Home » تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط سوم
تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت سیاست واقتصاد

تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق : قسط سوم

تجدد اور اس کا فکری و تہذیبی سیاق و سباق

جدید کاری کا عمل کسی حکومت کے منظم سیاسی اور معاشی ایجنڈے کے تحت ہی واقع ہو سکتا ہے جیسے کہ جاپان، چین اور جنوبی کوریا وغیرہ میں ہوا اور غیرمنظم انداز میں بھی واقع ہو سکتا ہے جیسے کہ تیسری دنیا یا عالمی جنوب (Global South) کے معاشروں میں سامنے آ رہا ہے۔ ماڈرنائزیشن میں عملی پہلوؤں کو اولیت دی جاتی ہے اور خیال یہ ہے کہ انسان کا عمل اور رویے بدلنے سے ایک دن انسان کا ذہن بھی بدل جاتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جدید معاشی پیداواری عمل اور آرگنائزیشن آخرکار جس سسٹم کو واقعاتی طور پر قائم کرتے ہیں وہ انسان کی تشکیل نو کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مذہبی معاشرے کا انسان اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ ابھی مذہبی ہی ہے، لیکن واقعتاً اس کی پوری تشکیل سسٹم کے دباؤ میں اور اس کے ساتھ سازباز میں مکمل طور پر سیکولر ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ عام ہے کہ مذہبی شکل رکھنے والا انسان عبادات میں پورا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ گھر، گلی، بازار، دکان، دفتر، سکول، مدرسے اور مسجد میں کسی مذہبی کردار کا پرتو بھی اس میں نطر نہیں آتا۔ نئی خودی کا حامل یہ نیا انسان ہے جو مستعمَر معاشروں میں سامنے آیا، اور اس نئے انسان کے حقیقی کردار، مذہبی اعمال اور ذہنی خیالات میں کوئی نامیاتی ربط باقی نہیں رہتا۔ اپنے مزاج اور مفاد سے آگے یہ فرد اس دنیا کو اور اپنے آپ کو دیکھنے کی کوئی استعداد ہی سرے سے پیدا نہیں کر پاتا۔ برصغیر میں جدید کاری/ماڈرنائزیشن استعمار کے تحت واقع ہوئی ہے، اور اولین ماڈرنائزیشن عسکری، معاشی اور فرمانروائی کے اداروں میں سامنے آئی یعنی معاشرے کے اجتماعی اداروں میں۔ مابعد، جدید تعلیم اور جدید معاشی عمل کے تحت جدید کاری/ماڈرنائزیشن پورے معاشرے میں پھیلتی چلی گئی۔ جدید کاری کے حوالے سے یہ امر طے کرنا ضروری ہے کہ ماڈرنائزیشن کے پراسث میں انسانی ایجنسی معروف (active) ہے یا مجہول (passive)۔ دنیا بھر کے مستعمَر معاشروں میں جدیدکاری کا عمل ان کی مجہولیت (passivity) سے مشروط ہے۔

مارکسی فکر نام نہاد ’سائنسی مادیت پرستی‘ (Scientific Materialism) اور تاریخی جدلیات میں نئے معاشی رشتوں اور ان کی مطلق اولیت اور اہمیت پر بہت زور دیتی ہے۔ یہاں ایک اہم نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جدید معاشی رشتے اپنے ظہور میں اصلاً صنعتی ہیں، اور صنعتی معاشی رشتے تنظیم (organization) کے بغیر قائم ہی نہیں ہو سکتے۔ تنظیم/آرگنائزیشن کی درست تعریف یہ ہے:

  Organization,      an       entity       set up       by       the force         of        law,       is       a       principle       of       power       and production

اس لیے یہ کہنا کہ جدید معاشی رشتے نئے انسان کی مکمل تشکیل کرتے ہیں درست نہیں ہے۔ تنظیم /آرگنائزیشن اپنے قائم کردہ ڈسپلن کے ذریعے طاقت اور اتھارٹی کی deployment پہلے ہے اور باقی سب کچھ بعد میں ہے۔ اگر ذرا گہرائی میں دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ نئے انسان کی تشکیل معاشی ضرورت سے کہیں زیادہ تنظیم /آرگنائزیشن کے قائم کردہ داخلی ضوابط اور ڈسپلن کے ذریعے ہوئی ہے۔ یہ کہنا قرین حقیقت ہے کہ نئی خودی کے حامل نئے انسان کی تشکیل میں جدیدیت کی پیداکردہ طاقت کی نئی ہیئتوں کا دخل بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

آگے چلنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تجدد (Modernism) اور جدید کاری (modernization)، جدیدیت (Modernity) کے بڑےمظاہر میں سے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں جدیدیت کی ایک بڑے تہذیبی مظہر اور علمی مبحث کے طور پر تفہیم ابھی شدید فکری پسماندگی کا شکار چلی آتی ہے، اس لیے تجدد اور جدید کاری کے تصورات بھی بہت حد تک غیر واضح ہیں۔ تصور اور عمل دونوں سطح پر تجدد اور جدید کاری، جدیدیت کی ہی کوکھ سے پیدا ہونے والے مظاہر ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جدیدیت ایک بہت بڑا تصور ہے اور تجدد اور جدید کاری اس کے عملی پہلو ہیں۔ یعنی جدیدیت باہم مربوط لیکن دو دھاروں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ اس پہلو کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ تجدد ’دنیا‘ یعنی معاشرے، کلچر اور تاریخ میں اپنے مظاہر سامنے لاتا ہے جبکہ جدیدکاری/ماڈرنائزیشن طبائعِ فطرت میں بڑی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جو بالآخر ایک سسٹم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

جدید کاری/ماڈرنائزیشن کا مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ ایک واقعاتی اور عملی صورت حال ہے اور کہیں زیادہ گہرائی سے تفہیم کا تقاضا کرتی ہے۔ مغرب میں جدیدیت کے ساتھ ہی جدید کاری/ماڈرنائزیشن دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوئی اور اس میں اہم ترین عوامل استعمار اور نوآبادیاتی توسیع تھی۔ استعمار کے پیدا کردہ سیاسی، معاشی اور طبعی مؤثرات نہایت شدت کے ساتھ ظاہر ہو کر دنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے۔ میں بارہا یہ عرض کر چکا ہوں کہ جدیدیت انسانیت کے احوال ہستی (human        condition) میں تبدیلی سے عبارت ہے، اور جدیدیت احوال ہستی میں جو تبدیلی پیدا کرتی ہے وہ جدید کاری/ماڈرنائزیشن کے ذریعے سے سامنے آتی ہے۔ اس طرح جدید کاری/ماڈرنائزیشن اب احوالِ ہستی (human        condition) کا اٹوٹ حصہ ہے جسے undo نہیں کیا سکتا۔ تجدد کے روبرو انسانی اختیار کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہتا ہے لیکن جدیدکاری میں انسانی اختیار کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ تجدد کا سامنا کرنا ہماری اولین دینی اور تہذیبی ضرورت ہے ورنہ کچھ بچنے کا نہیں ہے، اور جدید کاری/ماڈرنائزیشن کی مخالفت کرنا نری حماقت ہے۔ مثلاً ریل گاڑی میں سفر کرنا جدید کاری/ماڈرنائزیشن ہے۔ تو کیا ریل گاڑی میں سفر کرنے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے؟ دوسری طرف انکار وحی اور عقل کا خود مختار و خود مکتفی ہونا جدیدیت کا بنیادی تصور ہے اور وہ تجدد میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اسے مانتے ہی مسلمان کافر ہو جاتا ہے۔ human condition میں ظاہر ہونے والی جدید کاری/ماڈرنائزیشن سے انکار خود کشی ہے۔ تجدد کا سامنا کرنا اور جدید کاری/ماڈرنائزیشن کو ممکن بنانا وقت کی دینی ضرورت ہے۔

ماڈرنائزیشن کے حوالے سے دو سوالوں کو زیربحث لانا اور ان کو حل کرنا ہمارے مسلمان رہنے کے لیے ضروری ہے۔ ایک، جدید کاری/ماڈرنائزیشن کی اساس آرگنائزیشن ہے۔ ایک ایسی آرگنائزیشن جو ہمارے تصور حیات اور دینی ضروریات سے توافق رکھتی ہو، اس کی ہیئت کو دریافت کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ دوم، نئے احوال ہستی میں ایسی ثقافت کی تشکیل کرنا جو دین کی حکمی ہیئتوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنی انسانی ایجنسی کو بروئے کار لائے بغیر ایک مجہول (passive) انداز میں جدید کاری کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ نہایت احمقانہ طور پر جدیدیت کے خلاف شور بھی مچاتے جا رہے ہیں۔

ماڈرنائزیشن اپنی اصل میں معیشت میں ایک پیداواری عمل کی صورت میں سامنے آتی ہے اور اس سے real       economy اور اس کے سپر اسٹرکچر یعنی financial       system میں ایک بہت بنیادی نوعیت کا تفاوت پیدا ہو جاتا ہے۔ سود کا مسئلہ بنیادی طور پر مالیاتی نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری کے پیداواری عمل میں نہایت سنگین نوعیت کے مسائل ہیں جن کا شرعی حل سامنے لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس میں سب بڑا اور بنیادی مسئلہ فرد کی alienation اور dehumanization ہے۔ اگر ہم پیداواری عمل کی آرگنائزیشن کو سمجھتے ہوں اور اس کے انسانی اور دینی مضمرات سے واقف ہوں تو ان نتائج سے بآسانی بچا جا سکتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ قدرِ زائد کا ہے۔ پیداواری عمل کے دیگر پہلوؤں کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن یہ دو بڑے مسئلے ہیں۔ اول مسئلہ شرعی طور پر شرفِ انسانیت کے منافی ہے، اور دوسرا شرعی عدل کی نفی کرتا ہے۔ صرف سود کے حرمت کی بات کر کے آج کی دنیا میں کوئی بھی اسلامی معاشی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پیداواری عمل کا مسئلہ کہیں زیادہ اساسی ہے اور اس کی شرعی حیثیت کا تعین کرنا ایک اسلامی معاشی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ماڈرنائزیشن کا مسئلہ تقدیری نوعیت کا ہے، اور اس کی مخالفت کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے۔ ماڈرنائزیشن کے عمل کو بطور مسلم تھیورائز کر کے ہم ایک عادلانہ مذہبی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ اپنی موجودہ ہیئت میں تجدد ہمارے عقیدے اور عمل دونوں کو متاثر کر رہا ہے اور ماڈرنائزیشن مسلم معاشروں کو بتدریج سیکولر بناتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری بےخبری ہے۔ مجھے اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ اسلام ہمیں وہ مکمل انسانی اور ہدایتی وسائل فراہم کرتا ہے کہ ہم ان دونوں کا سامنا کر سکیں۔ میری خواہش اور کوشش ہے کہ تجدد اور جدیدکاری کو ان پوری جزیات کے ساتھ بیان کیا جائے اور ان کی ضروری پہلوؤں کی نشاندہی کی جائے جن کو تبدیل کر کے ہم جدید دنیا میں باعزت امت کی حیثیت پھر سے حاصل کر سکیں۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں