Home » مغالطات کا بیان ( قسط اول)
فلسفہ

مغالطات کا بیان ( قسط اول)

حافظ محمد اسحق

تحریر ہذا کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ گذشتہ دنوں جب ہم جنوبی پنجاب کے کچھ اسفار پر تھے تو انہی دنوں امریکہ میں مقیم اور روزنامہ جنگ میں “سو لفظوں کی کہانی” لکھنے والے مبینہ متشکک و مصدقہ ملحد مبشر زیدی صاحب نے اپنی وال پر قرآن پاک کی استنادی حیثیت اور اس کے نسخوں کے بیچ پائے جانے والے نہایت معمولی تفاوت پر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے قرآن پاک کو العیاذ باللہ محرف مبدل کلام قرار دینا چاہا جس پر چند نوجوان اہل علم نے چائے کی پیالی میں اٹھائے گئے اس طوفان کی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے انہیں بہت مناسب طریقے سے جواب دیا۔سفر سے واپسی ہوئی تو اسی دوران ایک اور باصلاحیت صاحب علم عاطف ہاشمی صاحب کی جانب سے مبشر زیدی کے ساتھ کی گئی ایک عمدہ گفتگو خاصی وائرل پائی جس میں برادرم عاطف ہاشمی صاحب نے مبشر زیدی صاحب کی جہالت اور ہٹ دھرمی کو بہت خوبصورت طریقے سے عیاں کیا تھا۔عوام نے اس مختصر مکالمہ کو خوب سراہا جس کے بعد مبشر زیدی صاحب نے کھسیانی بلی بن کر کھمبا نوچتے ہوئے ان صاحب کو بلاک کردیا۔
محترم عاطف ہاشمی صاحب نے اس دوران اپنی وال پر ایسے عمومی منطقی مغالطات کے بارے میں لکھنا شروع کردیا جنہیں برت کر ملاحدہ اور مفسدین اپنے باطل اقاویل کو ابدی حقیقت یا کائناتی سچائی بنا لیتے ہیں۔ہماری یہ تحریر محترم کے انہی مضامین کے پس منظر میں ہے۔

منطق میں بیان کردہ مغالطات کا موضوع جنہیں بعض لوگ “منطقی مغالطات” بھی کہہ جاتے ہیں،زمانہ طالب علمی میں درجہ ثانیہ سے ہی ہمارا نہایت پسندیدہ موضوع رہا ہے کیونکہ اس وقت منطق کی اتنی سمجھ بہرحال آچکی تھی کہ”خطاء فی الفکر” سے ذہن کی صیانت(حفاظت) تبھی ممکن ہے جب آپ ایسے مغالطات کو بخوبی سمجھ سکیں جو خطاء فی الفکر کا باعث ہوتے ہیں۔چنانچہ اسی وجہ سے ہم زمانہ طالب علمی سے ہی مختلف کتب سے ایسے منطقی مغالطات کو پڑھنے اور انہیں سمجھنے کے خاصے شوقین رہے ہیں۔اسی ذوق و شوق کے سبب علم منطق کی تدریس کے دوران ہم خارجی مطالعہ کے طور پر خاصے اہتمام سے اپنے بہت سے طلباء کو ڈپٹی نذیر احمد کی مبادی الحکمہ اور خاص کر اس کے آخر میں دیے گئے مغالطات کا بیان پڑھاتے رہے ہیں۔(ڈپٹی نذیر احمد کی یہ کتاب خاصی نایاب مگر از حد مفید ہے اور ہر سال ہم سے اس کتاب کو پڑھنے کی فرمائش کرنے والے طلباء کی سہولت کیلئے رائے ونڈ کے ایک فوٹو کاپی والے صاحب نے اس کتاب کا ایک نسخہ اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا جس پر مصنف کے بعد بطور مدرس ہمارا نام بھی اس نے ازخود ہی لکھ ڈالا تھا۔)

سو اس لحاظ سے یہ امر ہمارے لیے نہایت خوشی کا باعث ہوا کہ ہم یہاں کتاب چہرہ پر بھی کسی صاحب علم کی جانب سے منطقی مغالطات پر عمدہ مضامین سے مستفید ہوں گے۔چنانچہ عاشورہ محرم الحرام کی چند ساعتوں کی فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہم نے عاطف الہاشمی صاحب کے وقیع مضامین کا قدرے فرصت سے مطالعہ کیا اور اس کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ اس بابت اپنا تبصرہ مع کچھ طالب علمانہ گزارشات بھی بغرض اصلاح خود اہل علم کی خدمت میں پیش کر دی جاویں۔ہماری فہرست دوستاں کے اہل علم اور ذی وقار احباب اگر کچھ امر قابل اصلاح پاویں تو بلا تامل راہنمائی فرمائیں۔

محترم عاطف ہاشمی صاحب نے اس سلسلے میں اب تک تین چار مغالطات پر نہایت مختصر طور پر لکھا ہے۔یقینا وہ اپنی مصروفیات یا وقت کی قلت کے پیش نظر ان مغالطات پر مفصل طور پر نہیں لکھ پارہے وگرنہ کوئی بھی منطقی مغالطہ دراصل ایک مکمل قاعدہ قانون اور ایک طرح کا فلسفہ ہوتا ہے جو اپنے انطباقی اور احترازی دائروں میں ٹھیک ٹھیک تبھی بیٹھتا ہے جب اس کی مکمل شرائط اور اس سے جڑے تمام سوالات کو کما حقہ سمجھا جائے۔

یہ درست ہے کہ کتاب چہرہ جیسے عمومی اور عامی پلیٹ فارم پر ایسے دقیق مباحث کو نہایت متفاوت سطح کی علمی استعدادیں رکھنے والوں کو کما حقہ سمجھانا خاصا مشکل کام ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ نامکمل یا ادھوری بات دراصل خود ایک درست اور سچی بات کو غلط رنگ دے دیتی ہے۔اور شائد یہی سبب ہوا کہ ہم اس مخملی مضمون میں ٹاٹ کا پیوند ٹانکنے کی جسارت کر رہے ہیں۔بہر کیف۔۔۔۔ذیل میں ہم ان کے بیان کردہ چاروں “منطقی مغالطات” کا جائزہ لیتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنی گزارشات بھی نمبر وار پیش کرتے جائیں گے۔

محترم عاطف ہاشمی صاحب نے پہلے مغالطے کا عنوان کچھ یوں باندھا ہے۔

“مغالطہ نمبر 1( Snob      appeal      approach      fallacy)
مشہور و با اثر شخصیات کے عمل کو دلیل بنانا”

عاطف ہاشمی صاحب اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ بالفرض اگر کوئی ملحد یوں کہے کہ

“فلاں فلاں مشہور اور با اثر اشخاص ملحد ہو چکے ہیں جن میں معروف مذہبی سکالر بھی شامل ہیں۔” تو اس سے خبر دینے والا شخص اپنے تیئں یہ دلیل پیش کر رہا ہے یا کم از کم یہ تاثر دینا چاہ رہا ہے کہ جب اتنے با اثر لوگ اور مذہبی سکالر بھی اسلام چھوڑ رہے ہیں تو یقینا یہ مذہب درست نہیں ہے، ورنہ یہ معتبر شخصیات تو چھوڑ کر نہ جاتیں۔خبر دینے والے کا یہ انداز ایک بہت بڑے منطقی مغالطے کا مظہر ہے جسے منطق کی اصطلاح میں (Snob      appeal approach) کہتے ہیں، یعنی مشہور و با اثر شخصیات کے کسی عمل کو دلیل بنانا، اور ان کا حوالہ دے کر کسی کو مرعوب کرنا۔

اس کے متصل بعد وہ لکھتے ہیں کہ

مشہور لوگوں اور مذہب کے کسی نمائندہ فرد کا بطور خاص ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس منطقی مغالطے کے ذریعے آپ کو گمراہ کیا جا سکے۔ اس لیے اگر آپ کہیں بھی دیکھیں کہ با اثر افراد کی طرف سے کسی عقیدے یا پروڈکٹ کے اپنانے کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہو کہ چونکہ وہ ایسا کر رہے ہیں لہذا یہی درست ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے جال بچھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں اس مغالطے کو فورا طشت از بام کریں اور اس کی بنیاد پر استوار کیے جانے والے سوال کو فنا کے گھاٹ اتار دیں۔

محترم عاطف الہاشمی صاحب کے محولہ بالا دونوں اقتباسات کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اول یہ سمجھا جائے کہ مغالطہ اور منطقی استدلال کے بیچ جوہری فرق کیا ہوتا ہے؟ تاکہ ہم درست منطقی استدلال اور مغالطہ یا سفسطہ کے درمیان فرق کر سکیں۔

مغالطہ دراصل دعوی اور دلیل کے بیچ کی عدم مطابقت کا نام ہے جب کہ منطقی استدلال انہی دو امور کے مابین درست نسبت اور مطابقت قائم کرنے کا نام ہے۔اس مطابقت و مناسبت کی نوعیت مختلف جگہوں پر مختلف ہوا کرتی ہے اور ہر جگہ پر اس کا درست ادراک ہی قضیہ کو مدلل و مبرھن کرتا ہے۔بصورت دیگر دعوی اور دلیل کے بیچ کا تفاوت پہیے اور گراری کی درمیان گردش سے مانع ہو کر بات آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے اور یوں مکالمے کی گاڑی جام ہوکر رہ جاتی ہے۔

مغالطہ اور منطقی استدلال کی اس مختصر وضاحت کے بعد عاطف الہاشمی صاحب کے بیان کردہ اولین مغالطہ Snob      appeal       approach        fallacy کا لغوی و تاریخی پس منظر اور اس کا درست تناظر سمجھنا بھی ضروری ہےتاکہ اس حوالے سے ہمارے اٹھائے گئے نکات سمجھنے آسان ہوجائیں۔

بظاہر (Snob)کا لغوی معنی گھمنڈی شخص کیا جاتا ہے مگر درحقیقت اس لفظ کا لغوی معنی علم یا ذوق کی ایسی جارحانہ برتری تھا جس کے سبب انسان کسی کو خود کے برابر نا سمجھے۔18ویں صدی کے شروع میں یہ لفظ پہلی بار ایک ایسے موچی کیلئے بولا گیا جو اپنی مہارت پر نازاں تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھمنڈ یا تکبر والا معنی اس میں بعد کو شامل ہوا۔(ظاہر سی بات ہے کہ ایک موچی اپنی مہارت پر نازاں تو ہوسکتا ہے مگر موچی کی کیا اوقات کہ وہ گھمنڈ بھی کر سکتا۔)بہر حال وہاں سے یہ لفظ اپنے مختلف معانی میں پڑاو ڈالتے ڈالتے گھمنڈی اشخاص کیلئے مختص ہوگیا۔حوالہ کیلئے درج ذیل پیراگراف ملاحظہ کر لیا جائے۔
Snob. noun : one      who      has      an      offensive      air      of       superiority      in       matters      of      knowledge      or      taste. Snobs      weren’t            always       the       unbearable      boors      they      are      now. When      the      word       snob       was        first      in      use       in      the       early      18th       century       it referred       to        a        cobbler          (and        we        are        quite         certain        that         cobblers          have          always            been           a            kindly           sort)

اس کے بعد لفظ Snob ترقی کرتے کرتے ایک مشہور مغالطہ کیلئے خاص ہوگیا جس میں مشہور یا بااثر شخصیات کے نام سے عام لوگوں کو جھانسا دیا جاتا ہے۔Snob         appeal           approach         fallacy دراصل مارکیٹنگ کے ان طرق کو آشکار کرتی ہے جس میں مشہور شخصیات کو استعمال کرکے اپنی پروڈکٹ فروخت کی جاتی ہے۔سگریٹ کے اشتہار میں بہادر فلمی ہیروز کی منظر کشی یا کوکا کولا کے اشتہار میں کسی مشہور اداکار کھلاڑی کو غٹاغٹ بوتل پیتے ہوئے دکھانا اصل Snob        appeal         approach کہلاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس کو کچھ دیر کیلئے یہ مغالطہ دینا ہوتا ہے کہ محض سگریٹ کا ایک کش یا کوکا کولا کا ایک گھونٹ آپ کو ان لائق تقلید ہیروز جیسا بنا سکتا ہے۔

یہاں تک کی بحث اس مغالطے یعنی Snob         appeal           fallacy کا اصل تاریخی پس منظر اور درست تناظر بیان کرتی ہے

اب ہم اس مغالطے اور محولہ بالا دونوں اقتباسات کے حوالے سے اپنی رائے نمبر وار پوائنٹس کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔(وبا اللہ التوفیق)

عاطف ہاشمی صاحب کا کسی مشہور شخصیت کے ترک اسلام کو اس کیٹیگری میں رکھنا تو درست ہے کہ اسلام کی حقانیت چونکہ دیگر دلائل سے نہایت مبرھن طور پر ظاہر و باہر ہے،اس لیے کسی مشہور سے مشہور شخصیت کا قبول یا ترک اسلام اسلام کی حقانیت یا بطلان کی دلیل نہیں بن سکتا۔مگر اس کے بعد انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اس مغالطے سے خاصا مبہم نتیجہ نکالا ہے جس سے یہ واہمہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کسی بھی مشہور یا باثر شخصیت کا کوئی قول فعل کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔چنانچہ اسی نتیجے کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں سے دوسرے اقتباس میں صراحت سے لکھا ہے کہ
“اس لیے اگر آپ کہیں بھی دیکھیں کہ با اثر افراد کی طرف سے کسی عقیدے یا پروڈکٹ کے اپنانے کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہو کہ چونکہ وہ ایسا کر رہے ہیں لہذا یہی درست ہے تو سمجھ جائیں کہ آپ کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے جال بچھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں اس مغالطے کو فورا طشت از بام کریں اور اس کی بنیاد پر استوار کیے جانے والے سوال کو فنا کے گھاٹ اتار دیں۔”


یہ نتیجہ فکر اگر اپنے “کہیں بھی دیکھیں” والے عموم کے ساتھ مراد لیا جائے تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ اسلام کے اندر بھی جب کسی معاملہ پر اختلاف رائے ہو اور کوئی فریق اسلام کے مشاہیر یا متفقہ شخصیات کو اپنے دعوی پر بطور دلیل پیش کرے تو نیا نویلا منطقی فورا سے پیشتر اپنا آموختہ دہراتے ہوئے اسے مغالطہ قرار دے بیٹھے گا۔


یہاں پر دعوی اور دلیل کی مطابقت والے قاعدے کو اپلائی کریں تو عیاں ہوگا کہ مشہور شخصیت کا مغالطہ تب تک بلکل درست تھا جب تک اسے اپنے محل میں رکھا گیا اور اس سے محولہ بالا اقتباس اول پر استشہاد کیا گیا مگر جب اس سے ایسے نتائج نکالے گئے جو اس کی خاص حیثیت سے ہٹ کر تھے جو کہ محولہ بالا دوسرے اقتباس میں پیش کیے گئے تھے،تو فورا سے پیشتر یہی بات خود ایک عدل سے متجاوز بات ہوگئی۔


یہاں یہ بات سمجھنی بہت اہم ہے کہ اس مغالطہ کا تعلق دراصل مشہور شخصیات کے نام پر دیے گئے ایسے جھانسے سے ہے جس میں ان کی شہرت کا غلط استعمال کرکے اس سے غیر منطقی نتائج حاصل کیے جائیں۔لیکن اس کے برعکس اگر کسی مشہور یا با اثر شخصیت کی شہرت کا درست استعمال کرتے ہوئے اس سے درست نتائج اخذ کیے جائیں تو یہ ہرگز کوئی منطقی مغالطہ نہیں ہوگا بلکہ بلکل درست استدلال کہلائے گا۔


مشہور شخصیات کا جھانسہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں جس چیز کا دعوی کیا جائے،مشہور شخصیت اس دعوے کیلئے بطور دلیل پیش نا ہوسکتی ہو۔


کسی باثر شخصیت کے نام پر دیے گئے ایسے مغالطے کی ایک عمدہ مثال سرکاری سطح پر باثر اشخاص کو جمع کرکے انہیں استعمال کرتے ہوئے عوامی ہمدردی بٹورنے کا ہتھکنڈہ ہے۔لال مسجد کے قضیہ کے وقت امام کعبہ شیخ عبد الرحمن السدیس کو بلوا کر ان سے لاہور اور اسلام آباد میں پڑھوائی گئی نمازیں اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔


کسی با اثر/ مشہور شخصیت کی شہرت کا جائز استعمال کرتے ہوئے درست استدلال کی مثال غیر مجتہد عامی شخص کی جانب سے قرآن و حدیث سے اپنی فہم کی بنا پر نکالے گئے نتائج کو کسی مشہور اور مسلمہ فقیہ مجتہد کے نتائج افکار کے ذریعے رد کرنا ہے۔
ان مطابقی و احترازی امثلہ میں غوروفکر کرنے سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ مغالطہ کب کہاں اور کیوں پیدا ہوتا ہے۔


مزید یہ وضاحت بھی نہایت اہم ہے کہ مشہور شخصیت کے نام پر دیا گیا مغالطہ اور کسی شعبے یا فیلڈ میں برس ہا برس کی تحقیق کے بعد چہار دانگ عالم میں شہرت پالینے والی قابل اور لائق فائق شخصیت کا حوالہ ہرگز ہرگز ایک جیسی بات نہیں۔صاحب مضمون کی جانب سے اس موضوع پر مبہم اور “موہم الی الاوھام” قسم کا بیان بہت سے کوتاہ فکروں کیلئے مزید مغالطات میں گر پڑنے کا سبب ہوسکتا تھا اس لیے اس امر کی وضاحت کی گئی ہے۔

یہ چند اہم نکات اس مغالطہ کی وضاحت میں پیش کیے ہیں تفحص کرنے پر مزید بہت سے پہلو سامنے آسکتے ہیں۔

بہرحال
یہاں سے ایک دوسری اور نہایت اہم بحث کا آغاز ہوتا ہے کہ اسلام میں شخصیات کی اہمیت کیا ہے؟
کیا شخصیت کبھی دلیل بن سکتی ہے یا نہیں؟
دلیل اور شخصیت کب کب جمع ہوسکتے ہیں اور کب کب نہیں؟
یہ اور ان جیسے بہت سے سوالات ایسے ہیں جنہیں مکمل سمجھے بنا شخصیات کا مغالطہ بجائے خود بہت سے مغالطات کا سبب بنتا رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسحق الہندی صاحب نے  جامعہ مدنیہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔ موصوف پچھلے پندرہ سال سے جامعہ مدنیہ لاہور میں مختلف فنون و علوم کی تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں