Home » مرزائی مخمصہ
ادیان ومذاہب سماجیات / فنون وثقافت کلام

مرزائی مخمصہ

مفتی محمد اویس پراچہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ آپ کی تشریف آوری کے ساتھ نبوت کا باب بند ہو گیا۔ نہ صرف نبوت کا باب بند ہوا بلکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح کے مطابق انسانیت اور علوم کا کمال بھی ہو گیا۔ آپ کے بعد کوئی ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی، کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا۔ یہ عقیدہ امت محمدیہ کے اجماعی عقائد میں سے ایک ہے اور اس کے خلاف ہر رائے گمراہی پر جا ختم ہوتی ہے۔

برصغیر میں جب انگریز آیا تو اس کے زیر اثر یہاں کئی چیزیں اسی طرح اگ آئیں جیسے کچرے میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک قادیان کا مدعی نبوت مرزا بھی تھا۔ اس نے نہ صرف نبوت کا دعوی کیا بلکہ توہین سے لے کر دوسرے مسلمانوں کو اسلام سے خارج قرار دینے تک، سب کچھ کیا۔ اس کے خلاف مسلمان بھی صف آراء ہوئے۔ اس کے ماننے والے مرزائی تھے جو مسلمان بن کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے تھے۔ تحریک کامیاب ہوئی اور انیس سو چوہتر میں انہیں آئینی طور پر بھی غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

یہاں سے ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جب سن چوہتر میں مرزائیوں کو اسمبلی میں غیر مسلم قرار دیا گیا تو انہیں ساتھ ہی ایک اور اسٹیٹس دیا گیا اور وہ تھا “اقلیت” کا۔ اقلیت کا مطلب پاکستان میں وہ مذہبی گروہ ہوتا ہے جو اکثریتی مذہب “اسلام” سے تعلق نہ رکھتا ہو، اور آئین پاکستان اس کی حفاظت کی خاطر اسے حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ انہیں بھی یہ اسٹیٹس ملا لیکن ساتھ ہی کچھ پابندیاں بھی لگیں جو انہیں دوسروں سے جدا کرتی تھیں۔

یہ اسٹیٹس کیوں ملا؟ بظاہر اس کی وجہ اس وقت کے حالات ہوں گے کہ جب سوال پیدا ہوا ہوگا کہ اگر یہ غیر مسلم ہیں تو ان کا کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہی تھا کہ جو باقی تمام غیر مسلموں کا ہوگا وہی ان کا ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ کچھ کہا جاتا تو معاملہ یہاں تک بھی نہ پہنچ سکتا بلکہ قرار داد پاکستان سے بھی جا ٹکراتا۔ چنانچہ علماء کرام کی موجودگی میں، سن چوہتر کی چلائی ہوئی تحریک کے مطابق یہ طے ہو گیا کہ یہ “اقلیت” ہیں اور اس کے بعد خود کار طور پر انہیں آئین کے طے کردہ حقوق ملتے ہیں۔

مرزائیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور ظاہر بھی کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کو اس پر ورغلاتے بھی ہیں۔ اس کے دو نتائج نکلتے ہیں:

اول: فقہ اسلامی، جو خود ایک قانون ہے، وہ کہتا ہے کہ ان کا معاملہ عام غیر مسلم شہری سے ہٹ کر ہوگا اور ان کا سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جائے گا کیوں کہ یہ باقاعدہ اسلام کے خلاف کھڑے ہیں۔

دوم: یہ جب خود کو مسلمان مانتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آئین کی اس شق کا انکار کرتے ہیں جس کے مطابق یہ اقلیت ہیں۔ لیکن آئین میں مزید ایسی کوئی شق نہیں ہے جو اس کو حل کر سکے۔ چنانچہ آئین کے مطابق یہ بدستور اقلیت ہی ہیں اور جہاں ان پر پابندیاں لگیں گی وہیں انہیں حقوق بھی ملیں گے۔

یہاں ہمارے حضرات علماء کرام فرماتے ہیں کہ پہلے نتیجے کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔ لیکن پیچیدگی یہ ہے کہ دوسرے اور آئینی نتیجے کا کیا کیا جائے؟ وہ تو آئینی طور پر اقلیت ہیں اور آپ نے خود قرار دلوائے ہیں۔ اس پر حضرات فرماتے ہیں کہ یہ لوگ آئین کی اس شق کو نہیں مانتے لہذا انہیں حقوق نہ دیے جائیں۔ آئین یہ بات تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح انہیں غیر مسلم قرار دلوایا گیا اسی طرح اگلے پچاس سال یعنی نصف صدی میں ان کے لیے یہ شق بھی پاس کروا لی جاتی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نصف صدی ہونے کے باوجود اور اس میں اکثر اسمبلیوں میں مذہبی جماعتوں کی نمائندگی ہونے کے باوجود ایسی کوئی مضبوط تحریک نہیں چلی۔ نہ جمیعت، نہ جماعت اور نہ کسی اور نے یہ سوچا، اور نہ ہی ختم نبوت پر کام کرنے والے حضرات نے انہیں یاد دلایا۔ یہ کیوں ہوا؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔

مخمصہ اس سے یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مرزائی اقلیت ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ان کے حقوق کیوں نہیں ہیں جو آئین انہیں دیتا ہے؟ اور اگر نہیں ہیں تو آپ نے خود اقلیت کیوں قرار دلوایا؟ اگر مجبوری میں دلوایا تھا تو بعد میں ترمیم کی تحریک کہاں ہے؟ اگر تحریک نہیں ہے اور آپ ہر سال اس کی خوشی بھی مناتے ہیں تو پھر اس کا مطلب تو اقلیت ہونے پر رضامندی ہے۔

اگر وہ اقلیت ہیں لیکن حقوق اس لیے نہیں ہیں کہ وہ خود کو اقلیت مانتے نہیں ہیں تو اس کی شق کہاں ہے؟ اور شق نہیں ہے تو اس کے لیے تحریک کہاں ہے؟ شق نہ ہونے کی صورت میں اضافی چیز کیسے مان لی جائے؟ اگر باغی قرار دیا جائے تو پھر آپ خود جو سودی قوانین وغیرہ کا انکار کرتے ہیں تو آپ کیسے اس الزام سے بچتے ہیں؟ اور کیا چور ڈاکو جب خود کو چور ڈاکو نہ مانیں تو انہیں ان کے حقوق نہیں دیے جاتے؟ ان کا ماورائے عدالت قتل درست ہے؟

یہ وہ مخمصہ ہے جو درمیان کے پچاس سال کے گیپ سے پیدا ہو رہا ہے۔ قدیم نسل جا رہی ہے اور جدید نسل آ رہی ہے۔ آپ اسے اچھائی کہیں یا برائی، جدید نسل یہ سوچتی بھی ہے اور پوچھتی بھی ہے۔ میں خود اس سوال کا سامنا کر چکا ہوں اور سیدھی بات ہے کہ یہ سوال خود ہماری بات اور ہمارے طرز عمل سے پیدا ہو رہا ہے۔

اس سوال کو ہمیں ختم کرنا ہوگا، چاہے اسمبلی میں کریں یا کسی طرح عدالت میں۔ ورنہ اپنی ہاں میں ہاں ملانے والے مجمع میں کوئی کمزور دلیل دینے سے ما شاء اللہ اور سبحان اللہ تو مل جاتے ہیں لیکن نیوٹرل شخص متاثر نہیں ہوتا۔ الٹا وہ دین بیزاری کی جانب چل پڑتا ہے۔ لہذا موقف تو بے شک فقہی طور پر ہمارا درست ہوگا لیکن عمل میں گڑبڑ ہو چکی ہے اور اسے درست کرنا ضروری ہے اور کسی ایک بات کو طے کرنا لازم ہے، ورنہ یہ مسئلہ خراب ہی ہوتا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مفتی محمد اویس پراچہ نے شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ کراچی سے ایم فل کیا ہے اور جامعۃ الرشید کراچی میں افتاء کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں