوم کر آئے۔ حکیم اس کام کے لیے سندھ اور ہند آیا اور اس نے جو اطلاعات دیں اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سندھ پر لشکر کشی سے منع کر دیا۔ حکیم بن جبلہ بعد میں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں میں سے ایک تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی سندھ کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہاں لڑائیاں ہوتی رہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چین کی جانب والے علاقوں پر بھی جھڑپیں ہوئیں۔ مکران کیونکہ دولتِ اسلامیہ میں آ چکا تھا تو اس لحاظ سے سندھ کے ساتھ سلطنت اسلامیہ کی سرحدیں ملتی تھیں۔ حجاج بن یوسف سندھ پر لشکر کشی کے حوالے سے کافی متجسس اور خواہشمند تھا۔ اس واقعے کے بعد اس کو جواز بھی مل رہا تھا مگر خلیفہ ولید اس پر راضی نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سندھ بہت دور بنتا تھا اور وہاں پر لشکر کشی کے اخراجات بہت زیادہ تھے جبکہ یہ معلوم نہیں تھا کہ وہاں سے فتوحات کے بدلے کیا غنیمت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس واقعے کے بعد حجاج نے اپنے خاص کمانڈر بدیل کو تین ہزار سواروں کے ساتھ سندھ پر حملے کے لیے تیار کیا۔ بدیل ایک بہادر اور جری جرنیل تھا جو حجاج کو بہت محبوب بھی تھا۔ بدیل نے دیبل میں ابتدائی فتوحات حاصل کر لیں بعد میں داہر کا بیٹا جیسنہ اس کے مقابلے میں آیا۔ دونوں لشکروں میں شدید لڑائی ہوئی مگر بدیل اس جنگ میں مقتول ہو گیا۔ جب حجاج کو اپنے اس عزیز جرنیل کے شہید ہونے کی خبر ملی تو وہ غمگین ہو گیا۔ اب حجاج پر اس لشکر کی ناکامی کے بعد ایک اور بوجھ پڑ چکا تھا۔ اس نے ولید کو بہت مشکل سے سندھ پر حملے کے لیے رضامند کیا تھا۔ بدیل کے لشکر کی شکست سے ولید کا ارادہ بدل سکتا تھا مگر حجاج نے ایک اور کمانڈر جو اس کے خاندان سے تھا محمد بن قاسم اس کی سربراہی میں ایک لشکر تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بدیل کی ناکامی کے بعد حجاج اپنی غلطیوں سے سیکھ چکا تھا اس لیے اس نے اب لشکر کی تیاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جو جو ممکن ہو سکا وہ کیا۔
چچ نامہ میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق حجاج بن یوسف کی ایک مختلف طرح کی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ حجاج کے معروف تصویر جس کے مطابق وہ ظالم اور جابر شخص تھا اس کی جھلک بھی ہے ساتھ ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ حجاج جنگ کی حرکیات سے مکمل واقف تھا۔ وہ بہت ذہین اور دور اندیش تھا۔ کیونکہ سندھ عربوں کے لیے اجنبی سرزمین تھی اور وہاں کے کھانوں سے وہ آشنا نہیں تھے تو حجاج نے محمد بن قاسم کے لشکر کے لیے اس چیز کا بھی انتظام بلکہ بعد میں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جب لشکر کے گھوڑے سندھ کے چارے سے بیمار ہوئے تو اس نے تازہ دم گھوڑوں کے ساتھ ان کا چارہ بھی بجھوایا۔
حجاج کی دوسری تصویر جو یہاں نظر آتی ہے وہ یہ کہ حجاج قرآن مجید کا بہت بڑا عالم تھا اس کی جو محمد بن قاسم کے ساتھ خط و کتابت ہے اس میں تقریباً ہر خط میں حجاج قرآن مجید کی آیات نقل کرتا ہے۔ ایک جگہ وہ محمد بن قاسم کو تاکید کرتا ہے کہ حملہ کرتے وقت ایک شخص کو قرآن مجید کی تلاوت پر لگائے رکھنا۔ ایک خط میں حجاج محمد بن قاسم کو لاحول ولاقوۃ کثرت سے پڑھنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ اس ذکر کی برکت لشکر کو اللہ تعالیٰ فتحیاب کرے۔ حجاج ایک خط میں محمد بن قاسم کو کہتا ہے کہ اپنے اسلحہ اور لشکر کی تعداد کو دیکھ کر کبھی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا کہ اب تم کامیاب ہو جاؤ گے فتوحات لشکر نہیں خدا دلاتا ہے۔ خدا نے کئی بڑی بڑی فوجوں کو کچھ جھتوں سے شکست دلوا کر ان کا غرور خاک میں ملایا ہے۔ یہ اسلحہ، گھوڑے اور فوج تمہیں غرور میں مبتلا نہ کر دیں اور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں ہر ہر قدم پر تم خدا سے رجوع کرتے رہنا اور اس کی مدد کے طلبگار رہنا۔
یہ اندازہ بھی بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ محمد بن قاسم کی یہ بہت بڑی خوش قسمتی تھی کہ اس مہم کی سرپرستی حجاج کر رہا تھا۔ کتاب میں جنگ کی تفصیلات پڑھ کر یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ جنگ محمد بن قاسم نے نہیں بلکہ حقیقتاً حجاج نے لڑی۔ حجاج کا مواصلاتی نظام بڑا مستعد تھا اور محض ایک روز کے وقفے سے اس کے پاس جنگ کی لمحہ بہ لمحہ معلومات آ رہی تھی اور ساتھ ہی وہ ہدایات جاری کر رہا تھا۔ لڑائی سے پہلے راجا داہر نے محمد بن قاسم کی طرف پیغام بھیجا کہ میں دریا پار کر کے جنگ کرنے آؤں یا تم پار کرو گے۔ حجاج نے محمد بن قاسم کو خط لکھا کہ تم راجا کو کہو کہ میں خود دریا پار کر کے جنگ کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے نفسیاتی طور پر راجا پر عربی فوج کو برتری حاصل ہو گی کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں ہو گا کہ عرب لمبے سفر سے تھک چکے ہیں جب تم خود دریا پار کر کے آنے کا کہو گے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ تم موت سے بے خوف ہو اور تھکاوٹ کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
حجاج نے اپنے کچھ بھروسہ مند اور بہادر فوجی جن کی جنگی حکمت عملی سے متعلق صلاحیتوں سے وہ واقف تھا وہ بھی محمد بن قاسم کو دئیے اور کہا کہ جب کوئی ضروری امر پیش آئے تو ان سے مشاورت کر کے آگے بڑھنا۔
محمد بن قاسم کو حجاج نے یہ بھی ہدایت کی کہ سندھ کے وہ حاکم جو کم طاقتور اور چھوٹے چھوٹے علاقوں پر حکومت کر رہے ہیں ان کو ساتھ ملانے کی کوشش کرنا۔ اس لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ بڑی جنگ سے پہلے بہت سے علاقوں کے مقامی حاکموں نے محمد بن قاسم سے صلح کی اور اس کا ساتھ دینے کی حامی بھری۔اردگرد کے مقامی حاکموں کی حمایت سے راجا داہر مزید تنہا ہوا۔ داہر کو سب سے زیادہ نقصان اس کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بھی پہنچا۔ اس نے مقامی بدھ آبادی پر کافی مظالم کیے ہوئے تھے جب چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حاکموں نے محمد بن قاسم کی اطاعت کی اور ان کی جانب محمد بن قاسم کا دوستانہ رویہ دیکھا تو ان کے لیے فیصلہ مزید آسان ہو گیا سو نیرون کوٹ جو کہ داہر کی سلطنت کا ایک مرکزی علاقہ تھا اور وہاں بدھوں کی اکثریت تھی انہوں نے محمد بن قاسم کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یوں داہر کو ایک بڑا دھچکا پہنچا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح محمد بن قاسم کو حجاج کی مضبوط کمانڈ اور زبردست مشیروں کا ساتھ تھا داہر اس حوالے سے بھی کمزور نکلا۔ اس کا زیادہ تر انحصار نجومیوں پر تھا۔ وہ ان کی مرضی کے بغیر قدم نہیں اٹھا رہا تھا حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ نجومیوں نے حساب کر کے اسے بتا دیا تھا کہ یہ جنگ وہ ہار جائے گا۔ دوسرا ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ داہر نے محمد بن قاسم کو بہت ہلکا لیا اس نے جب شروع میں کچھ فتوحات حاصل کیں تو داہر نے اس پر کوئی پیش قدمی نہیں کی بلکہ وہ یہ ہی خیال کرتا رہا کہ عربی فوج اس تک نہیں پہنچ پائے گی۔ دراصل اس کی ایک وجہ بدیل کی ناکامی بھی تھی۔ بدیل محمد بن قاسم کی بنسبت زیادہ بڑا جرنیل تھا۔ راجا سمجھ رہا تھا کہ جب بدیل شکست کھا گیا تو محمد بن قاسم کو بآسانی قابو کیا جا سکتا ہے۔ داہر مکمل طور پر غافل تھا کہ محمد بن قاسم پوری تیاری اور بہترین اسلحہ کے ساتھ آ رہا ہے۔ اسلحہ کے معاملے میں بھی محمد بن قاسم داہر سے بہتر تھا۔
داہر کی کمزوریوں کے باوجود چچ نامہ کے مصنف نے بتایا ہے کہ راجہ داہر بزدل نہیں تھا بلکہ میدان جنگ میں بھی وہ بہت بہادری سے لڑا۔ شجاع حبشی جو کہ ماہر تیر انداز تھا اور اس کے قتل کے درپے تھا داہر نے شجاع حبشی کو قتل کیا جس سے ہندی فوج کا حوصلہ بھی بلند ہوا۔ جنگ کے شروع کے تین دنوں میں جب داہر کے لشکر شکست کھا کر واپس آئے تو اس کے وزیر نے اس کو مشورہ دیا کے پڑوس کے راجا سے مدد طلب کرے تو داہر نے کہا کہ یہ اس کی غیرت کو گوارا نہیں۔ اس کے وزیر نے اس کو علاقہ چھوڑ کر دوسرے قلعے میں منتقل ہونے کو بھی کہا مگر اس نے میدان جنگ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
داہر کے بارے میں ایک اور بات بھی ملتی ہے کہ جب رمل کے حاکم سے اس کی لڑائی ہوئی تو فتح کے بعد اس نے مخالف فوجوں کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا مگر اس کے وزیر نے کہا کہ اب وہ جیت چکا ہے تو وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرے تو اس نے سب کو معاف کر دیا جبکہ دوسری طرف محمد بن قاسم کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ فتح حاصل کرنے کے بعد وہاں کے دستکاروں ، کسانوں اور مزدوروں کو چھوڑ دیتا جبکہ فوجیوں کو تہ تیغ کرتا تھا۔ کتاب کی معلومات کے مطابق اس نے ہزاروں مخالف فوجیوں کو قتل کروایا۔ جبکہ ہنر مند افراد کے بارے میں اس کی پالیسی مختلف تھی۔
داہر اور محمد بن قاسم کی جنگ میں شروع میں عربوں کا پلڑا بھاری تھا مگر آخری روز جب داہر خود میدان میں آیا اور اس نے شجاع جبشی کو جس طرح قتل کیا اس کے بعد مسلمانوں کے لشکر میں کھلبلی مچی اور کچھ حوصلے پست بھی ہوئے مگر محمد بن قاسم نے سب کو جمع کیا اور یقین دلایا کہ ہم فتح کے قریب ہیں یوں ان کی ہمت بڑھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود کئی کمزوریوں کے مقامی حکومت کا دفاع مضبوط تھا اس کو شکست ضرور ہوئی مگر یہ سب مسلمانوں کو بآسانی حاصل نہیں ہوا
محمد بن قاسم کا فتح حاصل کرنے بعد مقامی آبادی کے ساتھ جو جنگ میں شریک نہیں تھے وہ بھی دوستانہ تھا۔اس نے وہاں کے سماجی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی۔ اس نے مندروں کو بھی نقصان نہیں پہنچایا اور مندروں پر تعینات پنڈتوں کی عملداری کو بھی برقرار رکھا۔ محمد بن قاسم کی نسبت سے چند لوگوں نے بت توڑنے کا بھی ذکر کیا ہے خود اس کتاب میں بھی ایک جگہ ایسی بات کا اشارہ ملتا ہے اس پر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے وضاحت کی ہے کہ یہ بہتان ہے۔ محمد بن قاسم کی بت توڑنے کی کبھی پالیسی نہیں تھی بلکہ جب مقامی آبادی نے مندروں کی بابت سوال کیا تو حجاج کے مشورے کے بعد محمد بن قاسم نے ان میں سے کسی کو نہیں روکا۔ حجاج نے لکھا کہ یہ لوگ اب اطاعت کر چکے ہیں اور ذمی ہیں اس لیے ان کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا نہ ہی ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکا جائے گا۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے محمد بن قاسم کے ساتھی جرنیل جن کو حجاج نے بھیجا ان میں سب اکثر کا ذکر کیا ہے اور پھر ان کے حالات کے بارے میں بھی کچھ مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ محمد بن قاسم کے لشکر میں عطیہ بن سعد العوفی کا ذکر اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ محمد بن قاسم کو دشمن اہلبیت ثابت کرنے کے لیے عطیہ کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے کہ اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے سے انکار کیا تو محمد بن قاسم نے عطیہ کو چار سو کوڑے مارے جبکہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے بتایا ہے کہ عطیہ کسی بغاوت میں شامل تھے یہ پکڑے گئے تو بطور سزا کوڑے مارے گئے مگر سندھ کی فتوحات میں وہ محمد بن قاسم کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کے حوالے سے مبالغہ آرائی موجود ہے۔
