حضرت امیر معاویہ پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ولی عہد بنا کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی جو انہوں نے حضرت حسن کے ساتھ کیا اور جس کی ایک شق یہ تھی کہ وہ کسی کو حکومت نہیں سونپیں گے بلکہ بعض روایات کے مطابق ان کے بعد حضرت حسن امیر ہوں گے اور بعض کے مطابق یہ شرط طے ہوئی تھی کہ معاملے کو شوری کی جانب لوٹا دیا جائے گا۔ اس شرط کے وجود کی دلیل کے طور پر ہمارے ایک محترم دوست نے علامہ ابن حجر (م 852 ھ) کی “فتح الباری” کی عبارت پیش کی ہے۔
تبصرہ
معاھدے کی پابندی کرنا از روئے شرع لازم ہے اور بلاعذر شرعی اس کی خلاف ورزی گناہ کبیرہ ہے۔ اگر سائل یہ سمجھتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہ دوست کہتے ہیں) کہ معاھدے کی یہ شرط ثابت ہے البتہ حضرت امیر معاویہ کے پاس حالات کے تحت اس کی پاسداری نہ کرنے کا عذر تھا تو پھر اسے نقد کا حق نہیں، کیونکہ اس صورت میں حضرت امیر معاویہ پر کوئی تہمت نہیں۔ اور اگر وہ اس میں شرعی تہمت اور آپ کی غلطی دیکھتا ہے تو پھر وہ عذر قبول نہیں کررہا اور نتیجتاً یہ گناہ کبیرہ ہوا۔
جس بات سے ایک صحابی پر گناہ کبیرہ کے ارتکاب کا الزام آئے اس کی سند کی تحقیق لازم ہے۔ اہل سنت یہ نہیں کہتے کہ صحابی سے گناہ کبیرہ نہیں ہوسکتا، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر قسم کی روایت سے اسے ثابت فرض کرلیا جائے گا۔ تو ایسی تاریخی باتوں کی سند کی تحقیق ہونا بھی ضروری ہے، تاریخ سے متعلق کسی بات کے کسی عالم کی کتاب میں محض درج ہوجانے سے وہ قابل قبول نہیں ہوجاتی۔ اگر یہ اصول قبول کرلیا جائے تو تاریخ کی کتب میں حضرت علی و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ایسی ایسی باتیں موجود ہیں کہ انہیں یہاں درج کیا جائے تو وہ دوستوں کو سخت ناگوار گزریں گی۔
اب آتے ہیں علامہ ابن حجر کی اس روایت کی جانب جو محترم دوست نے پیش کی۔ کتاب “فتح الباری” میں یہ شرط ان الفاظ میں درج ہے:
إني اشترطت على معاوية لنفسي الخلافة بعده (حضرت حسن نے حضرت امیر معاویہ کے ساتھ یہ شرط طے کی کہ امیر معاویہ کے بعد خلافت انہیں ملے گی)
علامہ ابن حجر نے اس کتاب میں اس کی سند ذکر نہیں کی، البتہ کتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں علامہ ابن حجر نے یہ بات طبقات ابن سعد کے مصنف کی روایت سے ان الفاظ میں ذکر کی ہے:
قال ابن سعد: وأخبرنا عبد الله بن بكر السهمي، حدثنا حاتم بن أبي صغيرة، عن عمرو بن دينار، قال: وكان معاوية يعلم أن الحسن أكره الناس للفتنة، فراسله وأصلح الذي بينهما، وأعطاه عهدا إن حدث به حدث والحسن حي ليجعلن هذا الأمر إليه.
یعنی علامہ ابن سعد کہتے ہیں کہ عبداللہ کے طریق سے حاتم اور وہ عمرو بن دینار سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ یہ بات جانتے تھے کہ حضرت حسن فتنے کو سب سے زیادہ نا پسند کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ نے ان سے خط و کتاب کی اور آپس میں صلح کرلی جس میں یہ معاہدہ کر لیا کہ اگر حضرت حسن کے جیتے جی (حضرت معاویہ) انتقال کرگئے تو امارت انہیں دی جائے گی۔
اس روایت پر بعض اہل علم نے یہ فنی بحث کی ہے کہ جس سند سے علامہ ابن حجر نے یہ روایت لی ہے وہ منقطع ہے کیونکہ اس کی سند میں حضرت عمرو بن دینار ہیں جو سن 45 ہجری کو پیدا ہوئے۔ ان کی عمر صلح کے وقت اتنی بنتی ہی نہیں کہ وہ موجود ہوتے، نہ ہی ان کا سماع حضرت معاویہ یا حضرت حسن سے ہے۔
اگر اس فنی بحث سے صرف نظر کرلیا جائے تو بھی اس سے صرف یہ شرط ثابت ہوتی ہے کہ حضرت حسن اگر حضرت معاویہ کے انتقال تک زندہ رہے تو خلافت انہیں ملے گی۔ لیکن یہ بات معلوم ہے کہ حضرت حسن کا انتقال حضرت امیر معاویہ سے پہلے ہوگیا تھا، لہذا معاھدے کی یہ شرط آپ پر بائنڈنگ ہی نہ رہی تھی کہ اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد ہوسکے۔ الغرض محترم دوست کی جانب سے پیش کردہ روایت از خود نفس الزام کو ثابت کرنے میں غیر مفید ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس روایت کے علاوہ بعض دوست اس پر اصرار کریں گے کہ بعض روایات میں اس شرط کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ اس معاملے کو شوری کی جانب لوٹائیں گے۔ اس پر:
الف) پہلا تبصرہ یہی ہے کہ کیا یہ شرط کسی صحیح سند سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو پیش کی جائے تاکہ اس کا تجزیہ کیا جاسکے۔ اگر یہ صحیح سند سے ثابت ہی نہیں تو اس سے تمسک از خود ضعیف ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں حضرت حسن و حضرت معاویہ کی صلح و شرائط کا تذکرہ موجود ہے اور اس میں اس شرط کا کوئی ذکر نہیں۔
ب) اور اگر برسبیل تنزیل یہ فرض کیا جائے کہ یہ ثابت ہے تو ہم کہیں گے کہ اتنی بات تو خود ہمارے بعض دوستوں کو قبول ہے کہ وہ اس خلاف ورزی کو اس بنا پر گناہ نہیں کہتے کہ حضرت امیر معاویہ کے پاس حالات کے پیش نظر اس کی پاسداری کرنے سے عاجز آجانے کا شرعی عذر موجود تھا۔ پس جب شرعی عذر موجود تھا تو امیر معاویہ پر تہمت نہ رہی اور نتیجتاً اس الزام کا ذکر کرنا خود ان دوستوں کے اصول پر درست نہ رہا۔
ج) اور اگر کسی کو ان دوستوں کی یہ عذر والی توجیہہ قبول نہ ہو تو ہم کہیں گے کہ جب روایات میں مختلف شرائط کا ذکر ہوا جیسے کہ خود انہیں قبول ہے کہ کہیں یہ ذکر ہے کہ معاملہ حضرت حسن کی جانب لوٹایا جائے گا اور کہیں یہ کہ شوری کی جانب، تو ان مختلف روایات کو ملا کر پڑھنے کا یہ طریقہ بھی موجود ہے کہ شوری کی طرف پلٹانے والی بات حضرت حسن کی طرف پلٹانے والے بات ہی سے متعلق تھی۔ یعنی اگر حضرت امیر معاویہ کا پہلے انتقال ہوگیا تو معاملہ شوری کے پاس آجائے گا جو حضرت حسن کو امیر بنائے گی۔ پس جب حضرت حسن کا انتقال پہلے ہوگیا تو شرط غیر موثر ہوگئی۔
د) اور اگر کوئی اصرار کرے کہ یہ دو الگ شرائط تھیں (یعنی امیر معاویہ پہلے فوت ہوئے تو حسن امیر بنیں گے اور اگر حسن پہلے فوت ہوئے تو شوری فیصلہ کرے گی)، تو ہم کہیں گے کہ حضرت حسن کے انتقال کے بعد ان کے امیر بننے والی شرط خود بخود ختم ہوگئی۔ رہی بات شوری کی طرف پلٹانے کی تو حضرت امیر معاویہ نے شوری کے مشورے ہی سے ولی عہد بنایا تھا جیسا کہ تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے یہ فیصلہ یکا یک نہیں کیا تھا بلکہ لق و دق علاقوں میں پھیلی ہوئی سلطنت کے گورنروں اور با اثر لوگوں کو اعتماد میں لینے کا اہتمام کیا، صحابہ کی موجودگی میں اجتماعات میں یہ بات ڈسکس ہوئی اور جو بااثر صحابہ اس فیصلے سے خوش نہ تھے آپ ان کے پاس خود چل کر گئے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پس اگر چند بااثر لوگ ان کی اس رائے سے مطمئن نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے مشورہ نہ کیا۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے شوری کے مشورے سے فیصلہ کیا۔
پس جب متعدد معقول توجیہات ممکن ہیں تو انہیں قبول کرنا حضرت معاویہ پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے گناہ کبیرہ کا الزام لگانے سے آسان ہے۔ تاہم (ب) تا (د) توجیہات تب ہیں جب ایسی کوئی شرط صحیح سند سے ثابت ہو جسے پیش کرنا مدعی کے ذمے ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے اس فیصلے کا ضروری نتیجہ بہر صورت یہی برآمد ہوا کہ خلافت ہمیشہ موروثی بنیادوں پر منتقل ہونے لگی۔ اور اسکے بعد کبھی امت مسلمہ کے اصحاب علم وفضل کے اجتماعی مشورے سے خلیفہ کا تقرر نہیں کیا جا سکا۔
خلافت و وراثت کے کامل اتصال سے مجموعی طور مخصوص خاندانوں کے تسلط جنم نے جنم لیا ۔ اور گروہی و قومی تعصبات انتہائی شدت و حدت کے ساتھ پیدا ہوئے ۔ اور خلافت کے حصول کے لیے مختلف خاندانوں نے آپس میں انتہائی خونریز جنگیں لڑیں۔ اور امت ہمیشہ کے لیے مختلف تعصبات کا شکار ہو گئی ۔