Home » مبارک احمد کیس کی آخری سماعت کا احوال
احوال وآثار فقہ وقانون

مبارک احمد کیس کی آخری سماعت کا احوال

29 مئی 2024  کا دن اسلام آباد میں گزرا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی کے زیر اہتمام اجتہاد بالمقاصد کے عنوان سے تین روزہ کانفرنس کے ایک سیشن میں شرکت کے لیے وعدہ تھا۔ پھر معلوم ہوا کہ اسی دن سپریم کورٹ میں مبارک احمد کیس کی آخری سماعت بھی مقرر کی گئی ہے تو اس میں بھی شرکت کا ارادہ بن گیا۔  (اس مقدمے سے متعلق کچھ ضروری تفصیل ہماری ایک سابقہ تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے۔) کانفرنس کے منتظمین سے گزارش کی کہ سیشن کا وقت سہ پہر میں رکھ لیا جائے جو منظور کی گئی۔ یوں صبح ساڑھے گیارہ سے تقریبا ڈھائی بجے تک سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت دیکھنے کا موقع مل گیا۔

مقدمے میں، میں کوئی فریق نہیں تھا۔ البتہ عدالت کی جانب سے المورد کو راہنمائی کے لیے جو نوٹس بھیجا گیا، اس کے جواب میں ادارے کی طرف سے مختلف تحریریں جو عدالت کو بھجوائی گئیں، ان میں میری تحریر بھی شامل تھی۔ اس مناسبت سے میں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواست بھیج دی کہ اگر میری اس تحریر کے حوالے سے مجھے بھی اپنا نقطہ نظر عدالت کے سامنے پیش کرنے کا موقع دیا جائے تو مناسب ہوگا۔ چنانچہ عدالت کی طرف سے اس سماعت میں جن مختلف اداروں اور افراد کو نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ عدالت میں حاضر ہوں، ان میں میرا نام بھی شامل تھا۔ خیال یہی تھا کہ اگر موقع ملا تو میں کچھ معروضات زبانی بھی پیش کر دوں گا۔

یہاں سماعت کے آغاز سے پہلے ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب اور برادرم عبد الرحمن ایڈووکیٹ صاحب کے ساتھ مقدمے کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ کمرہ عدالت مذہبی اداروں کے نمایندوں سے معمور تھا۔ عدالت سے باہر بھی لبیک لبیک کے نعرے لگاتا ہوا ایک گروہ موجود تھا۔ کمرہ عدالت میں ایک نشست پر مولانا اللہ وسایا صاحب پر نظر پڑی تو میں سلام کرنے کے لیے چلا گیا۔ کافی سال کے بعد ملاقات ہوئی تھی تو مولانا نے پہچانا نہیں۔ پھر کچھ دیر کے بعد شاید کسی نے بتایا تو مولانا اٹھ کر میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ معذرت چاہتا ہوں، میں آپ کو پہچان نہیں سکا تھا۔ یہ مولانا کا بڑا پن تھا۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ۔ آمین

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے ان اداروں کا موقف سننے کو ترجیح دیں گے جن کو نوٹس بھیجا گیا اور پھر بعد میں انفرادی طور پر بات کرنے والوں کو موقع دیا جائے گا۔ چنانچہ دارالعلوم کراچی، جامعہ نعیمیہ کراچی، جامعہ امدادیہ اور انجمن خدام القرآن کا مرتب کردہ مشترکہ تحریری موقف لفظ بلفظ عدالت میں سنا گیا۔ اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کو دعوت دی گئی اور ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب نے کونسل کا موقف بھی پڑھ کر سنایا اور اس کے ساتھ عدالت کی اجازت سے خود ذاتی طور اپنی لکھی ہوئی تحریر کے بھی مختلف حصے پیش کیے۔ اس کے بعد جامعہ محمدیہ غوثیہ کی نمائندگی کرنے والے مفتی صاحب نے مختصر مگر جامع انداز میں دینی حلقوں کے تحفظات عدالت کے سامنے پیش کیے۔ ان کے اختصار اور ٹو دی پوائنٹ گفتگو کو حاضرین نے بھی بہت پسند کیا اور چیف جسٹس صاحب نے بھی اس کی تحسین کی۔

اس کے بعد اور کسی ادارے کا نمائندہ موجود نہیں تھا تو چیف جسٹس نے ڈاکٹر عمیر محمود کو ہی مامور کیا کہ وہ جامعہ العروۃ الوثقی لاہور کے بھیجے ہوئے موقف کے کچھ حصے پڑھ کر سنا دیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے انفرادی رائے پیش کرنے والوں کو موقع دینے کی بات کی اور فہرست میں سے میرا نام بول کر پوچھا کہ کیا یہ موجود ہیں؟ اس موقع پر حاضرین میں سے متعدد علماء اکٹھے ہو گئے اور عدالت سے کہا کہ انفرادی طور پر کسی کو نہ سنا جائے اور صرف اداروں کے نمائندوں کو موقع دیا جائے۔ اس پر کافی رد وقدح ہوتی رہی۔ چیف جسٹس کہتے رہے کہ آج ہم سب کو سننا چاہ رہے ہیں ، لیکن مذہبی نمایندے اور بعض وکلاء یہ کہتے رہے کہ اس سے فیصلہ متنازعہ ہو جائے گا۔ آخر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر آپ حضرات اس سے متفق ہیں کہ ہم کسی بھی انفرادی رائے کو یہ موقع نہ دیں؟ علماء نے کہا کہ ٹھیک ہے، باقی افراد کو بھی نہ سنا جائے، لیکن عمار ناصر کو بالکل یہ موقع نہ دیا جائے۔ چنانچہ اس نکتے پر عدالت اور مذہبی نمائندگان کے مابین اتفاق ہو گیا۔

مجموعی طور پر یہ آخری سماعت اس حوالے سے مفید اور مثبت رہی کہ مذہبی اداروں اور تنظیموں کو، جیسے وہ چاہتے تھے، اپنے اطمینان کے مطابق تفصیلاً‌ اپنے اعتراضات عدالت کے سامنے رکھنے کا پورا موقع ملا۔ کسی اختلافی نقطہ نظر کو عدالت میں نمایندگی کا موقع نہ دینا  بھی شروع سے مذہبی مطالبات کا ایک حصہ تھا۔ وہ بھی اس موقع پر پورا ہو گیا۔ یوں اس شکایت یا اعتراض کا امکان نہیں رہا کہ مذہبی جماعتوں کو ان کا موقف یا استدلال موثر انداز میں پیش کرنے نہیں دیا گیا۔ پورے مذہبی طبقے کی بھرپور نمائندگی ہوئی اور کسی بھی پہلو سے اس نمایندگی میں تشنگی نہیں رہی۔  فیس بک پر مختلف پوسٹوں سے بھی یہ واضح ہے کہ مذہبی جماعتیں اور نمایندے کمرہ عدالت میں اپنی کارکردگی پر بہت خوش اور مطمئن ہیں اور اسے کامیابی تصور کرتے ہیں۔

عدالت ان استدلالات سے کتنا متاثر ہوئی، یہ تو ظاہر ہے، فیصلہ سامنے آنے پر پتہ چلے گا، لیکن آخری سماعت جس انداز میں منعقد کرنے کا اہتمام کیا گیا، اس کے بعد کم سے کم فیصلے پر یک طرفہ یا ناکافی معلومات پر مبنی ہونے کا اعتراض نہیں کیا جا سکے گا۔ یہی اس سماعت کا سب سے مثبت اور مفید پہلو تھا۔

سماعت کے دوران میں چیف جسٹس مختلف مذہبی نکات سے متعلق سوالات بھی پوچھتے رہے اور جوابات پر اپنے کمنٹس بھی دیتے رہے۔ دو چیزیں وہ بہت وضاحت سے حاضرین کو سمجھانا چاہ رہے تھے، لیکن صاف معلوم ہو رہا تھا کہ بعینہ یہی دو باتیں حاضرین کے ہاں register نہیں ہو رہیں اور وہ اپنی ہی ایک ذہنی دنیا میں پوری کارروائی کو دیکھ رہے ہیں۔

پہلی بات چیف جسٹس نے بہت وضاحت سے یہ بتائی کہ عدالت آئین اور قانون کے تحت فیصلہ کرنے کی پابند ہے اور اپنے طور پر کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔ اگر آئین یا قانون میں کوئی چیز دینی لحاظ سے قابل اعتراض ہے تو اس کے لیے برابر والی عمارت یعنی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں یہ ادارہ اپنے اس معین قانونی کردار سے تجاوز بھی کرتا رہا ہے، لیکن موجودہ عدالت اس تجاوز کی قائل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے یہ نکتہ واضح کرنے کے لیے آئین کی دفعہ ۲۰ حاضرین کو پڑھوا کر سنائی جس میں مذہبی اقلیتوں کو دی گئی ضروری ضمانتوں کا ذکر ہے اور یوں واضح کیا کہ عدالت نے کیوں ملزم کے خلاف ایک اقلیتی گروہ کے مخصوص تعلیمی ادارے کے اندر اسی مذہبی کمیونٹی کے طلبہ کو کوئی ’’ممنوعہ “ کتاب تقسیم کرنے پر مقدمہ درج کرنے کو خلاف قانون قرار دیا ہے۔

تاہم اس وضاحت کا حاضرین اور دینی نمائندوں کی گفتگو پر ذرہ برابر بھی کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا تھا اور وہ ساری گفتگو اس اسلوب میں کر رہے تھے جیسے گویا عدالت ان کے بیان کردہ مذہبی دلائل کی روشنی میں قانون بنا بھی سکتی ہے اور اگر موجود قانون میں کوئی سقم یا خلا ہے تو اس کو درست بھی کر سکتی ہے۔ یہ ایک بہت واضح gap تھا جو عدالت کی پوزیشن اور مذہبی نمائندوں کی توقعات یا فہم کے مابین مسلسل موجود رہا۔

دوسری بات چیف جسٹس نے بہت کھل کر اور قدرے جارحانہ انداز میں یہ کہی کہ ہم نے مذہبی اداروں اور اسلامی نظریاتی کونسل سے مدد قانون کی تعبیر اور تشریح کے ضمن میں نہیں مانگی کہ وہ آ کر ہمیں قانون سمجھائیں اور بتائیں کہ قانون کی رو سے فیصلہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کونسل سے قانون سیکھنے کے لیے رجوع نہیں کیا اور نہ قانون کی تشریح میں کونسل کو عدالت پر کوئی ترجیح حاصل ہے۔ قانون کی تشریح عدالت کا کام ہے اور عدالت یہ کام قانونی ماہرین کی مدد سے بہتر کر سکتی ہے۔ مذہبی اداروں اور نمائندوں سے صرف یہ راہنمائی مانگی گئی ہے کہ عدالتی فیصلے میں قرآن مجید کی جن آیات اور مذہبی اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے بیان میں کیا غلطی یا کمزوری ہے جس کو درست کیا جا سکتا ہے۔ یہاں چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ہم انسان ہیں اور ہم سے غلطی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی دینی مفہوم کے بیان میں غلطی پائی جاتی ہے تو عدالت اس کو درست کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔

یہ نکتہ بھی چیف جسٹس کی کھلی صراحت کے باوجود حاضرین تک نہیں پہنچا اور مسلسل مختلف قسم کے مفت قانونی مشورے اور تجاویز عدالت کے سامنے پیش کی جاتی رہیں جن کا مفاد یہ تھا کہ جیسے بھی ہو سکے، مقدمے کا فیصلہ کسی نہ کسی طرح مذہبی موقف کے حق میں کر دیا جائے۔

ان دو بنیادی حوالوں سے نہ عدالت کی بات علماء کرام کے لیے قابل فہم ہو سکی اور نہ علماء کرام کا انداز نظر عدالت کے ہاں بار پا سکا۔ اس سے ہٹ کر مذہبی موقف اور دلائل کی ماشاء اللہ بہت جاندار اور تفصیلی ترجمانی سبھی نمائندوں نے کی۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

میں سماعت کے دوران میں ساری گفتگو کی روشنی میں نوٹس لیتا رہا اور ایک مختصر سی تحریر وہیں بیٹھے ہوئے مرتب کی تاکہ اگر موقع ملے تو زبانی وضاحت کے ساتھ تحریری طور پر بھی اپنا نقطہ نظر عدالت کے سامنے رکھ دیا جائے۔ وہ تحریر یہاں افادہ عام کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

“عدالتی فیصلے پر مذہبی اداروں اور راہنماؤں کی طرف سے سامنے آنے والے تحفظات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ آیا فیصلے میں مذہبی آزادی کے قرآنی اصول اور آئینی ضمانتوں کا ذکر کرنا مناسب اور برمحل تھا یا نہیں؟ اس ضمن میں دار العلوم کراچی، جامعہ نعیمیہ اور جامعہ امدادیہ سمیت پانچ دینی اداروں کی طرف سے پیش کردہ مشترکہ موقف میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’لا اکراہ فی الدین“ کی آیت کا مفاد یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو جبراً‌ اس کے مذہب سے برگشتہ کر کے اسلام میں داخل نہ کیا جائے۔ چونکہ اس مقدمے میں ایسی کوئی صورت حال نہیں تھی، اس لیے اس آیت کا حوالہ غیر متعلق ہے۔

ہماری رائے میں یہ استدلال تو بہت ہی بے وزن ہے۔ اکراہ کے مفہوم میں صرف کسی کو زبردستی اس کے مذہب سے ہٹانا شامل نہیں، بلکہ کسی کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنا اور اس میں رکاوٹ کھڑی کرنا بھی اکراہ کے تحت آتا ہے۔ چونکہ اس مقدمے میں ایک اقلیتی مذہب کے ماننے والے کو اپنے خاص تعلیمی ادارے میں اپنے طلبہ کو اپنی مذہبی کتاب تقسیم کرنے پر مجرم ٹھہرایا گیا ہے، اس لیے یہ واضح طور پر ’’اکراہ “ کا معاملہ ہے اور عدالت نے اس اصول کا حوالہ بالکل برمحل دیا ہے۔

زیر بحث مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس اصول کا ذکر ایک دوسرے حوالے سے بھی بہت مناسب بلکہ ضروری تھا۔ اگر بنیادی اصول کی وضاحت کے بغیر عدالت صرف اس پر اکتفا کرتی کہ ملزم مبارک احمد نے جس وقت (یعنی ۲۰۱۹ء میں) متنازعہ کتاب تقسیم کی، اس وقت یہ عمل جرم نہیں تھا اور بعد میں (۲۰۲۱ء میں) اسے جرم قرار دیا گیا تو اس کا اثر صرف اس مقدمے تک محدود رہتا۔ جبکہ عدالت کا مدعا یہ واضح کرنا تھا کہ جس قانون کے تحت یہ مقدمہ درج کروایا گیا، وہ قادیانیوں کے تعلیمی اداروں کی اندرونی سرگرمیوں پر سرے سے اثرانداز ہی نہیں ہو سکتا۔ قادیانیوں کی تفسیر قرآن چاہے مسلمانوں کے ہاں تحریف سے عبارت ہو، لیکن اگر وہ اپنے متبعین کو اپنے تعلیمی اداروں میں یہ چیزیں پڑھاتے ہیں یا ایسا مواد ان کو فراہم کرتے ہیں تو طباعت قرآن کے قانون کے تحت یا کسی بھی دوسرے قانون کے تحت اس کو جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

آئین کی دفعہ ۸ کی رو سے اگر ایسا کوئی قانون بنایا بھی جائے تو وہ کسی بنیادی حق کو متاثر نہیں کر سکتا، اور اس کے بجائے ایسا قانون بجائے خود کالعدم تصور کیا جائے گا۔ عدالت کی طرف سے یہ وضاحت ظاہر ہے، متعلقہ آئینی دفعات اور لا اکراہ فی الدین کے اصول کی روشنی میں ہی کی جانی چاہیے تھی اور عدالت نے یہی کیا ہے۔ اس سے آئندہ بھی اس قانون کے غلط اطلاق کا سدباب ہو گیا ہے، اس لیے اس کو فیصلے میں شامل رہنا چاہیے۔

البتہ ایک جزوی پہلو سے مذہبی نمائندوں کے تحفظات میں وزن دکھائی دیتا ہے۔ وہ یہ کہ فیصلے میں قادیانیوں کے حوالے سے مذہبی آزادی کے اصول کا ذکر مطلق انداز میں ہوا ہے اور وہ ضروری پابندیاں جو دوسری اقلیتوں سے ہٹ کر خاص طور پر قادیانیوں کے لیے قانون میں موجود ہیں، ان کا ذکر نہیں ہو سکا۔ مثلاً وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے اور اپنے مذہب کی مسلمانوں کو تبلیغ نہیں کر سکتے اور اسلامی شعائر کے استعمال سے لوگوں کو دھوکے اور التباس میں نہیں ڈال سکتے۔ ان تحدیدات کے ذکر کے بغیر فیصلے سے ظاہری طور پر یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ دوسری مذہبی اقلیتوں اور قادیانیوں کے فرق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے یا اس فرق کی اہمیت کم کی جا رہی ہے۔ اس لیے فیصلے کے پیرا نمبر 9 میں مذہبی آزادی کے اصول کے ساتھ قادیانی گروہ کی امتیازی حیثیت کا بھی ذکر کر دیا جائے تو مذہبی تحفظات کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں اور یہ ظاہری التباس بھی دور ہو جاتا ہے کہ قادیانیوں کے لیے دوسری اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب کی تبلیغ وغیرہ کا حق تسلیم کیا جا رہا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم”

————————

عدالت کے نقطہ نظر کا بنیادی نکتہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ تھا  کہ اگر آئین یا قانون میں کوئی خلا ہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔  یہ آئینی وقانونی طور پر  درست موقف ہے، البتہ مذہبی طبقوں کی طرف سے یہ راستہ اختیار کیا جانا  اس لیے مشکل دکھائی دیتا ہے  کہ یہ بحث دوبارہ پارلیمنٹ میں لے جانا پورے مسئلے کو ری اوپن کیے بغیر ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ پچاس سال میں کافی نئے سوالات اور الجھنیں سامنے آ چکی ہیں۔ اس مشکل کا احساس دینی قیادت کو ہے اور اسی لیے چودہ پندرہ سال پہلے دینی قیادت اس امکان کی واضح نفی کر چکی ہے جس کی تفصیل والد گرامی مولانا زاہد الراشدی  کی تحریر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم کسی دوسرے موقع پر واضح کریں گے  کہ کس کس نوعیت کے پیچیدہ سوالات دوبارہ اس بحث میں سامنے ہوں گے جن سے نمٹنے کی قطعاً‌ کوئی تیاری یا صلاحیت موجودہ مذہبی قیادت میں دکھائی نہیں دیتی۔

البتہ  ہماری رائے میں آئینی وقانونی پوزیشن کے حوالے سے عدالت کو طباعت قرآن سے متعلق قانون کی شق نمبر ۷  میں پائے جانے والے  بنیادی نوعیت کے ابہامات پر ضرور روشنی  ڈالنی چاہیے  جس کے تحت ملزم مبارک احمد پر  زیر بحث مقدمہ  درج کیا گیا ہے۔ یہ قانون بنیادی طور پر وفاقی حکومت نے ۱۹۷۳ء میں بنایا تھا اور  اس کی شق نمبر ۷  قرآن مجید کے ترجمہ اور تعبیر وتشریح سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اگر کوئی غیر مسلم قرآن کی کسی آیت کی ایسی تشریح یا ترجمہ کرے جو مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہو تو مصنف، پرنٹر اور ناشر مستوجب سزا ہوں گے۔

اس میں پہلا ابہام تو یہ ہے کہ کیا اس کا مقصد غیر مسلم مصنفین کو پابند بنانا ہے کہ وہ قرآن کی تشریح مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہی کریں؟ مثلاً‌ مسیحی مناظرانہ ادب میں قرآن کی مختلف آیات سے حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور تثلیث وغیرہ کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے جو ظاہر ہے، مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف ہے۔ کیا اس قانون کا مدعا یہ ہے کہ کوئی مسیحی مصنف اگر اپنی کتاب میں یہ استدلال پیش کرے تو وہ مستوجب سزا ہوگا؟

دوسرا ابہام اس قانون کے اس نئے version سے پیدا ہوتا ہے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد مختلف صوبوں کی طرف سے منظور کیا گیا ہے۔ اس نئے قانون کی رو سے صرف مصنف اور ناشر نہیں، بلکہ ایسے مواد کو تقسیم، اپ لوڈ، شیئر، کسی بھی شکل میں نقل یا کسی بھی الیٹکرانک ڈیوائس میں منتقل یا سائبر سپیس میں مہیا کرنے والا، اور جو اس کو ڈاون لوڈ کرے اور جس کے پاس ایسا مواد موجود ہو، سب مستوجب سزا ہیں۔ اس میں شاید کوتاہی سے ’’جس کے علم میں ایسا مواد ہو’’ شامل ہونا رہ گیا ہے۔ ابہام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے مواد کی نشان دہی یا تنقید کے لیے بھی اسے شیئر کرے یا مطالعہ وتحقیق کے لیے اس کے پاس ایسا مواد موجود ہو تو قانون میں اس کا استثنا ہے یا نہیں؟ بظاہر نہیں ہے، کیونکہ قانون کے الفاظ میں ایک ہی استثنا بیان کیا گیا ہے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ طباعت یا کسی مکینیکل فروگزاشت سے ایسا ہوا ہے۔

تیسرا ابہام پنجاب حکومت کے منظور کردہ قانون میں ہے۔ ۱۹۷۳ء کے اصل قانون میں اس کا اطلاق صرف غیر مسلم مصنف پر کیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں میں سے کے پی، بلوچستان، سندھ اور آزاد کشمیر سب نے اسی کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن پنجاب حکومت کے منظور کردہ قانون میں اس کا دائرہ ’’کسی بھی شخص’’ تک وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی اب اس کے تحت کسی مسلمان کو بھی قرآن کی غلط تشریح پر دھرا جا سکتا ہے۔ اس میں ابہام یوں ہے کہ مسلمانوں کے مابین جو اعتقادی اختلافات ہیں اور ہر فرقہ مختلف آیات کی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق تشریح کرتا ہے، ان میں سے کون سا عقیدہ قانون کے اطلاق کی بنیاد ہوگا؟ مثلاً‌ شیعہ مفسرین ’’اولی الامر’’ کی تشریح ائمہ معصومین سے کرتے ہیں اور بریلوی مفسرین مختلف آیات سے حضور علیہ السلام کا علم غیب وغیرہ ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث اور دیوبندی مفسرین مختلف آیات سے رسول اللہ اور اولیاء کے علم غیب اور تکوینی اختیار وغیرہ کی نفی کرتے ہیں۔ تو کیا مخالف فرقوں کے مسلمان ایسے مترجمین پر اس قانون کی رو سے مقدمہ درج کروا سکتے ہیں؟

یہ تمام ابہامات بہت سنگین ہیں اور  مقننہ یا عدلیہ کو جلد  انھیں موضوع بنانا پڑے گا۔

————————

آخر میں کچھ ضروری وضاحت ، مجھے عدالت میں  اپنا موقف پیش  کرنے کا موقع نہ دیے جانے کے حوالے سے بھی  مناسب ہے، کیونکہ  اس قضیے سے متعلق مختلف قسم کی قیاس آرائیاں   گردش کر رہی ہیں جو صورت واقعہ کی درست عکاسی نہیں کرتیں۔ مثلاً‌

  1. یہ کہ مذہبی نمائندوں نے اس بنیاد پر  میرا موقف سننے سے انکار کیا یا اس پر احتجاج کیا کہ میرا تعلق المورد سے یا غامدی صاحب کی فکر سے ہے۔
  2. یہ کہ مجھے عدالت میں گفتگو کا موقع دینا یا نہ دینا اس سماعت میں مذہبی نمائندوں کی حکمت عملی کا کوئی بنیادی حصہ تھا، کیونکہ وہ میرے استدلال کا سامنا کرنے میں کوئی پریشانی محسوس کر رہے تھے۔
  3. یہ کہ  عدالت نے   اس مقدمے سےمتعلق کوئی موقف یا تحریر پیش کرنے کی ایک تاریخ مقرر کی تھی  اور اس تاریخ کے گزرنے کے بعد  سماعت کے  لیے جو نوٹس جاری کیا گیا، اس میں میرا نام شامل نہیں تھا۔  لیکن پھر   بعد میں   دوبارہ جاری کیے جانے والے نوٹس میں میرا نام شامل کر دیا گیا جو عدالتی طریق کار اور ضابطے کے خلاف  تھا اور  اس میں   چیف جسٹس کے  سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے  کوئی غیر قانونی  کردار ادا کیا۔
  4. یہ کہ چیف جسٹس نے  سماعت کے موقع پر  پہلے خود ہی یہ کہا تھا کہ  عدالت صرف اداروں کے نمائندوں کو سنے گی، لیکن پھر  مجھے انفرادی حیثیت میں موقف پیش کرنے کے لیے کہا جس پر  مذہبی نمائندوں نے  کہا کہ عدالت خود ہی اپنے أصول  سے  انحراف کر رہی ہے۔

یہ تمام  قیاس آرائیاں  غلط مفروضات یا معلومات پر مبنی ہیں اور  ذیل میں بالترتیب ان کی حقیقت واضح کی جا رہی ہے۔

۱۔ المورد سے اس مقدمے میں معاونت کے لیے  رجوع کرنے کو  عدالت سے باہر مذہبی طبقوں کی طرف سے   چلائی گئی عوامی مہم میں تو یقیناً‌ تنقید کا نشانہ بنایا  گیا  تھا اور مذہبی اداروں کی طرف سے عدالت کے سامنے پیش کیے گئے  بعض تحریری مواقف میں بھی اس کی طرف أشارہ  موجود ہے، لیکن اس سماعت کے موقع پر   یہ نکتہ قطعاً‌ نہیں اٹھایا گیا،  بلکہ  یہ کہا گیا کہ المورد کی طرف سے عدالت کو بھیجے گئے خط میں یہ لکھا ہے کہ بطور ادارہ المورد  اس پر کوئی موقف نہیں رکھتا، اس لیےمیں (یعنی عمار ناصر ) یہاں ادارے  کے نمائندے کے طور پر پیش نہیں ہوا۔ بعض مذہبی نمائندوں نے  یہ بھی کہا کہ اگر  میرے پاس المورد کی طرف سے نمائندگی کا کوئی  اجازت نامہ ہے تو  وہ عدالت کو دکھایا جائے، ورنہ عدالت انفرادی حیثیت میں مجھے موقف پیش کرنے  کا موقع نہ دے۔

یہ سارا معاملہ پانچ سات منٹ سے زیادہ نہیں چلا اور کوئی ایسی بدمزگی بھی نہیں ہوئی جتنا عموماً تاثر پایا جاتا ہے۔  انگریزی روزنامہ ڈان نے اس واقعے کو بہت مناسب انداز میں رپورٹ کیا ہے ۔  یہ ایسا کوئی سنسنی خیز واقعہ نہیں تھا جیسا کہ اس کے بہت سے مویدین یا بعض مخالفین اپنے اپنے زاویے سے پیش کر رہے ہیں۔ میری حاضری ویسے بھی اس سماعت میں ضمناً‌ تھی۔ ہاں، اگر میں باقاعدہ فریق ہوتا اور کسی مذہبی استدلال کی بنیاد پر پر ایسی رکاوٹ کھڑی کی جاتی تو پھر یہ کہا جا سکتا تھا کہ کوئی زور زبردستی کی گئی ہے، لیکن واقعہ جس طرح پیش آیا، اس کی نوعیت یہ نہیں تھی۔

۲۔ اسی طرح یہ بات بھی زیادہ درست معلوم نہیں ہوتی کہ  مذہبی نمائندے میرے استدلال  کا سامنا کرنے میں  کوئی مشکل محسوس کر رہے تھے۔ اس مطالبے کا پس پردہ محرک دراصل یہ تھا کہ جب تمام مذہبی ادارے اور طبقات  ایک متفقہ موقف پیش کر رہے ہیں تو اس کے مقابلے میں  ایک اختلافی نقطہ نظر عدالت میں بیان نہ ہو۔  اس کے لیے ایک  تکنیکی نکتے کو بنیاد بنایا گیا  کہ اداروں کی باقاعدگی  نمائندگی کرنے والوں  کو ہی موقف پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس  حکمت عملی کی موزونیت پر یقیناً‌ بات ہو سکتی ہے  اور بہت سے حلقوں میں  یہ محسوس بھی کیا گیا ہے کہ  عدالت میں مخالف نقطہ نظر کو زیربحث نہ آنے دینا اور یک طرفہ طور پر  ایک ہی موقف کو ’’متفقہ’’ موقف کے طور پر   پیش کرنے پر إصرار کرنا غلط حکمت عملی تھی۔    تاہم یہ مذہبی حلقوں کا داخلی اختلاف ہے جس پر ہمیں کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

۳۔ عدالت کی طرف سے جاری کردہ پہلے نوٹس میں  میرا نام شامل نہ ہونے کا پس منظر یہ تھا کہ  میرا  شخصی حیثیت میں اس سماعت میں پیش ہونے کا کوئی ارادہ ابتدا میں نہیں تھا۔   البتہ جب ۲۹ مئی کو  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی کے زیر اہتمام اجتہاد بالمقاصد کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کے ایک سیشن میں  حاضری کا معاملہ منتظمین کے ساتھ  طے  پا گیا  تو   پھر یہ خیال ہوا کہ  مقدمے کی آخری سماعت   میں بھی شرکت کر لی جائے۔ اس تناظر میں، میں نے ۲۱ مئی کو ای میل کے ذریعے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو  ایک درخواست بھیج  دی جس میں یہ  لکھا گیا کہ اس مقدمے سے متعلق میری ایک تحریر ، من جملہ چند دیگر تحریروں کے، عدالت کے استفسار کے جواب میں  المورد کی طرف سے  بھیجی گئی تھی  جس کے ساتھ میں بطور  تحقیق کار وابستہ ہوں، اس لیے  مجھے ۲۹ مئی کی سماعت میں  اپنا نقطہ نظر   پیش کرنے کا موقع دیا جائے ۔ اس خط کی نقل اگلے دن کوریئر سروس کے ذریعے  بھی   رجسٹرار کو بھیج دی گئی تھی۔   میری اس درخواست کے بعد ہی  عدالت نے   نئے  نوٹس میں   میرا نام شامل کیا۔ میری  درخواست کو قابل غور  سمجھنے کی وجہ بظاہر یہ سمجھ میں آتی  ہے کہ  اس میں پہلے سے  عدالت میں جمع شدہ ایک تحریر کی  وضاحت کا  موقع طلب کیا گیا تھا اور عدالت اس کی اجازت دینے یا نہ دینے کا  صواب دیدی اختیار رکھتی تھی۔    اس لیے یہ نکتہ نہ تو  عدالت میں مذہبی نمائندوں کی طرف سے پیش کیا گیا  اور نہ اس میں کوئی قانونی وزن دکھائی دیتا ہے کہ  نئے نوٹس میں میرا نام  شامل کرنا خلاف ضابطہ تھا۔

۴۔ یہ بیان بھی بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے کہ چیف جسٹس نے شروع میں صرف اداروں کا موقف سننے کی بات کہی تھی اور پھر بعد میں اس سے انحراف کرتے ہوئے  مجھے موقع دینے کی کوشش کی۔ سماعت کی ابتدا میں چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم پہلے اداروں کو سننے کو ترجیح دیں گے، اس کے بعد افراد کو موقع دیں گے۔ اسی لیے عدالت کی طرف سے جاری کردہ نوٹس میں صرف مختلف اداروں کے نمائندوں کواس سماعت میں حاضر ہونے کے لیے نہیں کہا گیا، بلکہ  اداروں کے بعد مجھ سمیت بہت سے افراد کا نام بھی فہرست میں شامل تھا۔  یہاں موجود مختلف مذہبی نمائندوں میں اس پر اختلاف بھی  دکھائی دیا۔  سماعت کے شروع میں جب اداروں  کے نمائندوں کی طرف سے موقف پیش کرنے کا مرحلہ تھا تو  بعض  حضرات بار بار  ڈائس پر آ کر اپنی انفرادی حیثیت میں   بات کرنا چاہ رہے تھے،  لیکن عدالت نے ان کو بلا اجازت اور باری کا انتظار کیے بغیر بات کرنے سے روک دیا۔ پھر میرا نام پکارے جانے پر یہ حضرات دوبارہ اعتراض لے کر آ گئے کہ ہمیں کیوں موقع نہیں دیا گیا تو چیف جسٹس نے اس موقع پر پھر یہ کہا کہ   ہم سب کو سننا چاہتے ہیں اور  آپ کو بھی موقع دیں گے۔   تاہم جب مذہبی نمائندوں کی طرف سے إصرار کیا گیا کہ صرف اداروں کے نمائندوں  کو ہی سنا جائے اور عدالت نے  کچھ بحث کے بعد  یہ موقف مان لیا تو ظاہر ہے، پھر کسی کو بھی انفرادی حیثیت میں موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں