Home » معترضینِ قرآن اور ہمارا فکری منہج
زبان وادب کلام

معترضینِ قرآن اور ہمارا فکری منہج

محمد حسین اشرف

قرآن مجید کی گرامر کی بابت معترضین نے جو اعتراضات کئے ہیں ان کا جواب دیتے وقت یہ مطالبہ ہرگز نہیں ہے کہ علما، اسلام چھوڑ دیں یا نیوٹرل ہوجائیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ ہم جو فریم ورک بنائیں یا چنیں، وہ ایسا ہونا چاہیے جو ہمارے مذہبی و فکری تعصب کا وزن نہ جھیل سکتا ہو۔ اس سے دو فائدے حاصل ہوں گے:

۱۔ ہم یہ دعوی کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم نے تجزیہ کرکے ایک بات کو ممکن حد تک واضح کردیا ہے۔
۲۔ مستشرقین اور معترضین کے ساتھ ہماری گفتگو کے لیے کامن فریم ورک مہیا ہوجائے گا۔

اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے (اصلاحی صاحب کے اقتباس کی روشنی میں) کہ ہم اس مسئلے کی تحسین نہیں کر پا رہے جو اعتراض کا بہتر جواب دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے یعنی جس شے پر اعتراض ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میتھڈ یا اپنے طریق کار کی حد تک اس کے اثر کو زائل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اس اثر پذیریت کو دو پہلووں سے مختصرا دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں:

۱۔ تصور جاہلیت
مسلمانوں کے ہاں، سیاسی و سماجی رسوخ پیدا ہونے کی وجہ سے بہت سی چیزیں عربی ثقافت پر اثر انداز ہوئیں؛ کچھ بلاواسطہ اور کچھ بالواسطہ۔ اس اثر انداز ہونے کی ایک مثال تصور جاہلیت یا جاہلیہ کا پیدا ہونا ہے۔ اس میں یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ یہ تصور کیسے پیدا ہوا اور اس تصور نے بعد ازاں عربی زبان، شعر و ادب کے معیارات وغیرہ پر کتنا اثر ڈالا (کیونکہ یہ تصور ایک زمانے کو کم و بیش تمام اعتبارات سے کم تر خیال کرتا ہے)؟ سو اگر کوئی طبقہ ایسا حکومت میں آجایے جو میر انیس کے لہجے اور شعریت کو معیار بنا دے اور اس سے پہلے کی اردو شعری روایت کو کسی خاص عنوان (ایسا عنوان جس کے تحت میر انیس سے پہلے کا کام، کمتر دکھائی دینے لگے اور میر انیس اردو ادبی تاریخ میں ایک مصلح کی صورت میں ابھریں تو آگے آنے والوں کے لیے میر انیس بہت مضبوط ریفرینس پوائنٹ بن جائیں گے) کے تحت بیان کرنا شروع کردے تو جو تبدیلی آئے گی، اس میں ادبیات کے علاوہ سیاسی و سماجی اثر رسوخ کا ہاتھ ہوگا۔ اس سے پورے سماج کے جمالیاتی ذوق و قواعد کی از سر نو تشکیل ہوگی۔ اب اگر کسی کو میر انیس پر نقد کرنا مقصود ہوگا تو اسے اس سارے عمل کو reconstruct کرنا پڑے گا۔جہاں ان تبدیلیوں کو دیکھنا پڑے گا جو خاص فکر کے تحت ہوئی ہیں اور پھر ایک ایسا فریم ورک تشکیل دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے جس پر آزادانہ (فکری تعصب کے بغیر) طریقے سے میر انیس کو پرکھنے کی بات کی جاسکے گی۔ کسی بھی دوسری صورت میں، میر انیس کے محاسن کا بیان بھی ایک طرح سےcompromised ہوجائے گا۔ اس سے کسی بھی فن پارے کیindependent حیثیت سے اسٹیبلش ہونے کی راہ میں دو بڑی روکاٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں، جن میں ایک ۱) کسی خاص فکر یا آئیڈیالوجی کا تحکمانہ اثر اور ۲) سیاسی و سماجی رسوخ (یہ تنقید کے بار پانے کی راہ میں روکاٹ ہوتا ہے) شامل ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مستشرقین کے اعتراضات بالکل لغو ہوں لیکن یہ اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک ان مسائل کی تحسین کرکے، طریق کار میں ترامیم نہیں ہوں گی۔

۲۔ ادبی فضا
دوسرا مسئلہ پہلے سے متصل ہے لیکن اس کی علیحدہ وضاحت ضروری ہے۔ میر انیس کی مثال کو ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ میر انیس کا کلام جب یوں بار پا جائے گا اور اس کو فکری، سیاسی و سماجی رسوخ بھی حاصل ہوجائے گا تو اس سے مزید مسائل جنم لینے لگیں گے۔ جن میں مزید مسئلہ یہ ہوگا کہ زیادہ تر ادبی فضا میر انیس سے تعبیر ہوجائے گی، موضوعات چننے سے لے کر، جمالیاتی سانچوں تک سب میر انیس کے تحت ہوجائیں گے۔ اس پر جب کئی سو سال گزر جائیں گے تو پھر یہ نہایت مشکل ہوگا کہ وہ روایت میر انیس کے اس سحر سے جان چھڑا سکے کیونکہ اب اس زبان کا ادبی لہجہ، اس کے موضوعات اور اس کے معیارات سب میر انیس کے کام کیextensionہوں گے۔

أدونيس نے (خود فکری شخص ہے اس لیے میں اسے بہ طور حوالہ پیش نہیں کر رہا چونکہ دوسری نوعیت کا نقد اسی سے سنا ہے تو اس کا حوالہ دینا مقصود ہے) ایک مختصر ویڈیو میں اس کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اس کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم (غیر عربی) اس بات کی تحسین نہیں کرسکتے کہ اسلام، عربی ادب و ثقافت پر کس شدت کے ساتھ اثر انداز ہوا ہے۔ اس پر اضافہ یہ کہ میرے خیال میں اس تحسین کے بغیر ہم اس سارے مسئلے کو پوری گرفت کے ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔ دوسرا حوالہ، ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس نےconstruction          of           Jalhiya کے عنوان سے کچھ چیزوں کو موضوع بنایا تھا۔ یہ مقالہ ابھی ڈھونڈنے پر بھی مل نہیں سکا لیکن شاید کسی جگہ میں نے اس کو محفوظ کیا تھا۔

نوٹ: میں کسی درجے میں بھی عربی ادب، عربی ادبی تاریخ یا اس کے قریب کے موضوعات کا ماہر نہیں ہوں۔ اس لیے اس موضوع پر میری گفتگو کا محور وہ چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں سوالوں کے جواب دیتے وقت اپنائی گئی ہیں یا معترضین نے جس زاویے کو اپنایا ہے۔ علاوہ ازیں، وہ چیزیں جو ان سوالوں کے جوابات دیتے وقت مذہبی (آئیڈیالوجی وغیرہ) اعتبار سے کسی قسم کا سقم پیدا کرتی ہیں، وہ چونکہ میری دلچسپی کا موضوع ہے سو اس لیے میں نے انہیں چیزوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس میں کوئی بھی شخص حق بجانب ہے کہ وہ بتا دے کہ ان سوالات کے جوابات دئیے جا چکے ہیں یا لوگوں کے اٹھائے جانے والے سوالات ہی اہم نہیں ہیں وغیرہم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں