طلحہ نعمت ندوی
دنیا میں پیش آنے والے حالات یا مصائب آزمائش ہیں یا سزا ہیں اس کا فیصلہ کس طرح ممکن ہے، کیوں کہ اس طرح کے حالات سب کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں، خود حدیث میں صراحت ہے کہ سب سے زیادہ انبیاء پر مصائب آتے ہیں، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا کی مصیبتوں کے بارے میں کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا جاتا کہ گناہوں کی سزا ہے یا آزمائش ہے، لیکن قرآن پاک میں ایسی آیتیں موجود ہیں جن میں کافروں پر آنے والے مصائب کو ان کے کفر و معصیت کی سزا قرار دیا گیا ہے، اور یہ بھی جابجا ذکر کیاگیا ہے کہ اگر وہ اطاعت کرتے تو ان کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہوتیں۔
ولو أن أهل القرى آمنوا واتقوا لفتحنا عليهم بركات من السماء والأرض ولكن كذبوا فأخذناهم بما كانوا يكسبون.
دوسری جگہ فرمایا گیا
ولو أنهم أقاموا التوراة وآمنوا بما أنزل إليهم من ربهم لأكلوا من فوقهم ومن تحت أرجلهم.
اس طرح کی دسیوں آیتیں ہیں جن میں گناہوں پر دنیا میں گرفت کا تذکرہ موجود ہے، پھر قوموں کی تباہی و ہلاکت کے جو واقعات ذکر کیے گئے ہیں ان میں بھی ان کی سرکشی وکفر ہی اس کی وجہ بتائی گئی ہے، فرعون کی تباہی کو بھی اس کی سرکشی وطغیان کا نتیجہ بتایا گیا۔یہاں تک کہ ان مصائب سے سبق نہ لینے اور ان واقعات کو دنیا کے عام حالات بتانے والوں کی مذمت بھی کی گئی ہے چنانچہ فرمایا گیا۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ.ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ .
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس طرح کے حالات مسلمانوں بلکہ اعلی درجہ کے اہل تقوی پر بھی آتے ہیں۔ طاعون عمواس سے اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں پچیس ہزار صحابہ کی شہادت مسلمانوں کی تاریخ کا بڑا ہولناک واقعہ ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تعداد آدھی دنیا فتح کرنے کے لیے کافی تھی، اور فتوحات کا سلسلہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ عین اس وقت یہ صورت حال پیش آئی۔
ایسی صورت میں کوئی غیر مسلم اگر یہ اعتراض کرے کہ اگر اسلام برحق ہوتا تو بالکل ابتدائی دور ہی میں یہ واقعہ نہ پیش آیا ہوتا تو اس کا جواب کیا ہوگا۔
لہذا مسلمانوں کے سخت حالات اور غیر مسلموں یا فاسقوں کی خوش حالی کیا ان کے نا حق اور برحق ہونے کا معیار ہوسکتی ہے، پھر اس طرح کے حوادث میں لوگوں کو یہ کہہ کر کس طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ تم پر یہ پیش آمدہ حالات تمہارے کفر یا فسق کی سزا ہیں۔ اس کے جواب میں اگر وہ یہ پوچھے کہ پھر دوسرے کفار کی خوش حالی اور بہت سے مسلمانوں کی بدحالی کی کیا توجیہ ہوگی۔ اور اس فیصلہ کا ایسا ظاہری معیار کیاہے کہ آپ پر آنے والی مصیبت تو آزمائش ہو اور ہم پر آنے والی مصیبت ہمارے کفر وفسق کا نتیجہ۔
یہ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسلمانوں کے معاشرہ کا عام معمول ہوگیا ہے کہ اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کو آزمائش اور دوسرے مسلمانوں پر آنے والے مصائب کو فورا ان کے گناہوں کی سزا قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں چند علماء کی رائے تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف انبیاء ہی کرسکتے ہیں کہ کون سی مصیبت عذاب ہے اور کون سی آزمائش۔
لیکن ان سے بھی کوئی کافر یہ پوچھ سکتا ہے کہ پھر خود انبیاء پر مصائب کیوں آتے ہیں۔
اس کے جواب میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ اور انذار وتبشیر کا نظام صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح معجزہ کا اظہار کسی کے اعتراض کو دفع کرنے کے لیے نہیں بلکہ عام دلوں کے اطمینان کے لیے ہوتا ہے، اسی لیے ہر معجزہ کی فرمائش پوری نہیں کی جاتی بلکہ معجزہ اہل ایمان کے اطمینان قلب کے لیے ظاہر ہوتا ہے، ورنہ جن کو ایمان نہیں لانا ہوتا وہ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے، انبیاء کی پوری تاریخ اس کی شاہد ہے۔
جن کو شرح صدر کی دولت عطا ہوتی ہے ان کو معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی ، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت النبی کی تیسری جلد میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہی حال دنیا کے مصائب کا بھی ہے۔
لہذا کسی کو مخلصانہ تنبیہ کے طور پر تو یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان مصائب سے عبرت حاصل کرو لیکن دشمنوں کی مشکلات پر خوش ہونا خود حضور حضور پاک علیہ السلام کی سنت کے خلاف ہے، اور طنزیہ لہجہ سے بھی بچنا چاہیے کہ ایسے الفاظ اس کو حق سے قریب کرنے کے بجائے دور کرتے ہیں، اور کبھی اس طرح کے حالات عالم کے کسی حصہ میں آئیں گے تو ان کو ہنسنے کا موقع فراہم کریں گے۔ نیز مسلمانوں کو آپس میں اپنے مصائب کو آزمائش اور دوسروں کی پریشانیوں کو سزا قرار دے کر خوش ہونے سے بھی بچنا چاہیے۔
سزا و آزمائش کے درمیان فیصلہ کا ایک معیار بعض صوفیہ کے یہاں یہ ہے کہ آزمائش کے بعد رجوع کی توفیق ہوتی ہے اور سزا کے بعد مزید عناد پیدا ہوجاتا ہے، لیکن یہ بھی شاید کوئی کلیہ نہیں ہے، کیوں کہ مومن بندوں پر اللہ تعالی کی بعض سزائیں بھی بطور شفقت ہوتی ہیں، اور اس کے گناہوں کا کفارہ، جس طرح ایک باپ اپنے بچے کو کسی غلطی پر مارتا ہے لیکن اس میں شفقت کی روح ہوتی ہے۔ اسی لیے اس طرح کے حالات کو بعض صوفیاء کرام نے لطمات الرحمۃ یعنی رحمت آمیز طمانچے سے تعبیر کیا ہے۔
کمنت کیجے