مباحث الہیات میں شیخ ابن عربی نے جن جہات سے اہم کنٹریبیوشن کیا ان میں سے ایک اہم تصور “اعیان ثابتہ” (fixed entities) کا ہے جو نہ صرف نصوص میں وارد متعدد حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے بلکہ کئی عقلی سوالات کا بھی جواب دیتا ہے جو متکلمین کے نظام فکر میں قدرے تشنہ رہ جاتے ہیں۔ اس تصور پر ہم صوفیا کے ہاں مراتب وجود کی تحریر میں بحث کرچکے ہیں، یہاں اس کے بعض دیگر پہلووں کو اجاگر کرنا مقصود ہے اور اس کے لئے اس کا موازنہ ہم متکلمین و فلاسفہ کے تصور امکان سے کریں گے۔
متکلمین کا تصور امکان
کسی شے کے وجود سے متعلق احکام عقلیہ تین ہیں: واجب، محال اور ممکن۔ جو شے صرف ہو، یعنی اس کا نہ ہونا ناممکن ہو، اسے واجب کہتے ہیں۔ دلیل سے ثابت ہے کہ واجب صرف ذات باری ہے۔ وہ شے جس کا ہونا ناممکن ہو یا جو ہونے کو قبول نہ کرے اسے محال کہتے ہیں جیسے جمع بین النقیضین۔ وہ شے جو ہونے اور نہ ہونے دونوں کو قبول کرے، اسے ممکن کہتے ہیں، گویا ممکن وجود و عدم کے مابین معلق ہوتا ہے۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ عالم حادث ہے، یعنی یہ عدم سے وجود میں آیا اور جو شے حادث ہو وہ لازماً ممکن ہوتی ہے (اس کے دلائل کتب کلام سے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں)۔ متکلمین جب کہتے ہیں کہ عالم عدم سے وجود میں آیا تو عدم سے ان کی مراد نفی محض (absolute nothingness) ہوتی ہے، اسے صفر درجہ وجود (zero degree of existence) بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا عالم صفر درجہ وجود سے وجود میں آیا اور اس صفر درجہ وجود پر وجود میں آسکنے والی ہر شے کو یہ امکان لاحق تھا کہ وہ کچھ اور بھی ہوجائے۔ یعنی زید بطریق بدل رشید ہوسکتا تھا اور رشید صہیب، جو ابھی بکرا ہے اسے گھوڑا ہونے کا امکان لاحق تھا اور گھوڑے کو بکرا وغیرہ۔ گویا متکلمین کے امکان کو خالی ڈبے یا ایک جیلی کی طرح سمجھئے جو کچھ بھی ہوسکتی ہے اور یہاں جو شے کسی معین صورت موجود ہوئی وہ کچھ اور بھی ہوسکتی تھی۔ گویا عدم اصلی میں امکان ایسی کیفیت کا نام ہے جہاں قدرت باری کے تحت ہر شے کچھ بھی ہوسکتی تھی۔ متکلمین کے ہاں وجود عالم سے قبل صرف ذات باری اور اس کی صفات ثابت ہیں اور ان صفات میں صفات فعلیہ بھی ہیں جن کا مطلب اثر پزیر ہونے کی صلاحیت و استعداد (ability to act) ہے۔ چنانچہ خدا کے ازل سے خالق و رزاق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا ازل سے خلق کرنے اور رزق عطا کرنے کی صلاحیت سے متصف ہے اگرچہ ازل سے کچھ خلق نہ کررہا ہو۔ رہا عالم، تو وہ ازلی نہیں بلکہ عدم محض تھا اور ممکن ہونے کی وجہ سے قدرت الہیہ کے تحت موجود ہوسکتا تھا۔
شیخ کا تصور امکان یا اعیان ثابتہ
