غزہ امتِ مسلمہ کی موجودہ صورتِ حال کا سب سے طاقتور استعارہ ہے، اور یہ صورتِ حال ایک معروضی تجزیے کا مطالبہ کرتی ہے۔ فی الحال ہم اس تجزیے کو صرف دو پہلوؤں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دو پہلو امتِ مسلمہ میں جدید ریاست کے رول اور حریتِ انسانی کے مسئلے تک محدود ہیں۔ جدید ریاست کئی پہلوؤں سے میری تحریروں کا موضوع چلی آتی ہے۔ آج ہم جدید ریاست اور طاقت کے عالمی نظام میں اس کی جگہ اور جدید مسلم معاشروں میں حریتِ انسانی اور سیاسی جبر کی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
جدید ریاست کا سیاسی مظہر عالمگیر ہے اور دنیا کا کوئی حصہ اس سے خالی نہیں ہے۔ اس پہلو سے جدید ریاست طاقت اور سرمائے کے عالمی نظام میں ایک یونٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔ ہم عصر عالمی نظام نے دوسری جنگ عظیم کے بعد براہ راست استعماری نظام کی جگہ لی اور ایک طرح کا بالواسطہ استعماری نظام وجود میں آیا جسے بالعموم ضوابط پر مبنی عالمی نظام (rule-based world order) کہا جاتا ہے، اور یہ نظام گزشتہ تین دہائیوں میں سامنے آنے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے اس وقت ایک تحول سے گزر رہا ہے جو عالمی سطح پر طاقت کی مساواتوں کو تیزی سے تبدیل کر رہا ہے۔ یہاں اس امر کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ سیاسی طاقت اور سرمائے کے نظام میں تبدیلی پرامن طریقے سے نہیں آتی، اور نئی قوتوں کے ابھرنے سے اس وقت ایک عالمگیر جنگ کے امکانات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
مسلم دنیا میں قائم تمام جدید ریاستیں بھی استعمار کا ورثہ ہیں۔ جب براہ راست استعمار مسلم دنیا سے پیچھے ہٹا تو ان ممالک میں ایسی جدید ریاستوں کی سیاسی اور معاشی عملداری قائم ہو گئی جن کی ابتدائی تشکیل استعماری دور میں ہوئی تھی۔ آزادی ملنے کے بعد ان ریاستوں میں معمولی تبدیلیاں آئیں لیکن (۱) اپنے وجود کے اعتبار سے یہ مکمل طور پر استعماری تھیں؛ (۲) عالمی نظامِ طاقت کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنی بقا کے لیے ان کا انحصار اور وفاداری طاقت کے عالمی نظام سے تھی جس کا سرخیل امریکہ تھا؛ (۳) اپنی ساخت اور افعال کے اعتبار سے وہ ایک مسخ شدہ جدیدیت کے مظاہر سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔ اس مسخ شدہ جدیدیت کو بالعموم استعماری جدیدیت کہا جاتا ہے؛ (۴) اپنی وجودی تشکیل میں کھپنے والے استعماری افکار کی وجہ سے یہ ریاستیں مسلم دنیا میں استعماری مغرب کی توسیع کا مظہر ہیں؛ (۵) مسلم دنیا میں قائم یہ جدید ریاستیں کسی بھی درجے میں مسلم عوام کی آرزؤوں کی ترجمانی کرنے سے مطلق قاصر تھیں؛ (۶) اپنے تشکیلی عناصر کی وجہ سے یہ جدید ریاستیں کسی بھی سطح پر اسلام سے کوئی فکری یا عملی نسبتیں نہیں رکھتی تھیں؛ (۷) یہ جدید ریاستیں کسی بھی پہلو سے مسلم معاشروں میں عوام کی حریت کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھتی تھیں؛ (۸) اور مغرب کی براہ راست سرپرستی میں جدید مسلم ریاستوں کا بنیادی سیاسی اظہار جبر اور ظلم کی صورت میں مسلسل سامنے آتا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی جدید مسلم ریاستوں نے دو بڑی جنگوں میں جب اصراعیل کا سامنا کیا تو وہ چند دن بھی اس کے سامنے نہ ٹھہر سکیں۔ سنہ ۶۷ء کی جنگ تو صرف چھ دن چلی اور سنہ ۷۳ء کی جنگ کوئی تین ہفتے چلی اور جنگ میں شامل تمام عرب ریاستوں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اسرائیل اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر کامیاب ہو گیا۔ اکتوبر ۷ کو شروع ہونے والی موجودہ گزّا جنگ میں کوئی جدید مسلم ریاست اصراعیل سے نبردآزما نہیں ہے بلکہ مصر، سعودی عرب، اردن، اور متحدہ عرب امارات تو کھلم کھلا یا درپردہ اصراعیل کی مکمل حمایت کر رہی ہیں اور اس کو ہر طرح کا تعاون فراہم کر رہی ہیں۔ یہ مسلم ریاستیں اصراعیل سے درخواست گزار ہیں کہ وہ کسی طرح ہماص کا مکمل صفایا کر دے کیونکہ وہ بھی حماص کو اپنے لیے ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جدید ریاستوں کا بحران بہت نمایاں ہے اور امریکی اور اصراعیلی مداخلت کی وجہ سے لبنان، شام اور عراق میں ریاستی ساختیں ٹوٹ چکی ہیں اور غیر ریاستی قوتیں عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عسکری طاقت حاصل کر چکی ہیں۔غزہ کی جنگ کو اس وقت نو ماہ سے اوپر ہو چکے ہیں اور اصراعیل اپنی غیرمعمولی عسکری طاقت کے باوجود ابھی تک اپنے جنگی مقاصد کو حاصل نہیں کر سکا ہے۔ یہ امر غیرمعمولی طور پر حیرت انگیز ہے کہ غیر ریاستی عسکری قوتیں اصراعیل کے خلاف اس قدر طویل مزاحمت سامنے لا رہی ہیں جبکہ عرب ریاستوں کی جنگی کارکردگی شدید مایوس کن رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں غیر ریاستی قوتیں اس وقت اسرائیل کے خلاف صف آرا ہیں، اور ہضب اللہ اور ہماص اصراعیل کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئی ہیں جبکہ مسلم ریاستیں اس کے سامنے سرنگوں ہیں اور اس کی مکمل حمایت کر رہی ہں۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ داخلی طور پر مسلم ریاستیں اپنی مسلم آبادیوں پر ظلم اور جبر کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتی ہیں اور خارجی طور پر استعماری ایجنڈے کی آلۂ کار ہیں۔ یہ جدید ریاستیں کسی بھی سطح پر مسلم امت کی سیاسی آرزوؤں کی ترجمان نہیں کہی جا سکتیں۔غزہ کی جنگ تمام مسلم ریاستوں کے خلاف ایک بہت بڑی فرد جرم ہے اور ان ممالک میں ان کے کردار کے بارے میں کسی شک و شبہ کو باقی نہیں دیتیں۔
مشرقی وسطیٰ میں فلسطنیوں کی جاری نسل کشی کے تناظر میں یہ ایک ضروری امر ہے کہ اہلِ علم مسلم امہ میں جدید ریاست کے رول کو ازسرنو موضوع بنائیں تاکہ انہیں مسلم عوام کی امنگوں کا حقیقی ترجمان بنانے کے امکانات کا سراغ لگایا جا سکے۔
کمنت کیجے