عامر حسینی
میں نے جب ایم اے فلاسفی میں وائی وا دینے کی بجائے تحقیقی مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے شیخ ابن عربی کو چنا تو میرے استاد سعید عالم مرحوم نے مجھے مشورہ دیا کہ میں عربی زبان کی اتنی شد بد پیدا کرلوں کہ شیخ ابن عربی کے اصل متون کو ایک نظر دیکھ سکوں – میں نے اس کے لیے جس استاد سے رہنمائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا وہ شیخ ابن عربی کے سخت مخالف تھے – دیوبندی اسلام میں تاریخ اسلام اور قریب قریب سارے مجموعہ احادیث کو عجمی سازش گرداننے والوں کی آبیاری میں ان کا بڑا ہاتھ تھا- وہ علامہ تمنا عمادی کی لائن کے آدمی تھے- علمائے دیوبند میں وہ بانی دارالعلوم بنوریہ مولانا شیخ الحدیث یوسف بنوری کے داماد تھے – مجلس علمی کراچی کے بانی تھے- دنیا انھیں مولانا طاسین کے نام سے جانتی ہے – اگرچہ وہ مسلم تاریخ و سیر، احادیث، تفاسیر کو سلف کے اسلام سے مخالف سمت میں کھڑا قرار دیتے تھے لیکن ملوکیت کے سخت دشمن تھے – وہ اسلام میں جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ تصور ملکیت کی کوئی گنجائش نہیں دیکھتے تھے – اسی لیے وہ سعودی بادشاہت اور اس کے زیر اثر فروغ پانے والے وہابی اسلام کے سخت مخالف تھے – اپنے سسر مولانا یوسف بنوری کے بارے میں وہ بتایا کرتے تھے کہ کیسے وہ افغانستان میں خلق ڈیموکریٹک پارٹی کے تحت آنے والے ثور انقلاب کے سخت حامی تھے – جس رات انھیں افغانستان میں ثور انقلاب کی خبر پہنچی تو انہوں نے جامعہ بنوریہ کے طلباء اور اساتذہ کو اکٹھا کرکے اس انقلاب کے آنے کی نوید سنائی اور مبارکباد دی – اس رات جامعہ بنوریہ میں جشن کا سا سماں تھا – مولانا طاسین نے جامعہ بنوریہ اس وقت چھوڑ دیا تھا جب اس مدرسہ پر مفتی نظام الدین شامزئی کا کنٹرول ہوا اور انہوں نے اس مدرسے کو سی آئی اے ، آئی ایس آئی اور سعودی فنڈنگ افغان جہاد کا بیس کیمپ بنا ڈالا اور اسی مدرسے میں جمعیت حرکت المجاہدین کی بنیاد رکھی گئی تھی –
خیر میں نے ایک سال اور تین ماہ مولانا طاسین سے صرف و نحو سے لیکر عربی عبارت کی تحلیل و ترکیب کے اصول جتنا سیکھ سکتا تھا سیکھے اور اس قابل ہوا کہ شیخ ابن عربی کی کتب کے اصل متون کو کسی حد تک براہ راست پڑھ سکوں – اس نے مجھے کتب متداولہ کے اصل متون اور ترجموں میں موازنے کے قابل بھی بنایا – اس موازنے نے مجھے اصل عربی متون اور ان کے انگریزی ، فارسی اور اردو تراجم کے درمیان فرق کرنا بھی سکھایا-
آپ یقین کریں نہ کریں ، شیخ ابن عربی کے اصل عربی متون کو پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کے تراجم کسی نہ کسی حد تک اصل متون سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں – اور میں نے جب ترجمہ کے باب میں جیک دریدا کی تحریریں پڑھنا شروع کیں تو مجھے یک گونہ خوشی کا احساس ہوا کہ میرے ہاں تراجم کے اصل متون سے بے وفائی کا جو مبہم احساس تھا اس دریدا نے بہت تفصیل سے بیان کیا – ترجمے میں اصل متن کا کچھ نہ کچھ کھو جاتا ہے –
جیوڈتھ بٹلر کے “آف گراموٹولوجی ” کے گیاتری سپیوک کے ترجمہ پر لکھے مقدمے کے اگلے حصے کو یہاں نقل کرنے سے پہلے ترجمے کے باب میں میں کچھ معروف اقوال کو نقل کروں گا :