محمد بن علافی کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ جب محمد بن قاسم کی فوج نے باقاعدہ حملہ کرنا تھا تو داہر نے اس سے مدد مانگی مگر علافی نے مسلمان فوج کے سامنے آنے سے انکار کر دیا اور وہ وہاں سے نکل گیا۔ جبکہ کچھ صفحات بعد ہم دیکھتے ہیں کہ علافی داہر کے بیٹے جیسنہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ علافی جنگ میں شامل تو نہیں ہوتے مگر داہر کو جنگی مشورہ دیتے ہیں۔ پھر معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن علافی کشمیر کی طرف چلا گیا اور وہاں کے بادشاہ کا مشیر بنا۔ جب محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا تو محمد بن قاسم نے محمد بن علافی کو امان دی۔ اس کا امکان ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے ظاہر کیا ہے کیونکہ کشمیر کے راجہ کے ساتھ قربت ابنِ علافی نے اپنی صلاحیت کی بنیاد پر پیدا کی تھی پھر کیونکہ اس نے براہ راست مسلم لشکر کے خلاف حصہ نہیں لیا تھا تو اس وجہ سے بھی اس کے بارے میں کچھ رویے میں تبدیلی ممکن ہے۔ پھر محمد بن علافی اور اس کے بھائیوں اور خاندان کے دیگر لوگوں نے بغاوت تو کی تھی مگر مجاعتہ بن سعر کے آنے کے بعد انہوں نے علاقے کو خالی کر دیا تھا۔ سعید بن اسلم کلابی کے قتل کے بعد حجاج ان کی جان کا دشمن ضرور بنا ہو گا مگر بعد میں ایک بھائی محمد بن ہارون کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قتل کیا جا چکا تھا پھر سعید کا قتل بھی انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا کر کیا تھا انہوں نے براہ راست ریاست کو ٹکر نہیں دی تھی۔ شاید یہ سب باتیں محمد بن قاسم کے سامنے تھیں تو اس نے محمد بن علافی اور اس کے ساتھیوں کو امان دی۔
ایک سوال محمد بن علافی کے بارے میں البتہ تشنا طلب ہے کہ وہ اسلامی لشکر کے مقابلے میں آنا نہیں چاہتے تو پھر اس سے پہلے جب سراندیپ کے جہاز لوٹے گئے اور کچھ مسلمان عورتیں بھی پکڑی گئیں تو کیسے ممکن ہے کہ داہر کو انہوں نے اس کام سے روکا نہ ہو۔ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بحری قذاقوں پر داہر کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ لیکن چچ نامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ فتح کے نتیجے میں داہر کے علاقے میں ایک قلعہ سے مسلمان عورتوں کو چھڑایا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ داہر بھی ملوث تھا۔
عورتوں کے اغواء کی بات پر مختلف آراء کا ہونا ممکن ہے۔ اس بارے میں انکار کرنے والے حجاج کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ خود ظالم و فاسق شخص تھا اس کو مسلمان عورتوں کی حرمت کا خیال کیسے آ سکتا ہے۔ یہ اعتراض میں سمجھتا ہوں کہ کمزور ہے کیونکہ کئی دفعہ منفی کردار کے حامل لوگ مثبت کردار ادا کر دیتے ہیں جس کی کسی کو امید نہیں ہوتی پھر عورتوں کے معاملے میں عربوں میں مجموعی طور پر ویسے بھی حمیت زیادہ پائی جاتی تھی۔ وہ ایسے معاملات پر ریاستوں سے ٹکرا جاتے تھے۔
محمد بن قاسم کی دیگر فتوحات کا ذکر جو راجا داہر کو شکست دینے کے بعد ہوئیں ان کا بھی مصنف نے ذکر کیا ہے جن میں سکہ اور ملتان کی فتوحات قابلِ ذکر ہیں یہاں پر محمد بن قاسم کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے کئی ساتھی بھی شہید ہوئے۔
محمد بن قاسم اور حجاج بن یوسف کے درمیان رشتے داری کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اور چچ نامہ کے مصنف نے ان غلط فہمیوں کو برقرار رکھا ہے. ہمارے ہاں خیال کیا جاتا ہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا اور یہ ہی بات چچ نامہ میں ہے لیکن ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے بتایا کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کے چچا زاد بھائی کا بیٹا تھا۔ دوسری بات جو ہمارے ہاں حجاج اور محمد بن قاسم کے تعلق سے پھیل گئی وہ یہ کہ محمد بن قاسم حجاج کا داماد تھا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے متعدد تاریخی شواھد سے بتایا کہ یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ علامہ ابنِ حزم کی جمہرۃ الانساب جو انساب کے حوالے سے مستند کتاب مانی جاتی ہے میں حجاج کی کسی بیٹی کا ذکر نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ محمد بن قاسم کی شادی بنو تمیم میں ہوئی تھی۔ اس کا بیٹا قاسم بن محمد بصرہ کا گورنر رہا جبکہ دوسرا بیٹا عمرو بن محمد سندھ کا گورنر رہا۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے دیبل کے درست تعین کے بارے میں بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ دیبل کسی طرح بھی کراچی نہیں بنتا۔ اس بارے میں جتنے بھی تاریخی شواہد ان میں کسی سے بھی کراچی کے دیبل ہونے کی تصدیق نہیں ہوتی جبکہ زیادہ درست قرین قیاس یہ ہے کہ منصورہ ہی دیبل تھا اور اس پر کافی مواد بھی موجود ہے۔
آخر میں محمد بن قاسم کے انجام کے حوالے سے چچ نامہ کے مصنف نے ایک واقعہ لکھا کہ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے پاس راجہ داہر کی بیٹیاں گئیں تو ولید ان کے حسن پر فدا ہو گیا جب اس نے ان کو اپنے حرم میں داخل کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ وہ پہلے محمد بن قاسم کے پاس تین دن رہ چکی ہیں جس کی وجہ سے ولید بن عبد الملک محمد بن قاسم پر غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم خود کو کچی کھال میں بند کر کے صندوق میں بند کرے اور اس کو دارلخلافہ بھیجا جائے اگر وہ بچ گیا تو حساب دے گا مگر راستے میں ہی اس کو موت آ گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ سراسر جھوٹ پر مبنی واقعہ ہے جو کہ چچ نامہ میں لکھا گیا ہے۔ اس کے جھوٹا ہونے کے متعدد ثبوت ہیں اول تو ولید بن عبد الملک کے زمانے تک محمد بن قاسم سندھ میں تھا۔ دوسرا چچ نامہ ہی میں راجا داہر کی بیٹیوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ماسوائے آخری صفحات کے۔ سندھ کی فتوحات سے حاصل ہونے والی آمدن کا تو چچ نامہ میں ذکر ہے مگر کہیں بھی داہر کی بیٹیوں کا ذکر نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حواشی کے آخر میں محمد بن قاسم کے انجام کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ سلیمان بن عبد الملک کے بدلے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دراصل سلیمان بن عبدالملک حجاج کو سخت ناپسند کرتا تھا اور ایسا ہی معاملہ حجاج کا بھی تھا۔ عبدالملک بن مروان نے مرتے وقت اپنے بیٹوں ولید اور سلیمان دونوں کو یکہ بعد دیگرے خلیفہ نامزد کیا۔ ولید کیونکہ بڑا تھا تو وہ پہلے خلیفہ بنا۔ ولید نے اپنی خلافت کے آخری دور میں سلیمان کی بجائے اپنے بیٹے عبد العزیز کو خلیفہ بنانے کی کوشش شروع کی اور اس میں سب سے اہم کردار حجاج بن یوسف کا تھا۔ حجاج نے اپنے ماتحت گورنروں سے سلیمان کی بیعت توڑ کر عبدالعزیز کی بیعت کروا بھی لی، اس میں قتیبہ بن مسلم الباہلی اور موسی بن نصیر بھی شامل تھے جنہوں نے حجاج کے کہنے پر عبدالعزیز کی بیعت کی۔ ایسا ہی کچھ کرنے کو حجاج نے محمد بن قاسم کو کہا مگر اس نے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلیمان کو حجاج نے اقتدار سے تقریباً محروم کر دیا تھا مگر سلیمان کی قسمت کے حجاج بن یوسف کو موت نے آ لیا یوں ولید کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا اور ایک سال بعد ولید بھی مر گیا جس کے بعد سلیمان اقتدار میں آیا اور اس نے حجاج سے بدلہ لینے کے لیے اس کے تعینات کردہ لوگوں کو سزا دی۔ قتیبہ بن مسلم الباہلی ، موسی بن نصیر اور محمد بن قاسم سلیمان کے اس انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس میں محمد بن قاسم اس لحاظ سے بدقسمت تھا کہ اس نے تو سلیمان کی بیعت بھی نہیں توڑی تھی اور پھر مرکز خلافت سے دور ہونے کی وجہ سے وہ حجاج کی سیاست میں بھی شریک نہیں تھا۔ حجاج بن یوسف نے اپنے دور میں مہلب بن ابی صفرہ سے شدید عداوت پیدا ہوئی مگر مہلب عبدالملک بن مروان کے قریب تھا تو حجاج اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ حجاج کو مہلب کے بیٹے یزید بن مہلب سے بھی نفرت تھی وہ رعب و دبدبے اور تفاخر والا شخص تھا۔ عبدالملک کے دور میں ہی مہلب کا انتقال ہؤا تو یزید بن مہلب ابن الاشعث کی بغاوت کے زمانے میں خراسان کا گورنر بھی رہا۔ عبدالملک کے انتقال کے بعد ولید جب اقتدار میں آیا تو حجاج کو اپنی باتیں منوانے کا موقع ملا اس نے یزید اور اس کے بھائی کو قید کروا کر ان پر شدید سختیاں کیں۔ یہ بالآخر قید سے بھاگ کر سلیمان کے پاس چلے گئے حجاج نے سلیمان سے ان کو چھڑانے کی کافی کوشش کی مگر وہاں تک حجاج کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تھے۔ حالانکہ حجاج نے ایک دفعہ سلیمان کو دھمکی بھی دی تھی۔ یزید بن مہلب اور اس کے بھائی حجاج کی یہ بدسلوکی کبھی فراموش نہیں کر سکے اور جب سلیمان خلیفہ بنا تو اس کا بدلہ انہوں نے محمد بن قاسم سے لیا۔ محمد بن قاسم کو یزید بن ابی کبشہ کسکی نے دربار خلافت کے حکم پر گرفتار کیا اس نے بغیر مزاحمت اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا۔ محمد بن قاسم کو یقین تھا کہ اس کا لحاظ رکھا جائے گا کیونکہ اس کی جانب سے ایسا کوئی فعل سرزد نہیں ہوا تھا کہ وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مگر اس کو واسط میں یزید بن مہلب نے قید میں ڈالا جہاں کی وہ اذیتیں برداشت نہ کرسکا اور جاں بحق ہو گیا۔
محمد بن قاسم کو جب یزید بن ابی کبشہ نے گرفتار کیا تو اس نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے جن میں سے ایک شعر کا ترجمہ یوں ہے
“مجھے ضائع کیا گیا اور کیسے جوان مرد کو ضائع کیا کہ (جو جنگ کے) کسی نازک دن اور سرحد کی حفاظت کے لیے کام آتا”
سندھ کی تاریخ اور برصغیر میں مسلم تاریخ کے حوالے سے چچ نامہ صف اول کی کتاب ہے اور اس کی حیثیت باوجود اس کی کمزوریوں کے کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی پھر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب جیسی مستند شخصیت نے اس کی بیشتر کمزوریوں کا بھی ازالہ کر دیا ہے جس سے اس کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ کوئی اس کی مستند ماخذ نہ بھی تصور کرے مگر اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تبصرہ لکھنے سے پہلے میں نے اشفاق احمد صاحب جو کہ استاد ہیں اور سندھ کی تاریخ سے خصوصی دلچسپی بھی رکھتے ہیں اور سندھ کی تاریخ کے حوالے سے ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں ان سے تفصیلی گفتگو کی اور ان کی راہنمائی کی وجہ سے مجھے اس کتاب کی اہمیت اور پھر اس کے مستند اور غیر مستند مواد کے حوالے سے جاننے میں کافی مدد ملی۔ بہت سی باتیں جو کتاب پڑھ کر مجھے سمجھ نہیں آئیں ان سے بات کر کے سمجھ میں آئیں ان کی مدد کے بغیر اس کتاب پر بات کرنا میرے لئے ممکن نہیں تھا
کمنت کیجے