Home » مغالطات کا بیان (قسط سوم)
فلسفہ

مغالطات کا بیان (قسط سوم)

محمد اسحق الہندی

محترم عاطف ہاشمی صاحب نے تیسرا مغالطہ
Appeal       to       false       authority       fallacy
کے عنوان سے بیان کیا ہے۔جس کا مطلب ہوتا ہے “دلیل کے مقام پر کسی غلط یا کم تر دلیل کے ذریعے سے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔”اس مغالطے کا دوسرا نام appeal       to unqualified       authority بھی ہے۔

ہم پیچھے لکھ آئے ہیں کہ تمام مغالطات کی بنیاد دراصل دعوے اور دلیل کی کسی بھی درجہ کی عدم مطابقت ہے۔بالفاظ دیگر دلیل اور مدلول میں کامل ہم آہنگی لازمی ہے۔دعوی اور دلیل میں کئی طرح کی مطابقتیں درکار ہوتی ہیں،ذیل میں اس مغالطے کے حوالے سے ان کی مختصر وضاحت پیش خدمت ہے۔

مراتب ثبوت میں یکسانیت

اس کے دو پہلو بنتے ہیں۔
(الف)
اگر کسی ایسے دعوی پر دلیل قائم کرنا مقصود ہو جس کی قطعیت کا دعوی کیا گیا ہو،تو اس پر دلیل بھی ویسی ہی قطعیت کو مستلزم ہونے والی دی جانی چاہیے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم دعوی تو قطعیت کا کریں اور پھر دلیل ایسی دیں جو قطعیت کی بجائے ظنیت کا فائدہ دے۔
اس کی مثال جیسے نیویارک شہر کا ہمارے لیے قطعی ثبوت اس لیے ہے کہ ہم تک اس شہر کے موجود ہونے کے دلائل(مثلا وہاں کے احوال و اخبار)بھی اسی قطعیت سے پہنچے ہیں۔ اس کی دوسری مثال قرآن پاک کی قطعیت کے دعوی پر پیش کیا گیا وہ قطعی ثبوت ہے جس کی کچھ وضاحت چند پیراگراف نیچے چوتھے پوائنٹ سے قبل کی گئی ہے۔
اس بات کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی شے کا قطعی ثبوت دراصل اس کے ثبوت پر پیش کی گئی دلیل کی قطعیت پر موقوف ہوتا ہے۔

(ب)
چنانچہ اس قاعدے کی رو سے معلوم ہوا کہ کسی شے کے قطعی ثبوت کے دعوی پر ظنی دلیل پیش کرنا بھی اسی تیسرے مغالطے یعنی appeal to      false/unqualified       authority کے تحت آئے گا۔
اس کی ایک عمدہ مثال اہل تشیع حضرات کا ولایت علی کے اپنے مخصوص عقیدہ کو ایک طرف قطعی اور ہر مسلمان کیلئے لازم قرار دینا جب کہ دوسری جانب اس کیلئے ایسے محتمل التاویل یا ظنی دلائل پیش کرنا ہے جو ان کے مدعا کے اثبات سے خاصے قاصر رہتے ہیں۔

مراتب انکار میں دعوی اور دلیل کی موافقت

اگر دلیل کسی دعوی کے انکار یعنی رد پر پیش کی جائے تو اس کیلئے بھی لازم ہوگا کہ وہ دلیل قوت انکار میں مخالف کے دعوی سے قوی تر یا کم از کم مساوی ضرور ہو،اس سے کم تر دلیل کے ساتھ مخالف کا دعوی رد نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بلکل اسی طرح ہے جیسے کسی حدیث شریف میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کسی فعل کے کرنے کو نقل کیا جائے تو اس حدیث کا رد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کوئی روایت اسی درجہ کی یا اس سے زیادہ مرتبے کی ہو اور پھر وہ اس حدیث کا رد بھی کر رہی ہو۔چنانچہ اصول الحدیث میں یہ قاعدہ ٹھہرا کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی کسی آیت یا خبر متواتر یا خبر مشہور کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