“Translation is that which transforms everything so that nothing changes.” — Günter Grass
“ترجمہ وہ عمل ہے جو ہر چیز کو تبدیل کر دیتا ہے تاکہ کچھ بھی نہ بدلے۔”
“Without translation, we would be living in provinces bordering on silence.” — George Steiner
“بغیر ترجمہ کے، ہم خاموشی کی سرحدوں پر زندگی گزار رہے ہوتے۔”
“All translation is a compromise – the effort to be literal and the effort to be idiomatic.” — Benjamin Jowett
“ہر ترجمہ ایک مصالحت ہے – حرف بحرف ترجمہ کرنے کی کوشش اور روزمرہ کے محاورات کو برقرار رکھنے کی کوشش۔”
“The original is unfaithful to the translation.” — Jorge Luis Borges
“اصل متن ترجمے کے ساتھ بے وفا ہوتا ہے۔”
Poetry is what gets lost in translation.” — Robert Frost
“شاعری وہ ہے جو ترجمے میں کھو جاتی ہے۔”
“Writers make national literature, while translators make universal literature.” — José Saramago
“مصنفین قومی ادب تخلیق کرتے ہیں، جبکہ مترجمین عالمی ادب بناتے ہیں۔”
“To translate is to betray.” — Italian Proverb
“ترجمہ کرنا دراصل خیانت کرنا ہے۔”
“Translation is not a matter of words only: it is a matter of making intelligible a whole culture.” — Anthony Burgess
“ترجمہ صرف الفاظ کا معاملہ نہیں ہے: یہ پوری ثقافت کو قابل فہم بنانے کا عمل ہے۔”
جیوڈتھ بٹلر آگے لکھتی ہیں :
[تحریک کیوں اور کس مقصد کے لیے؟ یہ پہلا سوال، قابل ذکر طور پر، دریدا کا اپنا سوال نہیں تھا، کیونکہ کسی متن کی قابل مطالعہ ہونے کی صلاحیت اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ اسے کوئی پڑھتا ہے یا نہیں۔ قابل مطالعہ ہونا متن کی ایک خصوصیت ہے، اس کی اپنی خوبیاں ہیں (یہ ایک نکتہ ہے جس پر ہم دوبارہ بات کریں گے)۔ دوسرا سوال انصاف اور وفاداری کے مسائل پر مرکوز نظر آتا ہے: کیا اصل متن کا انگریزی میں پیش کیا جانا ایک مناسب یا منصفانہ طریقہ ہے؟ کیا یہ اصل کے قریب تر ہے؟ کیا یہ کلیدی نکات پر غلطی کرتا ہے یا وہ مقامات جہاں کچھ اصطلاحات فرانسیسی کو انگریزی میں زیادہ وفاداری سے منتقل کر سکتی تھیں؟ بعض طریقوں سے، وفاداری کا یہ سوال ایک اخلاقی، اگرچہ زیادہ مذہبی نہیں، کا بھوت بن جاتا ہے جو اپنے سفر کے دوران کسی ترجمے کی پیروی کرتا ہے۔ پھر بھی، یہ مکمل طور پر دریدا کا سوال نہیں تھا، حالانکہ انہوں نے یقینی طور پر کچھ ترجموں کو دوسرے سے بہتر پایا۔ انہوں نے، تاہم، اس بات کو نہیں مانا کہ ترجمہ کو ایک مثالی یا مقلد تصور کے مطابق ہونا چاہیے، یا اس بات کو کہ ترجمہ کو فرانسیسی کو انگریزی کی طرح آواز دینے یا مزید فرانسیسی لگنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ والٹر بینجامن کے “دی ٹاسک آف دی ٹرانسلیٹر” کی پیروی کرتے ہوئے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترجمہ پیچھے کی طرف جا کر اس زبان کو بدل دیتا ہے جس میں اصل متن لکھا گیا تھا اور اس زبان کو بھی جس میں اصل پہنچتا ہے۔یہ باہمی اور مسلسل جاری اثرات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترجمہ زبانوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور ترجمہ صرف اپنی اشاعت کی تاریخ پر کام نہیں کرتا: یہ عمل جاری رہتا ہے، ناہموار اور نامکمل۔ درحقیقت، ہم اب خود کو اسی حالت میں پاتے ہیں، اسی لمحے میں پڑھتے ہوئے، اس کے اختتام کو نہ جانتے ہوئے۔ تاریخوں کا اس بات سے کچھ تعلق ضرور ہے کہ ہم کہاں پہنچے ہیں، لیکن وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ یہ سلسلہ کھلا کیوں ہے۔
