ایڈووکیٹ سجاد حمید یوسفزئی
یہ کیس لاہور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا۔ دو اہم سوالات تھے۔
پہلا: امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984 آئین کے آرٹیکل میں درج بنیادی حقوق سے متصادم ہے لہذا اسے متصادم قرار دیا جائے۔
دوسرا: پنجاب میں حکومت نے دفعہ 144 کے تحت نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کے تحت قادیانیوں کو صد سالہ تقریبات عوامی سطح پہ منانے سے منع کیا تھا۔ دفعہ 144 کے تحت جاری کردہ اس نوٹیفیکیشن/حکم نامے کو بھی انہوں نے چیلنج کیا تھاکہ یہ ان کی مذھبی آزادی کے حق کے منافی ہے۔
سپریم کورٹ بنچ میں کل پانچ ججز تھے۔ جسٹس شفیع الرحمان نے فیصلہ لکھا مگر اس سے دیگر ججز نے اختلاف کیا۔ جسٹس شفیع نے قادیانیوں کے اپیلوں کو منظور کیا تھا۔ انہوں نے جو reasoning دی تھی وہ بہت خطرناک تھی۔ یوں وہ فیصلہ اختلافی نوٹ میں بدل گیا۔
تین ججز نے اکثریتی فیصلہ دیا اور ایک اور جج سلیم اختر صاحب نے اپنا علیحدہ نوٹ لکھا جس میں کسی حد تک انہوں نے اکثریتی فیصلے اور کسی حد تک اقلیتی راۓ سے اتفاق کیا۔
مذکورہ بالا دونوں سوالوں کا جواب عدالت نے نفی میں دیا اور قادیانیوں کے اپیلوں کو مسترد کیا۔ مگر اس فیصلے کی بنیاد کیا بنی؟ قانون کی تعبیر و تشریح کے لیے کونسے اصول اپناۓ گیے ؟ اور اس سب کے لیے عدالت کا مأخذ کیا تھا؟
ذیل نکات میں اسی کو مختصراً دیکھتے ہیں۔
عدالت نے شروع میں ہی لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا
” ہم اس بات کو حد درجے سراہتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج نے اس حوالے سے جن ممالک کے فیصلوں سے استفادہ کیا ہے وہ یا تو سیکولر ہیں یا پھر حقوق انسانی کے علمبردار ہیں۔”
یہی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اس فیصلے کی بنیاد یا مأخذ کیا تھا۔ قرآن و حدیث یا پھر معاصر دنیا کا قانونی تصور؟
عدالت نے مزید کہا کہ آرٹیکل 20 جو کہ مذھبی آزادی کا حق دیتا ہے میں لفظ Subject to Law استعمال ہوا ہے۔ یعنی یہ حق قانون (پابندیوں) سے مشروط ہے۔ لامحدود حق نہیں ہے۔
مگر پھر کہا کہ اس phrase کی تعبیر یہ ہر گز نہیں کی جاسکتی کہ مقننہ کے پاس مذھبی آزادی کو مقید کرنے کے لیے لامحدود اختیارات ہیں اور وہ یہ حق ختم بھی کر سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لہذا حل یہ ہے کہ ہر کیس کے مخصوص حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں (مذھبی آزادی اور اس پہ لاگو شرائط) میں معقول تعبیر و تشریح کے زریعے مطابقت پیدا کرنی ہوگی۔
عدالت نے آگے جاکر مزید کہا کہ دیگر ممالک کے نظائر سے معلوم پڑا کہ اگر چہ مذھبی اعمال و افعال مذھبی آزادی کے حق کے تحت دیگر ممالک میں بھی protected ہیں مگر یہ تحفظ ان اعمال و افعال کو حاصل ہے جو اس مذھب کے لازمی جز (essential part) کی حیثیت رکھتے ہوں۔( اس مقام پہ کچھ عرصہ قبل انڈیا کے کرناٹکا ہائی کورٹ کا حجاب پہ دیا جانے والا فیصلہ یاد کیجیے۔ انڈیا میں بھی مذھب کے لازمی جز کے تصور پہ حجاب کا فیصلہ دیا گیا تھا۔ )
مزید عدالت نے کہا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ کسی مذھب کا لازمی جز کونسا ہے اور کونسا نہیں ہے۔
پھر عدالت نے کہا کہ اپیل کنندہ (احمدی و قادیانیوں ) نے ہمیں بتانا ہے کہ صد سالہ تقریبات میں ان کے اعمال و افعال آیا ان کی مذھب کا لازمی جز ہے یا نہیں ہے۔ تاہم اپیل کنندہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ فلاں فلاں اعمال و افعال ان کے مذھب کا لازمی جز ہے۔
یہاں پہ نوٹ کریں کہ عدالت نے ان کو مذھب مان لیا ہے۔ تبھی تو لازمی جز اور غیر لازمی جز کی بحث ہورہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ نوٹ کرے کہ عدالت نے اس کیس کو نجی اور عوامی سطح کے علاؤہ مذھب کے لازمی جز کے تصور کے تحت بھی دیکھا ہے۔ گویا مذکورہ افعال اگر قادیانی اپنے مذھب کا لازمی جز ثابت کر دیتے تو شائد انہیں عوامی سطح پہ صد سالہ تقریبات کی اجازت بھی مل جاتی۔ ایسا اگر مستقبل میں کسی اور کیس میں کسی اور عمل کو وہ مذھب کا لازمی جز ثابت کرنے میں کامیاب ہوۓ تو پھر کیا ہوگا ؟ سوال تو ہے۔
پھر عدالت مزید کہتی ہے کہ ہم نے اوپر بہت سے ایسے فیصلوں پہ انحصار کیا ہے جو ایسے ممالک کے ہیں جو سیکولر یا لبرل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں نہ کہ مذھبی یا بنیاد پرست ہونے کا اور یہی اصول انڈیا کے سپریم کورٹ نے محمد حنیف قریشی بنام ریاست بھار کیس میں نافذ ہوا کہ کچھ ایسے قوانین جو گاۓ کا ذبیحہ منع کرتے ہیں وہ قوانین مسلمانوں کے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہیں کیوں کہ مسلمانوں کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ صرف گاۓ کی ہی قربانی کر سکتے ہیں۔ وہ کسی اور جانور کی قربانی کرے۔
یہاں پھر سے نوٹ کر لیں کہ اس مذھبی معاملے میں مذھبی مملکت کے عدالت کا مأخذ کیا ہے: مذھب یا سیکولرزم ؟ اور انڈیا کا وہ فیصلہ بطور حوالہ پیش کیا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے گاۓ کا ذبیحہ ممنوع کیا گیا تھا اور عدالت نے ایسا کر ا صحیح قرار دیا تھا۔ گویا مذھب سرے سے متعلق ہی نہیں ہے۔ ورنہ ایسا فیصلہ بطور نأخذ پیش نہ کیا جاتا۔
مزید عدالت یہ کہتی ہے کہ دیگر ممالک کے ذکر کردہ فیصلوں سے یہ واضح ہوا کہ مذھبی آزادی کے حق کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ law and public order کی صورتحال پیدا کر سکے۔ اور نقص امن کے لیے خطرہ بنے۔ یہ بات اس اصول پہ استوار ہے کہ ریاست کسی کو بھی ایسی مذھبی آزادی کا حق نہیں دے سکتی کہ جس سے دوسروں کے حقوق غصب ہوں، مذھبی جذبات مجروح ہوں اس انداز میں کہ جس سے law and order کی صورتحال پیدا ہو۔
نوٹ کر لیں کہ عدالت نے law and order situation کی قید بار بار لگائی ہے۔ اگر نقص امن کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو اور قانون بھی خاموش ہو تو گویا قادیانیوں کو کوئی بھی مذھبی آزادی practice کرنے دی جاسکتی ہے خواہ وہ عوامی سطح پہ کیوں نہ ہو۔
پھر عدالت مزید کہتی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کے شعائر وغیرہ استعمال کرنے سے روکا گیا ہے۔ اپنے الگ شعائر اور کتب تخلیق کرنے سے نہیں روکا گیا۔ گویا وہ اپنے لیے اپنے مذھب کے مطابق علیحدہ کتب تخلیق بھی کرسکتے ہیں۔ اور شعائر بھی اپنا سکتے ہیں۔
اگلے حصے میں عدالت نے قرارد مقاصد کا ذکر کیا ہے اور مانا ہے کہ تمام بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کو اسلامی کی روشنی میں دیکھنا پڑے گا۔ مگر یہ صرف کہنے کی حد تک مانا ہے۔
پھر مرزا غلام قادیانی کے بہت سے ایسے اقتباسات جو انتہائی متنازع ہیں کو نقل کر کے عدالت کہتی ہے کہ ایسے حالات میں اگر قادیانیوں کو عوامی سطح پہ اجازت دی گئی تو یہ ان سے ایک اور رشدی تخلیق کرنے کے مترداف ہوگا۔ اور پھر کیا ایسے حالات میں ریاست ان کی جان مال کی حفاظت کی گارنٹی دے سکتی ہے ؟ مزید یہ کہ اگر اس قسم کے (صد سالہ تقریبات) اجتماعات کی اجازت عوامی سطح پہ دی گئی تو یہ ایک سول جنگ چھڑنے کے مترادف ہوگا۔ لہذا ایسے حالات میں حکومت کا یہ حکم نامہ ٹھیک ہے کہ قادیانی یہ سب کام عوامی سطح پہ نہیں کرسکتے۔
یہاں پہ نوٹ کر لیں کہ محور صرف اور صرف عوامی سطح اور نقص امن کا خطرہ ہے۔ گویا کہ نجی سطح پہ وہ کر سکتے ہیں۔
عدالت مزید آخر میں کہتی ہے کہ دنیا میں کہیں پہ مذھب کے غیر لازمی جز کو practice کرنے کو public order پہ ترجیح نہیں دی گئی بلکہ اس سے آگے کہا ہے کہ بسا اوقات تو عوامی انتشار کے پیش نظر مذھب کے لازمی جز کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔
آگے عدالت نے کہا ہے کہ احمدی یہ کہ رہے ہیں ہم تو صد سالہ تقریبات کر رہے ہیں۔ اور اس میں غریبوں کو کھانا وغیرہ بھی بانٹیں گے۔ اس سے کیا خطرہ کسی کو۔۔۔ اس پہ عدالت نے پوری صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ
“We do not find any order stopping these activities, in privet.”
یعنی عدالت کہ رہی ہے کہ ہمیں ایسا کوئی حکم وغیرہ نظر نہیں آیا جو ان اعمال کو نجی سطح پہ ممنوع کرتا ہو۔ گویا نجی سطح پہ یہ سب کیا جاسکتا ہے۔
مزید کہا کہ
Ahmadis like other minorities are free to profess their religion in this country and no one can take away that right of theirs, either by legislation or by exclusive order
کہ احمدیہ کمیونٹی کو اپنے مذھب پہ عمل پیرا ہونے کا پورا حق ہے جیسا کہ دیگر اقلیتوں کو ہے اور ان کا مذہبی حق کوئی نہیں چھین سکتا حتی کہ قانون سازی یا کسی مخصوص حکم نامے کے زریعے بھی نہیں۔
اس نکتے پہ اب علمائے کرام کیا فرمائیں گے ؟
اگرچہ آگے جاکر آئین و قانون کی قید کا ذکر موجود ہے۔
خلاصہ :
اس کیس کا مذھبی آزادی کے حوالے سے اصل مأخذ سیکولر اور لبرل اصول قانون ہیں۔ قرآن و حدیث نہیں ہیں۔
یہ کیس عوامی اور نجی سطح کے تفریق کے تناظر میں ہی دیکھا گیا ہے۔ کہ قادیانیوں کو نجی سطح پہ مذھبی آزادی حاصل ہے عوامی سطح پہ۔
اس کیس میں اصل محور عوامی سطح پہ انتشار کے خدشے یا نقص امن کے خدشے کو مانا گیا ہے۔ نہ کہ کوئی اصولی موقف یا قرآن و حدیث کو۔
قادیانیوں کی مذھبی آزادی کا تحفظ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ آزادی ان سے کوئی قانون سازی بھی نہیں چھین سکتی۔
یہ نوٹ کر لیں کہ اس کیس میں کوئی نظر ثانی کی درخواست علماء کی طرف سے نہیں دی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ آج مبارک ثانی کیس کے سیاق سباق میں علماء ظہیر الدین کیس کو سپورٹ بھی کر رہے ہیں، اس پہ اپنا مقدمہ بھی استوار کر رہے ہیں اور اس کیس کی تشریح کو بھی صحیح مان رہے ہیں تو کیا وہ ایسا درست ہے ؟ انہوں نے واقعی اس کیس کو پڑھا اور سمجھا ہے ؟ کیا ان بیانیہ اور مقدمہ ظہیر الدین کیس پہ استوار ہو بھی سکتا ہے ؟ ان سوالات کے جوابات علماء کرام خود ہی عنایت کر سکتے ہیں۔
کمنت کیجے