اس کے مقابلے میں شیخ کا زاویہ نگاہ مختلف ہے۔ امکان کے اس مفہوم کہ یہ وجود و عدم کے مابین معلق ہونے کا نام ہے، شیخ اسے اس درمیانی کیفیت کے معنی میں لیتے ہوئے “ثبوت” کہتے ہیں جو وجود و عدم کے مابین واسطہ یا حال ہے۔ اگر صفات و اسمائے الٰہیہ سے مراد ایسی فعلی استعدادات (active potentials) یا وہ خاص معنی ہیں جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوں تو اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ وہ معنی ہیں جو مخلوق کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور یہ انفعالیت یا اثر قبول کرنے کی استعدادات (passive potentials) کو ظاہر کرتے ہیں۔ صفات و اسمائے الہیہ کے عکوس (opposites or negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ مزید وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ اعیان ثابتہ اسماء الہیہ کی تاثیرات کے مدمقابل وہ انفعالی تراکیب (combinations) ہیں جو ازل سے فعلی استعدادات کے تحت مقدر اور ثابت ہیں۔ چونکہ صفات باری کی تاثیر کی لامتناہی تراکیب ہوسکتی ہیں، اس لئے ان لامتناہی تراکیب سے لامتناہی اعیان ثابتہ یعنی passive potentials متحقق ہوتے ہیں۔ مثلاً زاہد بایں معنی ایک خاص عین ہے کہ وہ اللہ کی چند خاص صفات و اسماء کا عکس ہے جبکہ مشرف ایک الگ عین اور صہیب ایک الگ۔ اسی طرح نہ صرف یہ کہ ایک خاص گھوڑا ایک خاص بکرے سے الگ عین کے طور پر متحقق ہے بلکہ ایک خاص (مثلا کالے رنگ کا) گھوڑا دوسرے گھوڑے (مثلا سفید رنگ والے) سے الگ ثابت حقیقت ہے۔ گویا عالم امکان ذات باری کے اسماء و صفات کے عکوس کا مجموعہ ہے جہاں ہر خاص امکان دوسرے سے ممیز ہے اور ہر ممیز امکان ایک خاص عین ہے۔ بات کو سمجھنے کے لئے یوں سمجھئے کہ زاہد کا عین ثابتہ اسمائے باری کے ایک خاص مجموعے و ترکیب (combination) کی تاثیر کو قبول کرنے کی صلاحیت کا نام ہے جبکہ مشرف کا عین ثابتہ ان صفات کے ایک الگ تاثیری مجموعے کا نام ہے۔ اسی لئے اعیان ثابتہ کو اعیان ممکنہ کے حقائق کی علمی صورتیں کہا جاتا ہے۔
پس شیخ کا عالم امکان متکلمین کے امکان کی طرح خالی ڈبے نما شے نہیں جہاں قدرت کے تحت کچھ بھی ہوسکتا ہے بلکہ یہاں بوجہ اسمائے الہیہ ہر شے متعین و ممیز ہے۔ یوں سمجھئے کہ شیخ کا عالم امکان چھوٹے چھوٹے نکات یا ڈاٹس (dots) کا مجموعہ ہے جہاں ہر ڈاٹ دوسرے سے الگ عین ہے۔ جس طرح اسمائے باری ازلی حقائق ہیں، اعیان ثابتہ بھی ازلی حقائق ہیں۔ یعنی جس طرح ذات باری کی فعل کرسکنے کے صلاحیتوں کو ظاہر کرنے والے معانی ازلی ہیں، ان فعلی صلاحیتوں کو قبول کرسکنے کی صلاحیتیوں کو ظاہر کرنے والے معانی بھی ازلی ہیں۔ انفعالی استعداد ثابت مانے بغیر فعل کرنے کی استعداد متصور نہیں ہوتی۔ قدرت متحقق و معقول ہونے کے لئے عاجزی متحقق ہونا بھی لازم ہے، بصارت تبھی مفہوم ہے جب نابینا پن بھی مفہوم ہو وغیرہ۔ اسمائے الہیہ اور اعیان کے اس تعلق کو شیخ فیض اقدس کہتے ہیں۔
یاد رہے اعیان عدم محض نہیں، یہ وجود و عدم کے مابین برزخ ہیں اور برزخ وہ شے ہوتی ہے جو جانبین سے متصل و منفصل ہونے کی وجہ سے من وجہ ھو و لاھو ہوتی ہے۔
شیخ کے نظام فکر کی چند امتیازی خصوصیات
اب اگر یہ تصور واضح ہوگیا تو اس سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
1) شیخ کے نزدیک عالم عدم محض (Absolute nothingness) سے وجود میں نہیں آتا بلکہ اعیان ثابتہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ذات باری کی فعلی استعدادات کی وجودی تجلی (جسے شیخ “فیض مقدس” کہتے ہیں) جب ان اعیان پر پڑتی ہے تو یہ اعیان ظاہر ہوجاتے ہیں۔ یعنی اس تجلی پڑنے سے قبل جو بطور استعداد قبول کرسکنے کی صلاحیت ثابت تھا، تجلی پڑنے پر اس کی یہ استعداد ظاہر ہو جاتی ہے۔ متکلمین صرف اسے ہی وجود کہتے ہیں اور مخلوق کی اس سے ماقبل حالت کو وہ “علمی وجود” کہتے ہیں جو علم باری میں ازل سے مقدر تھا کہ مثلا زاھد یوں ہوگا اور مشرف ووں وغیرہ۔ تاہم اس ازلی علم کا اسمائے الہیہ کے ساتھ کیا ربط ہے، ان کے ہاں یہ واضح نہیں ہوپاتا۔ از روئے قرآن جن اشیاء کو “کن” کا حکم ہوتا ہے، شیخ کے نزدیک وہ انہی اعیان سے خطاب ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ جاتی ہے)
نیز ارشاد ہوا:
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)
یہاں خزانے ان لامتناہی اعیان کی جانب اشارہ ہے۔ متکلمین کے نزدیک بھی عالم ازل سے علم باری میں متحقق ہے، تاہم وہ اسے حالت وجودی نہیں کہتے کیونکہ وہ وجود اور عدم کے مابین کسی واسطے یا حال کے قائل نہیں جبکہ شیخ کے ہاں یہ بھی ایک درجہ وجود ہے۔
2) چونکہ اعیان اپنی حقیقت میں اسمائے الہیہ کے عکوس ہیں اس لئے خود اپنے اعتبار سے ان کی حقیقت عدمی ہے لیکن ذات باری کی نسبت سے وجودی ہے۔ اعیان کے موجود ہونے یا ظاہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو موجود نہیں تھا وجود حقیقی نے اسے بھی موجود یا ظاہر کردیا۔ مثلاً قدرت کا عکس عاجزی ہے جو حصول قدرت کے لئے قادر کی بھکاری ہے، عاجزی پر قدرت کی تجلی پڑنے سے عاجزی بھی قدرت والی ہوجاتی ہے، یوں قادر و عاجز دونوں موجود ہوجاتے ہیں، اسی طرح بصارت کی تجلی سے نابیناپن بھی بینا ہوجاتا ہے، وقس علی ذلک۔ اشیاء کے ظہور کے بعد ان کے معدوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر اسماء کی تجلی پڑنا بند ہوگئی، یوں وہ پھر اعیان یعنی حالت ثبوتی پر لوٹ جاتے ہیں۔ پس اعیان ثابتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شے ذات باری کی صفات کا مظہر بننے کی استعداد رکھتی ہے اور اس کائنات میں کوئی بھی شے ذات باری کا مظہر بنے بغیر ظاہر ہو ہی نہیں سکتی۔
3) اعیان کی حقیقت صرف انفعالی استعداد ہونا ہے اور یہ ہمیشہ اسی حالت پر رہتے ہیں، درحقیقت یہ کبھی بھی “وجود” نہیں ہوتے کہ ان پر صرف وجود (ہونے) کی تجلی ہوتی ہے جو ان انفعالی صلاحیتوں کو بس ظاہر کردیتی ہے۔ یاد رہے کہ وجود (یعنی از خود ہونا) انفعالی نہیں فعلی استعداد ہے اور جو اپنی حقیقت میں ہے ہی انفعالیت وہ فعلیت سے متصف بھلا کب ہوسکتا ہے! اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ اعیان ثابتہ نے کبھی وجود کی بو تک نہیں سونگھی، وہ اب بھی عدم (یعنی حالت ثبوتی) میں ہیں، وجود صرف وجود مطلق کو حاصل ہے۔ یہ جسے ہم قدرت سمجھتے ہیں یہ دراصل ایک قادر مطلق کی قدرت کی تجلی ہے جس نے عاجزی کو قدرت کا جاما پہنا کر اسے بھی ظاہر کردیا ہے۔ عاجز نے اگر خود کو قارد سمجھنا شروع کردیا ہے تو یہ اس کا فریب نظر ہے کہ وہ قادر ہے۔ قادر مطلق نے عاجزی کو اس لئے ظاہر کیا تاکہ عاجز قدرت کو جان سکے۔ حدیث كُنْتُ كَنْزًا مخفياً فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا کا شیخ کے نزدیک یہی مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ اعیان کے وجود پزیر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اب وہ اپنی حالت ثبوت پر باقی نہیں رہیں۔ ظہور کے باوجود وہ اب بھی اسی طرح پردہ خفا و غیب میں ہیں۔ اعیان کی حقیقت ہر حال میں اسمائے الہیہ ہیں، ان کا حالت ثبوتی کے پردہ خفا میں ہونا ذات باری کا باطن ہونا ہے تو ان کی حالت وجودی ذات باری کا ظاہر ہونا ہے اور ذات باری کی یہ شان خفا و ظہور دونوں ایک ساتھ ہیں۔ اسے آیت هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ میں ظاہر و باطن ہونا کہا گیا۔ اس ذات کی بارگاہ میں ایسا نہیں کہ جو ظاہر ہوگیا وہ اب باطن نہ رہا۔ اعیان کو ظہور عطا کرنے کے بعد جو کچھ اللہ کے ہاں ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ شیخ اس مقام پر مسلم شریف کی اس حدیث قدسی سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر اولین و آخرین سب مل کر مجھ سے کچھ مانگیں اور میں انہیں وہ سب عطا کردوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہ آئے گی جتنی ایک سوئی کو سمندر میں ڈبو کر نکال لینے سے سمندر میں کمی آتی ہے۔
4) اعیان کے وجود خارجی کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ وجود مطلق آئینے کی مانند ہے اور اعیان اس شے کی مانند جو آئینے کے سامنے آئے (اور یا اس کے برعکس)۔ پس وجود کے روبرو ہونے پر ان اعیان کا عکس ظاہر ہوا، یعنی اعیان کے حسب احکام و تخصیص ان کے لئے مقید وجود مقرر ہوا، یوں یہ اعیان (یعنی انفعالی استعدادات) منور یعنی ظاہر ہوجاتے ہیں۔ آئینے میں ظاہر ہونے والا عکس نہ اس شے کا عین ہوتا ہے اور نہ بایں معنی غیر کہ شے کے بغیر اس کا قیام ناممکن ہے۔ وجود کا ان اعیان کو ظاہر کرنا ایسے ہے جیسے سورج کی روشنی پھیلنے سے مختلف رنگ اور اشیاء ظاہر ہوجاتی ہیں اور جب سورج نہ ہو تو سب کچھ حالت غیوبت میں چلا جاتا ہے، امام غزالی و شیخ کے نزدیک قرآن نے اسے اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کے الفاظ میں بیان کیا۔ دیکھنے والے کو اگرچہ رنگ نظر آتے ہیں نہ کہ نور، لیکن رنگ نور کے بدون خود عدمی ہیں۔ نور جس شے کو ظاہر کرے وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اگرچہ دیکھنے والے کو نظر نہ آئے، جیسا کہ ارشاد ہوا:
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ (اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس کے قریب ہیں)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ (اور ہم (مرنے والے) سے تمہارے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں)
اور وہ شے کا کلی طور پر احاطہ کرلیتا ہے:
إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ (بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے)
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (پس تم جدھر بھی رخ کرو، وہ وہاں جلوہ گر ہے)
لیکن اس کے باوجود نور نہ شے کا عین ہوتا ہے اور نہ غیر بلکہ من وجہ ھو اور من وجہ لاھو ہوتا ہے۔ شیخ کے نزدیک ذات باری کو عالم سے ھو ولا ھو کی ایسی ہی نسبت ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ (نبی جی آپ نے وہ سنگ ریزے نہیں پھینکے جبکہ آپ نے پھینکے بلکہ وہ تو اللہ نے پھینکے)
اس آیت میں بندے کے حق میں نفی و اثبات کے جمع کے اسلوب پر توجہ رہے۔ شیخ وجود کو نور، محال کو اندھیرے یا ظلمت اور امکان کو سائے کی مانند کہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالی فیض مقدس کی تجلی سے امکان یعنی اعیان کو سائے کی طرح نہ پھیلاتے تو وہ پردہ غیب ہی میں رہتے، پس جس حد تک اللہ چاہتا ہے اسے پھیلاتا ہے اور جب چاہتا ہے سمیٹ لیتا ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے سورج کے نور سے پھیلنے و سمٹنے والے سایوں کو بطور مثال دلیل مقرر کیا گیا۔ قرآن کی آیت میں ارشاد ہوا:
أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا (کیا تم نے اپنے رب کی جانب نگاہ نہ ڈالی کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلاتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن کردیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ہے، پھر ہم اس سائے کو آسانی سے اپنی جانب سمیٹ لیتے ہیں)
5) متکلمین کے تصور امکان میں چونکہ اعیان وجود کے کسی درجے کے طور پر متحقق نہیں لہذا ان کے ہاں اشیاء کے وجود خارجی کی تفہیم میں آئینے کی مثال درست نہیں بیٹھتی۔ تاہم جنہوں نے شیخ پر یہ الزام لگایا کہ وہ ذات باری کے عالم میں حلول یا اس کے ساتھ اتحاد یا ذات باری ہی کے عالم ہونے کے قائل تھے انہیں سخت شبہ لگا۔ ذات باری کو ہر شے سے ایک ایسی وجودی معیت حاصل ہے جو اس معیت سے مختلف ہے جو جوہر کو جوہر، جوہر کو عرض اور عرض کو عرض سے حاصل ہے اور نہ ہی یہاں حال و محل کے اتحاد جیسی کوئی شرط ہے۔ اس شبہ لگنے کی وجہ شیخ کا انداز بیان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ آپ متکلمین و فلاسفہ کے طرز پر کتب نہیں لکھتے جہاں پہلے ترتیب وار مقدمات زیر بحث آئیں اور پھر نتائج اور پھر ان کے مضمرات نیز آپ کی طویل کتاب “الفتوحات المکیۃ” ایک لمبے عرصے تک مکمل حالت میں چھپ کر میسر نہ تھی (یہ پہلی مرتبہ بیسویں صدی کے آغاز میں یکجا ہوکر چھپی، اس سے قبل یہ مخطوطات کی صورت تھی)۔ لیکن جو لوگ آج کے دور میں بھی شیخ کے بارے میں ایسی گمراہ کن باتیں کرتے ہیں جبکہ ان کی کئی کتب چھپ کر منظر عام پر آچکیں اور محققین نے ان کی عبارات سے معاملے کو آشکار بھی کردیا، انہیں اللہ کے حضور ایسی رائے سے توبہ کرنا چاہئے کیونکہ ایسی ہر رائے گواہی ہے اور جو از روئے قرآن لکھ لی جائے گی اور روز قیامت اس پر باز پرس ہوگی: سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ۔
6) اعیان ازلی حقائق ہیں البتہ ان کا وجود خارجی حدوث سے متصف ہے، لہذا عالم من وجہ قدیم اور من وجہ حادث ہے۔ چنانچہ جنہوں نے یہ کہا کہ شیخ قدم عالم کے قائل ہیں اور عالم سے مراد متکلمین و فلاسفہ کے وجود خارجی کے مفہوم والا عالم لیا انہوں نے غلطی کی۔ شیخ وجود خارجی والے مفہوم کے معنی میں قدم عالم کو متکلمین کی طرح محال ہی کہتے ہیں۔
7) شیخ کے نظام فکر میں ممکن اشیاء کا بطریق بدل کچھ اور ظاہر ہونے کا تصور نہیں کیونکہ عالم امکان میں ہر شے یونیک و ممیز ہے۔ زاہد مشرف نہیں ہوسکتا اور مشرف زاہد، اس لئے کہ یہ ازل سے دو ممیز حقائق کے طور پر ثابت استعدادات کے نام ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے زاہد کو ظاہر کریں مگر مشرف کو نہ کریں یا اس کے برعکس۔ فرض کریں زاہد صفات الف، ب اور ج کے خاص مجموعے کے عکس کا نام ہے۔ اگر اس خاص مجموعے میں کسی صفت کی تاثیر کا اضافہ یا کمی کی جائے گی تو نتیجتاً ایک الگ عکس بطور عین ثابت ہوگا جو زاہد کے عین سے مختلف ہوگا۔ اس لئے نہ زاہد کی کوئی نظیر ہوسکتی ہے اور نہ مشرف کی۔ الغرض ہر عین اللہ کی ممیز و یکتا مخلوق ہے اور اس انفرادیت کی وجہ ہر عین پر صفت “ھویت” کی تجلی ہونا ہے۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں اللہ کے ہاں ایسی وسعت ہے کہ نہ کسی ایک شخص پر دو مرتبہ کسی ایک صفت کی تجلی ہوتی ہے اور نہ ہی دو افراد پر ایک ہی صفت کی تجلی، وہ ہر آن نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ قرآنی آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا آپ کے نزدیک یہی مفہوم ہے۔
8) شیخ کے نظام فکر میں اللہ کی صفات فعلیہ کے کسی درجے میں ازل سے فعلی معنی مفہوم ہوجاتے ہیں جبکہ متکلمین کے ہاں یہ ممکن نہیں رہتا کیونکہ ان کا عدم محض صفر درجہ وجود ہے۔ مثلاً شیخ کے ہاں اللہ ازل سے خالق ہے (یاد رہے کہ خلق کا مطلب مقدر یا متعین کرنا ہوتا ہے اور اعیان ثابتہ مقدر و ممیز شدہ حقائق ہیں)، اسی طرح اللہ ازل سے مخلوق کو دیکھنے والا ہے جبکہ متکلمین کے ہاں پہلے وہ بالقوۃ سمیع و بصیر تھا اور پھر عدم سے وجود دینے کے بعد بالفعل۔ شیخ کے ہاں ہر شے ازل سے اللہ کی بھکاری ہے جبکہ متکلمین کے ہاں حالت عدم میں نرا امکان ہے، اللہ سے بھیک مانگنے والی کوئی ممیز شے نہیں جسے وہ عطا کرے۔ قرآنی آیت وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ صرف مابعد ایجاد کیفیت نہیں بلکہ اس حقیقت کا بیان ہے جو اعیان کو ازل سے لاحق ہے۔
9) اعیان چونکہ انفعالی استعدادات ہیں، لہذا اس دنیا میں اللہ کی عطا سے ہر کسی کو وہ ملتا ہے جسے قبول کرنے کی اس میں اصولاً استعداد ہوتی ہے۔ اس لئے صوفی فکر میں اسمائے الہیہ کی تجلیات کا فیض قبول کرنے کے لئے استعداد میں ترقی و تزکیہ نفس خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پوری کائنات میں صرف انسان وہ شے ہے جس پر اللہ کے سب اسما کی تجلی ہوئی، آیت عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا اسی کا بیان ہے اور اسی لئے آدم علیہ السلام خلیفہ ہوئے۔ قرآنی آیت إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ کے مطابق جس امانت کو اٹھانے سے ارض و سماوات و پہاڑوں نے عاجزی کا اظہار کیا مگر انسان نے اسے اٹھایا وہ اسی بنا پر تھا کہ دیگر مخلوقات میں اس کی استعداد نہ تھی۔
10) بعض لوگوں کو یہ سوال پریشان رکھتا ہے کہ تخلیق سے قبل عالم کہاں تھا نیز عدم محض کیا تھا؟ شیخ کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے قبل عالم اعیان ثابتہ کی صورت متحقق و ثابت تھا نہ کہ عدم محض۔
آخر میں دو باتیں نوٹ کیجئے۔
الف ) عطایا الہیہ بذریعہ اسما الہیہ میں اللہ کا ہر اسم اس کی جداگانہ عطا کا مرکز ہے اور ہر اسم اس کی جداگانہ شان حضوری (presence) کی نمائندگی کرتا ہے۔ پس ذات باری کی حضرت ربوبیت اس کی حضرت ملک سے فرق ہے جو حضرت الوہیت سے الگ ہے وغیرہ، قرآن نے ان کا ذکر جداگانہ کیا ہے (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَٰهِ النَّاسِ)۔ ان عطایا میں “وھاب” وہ اسم ہے جو بدون استعداد، بدون کسب و بدون اجر کچھ عطا کرے۔ شیخ کہتے ہیں کہ نبوت اسی معنی میں وھبی شے ہے کہ یہ اسم وھاب کی عطا ہے اور استعداد و کسب وغیرہ عطائے نبوت کی شرط نہیں (اگرچہ اللہ نے اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ کے تحت اس منصب کے لئے عادتاً باکمال ہستیوں ہی کا انتخاب کیا)۔ جن لوگوں نے کہا کہ شیخ و صوفیا کے نزدیک نبوت کسبی ہے انہیں صوفیا کا نظام فکر سمجھنا چاہئے۔ شیخ مزید واضح کرتے ہیں کہ اللہ کے تمام اسما کی عطا اگرچہ بندے کی استعداد و عمل کے موافق ہوتی ہے، تاہم حقیقتاً یہ سب عطایا وھبی ہی ہیں اس لئے کہ ان استعدادات کی عطا بھی اس کی جانب سے بلا کسب ہے۔
ب) ہر نبی اللہ تعالی کے کسی خاص کلمہ و اسم کے مظہر اتم تھے جبکہ کلمہ جامع سرور کونینﷺ تھے کہ آپﷺ ہی کو جوامع الکلم عطا ہوئے۔ کتاب “فصوص الحکم” کا خصوصی موضوع انہی امور کا بیان ہے اور آپ کی یہ کتاب درج بالا فریم ورک اور کچھ مزید امور کا علم فرض کرتے ہوئے بحث کرتی ہے۔ جو لوگ شیخ کے مجموعی فریم ورک سے ناآشنا ہوں انہیں اس کتاب کو سمجھنے میں مشکلات ہوتی ہیں کیونکہ شیخ اپنا نظام فکر متکلمین کے طرز پر نہیں سمجھاتے اور اسی لئے اس کتاب کو کسی استاد کی نگرانی پڑھنے پڑھانے کی روایت رہی ہے۔ اکبری روایت میں شیخ کے نظام فکر کو متکلمین کے طریقے پر منظم انداز سے سمجھانے کی پہلی کاوش شیخ داؤد قیصری (م 751 ھ) کے ہاں “فصوص الحکم” کے مقدمے کی صورت ملتی ہے۔
کمنت کیجے