مزید برآں، یہ جاری رہنے والے تبدیلیوں والے اثرات مقلد یا اخلاقی تقاضوں سے زیادہ اہم ہیں جو کسی ترجمہ کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ ہمیشہ مترجم کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ اثرات پر قابو پائے۔ وہ اثرات کسی بھی فرد کے فیصلوں سے بھی آتے ہیں جو بین الزبانی ملاقات کی حالت سے گزرتا ہے۔ جب سامنا کرنے کی شرائط واضح نہیں ہوتی ہیں، تو وفادار ہونا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ایک زبان کبھی دوسری زبان کی طرح نہیں لگ سکتی، اور اگرچہ ایسا ہوتا بھی، تو ضروری نہیں کہ اس سے متن کو لسانی حد بندی کے پار صحیح طریقے سے پہنچایا جا سکے (آواز کی بنیاد پر مماثلت “جھوٹے دوست” پیدا کر سکتی ہے—غلط، بے وفا، اور بے ایمان دوست)۔ تو کیا ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ انگریزی فرانسیسی سے ہٹ جاتی ہے، یا یہ ترجمے کے دوران ضروری راستے کا حصہ ہے جس کا انتخاب وہ لوگ کرتے ہیں جو اس مشکل اور یادگار متن کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بغیر اس مثالی تصور کے کہ اصل کو دوسری زبان میں بحال کیا جائے؟
اگر ترجمے کا مسئلہ، آف گراماٹولوجی کا مرکزی مسئلہ، مقلد تصور کے جنریٹو انہدام پر منحصر ہے، جس کے تحت لکھنے کے تقاضے آواز کی بازگشت کو دہرائے، اور اگر ترجمہ اسی مسئلے سے نمٹتا ہے—مقلد کے انہدام کے جنریٹو عمل سے—تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ترجمے کو اصل میں کیا لالچ دیتا ہے۔
فرانسیسی کو انگریزی میں کھونے پر افسوس کی ناگزیر داستان، خاص طور پر جب ہم یہ جانتے ہیں کہ ترجمے کی “وفادار صوتی تجسیم” کی کشش پر سوال اٹھانا کیوں دانشمندانہ ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے: ترجمہ انگریزی میں کیسے مداخلت کرتا ہے، یہاں تک کہ تعلقات کو تبدیل کرتا ہے، وہ غلطیاں اور بے ترتیب واقعات جو ہمیشہ انگریزی اور فرانسیسی کے درمیان ہوتے نظر آتے ہیں؟ کیا کھو جاتا ہے، کیا باقی رہتا ہے، اور وہ باقی کس طرح برقرار رہتا ہے؟ کیا یہ ترجمہ آف گراماٹولوجی کا ایک ایسا طریقہ نہیں ہے جو، اگرچہ اداس، مگر حیرت انگیز
ہے]
جیوڈتھ بٹلر نے یہاں ہمیں ترجمے اور اس کی پیچیدگیوں کے بارے میں خود ژاک دریدا کے خیالات سے مزید آگاہی دلانے کی کوشش کی ہے – اور اس دوران ہم ایسے کئی نکات سے واقف ہوتے ہیں جن کی طرف عام مترجمین کا دھیان بھی نہیں جاتا –
ژاک دریدا نے زبان، ترجمہ اور متن کے معنی کی پیچیدگیوں پر ایک منفرد اور گہرے فلسفیانہ نقطہ نظر پیش کیا۔
ان کے مطابق، ترجمہ ایک سادہ لسانی عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف الفاظ کے معانی کو منتقل کرتا ہے بلکہ اصل متن کے اندر موجود ثقافتی، لسانی اور تاریخی پس منظر کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ان کی تحریروں میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ترجمہ کے دوران اصل متن کا ایک خاص حصہ ہمیشہ کھو جاتا ہے یا تبدیل ہو جاتا ہے، اور اس کا اثر قاری کے فہم اور تجربے پر ہوتا ہے۔
ترجمے کا سوال:
دریدا کے نقطہ نظر کے مطابق، ایک اہم سوال یہ ہے کہ ترجمہ اصل متن کو کس حد تک درست طور پر پیش کر سکتا ہے؟
کیا ترجمہ اصل متن کی وفاداری کے ساتھ ترسیل کر سکتا ہے یا یہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھو دیتا ہے؟
دریدا کے مطابق، ہر ترجمہ میں کچھ بنیادی چیلنجز ہوتے ہیں۔ ایک زبان کو دوسری زبان میں مکمل طور پر منتقل کرنا ناممکن ہے کیونکہ ہر زبان کی اپنی مخصوص ثقافتی اور تاریخی جڑیں ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب فرانسیسی جیسے کسی متن کا انگریزی میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر لفظ اور ہر معنی اسی طرح پیش کیا جا سکے۔
وفاداری اور انصاف کا سوال:
دریدا کا سوال یہ بھی تھا کہ کیا ترجمہ اصل متن کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے؟
کیا یہ ترجمہ اصل متن کی روح کو اسی طریقے سے قاری تک پہنچا سکتا ہے جیسے وہ اپنی اصل زبان میں تھا؟
دریدا کے مطابق، یہ سوال صرف ایک لسانی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور فکری سوال بھی ہے۔
کیا مترجم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اصل متن کی تمام پیچیدگیوں کو دوسرے زبان میں اسی طریقے سے پیش کرے؟
دریدا کا ماننا تھا کہ بعض اوقات اصل متن کی وفاداری ایک “اخلاقی بھوت” بن جاتی ہے جو ترجمہ کے دوران مترجم کا پیچھا کرتی ہے۔
مترجم یہ سوچتا ہے کہ کیا وہ اصل متن کی پوری سچائی اور معنی کو دوسری زبان میں منتقل کر رہا ہے یا وہ کہیں نہ کہیں اس سے دور جا رہا ہے؟
آواز اور معنی کا مسئلہ:
دریدا کا کہنا تھا کہ ایک زبان کی آواز دوسری زبان میں کبھی پوری طرح سے منتقل نہیں ہو سکتی۔
مثال کے طور پر، فرانسیسی زبان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کی مخصوص آواز اور معنی ہوتے ہیں جو انگریزی میں بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کا لسانی فرق ترجمہ کے دوران پیدا ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ترجمہ کبھی مکمل طور پر اصل متن کی طرح نہیں ہو سکتا۔
دریدا کے مطابق، یہ فرق ایک مقلد تضاد پیدا کرتا ہے جو ترجمہ کے دوران ہوتا ہے۔ مترجم کو فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اصل متن کی آواز کو کس حد تک برقرار رکھے یا وہ اسے نئی زبان کی ضروریات کے مطابق ڈھالے۔
یہ عمل ترجمہ کے دوران ایک جنریٹو تصادم پیدا کرتا ہے، جہاں مترجم کو ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے جس سے وہ اصل متن کی روح کو برقرار رکھ سکے اور ساتھ ہی نئی زبان کے قواعد و ضوابط کی پاسداری بھی کرے۔
کیا کھو جاتا ہے اور کیا باقی رہتا ہے؟
دریدا کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ترجمہ کے دوران اصل متن کا ایک حصہ ہمیشہ کھو جاتا ہے۔
جب فرانسیسی زبان کو انگریزی میں منتقل کیا جاتا ہے تو کچھ مخصوص ثقافتی اور لسانی جزو ضرور ضائع ہو جاتے ہیں۔
یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس عمل کے دوران کیا باقی رہتا ہے؟ کیا اصل متن کی روح اور معنی برقرار رہتے ہیں یا وہ بھی ترجمہ کے عمل میں کہیں گم ہو جاتے ہیں؟
دریدا کے نزدیک، یہ سوال بہت اہم ہے کیونکہ یہ ترجمے کے عمل کی بنیادی نوعیت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
ترجمہ کبھی بھی ایک مکمل عمل نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک جاری رہنے والا عمل ہے جس میں قاری کو خود یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اصل متن کی وفاداری برقرار رہی ہے یا نہیں۔
ترجمہ: ایک مسلسل عمل:
دریدا کے مطابق، ترجمہ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہ کبھی ایک حتمی یا مکمل حالت تک نہیں پہنچتا۔
ہر نیا ترجمہ اصل متن کے مختلف پہلوؤں کو ایک نئی شکل میں پیش کرتا ہے، اور اسی طرح ترجمہ کا عمل ایک طرح سے نا مکمل رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، ترجمہ کے دوران پیدا ہونے والی نئی تفہیم اور تبدیلیاں اصل متن کے ساتھ ایک نیا رشتہ بناتی ہیں۔
ژاک دریدا کا فلسفہ ترجمہ کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق، ترجمہ ایک ایسا عمل ہے جو ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھو دیتا ہے اور نئے معانی پیدا کرتا ہے۔ دریدا کے مطابق، ترجمہ کبھی بھی مکمل طور پر اصل متن کی عکاسی نہیں کر سکتا، اور یہ ہمیشہ ایک فکری اور لسانی چیلنج کے طور پر برقرار رہتا ہے۔
اب میں یہاں جیوڈتھ بٹلر کے اس نقل کردہ اقتباس میں سے کچھ اہم سطریں انگریزی اصل اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرتا ہوں تاکہ بات اور کھل کر سامنے آئے :
1. “Translation is a moral, if not a moralizing, ghost that follows any translation through its travels.”
“ترجمہ ایک اخلاقی، اگرچہ زیادہ مذہبی نہیں، کا بھوت ہے جو ترجمہ کے دوران سفر کرتا ہے۔”
یہ قول اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ترجمے کا عمل ہمیشہ اصل متن کی وفاداری کے سوال سے جڑا رہتا ہے۔ مترجم کو اس بات کی فکر رہتی ہے کہ آیا وہ اصل متن کا صحیح طور پر ترجمہ کر رہا ہے یا نہیں، اور یہ فکری کشمکش مترجم کا پیچھا کرتی رہتی ہے جیسے کوئی اخلاقی ذمہ داری۔
2. ” A translation retroactively alters the language in which the original was written as much as it breaks into and augments the language into which the original arrives.”
“ترجمہ نہ صرف اس زبان کو بدل دیتا ہے جس میں اصل متن لکھا گیا تھا بلکہ یہ اس زبان میں بھی اضافہ کرتا ہے جس میں اصل متن پہنچتا ہے۔”
یہ قول اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ جب کوئی متن ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتا ہے تو یہ صرف نئی زبان کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ اس زبان کو بھی متاثر کرتا ہے جس میں اصل متن لکھا گیا تھا۔ ترجمہ ایک دو طرفہ عمل ہوتا ہے جو دونوں زبانوں میں تبدیلیاں لاتا ہے۔
3. ” Translation acts upon both languages, suggesting that the translation does not simply arrive on the date of publication: that arrival is ongoing, uneven, and incomplete.”
“ترجمہ دونوں زبانوں پر اثر انداز ہوتا ہے، یہ اشارہ کرتا ہے کہ ترجمہ صرف اشاعت کی تاریخ پر مکمل نہیں ہوتا: اس کا پہنچنا ایک جاری، غیر متوازن، اور نامکمل عمل ہوتا ہے۔”
یہ قول اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ترجمہ ایک جاری عمل ہے۔ ایک بار جب کوئی متن شائع ہوتا ہے، تو اس کا ترجمہ ہمیشہ ایک متحرک اور غیر مکمل حالت میں ہوتا ہے۔ مترجم کا کام کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ مختلف قاری اسے مختلف طریقوں سے سمجھتے ہیں۔
4. “The ongoing transformative effects are more important for understanding the task of the translator than any mimetic or moral demand for fidelity.”
“جاری تبدیلی والے اثرات مترجم کے کام کو سمجھنے کے لیے زیادہ اہم ہیں بنسبت کسی مقلد یا اخلاقی مطالبے کے جو وفاداری کے لیے ہوتا ہے۔”
یہ قول اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ ترجمہ صرف اصل متن کی نقل یا اس کی مکمل وفاداری کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ یہ ایک تبدیلی کا عمل ہے جس میں نئے معانی اور تفہیم پیدا ہوتے ہیں۔ مترجم کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر لفظ کو جوں کا توں نقل کرے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اصل متن کی روح کو نئے سیاق و سباق میں ڈھالا جائے۔
5. “The question: How does the translation intervene in English, even transform the relationship, the missteps and anachronisms, which seem always to be happening between English and French?”
“سوال یہ ہے: ترجمہ انگریزی میں کیسے مداخلت کرتا ہے، یہاں تک کہ تعلقات، غلطیوں اور بے ترتیبیوں کو تبدیل کر دیتا ہے، جو ہمیشہ انگریزی اور فرانسیسی کے درمیان ہوتی نظر آتی ہیں؟”
یہ قول ترجمے کے دوران پیدا ہونے والی مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب دو زبانوں، جیسے کہ انگریزی اور فرانسیسی، کے درمیان ترجمہ ہوتا ہے تو اکثر غلطیاں یا بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ اس سوال میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ مشکلات کیسے پیدا ہوتی ہیں اور ترجمہ کس طرح ان سے نمٹتا ہے۔
6. “What is lost, what lives on, and how does that living on happen?”
“کیا کھو جاتا ہے، کیا باقی رہتا ہے، اور وہ باقی کس طرح برقرار رہتا ہے؟”
یہ قول اس سوال پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ ترجمہ کے دوران اصل متن کا کون سا حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور کون سا حصہ ترجمہ میں زندہ رہتا ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ ہر ترجمہ میں کچھ نہ کچھ کھو جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی کچھ عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو قائم رہتے ہیں اور دوسری زبان میں منتقل ہو جاتے ہیں-
یہ تمام اقوال اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ترجمہ ایک پیچیدہ اور مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے، جو نہ صرف زبانوں کے درمیان معانی کو منتقل کرتا ہے بلکہ دونوں زبانوں کو تبدیل اور متاثر بھی کرتا ہے۔ مترجم کو اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ اصل متن کی روح اور معانی کو برقرار رکھتے ہوئے نئے سیاق و سباق میں کیسے پیش کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عامر حسینی صحافت کے شعبہ سے وابستہ اور مختلف اخبارات کے کالم نویس ہیں ۔ سیاسی و سماجی امور کے علاوہ تاریخ و تصوف آپ کی دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔
کمنت کیجے