عاطف ہاشمی صاحب نے اس کی روز مرہ محاورے سے یہ مثال پیش کی کہ نور جہاں کی گائیکی میں فنی غلطیوں کا مدعی دلیل کے طور پر چاہت فتح علی خان کو پیش نہیں کرسکتا۔(یہ مثال پوائنٹ نمبر پانچ کے تحت بھی آتی ہے۔)
اس کی دوسری روز مرہ کی مثال انجینئر محمد علی مرزا صاحب کا تصوف پر رد کرتے ہوئے ابن عربی اور حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ تعالی جیسے حضرات پر نقد کرنا ہے۔

دعوی اور دلیل میں صرف استنادی مطابقت کافی نہیں، بلکہ استدلالی مطابقت بھی ضروری ہے۔

دعوی اور دلیل میں استنادی مطابقت کے ساتھ ساتھ استدلالی مطابقت بھی ضروری ہے یعنی دلیل نا صرف اپنے اپنے استناد میں یقینی اور قطعی ہونی چاہیے بلکہ دلیل سے اس دعوی پر استدلال بھی ویسا ہی قطعی اور یقینی ہونا چاہیے۔

اسی مغالطے کی ایک مثال مبشر زیدی صاحب کا حالیہ واویلا تھا جس کے تحت انہوں نے قرآن پاک کی استنادی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔موصوف اس سلسلے میں جو چند دور از کار کے دلائل لائے،وہ اسی مغالطے کے تحت تھے جن میں قرآن پاک کے غیر محرف و غیر مبدل ہونے اور اپنے استناد میں نہایت قطعی و متواتر ہونے کے دلائل کو نہایت بودے اور بیسیوں تاویلات کے محتمل دلائل سے برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔اس سلسلے میں مبشر زیدی صاحب کی کل تگ و تاز چند مبینہ قرآنی نسخوں کے ایسے عکوس جمع کرنے تک محدود رہی جن کے بیچ نا صرف یہ کہ نہایت معمولی قسم کے فروق تھے بلکہ خود ان نسخوں کے بارے میں ایک فیصد بھی یقین اور قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ باقاعدہ لکھے گئے قرآن تھے۔چنانچہ بہت سے ماہرین نے نسخہ صنعاء (جس پر مبشر زیدی صاحب نے اپنی پورے افسانے کی بناء رکھنے کی کوشش کی تھی)میں اوپر تلے پائی گئی دو تحریروں سے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ یہ دراصل کسی طالب علم کی وہ ذاتی املاء تھی جسے اپنی یاداشت کیلئے وقتا فوقتا لکھا گیا۔
اصل قصہ جو بھی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ نسخہ صنعاء ہو یا قرآن پاک کے دیگر مبینہ قدیم ترین مخطوطات۔۔۔۔وہ اپنی تمام تر اسناد کے باوجود بہرحال اپنی استنادی حیثیت میں کبھی بھی اس قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتے جسے مسلمانوں کے کروڑوں بچے اپنے سینوں میں محفوظ لیے پھر رہے ہیں۔
چنانچہ اصل بات یہی ہے کہ قرآن پاک کا ثبوت و استناد مخدوش و مشکوک قدیم ترین نسخوں پر موقوف ہی نہیں چہ جائیکہ ان کے معمولی قسم کے تفاوت سے قرآن پاک پر حرف گیری کی جائے۔
ایک ایسی کتاب کہ جس کے روز اول سے سیکنڑوں حافظ تیار کیے گئے اور ہر شخص کا صبح شام،اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے،کام کاج کرتے حتی کہ نمازوں اور رات کے نوافل میں اسے نہایت اہتمام سے پڑھنے کا معمول رہا۔۔۔یہاں تک کہ اسی کتاب کے بل بوتے پر پوری ایک ایسی سوسائٹی تیار کی گئی جو مکمل طور پر قرآنک سوسائٹی تھی۔ایسی سوسائٹی جس میں قرآن پاک کے پڑھنے/سیکھنے کے لیے لوگ وقف ہوئے جن کا اوڑھنا بچھونا بھی یہی تعلیم و تعلم ٹھہرا حتی کہ ان کی اس کتاب ہدایت سے مشغولیت اس قدر تھی کہ وہ اپنے کھانے پینے اور کسب معاش تک سے بے پرواہ ہوگئے،ہادی عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صاحب قرآن کو تمام دینی اور دنیاوی مراتب میں فوقیت کی اکلوتی ڈگری قرار دیا چنانچہ تمام عہدے اور مناصب حاملین قرآن کو دیے جاتے تھے اور اسی کے سبب ہر خاص و عام اس کتاب پر پروانے کی مانند ٹوٹ پڑتا تھا۔ایسے ماحول اور سوسائٹی کے بارے میں مبشر زیدی صاحب کا یہ کہنا کہ اس دور میں کاغذ نایاب تھا،یا یہ کہ اگر پرنٹنگ پریس نا آتا تو مسلمانوں میں قرآن پاک عام نا ہوتا۔سراسر طفلانہ باتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اس دور خیر القرون کے لوگوں کو بھی خود پر قیاس کرتے ہوئے اپنی طرح دین سے لاتعلق اور بیزار سمجھ رکھا ہے۔

دعوی اور دلیل میں عموم خصوص کی مطابقت

دعوی اور دلیل کے عام یا خاص ہونے کی صورت میں ان کی آپسی عموم خصوص میں مطابقت بھی اسی مغالطے کے تحت آتی ہے۔کیونکہ عام دعوی پر خاص دلیل یا خاص دعوی پر عام دلیل ناکافی ہونے کے سبب اپیل ٹو فالس/ان کوالیفائیڈ اتھارٹی بن جاتی ہے۔
عام دعوی پر خاص دلیل کی مثال جیسے اسلام کے پرتشدد مذھب ہونے پر بعض مسلمانوں کے جذباتی رویے سے استدلال چاہنا۔اور خاص دعوی پر عام دلیل سے استدلال کی مثال جیسے مبشر زیدی صاحب کا کاغذ کی کمیابی سے قرآن پاک کی استنادی حیثیت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرنا۔

اگر دعوی کسی فنی مہارت سے متعلق ہو تو دلیل بھی اسی فن کے ماہرین سے پیش کی جائے گی۔

عاطف ہاشمی صاحب اس کیلئے زمین کے متحرک ہونے پر مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کی مثال لائے ہیں کہ چونکہ وہ اس فن کے ماہر نا تھے سو ان کی جانب سے زمین کے ساکن ہونے کے دلائل اس باب میں معتبر نا ہیں۔

اہم نکتہ:
یہاں بظاہر یہ مغالطہ یعنی “اپیل ٹو فالس اٹھارٹی” پہلے مغالطے یعنی”اپیل ٹو اتھارٹی” سے ٹکرا رہا ہے کہ فاضل بریلوی صاحب کے دلائل کے جواب میں دلائل پیش کیے جانے چاہیں تھے ناکہ شخصیات۔سو اس کا جواب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جو ہم پہلے مغالطے کے ضمن میں شخصیات کی بحث کے دوران ذکر کر چکے ہیں کہ بسا اوقات کسی خاص فن میں اس فن کے ماہرین کو پیش کرنا بھی ایک طرح سے دلیل ہوا کرتا ہے۔یعنی دیگر سائنس دانوں کے مقابل تو فاضل بریلوی صاحب کی دلیل رد ہوسکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ سمجھنا کہ حرکت زمین کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ سائنس دان ایسا کہتے ہیں سو اسے مان لیجیے،یہ فورا وہی اپیل ٹو فالس اتھارٹی والا مغالطہ بن جائے گا۔
اس نکتے پر غور کرنے سے ان دونوں مغالطوں کا جوہری فرق بھی بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ اپیل ٹو اتھارٹی کا مغالطہ دراصل نرا “شخصی تحکم” اور اپیل ٹو فالس اتھارٹی “غیر اہل شخص سے دلیل پکڑنا” ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوئی شخص ان دونوں مغالطوں کو جمع کرتے ہوئے “جمع بین الخطائین”کا مرتکب ہوجائے۔

ان چار پانچ اہم نکات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ مغالطہ سمجھنا خاصا آسان رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسحق الہندی صاحب نے جامعہ مدنیہ لاہور سے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔ موصوف پچھلے پندرہ سال سے جامعہ مدنیہ لاہور میں مختلف فنون و علوم کی تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں